انسان کیسی عظیم مخلوق ہے۔ کیسی نفیس، کیسی باوقار، کیسی ذہین، کیسی دردمند اور کیسی شائستہ۔ اگر میں جنگل کے جانوروں سے اس کا موازنہ کرنا چاہوں تو یہ خیال ہی شاید آپ کو اس کی توہین معلوم ہو گا۔ مگر معاف کیجیے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کا بچہ جنگل کے جانوروں سے بھی پست، بداطوار اور رذیل مخلوق ہے۔ اسے کھانے پینے، موتنے ہگنے، رونے پیٹنے اور چیخنے چلانے کے سوا کوئی کام نہیں۔ ایک چوزہ اس سے بہتر ہے کہ انڈے سے نکلتے ہی دانہ دنکا چگنے کے لائق ہو جاتا ہے۔ ایک بچھڑا اس پر فائق ہے کہ ماں کی کوکھ سے نکل کر کھڑا ہو سکتا ہے اور خود چل کے تھنوں تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک سنپولیا اس سے اچھا ہے کہ دشمن کو پہچانتا ہے اور ڈس لیتا ہے۔
انسان کا بچہ نہ صرف یہ کہ انسانیت سے کوسوں دور ہے بلکہ جہالت، وحشت اور کمینگی کی اس انتہا کو پہنچا ہوا ہے جس کو دشت و کوہ کے بہائم نہیں پہنچتے۔ لالچ اور حرص اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ خود غرضی اور طوطا چشمی میں یہ یگانہ ہے۔ بزدلی اور بے حوصلگی اس پر ختم ہے۔ بےعقلی اور بے شعوری چوپایوں سے بڑھ کر ہے۔ گرسنگی کا یہ عالم ہے کہ پیٹ بھر چکنے پر بھی ہاتھ آئی شے منہ میں ڈالنے سے نہیں چوکتا۔ انگارے کی طرف بھی دیوانوں کی طرح لپکتا ہے اور پیار کرنے والوں پر بھی جانوروں کی طرح چنگھاڑتا ہے۔ بے وقت روتا ہے اور بے موقع ہنسنے لگتا ہے۔ جہاں چاہتا ہے پیشاب کر دیتا ہے اور جہاں چاہتا ہے کھایا پیا اگل دیتا ہے۔ نہ بیٹھنے کا قاعدہ ہے نہ اٹھنے کی تمیز۔ نہ سونے کا وقت ہے نہ جاگنے کا۔ بے وفا ایسا ہے کہ جہاں کوئی شخص یا چیز من کو بھا گئی وہیں ماں باپ اور ان کی محبت بھری پکاروں سے بیگانہ ہو کر جھپٹ پڑا۔ وحشی ایسا کہ خود ماں باپ کی کسی بات سے بدک گیا تو حشر برپا کر دیا۔ کسی منطق، کسی اصول، کسی بات کا پابند نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اللہ ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت نہ ڈال دیتا تو یقیناً وہ جانور پال لینے کو بچے پیدا کرنے پر ترجیح دیتے۔
جانوروں کو باری تعالیٰ نے ایک خاص علم کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم جبلت کہتے ہیں۔ گرگ زادہ گھاس کو منہ نہیں مارتا اور میمنا پھاڑ کھانے کو نہیں دوڑتا۔ بطخ کا بچہ تیرنا جانتا ہے اور بندر کا بچہ کودنے پھلانگنے کے فن کا خود بخود عالم ہے۔ بلونگڑا کتے سے خوف کھاتا ہے مگر چوہا دیکھ کر شیر ہو جاتا ہے۔ انسان کا بچہ اس اعتبار سے جانوروں سے بھی گیا گزرا ہے کہ زندگی گزارنے کا مطلق شعور نہیں رکھتا۔ اسے نہ آگ سے پرہیز ہے نہ زہر سے۔ نہ اپنے کی پہچان ہے نہ پرائے کی۔ نہ اچھے کی خبر ہے نہ برے کی۔ آٹھ دس برس تک کی عمر تو محض کھانے پینے کی تمیز سیکھنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ اخلاق کے محاسن تو دور کی بات ہیں۔
مگر پھر یہی چوپایوں سے فروتر اور درندوں سے بدتر بچہ ہے کہ ایک وقت میں تہذیب اور آدمیت کی اس معراج کو پہنچ جاتا ہے جس کا تصور فرشتوں کے لیے محال ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اخلاقی، روحانی، مادی اور تہذیبی ترقیوں کے تمام لافانی نقوش اسی ناچیز کے دم قدم سے ثبت ہیں۔ گو جانوروں کا شعور اب بھی کہیں کہیں انسان کو حیران کر دیتا ہے مگر مجموعی حیثیت میں وہ اس کی گردِ پا کو بھی نہیں پہنچتے۔ ایک بے شعور کا یہ شعور، ایک بے بس کی یہ طاقت، ایک وحشی کی یہ تہذیب وہ معجزہ ہے جو روز ہمارے اردگرد واقع ہوتا ہے اور شاید اسی باعث ہمیں معجزہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔
انسان کے بچپنے کو دیکھا جائے تو اس سے امید لگانی فضول محسوس ہوتی ہے۔ بلوغت پر نگاہ کی جائے تو بچپنے کا یقین نہیں آتا۔ اس گومگو میں عقل فیصلہ دیتی ہے کہ ہو نہ ہو، تہذیب، شائستگی اور انسانیت کا لطیف مادہ اسی گوشت پوست کے حقیر لوتھڑے میں کہیں مضمر ہے جو انسان کا بچہ کہلاتا ہے۔ مگر مشاہدہ کہتا ہے اور ٹھیک کہتا ہے کہ تعلیم، تربیت اور تزکیہ کے بغیر بھی یہ حیوان حیوان ہی ہے۔ یہ خاندان کے افراد ہیں جو اسے انسانیت کی ابتدائی منازل انگلی پکڑ کے طے کراتے ہیں۔ پھر پاؤں پاؤں چلنے لگتا ہے تو معاشرہ تربیت کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ خود احتسابی اور تزکیۂ نفس کے کسی قدر قابل ہو جاتا ہے تو بالغ قرار پاتا ہے اور آزاد ہو جاتا ہے۔ اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسان مخلوق تو بےشک اعلیٰ درجے کی ہے مگر منشائے ایزدی یہ ہے کہ جانوروں سے بھی بدتر حال میں پیدا ہو۔ پھر اگر خود کو سنوار لے تو خلیفۃ اللہ فی الارض ہے اور جوں کی توں رہے تو ڈھور ڈنگر اس سے بہتر ہیں۔
روز مرہ انقلاب کی یہ انوکھی داستان دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی۔ تہذیب کے معیارات کا پتا بھی اسی سے لگتا ہے اور وحشت کے ٹھکانوں کا سراغ بھی اس سے مل جاتا ہے۔ تفصیل میں علوم کے دفتر بھی کھنگالے جا سکتے ہیں اور اجمال کو دو باتوں کی گرہ میں بھی باندھا جا سکتا ہے۔ مگر ہماری آپ کی باتوں میں وہ بات کہاں؟ کہنے والے نے پوری کہانی ایک لازوال بلاغت کے شاہکار میں لپیٹ کر رکھ دی ہے۔ آئیے، شاہ عبدالقادر دہلویؒ کی میٹھی زبان سے سنتے ہیں:
قسم انجیر کی اور زیتون کی۔ اور طورِ سینین کی۔ اور اس شہر امن والے کی۔ ہم نے بنایا آدمی خوب سے خوب اندازہ پر۔ پھر پھینک دیا اس کو نیچوں سے نیچے۔ مگر جو یقین لائے اور کیں بھلائیاں۔ سو ان کو نیگ (صلہ) ہے بے انتہا۔ پھر اس پیچھے تو کیوں جھٹلائے بدلہ ملنا؟ کیا نہیں ہے اللہ سب حاکموں سے بہتر حاکم؟