سب سوال اس خیال سے ٹالے
آدمی نام لے تو کس کا لے
جو تو ہم جانتے ہیں دل کا حال
لُٹ گئے اس کو لوٹنے والے
مسجدیں ہو گئیں حرم یا رب
شیخ خود کو خدا نہ منوا لے
بندگی جس نے کی خدائی کی
کوئی کیا دے جزا کوئی کیا لے
عقل معمول بھی نہیں سمجھی
عشق نے معجزے بھی کر ڈالے
ہم بھی حاضر ہیں دل بھی حاضر ہے
دن قیامت کا آپ ٹھہرا لے
اس کی پلکوں کا اٹھ کے گرنا تھا
ایک تالی سے کھل گئے تالے
درد ہے تو دوا بھی ہے راحیلؔ
چوٹ کھائی ہے زہر بھی کھا لے