پرانی کتابیں پڑھتا ہوں تو تعجب ہوتا ہے کہ بزرگوں کی فکر میں کیسی پختگی، اسلوب میں کیسی زندگی اور بیان میں کیسی دلکشی پائی جاتی تھی۔ خود سے سوال کرتا ہوں کہ آج کل اس طرح کیوں نہیں لکھا جاتا؟
میں اس مسئلے پر ایک مدت سے غور کرتا چلا آ رہا ہوں اور اس کا ایک ہی جواب مجھے سوجھا ہے۔ یعنی یہ کہ رطب و یابس ہر زمانے میں ہوتا ہے۔ اچھے برے لوگ، ادیب، عالم اور فنکار ہر دور اور ہر خطے میں پائے جاتے ہیں۔ ہوتا بس یوں ہے کہ زمان و مکان کی چھلنی میں کنکر پتھر اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ گزر نہیں پاتے۔ چھن کر الگ ہو جاتے ہیں۔ پچھلے زمانوں اور دور دراز تہذیبوں سے ہم تک صرف اور صرف وہی کچھ پہنچتا ہے جو پہنچنے کے لائق ہوتا ہے۔ یعنی عمدہ ترین!
گویا واقعہ یہ ہے کہ پہلے لوگوں میں بھی اچھا برا ہر طرح کا لکھنے والے لوگ رہے ہیں۔ پرانی کتب کے ذخیرے کھنگال کر دیکھے جائیں تو ثبوت بھی میسر آ جائے گا۔ مگرپھر ہوا یوں کہ وقت کے منصف نے اس دفتر سے ردی خود ہی پھٹک کر پھینک دی اور ماضی کی محض وہ کتب قبولِ عام کی وساطت سے ہمارے حوالے کیں جو اپنے زمانے کا بہترین اور چنیدہ ادب ہیں۔ جس میں باقی رہنے کی سچی اور واقعی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اب جب ہم اسے پڑھتے ہیں اور اپنے اردگرد نگاہ دوڑاتے ہیں تو معاً وہم ہوتا ہے کہ اتنا اچھا آج کل تو نہیں لکھا جاتا۔ حالانکہ ماضی کا ادب چھانٹا ہوا ہے اور حال کا ابھی فیصلہ ہی نہیں ہوا۔ اس طومار میں رطب و یابس سبھی موجود ہے۔
ایک وقت آئے گا جب حال ماضی ہو جائے گا۔ تب لوگ ہمارے عہد کے بچ جانے والے، چھانٹے ہوئے ادب پر نظر ڈالیں گے اور تعجب کریں گے کہ اتنا اچھا ادب ان کے زمانے میں تو تخلیق نہیں ہوتا۔ حالانکہ ان میں بھی لوگ ہوں گے جن کا کام ان سے اگلے زمانوں تک پہنچنے والا ہو گا۔ مگر وہ شاید انھیں جانتے نہ ہوں گے۔ یہی زمانے کا دستور ہے۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے عہد میں بہت اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ مگر اپنے زمانے کے ادب کوزیادہ پڑھنے کے حق میں بہرحال میں نہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ماضی کے ادب کی نسبت وقت فیصلہ صادر کر چکا ہے کہ اس میں سے کیا فانی ہے اور کیا لافانی۔ حال کی تخلیقات پر حکم لگنا ابھی باقی ہے۔ کیا عجب کہ جن چیزوں کو ہم ادبِ عالیہ سمجھتے ہیں وہ وقت کی دھول میں گم ہو جائیں اور جنھیں ناچیز گردانتے ہیں وہ صیقل ہو کر اگلی صدیوں اور ہزاریوں تک تہذیبوں کو منور کرتی رہیں۔
پس جب ہمیں ماضی کی جھلکیاں غیر معمولی طور پر دلکش معلوم ہوں تو یہ نہیں چاہیے کہ ہم حال سے بدظن ہو جائیں۔ کیونکہ نہیں معلوم کہ حال کا کون سا اثاثہ وقت کی کسوٹی پر پورا اتر کر مستقبل میں فروغ پا جائے گا۔ اور جب حال کی تخلیقات ہمیں حد سے زیادہ شاندار محسوس ہوں تو بھی شک کرنا چاہیے کیونکہ ماضی کے بہت سے شاہکار اپنی تمہیدوں، تقریظوں اور تعریفوں سمیت فراموشی کے پاتال میں دفن ہو گئے ہیں۔