گزشتہ دنوں قومی احتساب بیورو کے صدرنشین جناب جاوید اقبال کی کچھ نجی گفتگوئیں سامنے آئیں جن میں وہ ایک خاتون سے اظہارِ عشق کر رہے تھے۔ سماجی واسطوں اور ذرائعِ ابلاغ پر حسبِ دستور پٹس مچ گئی۔ بھانت بھانت کی مخلوقات ڈکراتی ہوئی خدا جانے کہاں کہاں سے نکل آئیں، زوالِ اقدار کے ماتم کیے گئے، اخلاق کی مرگِ مفاجات پر نوحے پڑھے گئے، عدلِ جہانگیری کو یاد کر کر کے دھاڑیں ماری گئیں اور ہم ہر فلک شگاف موشگافی پر دانتوں میں انگلی داب کر یہی سوچا کیے کہ
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
یہ تو ہمیں تب بھی یقین تھا اور اب بھی ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ ہماری مراد جاوید اقبال صاحب کے معاشقے سے نہیں بلکہ عوام کے واویلے سے ہے۔ ہم اپنے ذاتی تجربے، مشاہدے اور مطالعے کی بنیاد پر بقائمی ہوش و حواس اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہر عاشق اپنی محبوبہ کے ساتھ تعلق کی کسی نہ کسی سطح پر یونہی اظہارِ محبت کرتا ہے اور اگر نہ بھی کر پائے تو کم از کم کرنا ضرور چاہتا ہے۔ وہ تمام حضرات درحقیقت انتہائی درجے کے منافق، دوغلے اور جھوٹے ہیں جو جسٹس صاحب کی رنگیں بیانیوں پر تبرا کر کے بالواسطہ طور پر اپنی اخلاقی برتری کا سکہ بٹھانا چاہ رہے ہیں۔ یا پھر شاید وہ مرد ہی نہیں ہیں!
جسٹس صاحب کا شادی شدہ ہوتے ہوئے ایک غیر خاتون سے تعلق قانونی اور شرعی اعتبار سے قابلِ گرفت ہو سکتا ہے۔ خاتون کو اپنے عہدے کی بنیاد پر جن ناروا رعایات کی پیشکش کرتے ہوئے وہ سنے گئے ہیں ان پر پکڑ ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے۔ مگر ہماری دانست میں سب سے پہلی پرسش یہ ہونی چاہیے کہ خاتون نے یہ نجی گفتگوئیں عوام کے سامنے رکھ کر جس جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کی سزا کیا ہے۔ لیکن ٹھہریے، شاید یہ بات اس طرح بہت لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے۔ ہمیں اسے تھوڑا پیچھے جا کر دیکھنا پڑے گا۔
میں ایک انسان ہوں۔ آپ کی طرح۔ میں کھانا بھی کھاتا ہوں، بیت الخلا بھی جاتا ہوں، طہارت کے جملہ لوازمات سے بھی حسبِ توفیق نمٹتا ہوں، ننگا نہاتا بھی ہوں، کپڑے بھی بدلتا ہوں، جنسی اعضا بھی رکھتا ہوں، نفسانی خواہشات بھی رکھتا ہوں، ان کا حسبِ موقع اظہار بھی کرتا ہوں، انھیں پورا بھی کرتا ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ الغرض ایک بشر سے جو جو توقعات آپ رکھ سکتے ہیں وہ سبھی مجھ سے بھی وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اور میں بھی بعینہٖ یہی توقعات آپ سے رکھتا ہوں۔ اب فرض کیجیے کوئی شخص عین نہاتے یا کپڑے بدلتے یا رفعِ حاجت وغیرہ کرتے ہوئے آپ کی یا میری وڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر چڑھا دے تو اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟
کیا لوگ ہم پر ٹھٹھے نہیں لگائیں گے؟ کیا وہ اندھا دھند اس وڈیو کو ادھر ادھر شریک کر کے محظوظ نہیں ہوں گے؟ کیا وہ وڈیو ہمارے اور ہمارے اہلِ خانہ کے لیے شرمندگی اور رسوائی کا باعث نہیں بن جائے گی؟ لیکن کیا ہم سچ مچ اس کے سزاوار تھے؟ کیا ہم کوئی ایسا کام کر رہے تھے جو انسان نہیں کرتے؟ کیا ہم انسانیت کے درجے سے گر کر حیوانیت کی سطح پر آ گئے تھے؟ کیا وڈیو بنانے والے، اسے دیکھنے والے، اس پر ہنسنے والے ان بشری کوتاہیوں سے مبرا ہیں جن کے ہم مجرم ٹھہرا دیے گئے؟ کیا ایسی وڈیوز بنائی نہیں جاتیں؟ کیا آپ نے کبھی بالخصوص معصوم بچیوں، گھریلو عورتوں اور بےخبر لڑکیوں کی ایسی وڈیوز نہیں دیکھیں؟
بات یہ ہے کہ جھوٹے مذاہب اور مصنوعی اخلاقیات کی سب سے بڑی پہچان ایک ہی ہے۔ اور وہ یہ کہ ان میں انسان انسان نظر نہیں آتا۔ فرشتہ بنا دیا جاتا ہے۔ خدا کے برابر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ وہ وہ کہانیاں گھڑی جاتی ہیں، وہ وہ بیانیے اپنائے جاتے ہیں، وہ وہ تفسیریں اور روایتیں ذہن نشین کروائی جاتی ہیں کہ معاشرہ تخیلات کی افیون میں دھت ہو کر اپنے اردگرد کے جیتے جاگتے انسانی رشتوں اور علائق کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ افیونچیوں کی مژہ ہائے مخمور خود حقیقت کا پردہ بن جاتی ہیں۔ ادھر بند ہوئیں اور ادھر گویا ننگی سچائیوں نے تقدس کا برقع پہن لیا!
جسٹس جاوید اقبال کے معاملے میں طیبہ گل نے ہماری اسی نفسیات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ انھیں خیال تھا اور ٹھیک تھا کہ جسٹس صاحب کی نجی زندگی میں موجود عام انسانی اور بشری عناصر پر لوگ خواہ مخواہ اعتراض کریں گے۔ وہ لوگ جو خود بالکل جسٹس صاحب کی طرح کے انسان ہیں۔ ان کا یہ کھیل کافی حد تک کامیاب بھی رہا گو کہ مجھے نہایت خوشی ہے کہ حکومت، مقتدر حلقوں اور بعض بالغ نظر سیاسی رہنماؤں نے دانش مندی سے کام لیا اور اسے جسٹس صاحب کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اس سے لاتعلقی اختیار کر لی۔
ان مسائل کا سیدھا سیدھا حل اس تصور میں ہے جسے انگریزی میں privacy کہا جاتا ہے۔ میں اسے پاسِ ذاتیات کا نام دیتا ہوں۔ بات وہی ہے کہ میں انسان ہوں۔ میرے اندر وہ تمام کمزوریاں موجود ہیں اور ہو سکتی ہیں جو انسانیت کا خاصہ ہیں۔ ان کو خواہ مخواہ اور میرے علم اور اجازت کے بغیر عوام میں مشتہر کرنا جرم ہے۔ میری ذات سے متعلق وہ تمام چیزیں جنھیں آپ میرے علم یا اجازت کے بغیر جان لیں یا دوسروں تک پہنچا دیں آپ کو عدالت کے کٹہرے میں لا سکتی ہیں۔ ایک انصاف پسند معاشرہ کبھی فرد کو یہ اختیار نہیں دے سکتا کہ وہ دوسرے افراد کے بارے میں اس سے زیادہ معلومات حاصل کر لے جتنی وہ بخوشی دینا چاہتے ہوں۔
گزشتہ کچھ عرصے میں عالمی سطح پر پاسِ ذاتیات کے بارے میں وسیع پیمانے پر قانون سازیاں ہوئی ہیں۔ چونکہ انٹرنیٹ افراد کی ذاتی معلومات اور نجی معاملات سے کھیلنے کا ایک اہم آلۂِ جرم ثابت ہوا ہے اس لیے اکثر ریاستوں نے ویب گاہوں کو بھی مختلف قوانین کا پابند کیا ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ فیس بک نے پچھلے چند سالوں میں کئی بڑے مقدمات کا سامنا کیا ہے جن سے اس کی ساکھ کو خاصا دھچکا لگا ہے۔ وہ معاملات دراصل یہی تھے کہ فیس بک نے طیبہ گل کی طرح مختلف لوگوں کو اپنے صارفین کی بہت سی معلومات اور رویوں سے آگاہ کر کے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔
یہ آپ کا حق ہے کہ میں آپ کے بارے میں صرف اتنا کچھ جان سکوں جتنا آپ چاہتے ہیں۔ اور یہی حق میرا بھی ہے۔ انٹرنیٹ پر آپ ہر ویب گاہ کے Privacy Policy کے صفحے پر جا کر جان سکتے ہیں کہ وہ آپ کے بارے میں کیا جانتی ہے اور آپ ان معلومات پر کیا حقوق رکھتے ہیں۔ اردو گاہ پر بھی ضوابط کے صفحے پر پہلا حصہ پاسِ ذاتیات ہی سے متعلق ہے۔
رہا طیبہ گل اور جسٹس جاوید اقبال کا معاملہ تو ہم پھر سے یہ کہتے ہیں کہ جسٹس صاحب سے قانون کو ضرور نمٹنا چاہیے مگر طیبہ گل خود بھی سخت سزا کی حقدار ہیں۔ اگر انھیں جسٹس صاحب کے غیرقانونی رویوں اور اخلاقی حیثیت پر سوالات ہی اٹھانے تھے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا تھا اور تمام دستاویزی ثبوت عند الطلب پیش کیے جا سکتے تھے۔ لوگوں کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر ایک معزز سرکاری عہدے دار کو سرِ عام رسوا کرنے کی کوشش نہ صرف سخت سزا کے لائق ہے بلکہ اس واقعے سے سبق لے کر اس سلسلے میں مزید اور موزوں تر قانون سازی کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ انسان کا انسان ہونا اس کے لیے باعثِ شرم نہ ہو۔