اردو شاعری کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے کے باوجود اس کا تعلق ہندوستانی تہذیب سے استوار نہ ہو سکا۔ گیت، دوہے، ماہیے، ٹپے اور ڈھولے جیسی اصناف میں مٹی کی جو مہک ہے وہ اردو شاعری میں نہیں ملتی۔ مگر دوسری جانب دیکھا جائے تو ایک بہت بڑی خوش قسمتی بھی ہے کہ اس کی نسبت فارسی کی عظیم روایت سے قائم ہوئی ہے۔ عوام البتہ اکثر بڑی چیزوں کی طرح اس کی قدر کماحقہً نہیں جانتے۔ آج ہم اس انوکھی روایت کا مختصر تعارف پیش کریں گے تاکہ اردو دان طبقہ اپنے ادب کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس سے لطف اٹھانے کے قابل ہو سکے۔
دنیا بھر کی شاعری میں معانی کی مختلف تہیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً شاعر اگر گلاب کی بات کرتا ہے تو اس کا ایک مطلب تو وہ پھول ہے جو اپنی مہک اور کانٹوں کے سبب مشہور ہے۔ دوسرا یہ ہو سکتا ہے کہ اس لفظ سے محبت، حسن، نزاکت، جذبہ، فطرت یا کچھ اور مراد لیا جائے۔ لیکن یہ دنیا بھر کی شاعری کی بات ہے۔ ہماری شاعری کی روایت میں یہ معاملہ بڑی دلچسپ صورت اختیار کر گیا ہے۔ ہمارا شاعر جب گلاب کی بات کرتا ہے تو اس کے معانی عام طور پر تین تہوں میں پائے جاتے ہیں۔ پہلی تہ لغوی معانی کہلاتی ہے اور اس میں گلاب سے مراد وہ خاص پھول ہے جسے گلاب کہتے ہیں۔ دوسری تہ مجازی معانی کی ہے اور یہاں عشقِ مجازی کے تناظر میں شاعر کا محبوب مراد ہے۔ تیسری تہ حقیقی معانی کی ہے اور اس میں گلاب کا مطلب محبوبِ حقیقی یعنی ذاتِ باری تعالیٰ سمجھا جاتا ہے۔ کسی شعر میں یہ تینوں معانی مقصود ہوتے ہیں، کسی میں دو پائے جاتے ہیں اور کسی میں صرف ایک۔
ہماری شاعری اور باقی دنیا کی شاعری میں بڑا فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں گلاب کے معانی تمام تہوں اور درجوں پر طے ہیں۔ کسی اور تہذیب کا شاعر ممکن ہے کہ گلاب سے مراد عاشق لے لے مگر ہمارا شاعر ایسا نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں گلاب کا مطلب یا گلاب ہے، یا دنیوی محبوب ہے یا محبوبِ حقیقی ہے۔ عاشق کا مفہوم ادا کرنا مقصود ہو گا تو اس کے لیے بلبل کا لفظ لایا جائے گا کیونکہ بلبل گلاب کی عاشق سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا ہماری شاعری میں بلبل سے مراد ایک خوش آواز پرندہ بھی ہو سکتا ہے، کوئی دنیا دار عاشق بھی اور وہ صوفی بھی جو عشقِ حقیقی میں مست ہے۔
پھر یہ استعارے گل و بلبل تک محدود بھی نہیں۔ شمع و پروانہ، ساقی و پیمانہ، دل و دماغ، عاشق و ناصح، شیخ و رند، دشت و دیوانہ، قاتل و مقتول، بیمار و مسیحا، الغرض رنگا رنگ افسانوں کی ایک لڑی ہے جس میں دنیا جہان کے احساسات و خیالات موتیوں کی طرح پرو دیے گئے ہیں۔ میں نہیں دیکھتا کہ دنیا بھر میں کوئی نکتہ فلسفے کے طوماروں اور شاعری کے زمزموں میں ایسا پیش کیا گیا ہو جو ہماری شاعری کی ان دلکش دیومالاؤں میں لپٹا ہوا نہ مل جائے۔ دیر صرف مجاز کے پردے ہٹا کر دیکھنے کی ہے۔
ہمارے ہاں بعض نادان اردو شاعری کو گل و بلبل کی حکایات قرار دے کر اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ میں کہیں لکھ چکا ہوں کہ حقیقی لطیفہ یہ نہیں کہ آپ کسی احمق پر ہنسیں بلکہ یہ ہے کہ کوئی احمق آپ پر ہنسے۔ اردو شاعری کی روایت پر انگلی اٹھانے والوں کا معاملہ یہی ہے۔ بیچارے گل و بلبل کو گل و بلبل کے الفاظ سے آگے سمجھ نہیں سکتے۔ لہٰذا اپنے باپ دادا کو بےوقوف سمجھتے ہیں۔
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہماری شاعری کے استعارات دراصل پورے پورے داستانوی نظاموں کے تابع ہیں۔ ہم فی الحال گل و بلبل ہی کی مثال کو کسی قدر کھولنے پر اکتفا کریں گے۔ سمجھا جاتا ہے کہ بلبل کو گل یا گلاب سے عشق ہوتا ہے۔ یعنی گلاب محبوب ہے اور بلبل عاشق۔ گلاب کی ٹہنی پر کانٹے ہوتے ہیں۔ یہ عام طور پر رقیبوں یا معاشرتی مشکلات کی علامت ہیں۔ گلاب باغ میں پایا جاتا ہے۔ باغ سے مراد دنیا، شہر، یا وطن کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بہار و خزاں وقفے وقفے سے باغ پر گزرتی رہتی ہیں۔ یہ زمانے کے تغیرات کا استعارہ ہیں۔ بلبل بہار میں چہکتی پھرتی ہے۔ اس لحاظ سے بہار عشق کی معراج ہے۔ صبا یوں تو ہوا کے معنیٰ میں ہے مگر گل اور بلبل کے درمیان نامہ بر کا کام کرتی ہے۔ پھر ایک کردار باغ میں گلچیں کا ہے جو پھول توڑ کر بازار میں بیچ آتا ہے۔ یہ ان کرداروں یا عوامل کو ظاہر کرتا ہے جو محبوب کی جانب سے عشق میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ایک اور شخصیت صیاد کی ہے۔ یہ بہار میں بلبلوں کا پیچھا کرتا ہے اور انھیں قید کر دیتا ہے یا ذبح کر ڈالتا ہے۔ صیاد گلچیں کے برعکس ان مصائب کا غماز ہے جن کا ذمہ دار براہِ راست محبوب کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ آشیانہ اس مضمون کا ایک اور پہلو ہے۔ بلبل باغ میں آشیانہ بنا کر رہتی ہے۔ کبھی صیاد پکڑ لیتا ہے، کبھی بارش تنکے بکھیر دیتی ہے، کبھی بجلی گر کر راکھ کر دیتی ہے۔ پس عاشق کو جو جو معاملات ذاتی، معاشرتی یا قدرتی طور پر پیش آ سکتے ہیں گل و بلبل کے افسانے میں ان سب کے بیان کا بنا بنایا، جما جمایا سانچا موجود ہے۔
یہی قصہ باقی سب مضامین کا ہے۔ میخانہ ایک الگ طرح حسن و عشق کے معاملات کو بیان کرنے کا ذریعہ ہے۔ شمع اور پروانے کی کہانی ایک اور عالم پیش کرتی ہے۔ قاتل و مقتول کا جہان جدا ہے۔ بقولِ انیسؔ:
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ استعاراتی نظام گویا کسی بھی خیال، جذبے یا حقیقت کو شاعری میں ڈھال لینے کے لیے تیار شدہ سانچے ہیں۔ انھیں بعض اوقات مذہبی متون سے مستعار لیا گیا ہے جیسے یوسف و زلیخا اور موسی و طور۔ بعض اوقات رومانوی داستانیں ان کے پس منظر میں ہیں جیسے لیلیٰ و مجنوں، شیریں فرہاد وغیرہ۔ اور بعض اوقات گل و بلبل اور شمع و پروانہ کی طرح معاشرتی و ثقافتی روایات انھیں بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ ان کے علاوہ شیخ اور رند اور ساقی اور میخانے جیسے مضامین بالکل حقیقی اور واقعی بھی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ دنیا بھر کی شاعری اور بالخصوص مغربی شاعری کا دامن اس لطافت سے بالکل تہی ہے۔ البتہ ایک دلچسپ اتفاق یہ ہوا ہے کہ ان کے شعرا کی بجائے علما اور فلاسفہ نے بعض اوقات مختلف حکایات کو بنیاد بنا کر زندگی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور بعض مسیحی مفسرین داستانِ یوسف میں مصر کی سلطنت کو دنیوی زندگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ سگمنڈ فرائیڈ نے یونانی دیومالا سے ایڈیپس اور الیکٹرا کے کردار مستعار لے کر اس پیرائے میں مرد و زن کی بعض جنسی الجھنیں دکھائی ہیں۔ اسی طرح نطشے نے المیہ کا فلسفہ سمجھنے کے لیے دو یونانی دیوتاؤں اپالو اور ڈائیونائسس کا سہارا لیا اور پورا نظریہ انھی طاقتوں کے استعارے میں بیان کر دیا ہے۔ اس قسم کی تعبیرات میں استعارات کے معانی طے ہو جاتے ہیں اور ان کے خلاف سمجھنا نادانی قرار پاتا ہے۔ ہماری شاعری عین اسی اصول پر کاربند ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اہلِ مغرب نے جس قاعدے سے اپنے بعض سنجیدہ ترین علوم میں کام لیا ہے وہ ہماری روایت میں شعرا کا شعار رہا ہے۔
جدید اردو شاعری نے مغربی اور بالخصوص انگریزی ادب کے زیرِ اثر اپنی اس روایت سے روگردانی کی ہے۔ اب ہمارے شعرا بھی عجیب و غریب علامتیں، استعارے اور تشبیہیں گھڑنے میں دن رات مصروف رہا کرتے ہیں۔ کہیں کمبل سے مراد ریچھ لیا جاتا ہے تو کہیں گاڑی کا معنیٰ آدمی ہے۔ ٹانگ کا مطلب عورت ہے اور عورت کا مطلب مٹکا۔ پروانہ خلائی جہاز کو ظاہر کر رہا ہے اور کھڑکی آتش فشاں کا استعارہ ہے۔ غرض ایک چوں چوں کا مربا ہے جو شریف آدمیوں کی سمجھ میں تو آنے کا نہیں۔ ناقدین البتہ اسے سمجھنے کا دعویٰ اور سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ن م راشدؔ کی نظم ابو لہب کی شادی پر ہونے والا ایک حالیہ مباحثہ ہے۔ بعض علما کی رائے تھی کہ نظم میں ابو لہب سے مراد خود راشدؔ ہیں۔ بعض کا خیال تھا کہ نہیں، ابو لہب ابو لہب ہی ہے۔ کچھ اور کو یقین تھا کہ ابو لہب کوئی بھی نہیں۔ محض ایک افسانہ ہے۔ چوں چوں کا مربا۔ اس تناظر میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ مغرب کا اثر ہمارے لیے کیسا گھاٹے کا سودا ہے۔
چھوڑیے، اپنی شاندار روایت کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ ہمیں امید ہے کہ اب آپ نہ صرف انھیں آسانی سے سمجھ سکیں گے بلکہ بلاغت کا وہ لطف بھی اٹھائیں گے جو ہماری شاعری کی جان ہے۔
چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنامرزا مظہرؔ جان جاناں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوںعلامہ اقبالؔ
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میںبہادر شاہ ظفرؔ
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیےامیرؔ مینائی
دستِ صیاد بھی عاجز ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہےفیض احمد فیضؔ
بلبل کے ہوش نکہتِ گل کی طرح اڑا
گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چلبہادر شاہ ظفرؔ
وہ نغمہ بلبلِ رنگیں نوا اک بار ہو جائے
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائےاصغرؔ گونڈوی
چمن پہ غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہےفیض احمد فیضؔ
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہومرزا غالبؔ
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہےفیض احمد فیضؔ
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہےقمرؔ جلالوی
آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گےرازؔ الٰہ آبادی