کچھ عرصہ پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے، "اب عالمی ادب کے سوا کچھ متاثر نہیں کرتا۔ ہمارے لوگوں کے پاس کہنے کو پہلے بھی کچھ خاص نہ تھا۔ اب تو بالکل ہی الو بول رہے ہیں۔” میں نے ان کا منہ دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ اچھے خاصے سمجھدار آدمی ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کہہ رہے تھے اس کا مطلب نہیں سمجھ سکتے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ پراپیگنڈا بڑے بڑوں کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
عالمی ادب کا مطلب ہمارے ہاں یورپی اور امریکی ادب ہے۔ افریقہ کے ادیبوں کا ذکر آپ کبھی نہیں سنیں گے۔ چینی اور تھائی زبانوں کے شاہکار بھی گویا ہیں ہی نہیں۔ عربی کے چند ادیبوں کو نوبل انعام ملے ہیں تو وہ عالمی ادب میں شامل ہو گئے ہیں ورنہ ہمارے دانشور ان سے بھی واقف نہ ہوتے۔ یہ ہے عالمی ادب کا دائرۂ کار۔ اب ذرا اس اصطلاح کا مغالطہ دیکھنا چاہیے۔ مگر یہ معاملہ تھوڑا تفصیل طلب ہے۔ مجھے کچھ پس منظر بیان کرنے کی اجازت دیجیے۔
آج سے ٹھیک پانچ سو سال پہلے شیکسپئر اپنی نصف صدی پر محیط زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ اس کی ساری عمر برطانیہ میں گزری۔ اپنے عہد کے ایک مہذب آدمی کی حیثیت سے وہ نہ صرف اپنی معاشرتی، ثقافتی، ادبی، فکری اور مذہبی روایات سے واقف تھا بلکہ اس پر ان کا خاصا اثر بھی تھا۔ اس کے لکھے ہوئے ناٹکوں میں مسیحی روایات اور یورپی دیومالا کے حوالے کثرت سے ملتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے کھیل اس نے مقامی تواریخ اور لوک داستانوں سے مستعار لے کر لکھے ہیں۔ جو منظر اور کردار اس نے تشکیل دیے ہیں ان میں بھی اپنی روایات سے کامل وفاداری دکھائی ہے۔ سب سے بڑھ کر جو زبان اس نے استعمال کی ہے اس کا لطف کچھ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو انگریزی محاورے ہی نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کے بھی محرم ہوں۔ مثلاً ہیملٹ کے یہ الفاظ بہت مشہور ہیں۔
To be, or not to be, that is the question:
ہم دیسی لوگ ان کا ترجمہ کر کرا کے مفہوم تک تو گرتے پڑتے پہنچ جاتے ہیں مگر زبان کا جو لطف اس جملے سے ایک انگریز اٹھا سکتا ہے، وہ ہمارا نصیب نہیں۔ ہم زبان ضرورت سے سیکھیں گے، وہ از روئے فطرت اس کا مدعی ہے۔ پھر مغرب کی ایک طویل فکری تاریخ ان بلیغ الفاظ کے پس منظر میں موجود ہے۔ ہم آپ نہ اس تاریخ کے وارث ہیں، نہ اس سے ہمیں کوئی لگاؤ ہے اور نہ ہم اس سے شناسا ہیں۔ لہٰذا اس جملے کی جو معنویت ایک برطانوی کے نزدیک ہے وہ ہمارے ہاں تب تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک ہم خود دوبارہ برطانیہ میں پیدا نہ ہو جائیں۔
بعض دانش مندوں نے کہا ہے کہ ترجمہ محض ایک بازگشت ہوتا ہے۔ یہ بات صرف لسانی طور پر نہیں بلکہ ثقافتی سطح پر بھی غور کی متقاضی ہے۔ یعنی ترجمہ کرنے میں ایک مشکل تو دوسری زبان میں موزوں الفاظ و محاورات کی تلاش میں پیش آتی ہے اور اکثر ترجمہ بات کی بجائے فقط بات کی گونج بن کر رہ جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مصنف کے الفاظ کے پیچھے جو پورا ثقافتی، سماجی، تاریخی اور مذہبی تناظر ہوتا ہے اس کی ترجمانی نہیں ہو سکتی۔ اور یہ مسئلہ ایسا گمبھیر ہے کہ بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ اردو کے مترجمین تو فی زماننا شاید اس گمبھیرتا سے واقف ہی نہ ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی ہزاروں برس پر محیط تاریخ میں ایک بھی ترجمہ ایسا نہیں جس کی بابت دعویٰ کیا جا سکے کہ اس میں مصنف کا مدعا کامل وفاداری سے ناظرین تک منتقل کر دیا گیا ہے۔ پس دانش مندوں کی یہ بات نہایت گہری ہے اور پلے سے باندھ لینے کے لائق ہے کہ ترجمہ محض اصل کلام کی گونج ہے۔ اس لیے نہیں کہ ضرور مترجم نے کوئی کوتاہی کی۔ بلکہ اس لیے کہ اگر برصغیر کا کوئی باشندہ انگریزی سیکھ کر خود بھی شیکسپئر کا مطالعہ کرے تو تناظر سے نابلد ہونے کے باعث الفاظ کے معانی سمجھ لینے کے باوجود بات تک نہ پہنچ سکے گا اور صرف گونج پر گزارا کرنے پر مجبور ہو گا۔
ثابت ہوا کہ ادب دراصل دو قسم کے معانی رکھتا ہے۔ ایک تو لفظی معانی جو لغت، قاموس، مصطلحات،تاریخ، فلسفہ اور جغرافیہ وغیرہ سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ انھیں فکری معانی کہنا چاہیے کیونکہ یہ ذہن کی کوشش سے حاصل ہوتے ہیں اور ذہن ہی پر مرتسم ہوتے ہیں۔ دوسرے معانی ادب میں ثقافتی اور معاشرتی ہیں جن کا تعلق کسی قوم کی پوری زندگی اور طرزِ زندگی سے ہوتا ہے۔ یہ فکری کے مقابل جذباتی معانی ہیں۔ آپ پندرہ ہزار کتابوں کا مطالعہ کر کے بھی یورپی ادب کے جذباتی معانی سے اس درجہ واقف نہیں ہو سکتے جتنا ایک پندرہ برس کا یورپی لڑکا ان پڑھ ہونے کے باوجود ہو گا۔ وجہ یہی ہے کہ وہ اس قوم کی تاریخ، ثقافت، رسوم و رواج، موسم، جغرافیے، جمالیات، مذہب، فلسفے اور کردار کا وارث ہے۔ آپ وارث نہیں ہیں۔ کیٹس کی نظم میں ایک پھول کا ذکر زیادہ سے زیادہ آپ کو لغت دیکھنے پر مجبور کر دے گا۔ مگر اس کے لڑکے کے لیے وہ پھول محض وہ علم نہیں ہے جو آپ کو لغت یا جغرافیے کے حوالوں سے حاصل ہوا ہے۔ اس کے لیے وہ زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔ آپ نے نہ وہ مرغزار دیکھے نہ اس پھول کی خوشبو سونگھی۔ یا دیکھ بھی لیے تو ایک مسافر یا مہاجر کی طرح۔ آپ کے دل میں کیٹس کے لفظ وہ تڑپ کیونکر پیدا کریں گے جو اس لڑکے کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے؟ آپ تو چاہ کر بھی وہ سرور نہیں پا سکتے۔ بس اہلِ ذوق نظر آنے کے لیے دکھاوا کر سکتے ہیں۔ گردن مار مار کر ہائے ہائے کر سکتے ہیں۔ زانو پیٹ سکتے ہیں۔ زبان سے جھوٹ پر جھوٹ بول سکتے ہیں کہ کیا کہنے۔ کیا ہی کہنے، بھئی۔ یہ ہوتا ہے ادب!
ایلیٹ (T. S. Eliot) کی نظم ویسٹ لینڈ (The Waste Land) ہمارے دانشوروں میں خاصی مقبول ہے۔ جھوٹ موٹ کی تعریفیں کرتے ہیں۔ جھوٹ موٹ کی تنقید بگھارتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم نے مغرب کو جس جذباتی صدمے سے دوچار کیا تھا وہ اس کے ادب میں جا بجا نظر آتا ہے۔ ویسٹ لینڈ بھی اسی دکھ کا نوحہ ہے۔ اہلِ ہند کو ایسے کسی جذباتی بحران سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ اس کے باوجود یہ ویسٹ لینڈ یا ویٹنگ فار گوڈو (Waiting for Godot) سے لطف اٹھائیں تو ریا کاری کی انتہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی فرانسیسی پنجابیوں کا مہمان ہو اور کھٹی لسی پی کر اسے دنیا کی بہترین شراب قرار دے دے۔ میزبان یہ سمجھنے میں بالکل حق بجانب ہوں گے کہ یا تو خوش خلقی کا مظاہرہ کر رہا ہے یا عقل سے پیدل ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے زمانے کے قریب ہندوستان کو تقسیم کا دکھ سہنا پڑا۔ جن پر گزری انھیں نے سنائی اور جو گواہ تھے وہ تڑپ تڑپ کر روئے۔ یہ کرب برطانوی اور امریکی محسوس نہیں کر سکتے۔ شاید اس لیے منٹو ترجمہ ہونے کے باوجود انھیں اتنا عظیم محسوس نہیں ہوتا۔ یہ دکھ ہمارا دکھ ہے۔ یہ ادب بھی ہمارا ادب ہے۔ ہم اسے سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے تناظر، معنویت اور بلاغت کے محرم ہیں۔ اس کے جذباتی معانی کے وارث ہیں۔ یہ وارث ہمارے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ پندرہ ہزار کتابیں پڑھ کر بھی!
عورتوں کا پردہ چند صدیاں پہلے تک مغرب میں بھی رائج رہا ہے۔ مگر نقاب پر جو رنگ ایران اور ہندوستان میں چڑھا ہے وہ یورپ تو کیا خود عرب اور اسرائیل کے ادب میں بھی مفقود ہے جہاں سے پردے کی یہ روایات شروع ہوئی تھیں۔
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
(مرزا غالبؔ)
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
(داغؔ دہلوی)
خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
(بہادر شاہ ظفرؔ)
اللہ اللہ حسن کی یہ پردہ داری دیکھیے
بھید جس نے کھولنا چاہا وہ دیوانہ ہوا
(آرزوؔ لکھنوی)
رخ سے نقاب اٹھا کہ بڑی دیر ہو گئی
ماحول کو تلاوتِ قرآں کیے ہوئے
(نامعلوم)
پردہ ہمارے رومانوی اور صوفیانہ ادب کا جزوِ لاینفک ہے۔ اسے نکال دیں تو ہمارے تخیلات، جذبات اور احساسات کی دنیائیں یکلخت ویران ہو جائیں۔ مگر اہلِ مغرب اس لطافت کو کیا جانیں؟ ان کے ہاں تو شاید کل سرمایۂ سخن گنتی کی چند جگہوں پر نقاب و حجاب کا ذکر ہو گا۔ یہی حال شراب کا ہے۔ اگرچہ مسحیوں کا سوادِ اعظم اسے مسلمانوں کی طرح حرام نہیں جانتا مگر شراب کے ساتھ جو گل ہمارے شاعروں نے کھلائے ہیں وہ مغربی ادب کے گلدستوں میں ڈھوندے نہیں ملتے۔ پھر رقیب اور رشک کا تصور دیکھیے۔ یورپی لوگ اس سے ناآشنا تو نہیں مگر ان کی کتابوں پر کتابیں پڑھ جائیے، وہ حساسیت کہیں نہیں جھلکتی جو ہمارے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔
یہ ہمارا ورثہ ہے۔ ان روایات کا وارث ہمارے سوا کوئی نہیں اور ہم ان روایات کے سوا کسی اور روایت کے وارث نہیں۔ اب اگر ہم ان کی بجائے کسی اور سے ناتا جوڑنا چاہیں تو حق یہ ہے کہ یہ بےغیرتی کی انتہا ہے۔ دنیا میں بہت سے بچے یتیم ہوتے ہیں مگر ایسے کم ظرف کم ہوں گے جو کسی اور آدمی کو باپ بنانے کی کوشش کریں۔ ہمارا دانش ور طبقہ بدقسمتی سے اس وقت ایک ایسی ہی فکری لاولدیت کا شکار ہے۔ مانا کہ ہمارا معاشرہ اور تہذیب زوال آمادہ ہیں مگر دوسروں کی گود میں بیٹھنے کا جواز تو اس سے پیدا نہیں ہوتا۔ اور پھر زوال بھی ہو تو اس کی ذمہ داری ہمارے سوا کس پر ہے؟ اپنے لوگوں اور اپنی مٹی سے تعلق مضبوط کرنے کی بجائے غیروں سے رشتے گانٹھنا اور خود کو ان کا محرم ظاہر کرنا ایسی کمینگی اور سفلگی ہے کہ آدمی کو اپنے پرایوں سب کی نظر سے گرا دینے کے لیے کافی ہے۔
صاحبو، ادب گھر کا پتا نہیں کہ کسی کو بھی بتا دیا جائے اور اس کی سمجھ میں آ جائے۔ یہ فلسفے یا سائنس کی خصوصیت ہے۔ ادب گھر کی بات ہے۔ باپ کے تیور اور ماں کی جھولی کی طرح۔ بھائی کے سہارے اور بہن کے پیار کی مانند۔ بیوی کی قربانی اور بچوں کی مسکراہٹ کی مثل۔ معلوم تو غیر کو بھی ہو سکتا ہے کہ ہو جائے مگر محسوس ہرگز نہیں ہونے کا۔ اس لیے کہ ہر قوم کا گھر جدا ہے، گھر والے مختلف ہیں اور گھر کی بات الگ ہے۔ ہم دیسی لوگ انگریزی ادب کو جذباتی سطح پر سمجھنے سے قاصر ہیں اور انگریز ہمارے ادب کی چاشنی محسوس کرنے سے معذور۔ یہ رکاوٹ عین فطری ہے۔ ہاں، اگر دو قوموں کا مستقل اختلاط تاریخ کے کسی موڑ پر ہونے لگے تب البتہ ایک دوسرے سے متاثر ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ مثلاؔ فرنگیوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا اور قریب سو برس حکمران رہے تب ہمارے لوگوں سے ان کا ربط و ضبط حقیقی معنوں میں دیکھنے میں آیا۔ اس سے ہمارے ادب بھی لامحالہ اثرات مرتب ہوئے۔ ہمارے ہاں افسانے، ناول اور نظمِ معریٰ جیسی اصناف نے بار پایا اور داستان، مثنوی اور رباعی وغیرہ کا چلن ختم ہو گیا۔ یہ تغیر قدرتی اور فطری تھا کیونکہ دونوں قومیں ایک دوسری سے عملی طور پر متعامل تھیں۔
مگر تقسیم کے بعد جب یورپی لوگ بوریا بستر باندھ کر رخصت ہو گئے، ادب میں جتنے بھی اثرات مغرب سے آئے یا لائے گئے، سب کے سب قبولِ عام سے محروم رہے۔ رنگا رنگ تجربے ہمارے دانشوروں نے کیے اور آج تک کر رہے ہیں مگر بےنتیجہ اور مردود۔ اللہ معاف کرے، میں نے یہاں تک دیکھا کہ ملتان میں ایک کمرے میں بند نوجوان جس کے ہاتھ کچھ تراجم لگ گئے تھے، ایسے افسانے لکھ رہا ہے جو یورپ کے یخ بستہ برف زاروں میں لمبے لمبے اوور کوٹ پہنے کرداروں کی تخیلاتی تصویریں ہیں۔ نوجوان کو کبھی لنڈے کے سوا یورپ کی کوئی چیز دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ نام اس نے ترجموں سے اٹھا لیے۔ واقعات اور کہانی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اب ایسے لوگ لاکھ پڑھا لکھا کریں یہ سب ایک سعیِ نامبارک و نامشکور کے سوا کیا ہے؟ بات یہی ہے کہ یہ اثرات مصنوعی ہیں۔ محض غیروں کو پڑھ لینے اور خود کو دھوکا دے کر ان کی نقالی کرنے سے آپ معاشرے اور اجتماعی ضمیر کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ ہمارے لوگوں کی زندگیوں سے گورے عملی طور پر نکل چکے ہیں۔ جو بھی کچھ باقی ہے وہ محض غلامانہ مرعوبیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھونڈی اداکاری ہے۔ ہمارے جذبات و احساسات مغربی نہیں ہیں۔ ہمارا ادیب وہی ہے جو ہماری زبان بولے۔ ہمارے جذبات کی ترجمانی کرے۔ ہمارے لوگوں کے کردار پیش کرے۔ اگر ہم ایسا نہیں سمجھتے تو ہمارا دماغ خراب ہے۔ اگر ہمارا ادیب ایسا نہیں سمجھتا تو اس کا دل اور دماغ دونوں خراب ہیں۔
پس عالمی ادب کا تصور ایک دانش ورانہ تعمیم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ ہر قوم کا تناظر، تہذیب اور طرزِ احساس جدا ہے۔ اس لیے دنیا میں جتنی قومیں ہیں اتنے ادب ہیں۔ ان سب کو اکٹھا کرنا ایسا ہی ناممکن ہے جیسے ایک محلے کے سب گھروں کو ملا کر ایک گھر بنانا۔ یہ خیال تو بہتوں کے لیے خوش کن ہو سکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف خیال ہی ہے۔ ہر کسی کے معیارات اور پیمانے الگ الگ ہیں۔ مغرب کے لوگ فطرت کی تصویر کشی سے عموماً نہایت لطف اٹھاتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں موسمیاتی شدت نے حسنِ فطرت کی رونمائی کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑی ہے۔ ہمارے لوگوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے لہٰذا ہمارے ادیبوں نے محبوب کی چھپن چھپائی، رقیب کی روسیاہی اور شراب کی رنگینیوں پر پر دھیان دینا بہتر سمجھا۔ اب ہماری باتیں یورپیوں کو نامعقول معلوم ہوں گی۔ مگر یہی حال ہمارے لیے ان کی باتوں کا ہے۔ پھر عالمی ادب کے اس کے سوا کیا معانی رہ جاتے ہیں کہ
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا