پہلا باب
میاں نے ایک دوست کو پانچ روپیہ قرض دے دیے ہیں۔
بیوی کا نصیحت نامہ مع اصول کفایت شعاری و خانہ داری
خاک باشی خوک باشی یا سگ مردار باش
ہر چہ باشی باش عرفی اندکے زردار باش
دے آئے نا؟ ہزار منع کیا آخر نہ مانا، یہ میں کہتی ہوں تم کہاں کے روپیہ والے ہو جو روپیہ بانٹتے پھرتے ہو۔ انھیں پانچ روپیوں سے نہ معلوم کیا کیا کام نکلتے اور اگر ابھی تم مانگنے جاؤ تو کوئی کوڑی بھی نہ دے۔ عورت کی مٹی خراب ہے تمھارے گھر میں مَیں تو کیا کیا جتن کرکے خرچ کم کرتی ہوں اور تم قرض دیتے پھرتے ہو۔ روپیہ پیسے والی عقل تم کو کبھی نہ آئے گی۔ تمھارے گھر میں اسی طرح کی پھٹکار ہمیشہ برسا کرے گی۔ آج تین مہینہ سے ایک گرنٹ کے پائجامے کو کہہ رہی ہوں مگر تم نہیں سنتے۔ وہ تو قرض دینے سے جب بچے نا۔ بی بی کا پائجامہ نہ بنے، موئی چیتھڑے لگائے پھرے، مگر تم قرضے بانٹتے پھرو۔ دنیا کہتی ہے کہ بی بی کے کہے میں ہیں، کیوں نہیں؟ اگر دنیا یہ حال جانتی تو کاہے کو کہتی۔ تمام زمانہ تو مجھے تھوکتا ہے کہ اتنے بڑے گھر کی بی بی اور ایک پائجامہ سے دوسرا نصیب نہیں۔ جہاں دیکھو اسی کو لادے ہیں۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ بچے تک بھوکوں مریں مگر میاں قرض بانٹتے پھریں گے ضرور۔ لڑکیوں کی اوڑھنیاں روئی روئی ہو گئیں مگر تمھارے یہاں ابھی چھ مہینے پورے نہیں ہوئے، میں کہتی ہوں قرضہ بانٹنے کے چھ مہینے ہوگئے؟ اور کپڑے بنانے کے چھ مہینے کبھی ختم ہونے کو نہ آئیں گے۔ مجھے کیا؟ آپ ہی تم کو لوگ ہنسیں گے کہ باوا قرضہ دیتے پھرتے ہیں اور لڑکیوں کے سر پر اوڑھنی کا تار بھی نہیں۔ ٹیکس والا صبح کو پکار گیا ہے، اب دیکھیں کہاں سے آتا ہے روپیہ، وہی گھر وارہ دے جائیں گے جن کو روپیہ قرض دیا ہوگا۔ آج دو دن سے کھڑکی کا پٹ نکل گیا ہے، بڑھئی کو بلانے والی تھی مگر اب بلواؤں کیا خاک؟ مزدوری کہاں سے آئے گی؟ مزدوری تو قرضہ میں گئی، اب کھڑکی یوں ہی رہے گی؟ یہ تو ٹھنڈک اور یہ ہوا، اتنا سا بچہ گود میں اور اس قہر کی ہوا چل رہی ہے، اللہ حافظ ہے بچے کی جان کا۔ زکام اس کو ایک ہی دن کی ہوا میں ہوگیا ہے، اب پسلی بھی ہوجائے گی تب حکیم ڈاکٹر کرتے پھروگے، مگر ابھی کھڑکی کی فکر نہیں لیتے۔ اگر بچے پر آنچ آگئی تو تمھیں پر خون ہوگا، میں کہے دیتی ہوں۔ منگل منگل آٹھ، بدھ نو، جمعرات دس، دسویں دن چوکیدار کا مہینہ پورا ہوگا اور اگر اس نے تنخواہ اسی دن نہ پائی چلا جائے گا۔ پھر میاں کو قرض دینے کا حال معلوم ہوگا کہ ایسا ہوتا ہے قرض بانٹنا۔ اور چوریاں آج کل اتنی ہوتی ہیں کہ کچھ انتہا نہیں۔ جب چوکیدار چلا جائے گا تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ چور آئے گا، جس دن موس لے جائے گا اس دن قدر و عافیت کھل جائے گی۔ جب گھر کی جمع پونجی سیند کے راستہ نکل جائے تب قرض بانٹنا، ابھی نہیں۔ منجھلی لڑکی کا یہ حال ہے کہ آئے دن بیمار رہتی ہے، کب سے جی چاہتا ہے کہ کچھوچھے لے جاؤں مگر کیسے لے جاؤں؟ آپ کو تو قرض سے نہیں چھٹی، کچھوچھے کیسے لے جاؤں۔ چاہے لڑکی مرے چاہے جیے ان کو روپیہ پھینکنے سے مطلب۔ گھر بھر میں ایک پلنگ کی الداون ٹھیک نہیں، جس پلنگ پر لیٹو قبر کا مزہ آتا ہے، کھانا الگ ہضم نہیں ہوتا، گھر بھر کا پیٹ بگڑ گیا ہے، اگر رسی مول آجاتی تو کاہے کو یہ ہوتا؟ مگر تم کو اس سے کیا واسطہ؟ میں چاہے مروں چاہے جیوں، بچے چاہے چارپائی پر رہیں چاہے بھاڑ میں جائیں، تم کو روپیہ پھینکنا۔ گھر میں بل اتنے ہوگئے ہیں اور چوہے اس قدر ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ کب سے کہتی ہوں کہ ایک مزدور لگا کر بند کروادو؟ مگر نہیں سنتے۔
“اچھا تو چوہے دان لگا دو”
چوہےدان لگا دو؟ چوہےدان کہاں سے آوے جو لگاؤں؟ جب قرض بانٹنے سے فرصت ملے تب تو چوہے دان آوے۔ یہ آواز کہاں سے آئی؟ اے لو چور ابھی سے آنے لگے۔
چور وور کوئی نہیں ہیں، بلی دروازہ کھٹ کھٹا رہی ہے، تم کو ناحق کی وحشت ہے۔
مجھ کو ناحق کی وحشت ہے! زنجیر آج برسہا برس سے ویسی ہی ڈھیلی ہے، روز چلاتی ہوں کہ کنڈی بدلواؤ مگر کون سنتا ہے؟ جس کا جی چاہے ہاتھ ڈال کے کھول لے اور گھس آوے۔ مگر تمھارے تو خیال ہی میں نہیں آتی بات۔ اگر قرض کی جگہ تم گھرواہے کی خبر لیتے رہتے تو میں کاہے کو روتی؟
قصہ مختصر حضرات! انھیں پانچ روپیوں کے بغیر ریشمی پائجامہ نہ بنا، لڑکیوں کے کپڑے پڑے رہ گئے، گھروارہ الگ ادا نہ ہو سکا، کھڑکی میں کنواڑ نہ لگ سکا، بچے کو پسلی کا عارضہ ہوتے ہوتے رہ گیا، چوکیدار چھوٹا، لڑکی بیمار ہوئی، پلنگ غارت ہوئے، چوہوں نے گھر کھود ڈالا، چور گھس آئے۔ غرض کہاں تک عرض کروں؟ شوہر بزبان حال شعر:
حال من از دست خاتون ابتر است
در گلویم سنت پیغمبر است
پڑھتے ہوئے سو گئے۔
دوسرا باب
ہمارے ہیرو کی اہلیہ کو حقے سے نفرت ہے، شوہر صاحب نے صحبت بد میں بیٹھ کر یہ خراب عادت سیکھ لی ہے، ہیروئن صاحبہ کی شکوہ و شکایت ہدیۂ ناظرین ہیں۔
دم([1]) بدم لیتا ہے بوسے یہ لب جانان کے
ہم سے دیکھا نہیں جاتا یہ ستم حقے کا
بھلا اگر عورتوں کو کچھ بھی اندازہ اس تکلیف کا ہو تو کون ایسی ہوگی جو نکاح کے وقت ہوں کرے گی؟ ہم تو دن رات مرتے کھپتے ہیں اور یہ ہیں کہ ان کو سیر تماشے سے فرصت نہیں، صبح ہوئی اور روانہ باشد، دن بھر غائب، آدھی رات تک پتہ نہیں، صاحب کام کیا کیے؟ سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملی، ارے میں جانتی ہوں جیسا کام کیا کرتے ہو، دن بھر یار دوستوں میں دنیا بھر کے قصے ہوا کرتے ہیں، گانے بجانے میں بھی مصروف رہتے ہوں گے۔ اورپھر رات کو آئے تو ایسی سڑی تمباکو کی بو منہ سے آتی ہے کہ قے ہوجائے۔
“اے لو مجھ کو گاتے کب سنا؟ حقہ البتہ پیتا ہوں”۔
حقہ پیتے ہو کہ اللہ جانے کیا بلا پیتے ہو؟ میں کہتی ہوں کہ تم گانجا بھی پیتے ہوگے۔ اور گانے کو کیا، میں نے نہیں سنا تو کیا ہوتا ہے؟ میں جانتی تو ہوں کہ تم یار دوستوں میں بیٹھ کر خوب گاتے ہوگے؟ اور آج کل تو یار دوستوں کا روگ کچھ اور زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ سنو! میں ایک بات کہتی ہوں، مجھ سے نہ ہو سکے گا کہ آدھی آدھی رات تک تمھارے لیے دروازہ کھولے مسٹ مارے پڑی رہوں۔
“اچھا تم سو رہا کرو”۔ میں سو رہا کروں؟ جس میں تم کو اور اطمینان ہو جائے، پھر صبح ہی ہوتے آیا کرو۔ ارے میں تمھارے ہتھکنڈے خوب جانتی ہوں، میری عادت بولنے کی نہیں، مگر جب ناک سے پانی اوپر ہو جاتا ہے تو بولنا ہی پڑتا ہے۔
“اچھا تو ہم سویرے کام ختم کر دیا کریں گے، اب سویرے آیا کریں گے، لو سو رہو”۔
سو رہیں! لو صاحب بارہ بجے رات تک خود ہی بٹھال رکھتے ہیں، پہرا پھرتا ہے، جی کانپا جاتا ہے، تب کہیں آپ آتے ہیں اور پھر مجھی سے کہتے ہیں سو رہو۔ یہ تو بتاؤ کہ روز خدائی رات اگر اسی طرح ہوئی تو میں جیوں گی کاہے کو؟ ارے کیسی سخت بو، منہ میری طرف نہ کرنا۔ بھلا میں اتنا کہتی ہوں کہ یہ سُلفہ پینے سے سوائے میرے ہلکان کرنے کے تمھارا اور کیا مطلب ہے؟ یہ سب بس اسی موئے کا بویا ہوا ہے جس کو تم بڑا دوست سمجھے ہوئے ہو، کیا نام ہے؟
“محمد حسین”
ہاں ہاں محمد حسین، اللہ سمجھے محمد حسین سے جو دوسروں کو اس طرح خراب کرتا ہے۔ یہی تو اس کی بیوی آٹھ آٹھ آنسو رویا کرتی ہے کہ میرا لکھا پھوٹ گیا۔ کوئی بھی دن ایسا ہوتا ہوگا کہ تین پہر بجے کے پہلے وہ گھر آتا ہو؟ اور پھر آتے ہی دروازے ہی سے غصہ اور مزاج دکھاتا ہے، جس میں بی بی ڈر جائے۔ میں کہے دیتی ہوں کہ جس دن تم تین پہر بجے گھر آئے، نہ میکے چلی جاؤں تو نام بدل ڈالنا۔ اور یہ غصہ اور مزاج مجھ سے نہ اٹھایا جائے گا۔
یہ دیکھو لوگو، کیا غضب ہے؟ میں ہی ہوا سے لڑتی ہوں۔ اے جب اسی موئے سے ایسے ہی پینگ بڑھے ہوئے ہیں تو خدا ہی نے کہا ہے کہ وہی ہتھکنڈے سیکھو گے، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ مگر میں کہے دیتی ہوں کہ جس دن تم نے آنکھیں دکھائیں اپنی اور تمھاری جان ایک کردوں گی، بس کہہ دیا ہے۔ جتنے یار دوست تمھارے ہیں سب اپنی بیویوں کو چھوڑے بیٹھے ہیں، تم بھی چھوڑ دو۔ تم کو قسم ہے جو نہ چھوڑو، اور چھوڑو ہی گے یہ تو پہلے ہی سے معلوم ہے۔
“اچھا پیاری اب سو رہو، نہیں تو سر میں درد ہونے لگے گا”۔
اے لو پھر وہی، میں سونے کو منع کرتی ہوں؟ سو رہو اور درد کو کیا؟ جب روز کا یہی حال ہے تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ درد ہوگا، ابھی کیا ہے؟ صبح جب اٹھوگے تو اور درد ہوگا۔ یہ سزا ہے رات بھر ہڑدنگا مچانے کی۔ اور پھرغضب تو یہ ہے کہ مجھی کمبخت کو سر دبانا پڑے گا۔ نا بابا، یہ روز کی تیمارداری کس سے ہوگی؟ اب دس بجے دن تک پلنگ پر پڑے رہنا۔
“نہیں سویرے اٹھوں گا، چائے وائے ذرا جلدی تیار ہو جائے گی تو سویرے ہی پی کے دفتر چلا جاؤں گا”۔
اس دھوکے میں نہ رہنا، میں قسم کھاتی ہوں کہ یہ مجھ سے نہ ہوگا کہ میں رات بھر تو یہ رونا روؤں اور کوا بری چیز نہ کھا چکے کہ تمھارا چائے پانی کروں۔ جو ایسا ہی ہے تو دوسرا بیاہ کر لو، مجھ سے یہ نہ ہوگا میں کہے دیتی ہوں۔ اے پھر وہی سلفے کی بو آئی۔ افوہ! جو یہ جانتی کہ تم مجھ کو یوں سلفے کی بو سے گھونٹ گھونٹ کر ماروگے تو میں اپنے باپ ہی کے گھر سے کاہے کو آتی۔ کیا مجھے پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ اس جنجال میں پھنستی؟ مگر تقدیر کا لکھا، میں تو کب کی ڈوب مری ہوتی، مگر کیا کروں بچوں کا خیال ہے، پتھر کے نیچے ہاتھ دبا ہے، نہیں تو بتلاتی۔ پھر معلوم ہوتا میاں کو کہ ایسا ہوتا ہے کسی کمبخت کی تقدیر کا پھوڑنا۔ اور اب تو یہ آئے دن کی بات ہے، روز ہی غائب رہوگے۔ اے اب تو شروع ہوا ہے، ابھی تو حقہ ہی سیکھا ہے، ارے آگے چل کر شراب نہ پیو تو میں ناک ہارتی ہوں۔ اور خالی یہی تھوڑی، سڑک پہ لپّا ڈگی بھی کروگے، موئے نشہ میں کچھ سوجھتا ہے؟ پھر اور بھی فضیحتا لکھا ہے۔ پہرے والا پکڑے گا، مقدمہ ہوگا، تم قید خانے میں چکی پیسوگے۔ میں گھٹ گھٹ کر گھر میں مروں گی، ابھی کیا جانے کیا بَدا ہے؟ میری تو نگاہ کے آگے ہے جو جو پاپڑ تمھارے ہاتھوں مجھ نگوڑی کو بیلنے ہیں۔ اور پھر تم کو کیا؟ تم نے تو پہلے ہی سے دھو کر پی لی ہے۔ چار آدمیوں کے سامنے میری نگاہ نیچی ہوگی اور جتنے تمھارے پاس اٹھتے بیٹھتے ہیں سب لنگوٹی میں پھاگ کھیلنے والے ہیں، نہ کوئی کام نہ کاج، موئے خدائی خوار۔ تم بھی ایسے ہی نہ ہوجاؤ تو الٹی جوتی سے میری ناک کاٹ ڈالنا، یہ ذرا سی موئی نوکری ہے وہ بھی ہاتھ سے کھو لوگے تب کہیں کل پڑے گی۔ محمد حسین موئے کے کرتوت اللہ نہ کرے کسی میں ہو، اور وہ آپ کے بڑے دوست بڑے لنگوٹیے یار ہیں، اللہ سمجھے موئے سے جو بنا بنایا گھر بگاڑنے پر لگا ہے۔
ہر نصیحت کے بعد میاں کچھ نہ کچھ عذر گناہ کرتے ہیں، مگر اس سبق کے بعد آپ نے کچھ نہیں فرمایا جس سے خیال ہوتا ہے کہ دراصل دل میں نادم ہے۔
تیسرا باب
شوہر صاحب نے ایک کلب میں شرکت کی ہے، بیوی ہزاروں دلیلوں سے اس کے نقائص ثابت کرتی ہیں اور زبان شکوہ کھولتی ہیں۔
زاہد از کوچۂ رنداں بہ سلامت بگذر
تا خرابت نہ کند صحبت بدنامی چند
میری تو دعا ہے کہ جس کمبخت کی میری طرح پھوٹنے والی ہو وہ عین تخت کی رات کو مر جائے تو لاکھ درجہ اچھا ہے۔ یا تو میاں طریقہ کا ملے اور نہیں تو ارمان اسی طرح گور میں لیے چلی جائے۔
“پیاری! آج بہت تھکا ہوا ہوں۔ تم بھی سو رہو”
سو رہوں! سو کیسے رہوں؟ تمھارے کرتوتوں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے، نیند تو مجھ سے کوسوں بھاگتی ہے اور میں تم کو خراٹے تھوڑے ہی لینے دوں گی، جیسا تم نے مجھ کو جلایا ہے، ویسی ہی میں بھی تم کو ادبدا کے جلاؤں گی۔ عورت موئی ایسی بے بس چیز اللہ نے بنائی، نہیں تو بتا دیتی کہ ایسا ہوتا ہے مجھے ہلکان کرنا۔ ہاں تو یہ کلب کون چیز ہے؟
“کلب پیاری! ایک جلسہ ہے جس میں۔۔۔۔۔۔۔۔”
بس رہنے دو، سب جانتی ہوں، لے بھلا یہ روز کے جلسے تو بادشاہ بھی نہیں دیکھ سکتا، تم کہاں کے کڑوڑ پتی آئے جو روز موئی رنڈی نچاؤگے اور جلسہ دیکھا کروگے۔ یہ تم کو کیا ہوگیا ہے؟ میں کہتی ہوں تم اپنے ہوش میں ہو؟ یہ کہیے تو جب ہی بارہ بجے تک غائب رہنے لگے تھے، تب ہی میں سمجھ گئی تھی کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ لو کھلا نا، اب روز ناچ رنگ ہوتا ہے؟
“اے لو، کیا میں کہتا ہوں، کیا تم لے اڑتی ہو، پوری بات تو سنو”
نہیں میں سب پوری بات سن چکی، تقدیرکا لکھا پورا ہو چکا۔
“بھئی سنو تو، ناچ واچ کیسا کچھ خیر ہے؟”
بس جو کچھ خیر ہونی تھی ہو چکی، اب خیر ویر نہیں، تم ابھی اپنے منہ سے ناچ جلسہ کہہ چکے ہو، اب مکرنے سے کیا ہوتا ہے؟ یا خدا یہ بدی میرے آگے آئی، لو صاحب ہم کو خبر ہی نہیں اور وہاں روز رنڈی آتی ہے۔ بس رہنے دو، میری تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ وہ تو میں اسی دن سے نگاہ بدلی بدلی پاتی ہوں، خیر صاحب میرا بھی خدا ہے۔۔۔۔
“اے لو، زبردستی کا رونا دیکھو، بھلا میں نے ناچ کا کب نام لیا؟”
ناچ، ہائے غضب آپ ہی ناچ جلسہ پکارتے پھرتے ہیں اور آپ ہی مکرتے ہیں۔
“ارے میں نے تو جلسہ کہا تھا، ناچ کہاں ہوتا ہے؟”
ہاں ہاں مکر جاؤ، کون نہیں جانتا کہ جلسے میں وہی موئیاں ناچتی ہیں، اب باتیں نہ بناؤ، بس ہو چکا۔
“ہائے غضب! سنتی نہیں اور بارود کی طرح لے اڑتی ہیں۔ میرا مطلب ہی کچھ اور تھا، تم نے تو اپنے جوش میں آ کر بات ہی کچھ کی کچھ کردی”۔
بات کیسی؟ تقدیرہی رنگ بھنگ ہوگئی، جس گھر میں ان سبز پریوں کا قدم آیا اسے جڑ بنیاد سے کھد جاتے ہی دیکھا، اللہ مجھے یہ دن دیکھنے کو نہ رکھتا تو بہتر تھا۔
“بھئی اب کیا کروں؟ تم نے تو زبردستی کا رونا نکالا، تمھارے سر کی قسم”۔
بس کہہ دیا ہے، میرے سر کی قسم نہ کھانا، نہیں تو اچھا نہ ہوگا۔ کسی کنویں تالاب میں جا کر ڈوب مروں گی، ان انگاروں پر مجھ سے نہ لوٹا جائے گا۔
“خدا کے لیے میری بات تو سنو، پھر جو جی چاہے کرنا، کلب ایک مکان ہوتا ہے جس میں دوست آشنا جمع ہوتے ہیں”۔
ہائے خدا! موت بھی نہیں آتی؟ میرے ہی جہیز کے پلنگ پر لیٹے لیٹے آشنا نگوڑی کی تعریفیں ہو رہی ہیں اور میں سننے کو زندہ بیٹھی ہوں۔
“میری تو عقل خبط ہوئی جاتی ہے، آشنا بمعنی دوست ملاقاتی، میں خدا اور رسول کو درمیان دے کر کہتا ہوں کہ مجھ کو رنڈی مُنڈی سے کوئی سروکار نہیں، صرف تمھاری بدگمانی ہے۔ اور کلب تو ایک مہذب مقام ہے، وہاں اس طرح کے لوگ گھسنے بھی نہ پاتے جس سے چاہے پوچھ لو”۔
تو تم اتنی دیر سے مجھے ستایا کیے اور میرے رونے پر بھی تم کورحم نہ آیا؟ اچھا تو بتاؤ کہ اگر وہاں کوئی بات اس طرح کی نہیں تو جاتے ہی کیوں ہو؟
“صرف دو گھڑی باتیں کرنے میں جی بہلتا ہے”۔
ہاں تو وہاں جی بہلتا ہے اور گھر کاٹے کھاتا ہے، میں تو جانتی ہوں کہ جس کا جی اپنی بیوی بچوں میں نہ بہلا اس کا جی کہیں اور نہ بہلے گا۔ یہ تم نے اچھی قدر کی ہماری۔ لیجیے صاحب ہم تو ان کے انتظار میں اس طرح بیٹھے رہیں اور آپ کو جو دل بہلانا ہو تو کہیں اور جائیں۔ میں کوئی سوئیاں چبھوتی ہوں یا چٹکیاں لیتی ہوں جو تم الب کلب بھاگے پھرتے ہو، آخر تمھارا جی گھر میں کیوں گھبراتا ہے؟ کیا سو گئے؟ ابھی تو بول رہے تھے، یہ سو کیسے گئے؟ سنو تو سو رہنا، یہ میں کہتی ہوں کلب میں کیا دھرا ہے جو گھر میں نہیں؟
“اجی کلب میں پڑھے لکھوں کی صحبت رہتی ہے، لائق لوگوں کا مجمع ہوتا ہے، اور کیا؟”
اچھے لائق لوگوں کا مجمع ہے کہ بجز سڑی ہوئے تمباکو اور پان پر پان کھانے کے کچھ نہیں۔ جب گھر آتے ہو تو منہ اگال دان ہو جاتا ہے اور وہ بو کہ سونگھ کے جی نفرت کرے۔ اگر یہی لیاقت ہے تو میرے سات سلام ایسی لیاقت کو۔ یہ سب بس اسی محمد حسین کا بویا ہوا ہے، اسی کی صحبت میں بیٹھ کر حقہ پینا سیکھا، پان آدھی ڈھولی کے ایک ڈھولی ہو گئے اور اب کلب موئے کی ہڑک اسی نے لگائی۔ موئے نے اپنی بیوی کی حالت وہ کر دی، اب تمھارے اوپر دانت لگایا ہے۔ یہی تو وہ بیچاری رویا کرتی ہے۔ مگر یہ نہ سمجھنا کہ میں بھی اسی کی طرح رو رو کرچپ ہو رہوں گی، میں تم کو رلا کر چھوڑں گی۔ جس دن ایسی باتیں تم نے شروع کیں بس دیکھ لینا تماشا، زمین آسمان کے قلابے ملادوں گی۔۔۔۔ ان خراٹوں سے میں چپ تھوڑی ہو رہوں گی، ایسے بہت دیکھے ہیں بَن کے سونے والے۔ ان سب جھنجھٹوں سے تو بہتر تھا کہ بگاڑ ہی ہو جاتا۔ اے مجھ کو کل تو پڑ جاتا؟ اپنے بچے لو، اپنا گھر لو، جو جی چاہے کرو، جس طرح دل چاہے رہو، اور رہوگے کاہے میں؟ گھر ہی موئے کی اینٹیں نہ بک جائیں تب ہی کہنا۔ بھلا کسی کمبخت کی بی بی لڑاکا ہو، بدمزاج ہو، یونہی بیکار سر کھایا کرتی ہو تو البتہ ایک بات ہے کہ صاحب کیا کریں جو کلب گھر نہ دوڑے جائیں؟ میں اپنے منہ سے اپنی تعریف کیا کروں؟ لے تمھیں خدا اور رسول کو درمیان دے کے کہہ دو کہ میں نے تمھارے ساتھ کوئی برائی کی ہے؟ کبھی تمھاری مرضی کے خلاف کوئی کام کیا ہے؟ اور یوں توبدنام کرنے کو جو چاہے کہو۔
“بھئی میں تو منہ سے بولا بھی نہیں، بدنام کرنا کیسا؟”
بدنام کرنا تو ہے ای ہے، بدنام کرنا اور کیسا ہوتا ہے؟ جب تم اس طرح سے کلب گھروں میں مارے مارے پھروگے تو آپ ہی دنیا کہے گی کہ جو گھر بیٹھنے کے قابل ہوتے تو یوں ادھر ادھر کیوں مارے مارے پھرتے؟ ضرور کچھ فی ہے۔
“نہیں پیاری! تم تو ناحق کو وسواس کرتی ہو، میں کچھ کہتا ہوں؟”
ہائے یہی تو اور غضب ہے کہ کچھ کہتے بھی نہیں، میں یہی تو روتی ہوں، اور تم جواب تک نہیں دیتے۔ نہ معلوم کون ہذیان بک رہا ہے؟ آپ ہی منہ تھکا کے چپ ہو رہے گی؟ خیر صاحب جو سمجھو۔ یہ دیکھو نا، وہ تو میں جانتی ہوں، ان ٹھنڈی سانسوں کا مطلب، پھر اللہ مجھ کو اٹھالے تو اس سے چھٹی ملے، جیتے جی تو نہیں مفر ہے، ان جھوٹ موٹھ کے خراٹوں سے کیا حاصل؟ میری بات سن لو، پھر سونا۔ میں دن رات یہی سوچا کرتی ہوں کہ تھوڑے ہی دن کی صحبت میں تم کو ہو کیا گیا ہے؟ یہ ہر وقت کا کلب، ہر وقت کا ہنسی ٹھٹھا، ہر وقت کا ٹھٹول۔ پانچ لڑکوں کے باپ ہو گئے، اور جب اس کے دن تھے تب تو کچھ نہ ہوا، اب یہ باسی کڑھی میں ابال، یار دوست جمع ہیں۔ دنیا بھر کے قصے چھڑے ہوئے ہیں، یا اللہ کب ختم ہوں گے؟ اچھا رہ جاؤ، کل ہی تو منجھلے بھائی سے کہتی ہوں، نہ بڑے صاحب سے کہہ کے رکوا دوں تو سہی، منجھلے بھائی تھانہ دار تو ہئی ہیں، اپنے صاحب سے کہہ دیں گے کہ صاحب یہاں جوا ہوتا ہے۔ جتنے موئے جمع ہوتے ہیں نہ سب کی مشکیں کسی ہوں تب ہی کہنا۔
“کیا واہیات خرافات بکتی ہو؟”
اے تم خرافات، تم آپ واہیات خرافات بکتے ہوگے، لو صاحب ہم ہی خرافات بکتے ہیں۔ اور زبان تو دیکھو، اپنی بیاہتا بی بی کو خرافات، خرافات۔ ابھی جو کچھ نہ ہو تھوڑا ہے۔ جو بد زبانی بری صحبت میں بیٹھ کر نہ سیکھو کم ہے۔ ذرا سی انگلی میں درد ہو تو وہی خرافات سر پکڑ کے بیٹھے گی، تب یار دوست ایک نہ دکھائی دیں گے۔ اور پھر وہی خرافات، یہ تو خیال نہیں کہ گھر بار رکھاتے ہیں، بی بی ہے، بچے ہیں، جو کچھ ہو گھر ہی کے کام میں آوے، مگر نہیں غیر لے جائے، اپنے انگ نہ لگے، اور کچھ نہیں توکلب ہی سہی، خرچ ضرور ہو۔
“کلب میں تو کچھ ایسا خرچ نہیں”۔
کلب میں کچھ خرچ ہی نہیں، ایسی نادان مجھ کو جان لیا ہے، یہ روز کلب جاتے وقت صندوقچہ کیوں کھلتا ہے؟ میری نظر بچا کے پاکٹ میں کیا رکھا جاتا ہے؟ جیسے میں جانتی ہی نہیں، کوئی سودے والا ،خوانچے والا ادھر سے نکلا نہیں اور تم نے آواز دی نہیں۔ یار دوست بیٹھے ہیں، چہ میگوئیاں ہوتی ہیں، ہنس ہنس کھائیں پھوہڑ کا مال اور جتنے کھاتے سب تم پر ہنستے ہوں گے کہ خوب پھنسا ہے۔ اور پھر یہ تو سوچا ہوتا کہ بیوی نگوڑی ایک ایک پیسہ کو ترستی ہے، ایک پیچک کے لیے پیسہ نہیں جڑتا ہے، تلے دانی میں ایک ٹوٹی سوئی تک نہیں نکلتی، موئی قینچی کے تو دونوں پھلڑے آج کب سے الگ پڑے ہیں، پیسہ نہیں جو کیل ڈلواؤں۔ مگر تم کو سے اس سے کیا مطلب؟ بچوں کی حالت دیکھنے کے قابل نہیں، کوئی آگ لینے بھی ادھر نکل آتا ہے تو میری آنکھ نیچی ہوجاتی ہے کہ کیا میری اوقات کو تھوکتا ہوگا، کیسی پھوہڑ ہے کہ سب بچے ایسے برے حالوں رہتے ہیں، مگر تمھاری بلا ان باتوں کو سوچے۔ تم کو کلب ہو چاہے بچے ننگے گھومیں، چاہے چیتھڑے لگائے رہیں، تم کو میاں اللہ بخش کے ایسے یار دوست ملیں، بی بی بچے اپنا سر کھائیں، مگر اتنا میں کہے دیتی ہوں کہ میری چوکھٹ اللہ بخش صاحب نہ نانگھیں، باہر جتنا جی چاہے کُھل کھیلو، گھر میں یار دوستوں کا مجمع اگر ہوا اور اللہ بخش موا خدائی خوار یہاں بھی آیا تو دیکھ لینا کیا قیامت مچاتی ہوں، میاں کو جوتی ہی سنبھالتے بنے گی، پھر چاہے جو کچھ ہو اور ہوگا کیا؟ کوئی میرا کر ہی کیا لے گا؟ میاں بہت خفا ہوں گے ایک اور زیادہ کھا لیں گے، اور نام تو دیکھو کیسا رکھا ہے؟ انجمن۔۔۔۔۔ بولتے نہیں جیسے آدمی کا نام، میں سونے تھوڑی نہ دوں گی تم کو، کون انجمن نام ہے؟
“انجمن فرح بخش”
ہاں ہاں، انجمن فرح بخش، موئے اللہ بخش ہی کے جوڑ کا نام بھی ہے۔ جیسا کلب ویسے ہی بیٹھنے والے، جیسی روح ویسے فرشتے۔
“اچھا بھئی ہوگا، اب سونے دوگی کہ نہیں؟”
اب سونے سے کیا ہوتا ہے؟ تھوڑی دیر میں صبح کی اذان ہوگی، سونا کیا ملے گا، خاک؟ بارہ بجے کے قریب گھوم کے آئے، کھانا بڑھاتے بچھونا بچھاتے ایک بج گیا۔ آج کل رات ہی کتنی ہوتی ہے؟ سو رہو، میں کچھ کہتی ہوں، میری قسمت میں رونا لکھا ہے رویا کروں گی۔
اس کے بعد شوہر صاحب کا بیان ہے کہ میرے اوپر غفلت طاری ہو گئی اور پھر مجھ کو خبر نہیں۔
چوتھا باب
آج شام کو صرف صبح کا رکھا ہوا گوشت اور چپاتیاں دستر خوان پر آئیں، شوہر صاحب سے بغیر مٹھائی کے کھانا نہیں کھایا گیا، جس کو شکایتاً انھوں نے اپنی زوجہ سے بیان کیا، جوابات قلمبند ہوتے ہیں۔
دال ارہر کی بے نمک پھیکی
مطلقاً جس میں بو نہ تھی گھی کی
یہ آج مہینوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ تم بات بات پر ناک بھوں چڑھاتے ہو اور ہر چیز میں عیب نکالتے ہو۔ اگر تمھارے کھانے کا انتظام مجھ سے نہیں بنتا تو باورچی نوکر رکھ لو، تب تو کھانا مزہ کا ملے گا؟ عمر بھر تو کھانے کی کوئی شکایت نہیں سنی، اب آئے دن روز کے اعتراض، روز کی تیوری بھلا مجھ سے کاہے کو اٹھائی جائے گی؟ نا بابا، آج تک جس نے ایک مرتبہ میرے ہاتھ کی پکی چیز کھائی، انگلیاں چاٹا کیا۔ اور کبھی تم کو بھی تو میرے ہاتھ کی دھوئی ماش کی دال اور کباب بہت اچھے معلوم ہوتے تھے، مگر اب نہ معلوم کیا ہوگیا ہے کہ جو کام مَیں کرتی ہوں تم کو برا ہی معلوم ہوتا ہے۔ مزے سے مزے کی چیز جان کھپا کے پکاؤ، نمک کم ہے، مرچ زیادہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ مجھی سے جی ہٹ گیا ہے۔ پھر خدا ہی مجھ کو اس گھر سے اڑائے تو تم کو چین ملے۔
“اچھا بھئی ہوگا، قصہ مختصر کرو، دسترخوان پر ایک بات اتفاقاً میرے منہ سے نکل گئی، اب اس کا خیال ہی کیا؟ لو چپ ہو جاؤ”۔
تو زبان تو بادشاہ بھی نہیں روک سکتا، تم کیسے قفل چڑھاؤگے؟ لو صاحب، یہ تو سب کچھ کہہ جائیں اور دوسرا منہ سی لے۔ ایسا حلق کا داروغہ تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو بات نہ کردے، تو بی بی کاہے کو ٹھہری لونڈی ہوئی؟ لونڈی زر خرید بھی موئی زبان رکھتی ہے۔ یہ روز کا غصہ، یہ روز کی عیب چینی کس سے سہی جائے گی؟ بغیر مٹھاس کے حلق سے لقمہ نہیں اترتا اور یہ زبان کا مزہ تو وہ ہے کہ بڑے بڑے اس میں بگڑ گئے، تمھاری اوقات ہی کیا ہے؟ اور اس نوکری کی کیا ہستی؟ ہونھ! کھیر پکاؤ تو یہ کھائیں گے، نہیں تو نہیں۔ یہ روز پلاؤ متنجن کہاں سے آوے گا، سات آدمی گھر کے، ایک ماما اندر ایک لڑکا باہر، نو آدمیوں کی روٹی، پھر اسی میں فاتحہ درود، آیند روند، فقیر فقرا، اور اوپر سے کپڑے کی ضرورتیں۔ بچت کہاں سے کروں؟ کون جتن کروں جو میاں کھیر کھائیں۔ آخر ہمارے ہی پڑوسی اور بھی ہیں، جو کچھ ملا موٹا جھوٹا کھا لیا، خدا کا شکر بھیجا۔ بچوں کو بھی اسی چٹورے پن کی عادت پڑے گی۔ اچھا سبق پڑھایا جاتا ہے ان کو۔ تین تین لڑکیاں آگے، اللہ رکھے بیاہ ہوگا، شادی ہوگی، خانہ داری، موٹا بھی، جھوٹا بھی۔ لے آپ کو تو یہ عادت کہ جب تک تر لقمہ دسترخوان پر سامنے نہ ہو ہاتھ نہ دھوئیں تو پھر بھلا ساس نندوں کے بیچ میں کیسے نباہ ہوگا؟
“خداکے لیے سونے دوگی کہ نہیں، میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ خالی گوشت تھا، اگر کچھ اور بھی پکا لیتیں تو اچھا ہوتا”۔
اورکیا پکا لیتی اپنا بھیجا؟
“وہ تو میرا پکا کرتا ہے”۔
یہ دیکھیے اب ضلع جُگت ہونے لگی، مجھ سے دل لگی نہ کرنا، نہیں تو ابھی پٹی پر سر دے ماروں گی۔ یہ دیکھیے صاحب، اول تو بات کا جواب نہیں دیتے اور پھر دیا بھی تو یہ جلے کٹے بول، یہ تو نہیں خیال کرتے کہ سینکڑوں خدا کے بندے پڑے ہیں کہ جن کو باسی گوشت بھی میسر نہیں آتا۔ آپ ہیں کہ ناشکری کرتے ہیں۔ گوشت دونوں وقت، دوسرے تیسرے قیمہ، یہ وہ، بیس چیزیں۔
“وہی قیمہ آج پکا لیا ہوتا تو اس پنیا ڈھب ڈھب شوربے سے تو اچھا ہوتا”۔
اے خدا کی شان، آپ کو حال ہی بہت معلوم ہے پکانے کا، اور جو ہڈی نکل جاتی تو بچوں کو کیسے سمجھاتی؟ اس کے علاوہ جہاں گوشت سل پر گیا طاقت نکل گئی۔ عیب نکال دینا تو بہت آسان ہے جب کرنا پڑے تو معلوم ہو۔
“معلوم کیا ہو؟ میں کہتا ہوں اچار مربہ نہ سہی، ایک ذرا سی چٹنی میں کیا خرچ ہوتا ہے، اگر پیس کر دسترخوان پر رکھ دو؟”
چٹنی میں تمھارے حسابوں کچھ لگتا ہی نہیں، یہ پودینہ تمھارے کس باغیچہ میں بویا ہے اور ادرک کس جگہ لگی ہے؟ جو میں توڑ کے چٹنی بنالوں۔ اور یہ تو دیکھیے مربہ اچار نہ سہی، جیسے میرے اوپر کوئی احسان کیا ہے، ابھی کیا ہے؟ آگے بڑھ کے باقر خانی، مزعفر سے نیچے اتر کے بات ہی نہ کریں گے۔ کتنا کہا کہ فصل میں آم منگوادو، شکر گھر میں ہے، مربہ بنالوں۔ تب تو سنا نہیں، اب مربہ مربہ پکارتے ہیں۔
“آم تو ہم نے لادیے تھے، تم نے کھٹائی بنالی، اس میں میرا کیا قصور؟”
اور اب جو میں نے کھٹائی بنالی تو کون سا گناہ کیا؟ آخر وہ بھی تو ضروری چیز تھی کہ نہیں؟
“اچھا بھئی تھی ضروری چیز، اب سونا ملے گا کہ کہیں اور جا کے پڑ رہوں؟”
پڑ کیوں نہیں رہتے؟ مجھے ایسی بڑی غرض ہی ہے آپ کی، زبان جب تک اللہ نہ بند کرے گا آدمی کے بند کیے تو نہیں بند ہوتی، دیکھیں تو کون زبان بند کرتا ہے؟
گو کہ ارادہ مصمم تھا کہ ابھی موعظۂ مونثیہ کو اور طول دیا جائے مگر نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ آخر آنکھ لگ ہی گئی۔
پانچواں باب
میاں فرامشن ہو کر آئے ہیں، بی بی صاحبہ کے سوالات
مادہ پوچھنے لگی کہ
او نر! میں تجربہ کر چکی جہاں کا
کھلتا نہیں کچھ طلسم یاں کا
دنیا بھر میں جتنی برائیاں ہیں ایک نہ چھوٹے، جتنی باتیں میرے خلاف ہیں سب ہوں۔ بن بن کے سونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب تم میری باتوں سے گھبراتے ہی ہو تو میں بولوں ہی کاہے کو؟ مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ اب ہماری تمھاری نبھے گی نہیں، میں جو کچھ کہتی ہوں تمھارے ہی بھلے کے لیے اور وہ تمھیں ناگوار ہوتا ہے۔ تو پھر کیسے نباہ ہوگا؟ جب میاں نے بی بی سے اور بی بی نے میاں سے اپنے دل کی بات چھپائی تو لطف ہی کیا رہا؟ میاں بی بی کے درمیان تو کوئی راز ہونا ہی نہ چاہیے، جو راز ہی ہوا تو میاں بی بی کاہے کے؟ میں یہ کہتی ہوں وہاں کون ایسی بات ہوتی ہے جو میں نہیں سن سکتی؟ میں تو سوچتی تھی کہ اگر تم کسی کا گلا کاٹ کے آؤگے تو بھی مجھ سے نہ چھپاؤگے۔ یہ موئی ذرا سی کون بات ہے؟ یا بھئی کوئی ایسی بات ہو جو بی بی ہی سے چھپانے کےقابل ہو، اور یہ تو ہے ہی۔ لے اب سمجھ میں آگیا، اسی مارے تو عورتوں کو فرامشن نہیں کرتے۔ ضرور کوئی بات عورت ہی کی برائی کی ہے، نہیں توعورت کو کیوں نہ کرتے؟ اونھ ہوگا! جو نہیں بتاتے تو نہ بتاویں، میری بڑی غرض ہی اٹکی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ (وقفہ 3 منٹ) مگر میں کہتی ہوں کہ اگر عورت بھی اسی طرح مرد سے اپنے دل کی بات چھپاوے تو خوب دنیا کا کام چلے۔ اچھا اب بات نہ بڑھاؤ، بتادو تو پھر وہاں گئے تو کیا ہوا؟
“ہوا کیا، کچھ نہیں”۔
اے واہ! کچھ نہیں کی ایک ہوئی، تمھیں ہمارے سر کی قسم، ہمارا ہی لہو پیو جو نہ بتاؤ۔ بس اتنا بتا دو کہ وہاں کیا کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔ بولو، اے بولتے کیوں نہیں؟ یہ اچھا وطیرہ سیکھ کے آئے ہیں کہ ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں اور منہ سے بولتے نہیں، اچھا کچھ تو بتا دو۔
“کیا بتادوں؟”
اے وہی فرامشن اور کیا؟ اتنا تو سوچو کہ اگر میری کوئی بات ہوتی تو میں تم سے چھپاتی؟ تمھیں کہو، پھر تم مجھ سے کیوں کہتے؟ اگر میں ایسا جانتی تو آفت کر دیتی، اور تم کو جانے ہی کیوں دیتی؟ ضرور کوئی چوری یا عیب کی بات ہے، نہیں تو یہ گہرا پردہ کیوں ہے؟ کوئی عورت ہی کے نقصان کی بات وہاں بتائی جاتی ہے کہ اس طرح سے ستاؤ، اس طرح پریشان کرو۔ تب ہی تو میرے سامنے بیان کرتے شرماتے ہو۔ (وقفہ) کہیں بند کر کے مارتے تو نہیں۔ اے ضرور یہی بات ہے۔ کہو قسم کھالوں کہ آج تم مارے گئے ہو، جب ہی چپ چاپ لیٹے ہو اور وہ روز کی بحالی بھی تو آج چہرے پر نہیں ہے۔ یہ تو میں نے غور ہی نہیں کیا تھا۔ لو کھل گیا نا؟ یا الہی ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں کہ اپنا ہی پیسہ خرچ کرتے ہیں اور مار اوپر سے کھاتے ہیں، اے لو کراہتے بھی تو ہیں۔
“کراہا کون؟”
لو کراہے نہیں تو تم ہنستے ہوگے۔ میں سِڑن تو ہو ہی گئی ہوں کہ اب میری باتوں پر قہقہے لگائے جاتے ہیں۔ خیر میں صبر کرتی ہوں، اس کا بدلہ تم سے وہی لے گا، جیسا تم مجھ کو جلا کے مارتے ہو۔
“میں نہ مارتا ہوں، نہ جَلاتا ہوں۔ تم ناحق کے سوالوں کی بھرمار کر رہی ہو۔ جانتی ہو کہ فریمسنری کا راز آج تک نہیں کھلا، پھر میں کیسے بتا سکتا ہوں؟”
کھلا کیسے نہ ہوگا؟ سب نے اپنی اپنی بی بیوں سے کہہ دیا ہوگا، اور تم بھی اگر مجھ کو ویسے ہی چاہتے ہوتے تو کہہ دیتے۔
“کوئی کہہ سکتا ہی نہیں، کہہ کیسے دیا ہوگا؟”
کہہ کیسے نہیں سکتا؟ کیا کوئی زبان پکڑے بیٹھا ہے یا بول بند ہو گیا ہے۔ یہ کہو کہ نہ کہنے کا جی، ورنہ کہنے میں کیا ہے؟ اور میں تو یونہی پوچھتی تھی، نہیں تو جس سےجی چاہے پوچھ لوں، اس میں ہووے گا کیا؟ کچھ ایسی ہی ویسی باتیں ہوں گی، بور کے لڈو ہوں گے۔ بات ہے نہ بتاؤ، رنج تو ہوگا کہ بے کار اتنا روپیہ صرف ہوگیا۔ اور یہ خط میں بھائی کیسا لکھا تھا، یہ بھائی کہاں سے پیدا ہو گئے تمھارے؟
“وہ فریمیشن جتنے ہیں سب آپس میں بھائی بھائی ہیں”۔
تو یہ کہو، چوڑا چمار جو فرامشن ہوا وہ بھائی ہوگیا۔ اچھی بھائی بندی ہے۔ ان بھائیوں میں نسبتیں بھی ہوتی ہوں گی؟ اتنا میں کہے دیتی ہوں کہ اگر تم نے میرے بچوں کی نسبت اپنے فرامشن بھائیوں میں کہیں کی تو کچھ کھا کے سو رہوں گی، لڑکے کچھ تمھارے اکیلے کے تھوڑی ہی ہیں۔
“پیاری! اب سو رہو نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
تم پیاری ویاری مجھ کو نہ کہا کرو، میں تمھاری پیاری ویاری نہیں ہوں، جہاں گھر میں مامائیں نوکر ہیں،میں بھی پڑی ہوں، کس گنتی شمار میں ہوں؟
“تم گنتی شمار میں نہیں ہو تو کون ہے؟”
میں گنتی شمار میں ہوتی تو مجھ سے بات نہ کہی جاتی؟ یوں راز چھپایا جاتا؟ ایک تو ایسی ہی آفت تھی، اب تو اور نئے نئے طریقے میرے ستانے کے سیکھ آئے ہوں گے، آپ ہی معلوم ہو جائے گا۔ جو بات میرے دل دکھانےکی نئی کریں گے، سمجھ جاؤں گی کہ یہی ہے۔۔۔۔۔۔ (وقفہ 5 منٹ) اب میں نہ پوچھوں گی ،بتانا ہوگا توآپ ہی بتادیں گے، نہیں تو نہ سہی۔
“اچھا تو اب نہ پوچھنا”۔
پوچھے میری بلا، میں کاہے کو پوچھنے لگی؟ مجھ کو کیا غرض پوچھنے سے؟ جو نہیں بتاتے تو نہ بتاؤ۔
“اچھا پیاری خفا نہ ہو، آؤ سو رہیں”۔
سو تو رہوں گی مگر ایک کہنا میرا مانو۔
“اچھا کہو”۔
میرے سر پر ہاتھ رکھ دو کہ مانوں گا۔
“اچھا مانوں گا”۔
اچھا تو پھر اب بتادو کہ کیا ہوا؟
“یہ تو نہیں بتا سکتا”۔
تو تم نے میرے سر پر ہاتھ کیوں رکھا تھا؟
کاڈل صاحب کا بیان ہے کہ یہ موعظۂ مونثیہ بہت طولانی تھا اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ چار بجے رات تک جاری رہا، مگر بوجوہ آگے قلمبند نہیں ہوا۔
چھٹا باب
شوہر صاحب کو گیارہ بجے رات کو ایک دوست کی ضمانت کرنے کو جانا پڑا ہے، واپسی بہت دیر کو ہوئی۔ اس فعل ناپسندیدہ پر رائے زنی۔
دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست
در پریشاں حالی و در ماندگی
یہ تو میں جانتی ہی تھی، ان لوگوں سے دوستی کرکے اور کیا ہوتا؟ یہ تو میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا جب تم نے فرح بخش کلب گھر کھڑا کیا تھا۔ لے بھلا سوچو تو تین پہر بجے ضمانت کرنے جانا پڑا۔ اور ان شہدوں سے مل کر کیا ہوگا؟ یہی دن رات کی جھوٹی گواہی، جھوٹا قران، ضمانت، مُچلکہ اور اس کے سوا ہونا ہی کیا ہے؟ اور ضمانت کرنا تو کوئی بات نہیں،جب وہ موا بھاگ جائے گا اور تم کو ضمانت کا روپیہ دینا پڑے گا تو معلوم ہوگا، ابھی تو کچھ نہیں۔ جب موا محمد حسین تم کو کسی کام کا نہ رکھے گا تب تمھاری آنکھ کھلے گی، ابھی تو اس کے برابر کوئی نہیں، بی بی بچے اس کے اوپر سے صدقے اتارے جاتے ہیں۔ اچھی بات ہے، اسی طرح تلنگا دو بجے رات کو کنڈی کھڑکایا کرے تو ٹھیک ہے۔ آپ ہی پڑوسی سوچیں گے کہ کیا ہے جو یہ رات کو دیکھنے آیا کرتا ہے کہ گھر میں ہیں یا نہیں۔ اور ناک کو دیکھو جاڑے سے کیسی لال ہو گئی ہے؟ جیسے کسی نے پڑیا مل دی ہے۔ یہی سزا تمھاری، اب صبح زکام نہ ہو تو میں ناک ہارتی ہوں۔ بخار بھی چڑھے گا۔ کیا کیا نہ ہوگا؟ میں ابھی سے کہے دیتی ہوں یخنی اور مونگ کا چونگا مجھ سے نہ کہنا۔ میرے کیے نہ ہو سکے گا۔ جس کی ضمانت کی ہے اسی کی امان میں تم کو سونپتی ہوں، بیماری حیرانی میں اب مجھ سے امید نہ رکھنا۔ حاکم نے بھی سوچا ہوگا کہ ضمانت کرنے والا بھی اسی گروہ کا ہوگا، نہیں تو بدمعاش کی ضمانت کرنے کیوں آتا؟
“پھر میں کیا کرتا؟ ایک دوست عزیز اپنا پھنستا تھا، میں نے کہا لاؤ میں ہی ضمانت کر لوں”۔
کیسا دوست؟ وہی تو دوست جو بری راہ لگادے، یہ عزیزداری کب سے ہو گئی؟ یہ خون کب سے مل گیا؟ عزیزوں کے معاملہ میں تو خون سفید ہو گیا اور یہ محمد حسین موئے ایسوں سے کیسے خون مل گیا؟
”محمد حسین کا بھلا کیا ذکر ہے؟ ان سے کیا مطلب؟ میں نے تم سے کب کہا کہ محمد حسین کا معاملہ تھا؟”
تم نے نہیں کہا، میں تو جانتی ہوں؟ اور کون ایسا چور اچکا گرہ کٹ سوائے اس مونڈی کاٹے کے ہے؟ اب بہلانے سے کیا فائدہ؟ بتادو ہے نا وہی؟
“نہیں، وہ نہیں ہے، محمد حسین نہیں ہے”۔
میں تو کہتی ہوں کہ سب جھوٹ۔ تم نہ معلوم کہاں رہے ہو اور نہ معلوم کس کام کے لیے گئے ہو، اور اب مجھ سے باتیں بناتے ہو۔ بولو؟
“کیا بولوں، تم تو ناطقہ بند کیے ہو، پوری بات نہیں کہنے دیتیں، اور شکایتوں کی بوچھار کر دیتی ہو، محمد شفیع کی نوکری کی ضمانت کرنے گیا تھا؟”
کون محمد شفیع؟ منجھلے بھائی؟ لے بھلا مجھ کو کیا معلوم تھا؟
شوہر صاحب فرماتے ہیں کہ ہزار ہزار شکر، اس کے بعد لڑکوں کی اماں نے میرے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور میں سلام ھي حتی مطلع الفجر پڑھتا ہوا سو گیا۔
ساتواں باب
ایک دوست کے آجانے کی وجہ سے شوہر صاحب کو میزبانی میں دیر ہوگئی اور دوست صاحب قریب ایک بجے کے واپس گئے۔
لطف قلیان دھواں دھار وپان و لب سرخ
تا دم صبح ترا کار بہ شب دوش ایں بود
ابھی کاہے کو آئے؟ کون ضرورت تھی آنے کی؟ مرغے کی آواز سن لیتے تو اٹھتے، یہ تم سویرے کیوں چلے آئے؟
“بھئی کیا کریں وہ مرد آدمی اٹھے ہی نہ، اور تم نے اور ہی غضب کیا کہ کوئلے قفل میں بند کر دیے، بغیر انگیٹھی کے سارا بدن ٹھٹھر کے رہ گیا”۔
تو یہ کہو، ابھی بیٹھنے کا ارادہ سلامتی سے تھا۔ وہ تو کہو انگیٹھی نہ تھی نہیں تو دراصل صبح ہی کرکے اٹھتے۔ تب کی مرتبہ بھی تو یہی ہوا تھا، اسی مارے تو میں نے آج یہ ترکیب کی تھی اور ایمان کی بات یہ ہے کہ آنے والے بیچارے کا کیا قصور۔ وہ پرائے گھر کا حال کیا جانے؟ عقل تو گھر والے کو ہونی چاہیے کہ جو ادھر بھول پڑا، صاحب کھانا کھاتے جائیے۔ یہ تو سوچتے کہ بی بی بچوں والا گھر ہے، لاؤ ذرا پوچھ تو لیں کہ کھانا ہے بھی یا نہیں۔ مگر نہیں، وہیں سے بیٹھے بیٹھے حکم لگ رہا ہے کہ تین کھانے لاؤ، چار کھانے لاؤ۔
“پھر میں کیا کرتا؟ جو دروازے پر آجائے کیسے کہہ دوں کہ چلے جاؤ؟”
یہ کاہے کو کہو؟ کھانے کا ذکر ہی کیوں کیا؟ تھوڑی دیر میں چلا ہی جاتا۔
“لاحول و لاقوۃ الا باللہ، یہ تو مجھ سے کبھی نہ ہوسکے گا”۔
یہ نہ ہو سکے گا تو یہ بھی جان لو کہ اتنے خرچ میں یہ روز کی دعوتیں مجھ سے بھی نہ ہو سکیں گی۔ یہ زبردستی تو دیکھو کہ دیں گے تو اتنا ہی، چاہے جتنے آدمی آویں۔ دیکھو ابھی کروٹ نہ بدلو، میری پوری بات سن لو۔ آدمی جو کام کرتا ہے، نتیجہ سوچ لیتا ہے۔ ان روز کی ضیافتوں میں گھر رہا کہ گیا؟ اور پھر یہ تو سوچو کہ جتنے کھانے والے جمع ہوتے ہیں ایک بھی تو ایسا نہیں کہ تم کو ایک وقت بھی کھلادے، ایسے کھلانے سے فائدہ کہ جو نہ دین کا نہ دنیا کا؟ میں تو تمھارے دوست ملاقاتیوں کو خوب جانتی ہوں، اپنا رکھ پرایا چکھ کے سوا کچھ نہیں، ادھر کھانے کا وقت آیا ادھر جمع ہونے لگے۔ سلام کیا ایسے یار دوستوں کو۔ اب میں کھانے کا وقت ہی بدل دوں گی، اذان ہولے گی تب آگ جلاؤں گی، آپ ہی کھانا دس بجے رات کو تیار ہوگا، تب تو ان موؤں سے نجات ملے گی۔
“تم تو دنیا بھر کی برائی ہی کیا کرتی ہو۔ اگر کسی نے ایک وقت ہمارے یہاں کھانا کھا لیا تو کیا برا کیا؟ دوستی ملاقات میں یہ ہوتا ہی ہے”۔
اچھا ہوتا ہی ہے، تم نے تو یہ کہہ کر چھٹی پالی۔ اس کے دل سے پوچھو جس کو خانہ داری کرنی پڑتی ہے۔ لے آج ہی دیکھو، جمعرات تھی، میں نے کہا لاؤ مرغ پکوا لوں۔ ابھی ہانڈی اتری بھی نہیں کہ حکم نادری آگیا، دو کھانے بھیجو۔ لیجیے صاحب جس راہ آیا اسی راہ گیا، بچے منہ دیکھ کر رہ گئے، مجھ سے قسم لے لو جو مجھ نگوڑی نے شوربا تک آنکھ سے دیکھا ہو۔ لے میں دوسرے وقت بھی اسی میں کرتی اور تمھارے واسطے آدھا سینہ صبح کو بھی رکھ چھوڑتی۔ مگر جب تمھارے مارے چلنے بھی پاوے؟ اور یہ تو یہی ہے، تم تو رکھی رکھائی چیز بھی منگوا بھیجتے ہو۔ یہ میں کہتی ہوں کہ اگر کہیں سے دو پیڑے آگئے تو اس میں تمھارا کیا اجارہ ہے جو وہ بھی منگوا بھیجتے ہو؟
“اور تم بھیج بھی دیتی ہو؟”
کاہے کو بھیج دیتی؟ کون تھا جس کے لیے بھیج دیتی؟ بچوں کے لیے نہ رکھتی، ان کے دوستوں کو بھیج دیتی۔ میں نے جن کو پیٹ سے پیدا کیا ہے ان کے لیے رکھ چھوڑتی ہوں، تم نے جن کو پیدا کیا ہے ان کے لیے بازار سے کیوں نہیں منگاتے؟ اور میرے نہ بھیجنے سے کیا ہوا؟ آج ہی جب میں نے پیڑے نہیں بھیجے تو کھویا بازار سے آیا۔
“بھئی اب برائے خدا پڑ رہنے دو، تم نے تو ناک میں دم کر دیا ہے”۔
تو تم سو کیوں نہیں رہتے؟ منع کون کرتا ہے، میری تقدیر میں جاگنا بدا ہے جاگوں گی۔ اتنی دیر تو مجھے جگا رکھا اور جب نیند اچٹ گئی تو آپ اپنی کروٹ لے کرخراٹے لینے لگے۔
“تم کو کس بھکوے نے کہا تھا کہ جاگو؟ تم سو کیوں نہ رہیں؟”
میں سو رہتی تو بن پرتی تمھاری، نعمت خانہ سے لڑکوں کی باسی الماری سے اچار مٹھائی سب ہی کچھ نکال کے موئے مہمان کے سامنے لگا دیا جاتا۔ میں ایسی ننھی نادان تھی کہ سو رہتی تمھارے اوپر سب کچھ چھوڑ کے؟ اور ذرا مہمان صاحب کا پیٹ تو دیکھنا، جلندھر ہوگا موئے کو۔ پورا مرغا چٹ کر گیا اور ڈکار نہ لی۔ جواب کیوں نہیں دیتے؟ میں کہتی ہوں مرغا ہڑپ کرکے ڈکار تک نہ لی؟ اے بولتے کیوں نہیں؟
“بولوں کیا؟ تم نے تو جان عذاب میں کردی ہے، اللہ مجھ کو موت دے یا تم مرو تو یہ قصہ تمام ہو”۔
یہ تو جانتے ہی ہو کہ مانگنے سے نہیں آتی، آتی ہوتی اور مانگتے تو جانتی۔ اور میری موت کو کیا؟ میں تمھارے ہاتھوں یونہی زندہ درگور ہوں، مجھے تو تم نے ایسا کر دیا ہے کہ خدا دشمن کو بھی نہ کرے۔ اور یہ تو کہو یہ شکر کیوں مانگ بھیجی تھی؟ اتنے وقت شکر کا کیا کام تھا؟
“چائے کے لیے مانگی تھی اور کاہے کے لیے؟ اب سوؤگی بھی؟”
یہ گیارہ بجے رات کو چائے کا کون موقع تھا؟ اور میں بسکٹ نیچے بھول کے چلی آئی تھی وہ تو نہیں کھلا دیے؟ لیجیے چھٹی ہوئی۔ وہ بھی گئے، وہ تو ضد ہے مجھ سے۔ جس بات کو جانیں گے کہ میرے خلاف ہوگی اد بدا کے وہی کریں گے۔ آج ہی میں نے بسکٹ لیے تھے، اب آٹھ روز بسکٹ کھانا تو معلوم ہوگا۔ اور یہ بچے بھی خالی چائے پی کر مدرسہ جائیں گے، اس کا عذاب بھی تمھاری گردن پر یا اس موئے پر جس کو تم نے زہر مار کرایا۔ خدا کرے سنکھیا ہی ہو کے لگے، پھر کھانا نصیب نہ ہو۔
اس کے بعد میاں غصہ میں اٹھ کر الگ پڑ رہے اور نیند میں اکثر الفاظ مثل مرغی کا مرغا، جمال گوٹہ، دسترخوان کی مکھی سنتے رہے یہانتک کہ غافل ہو گئے اور خواب میں دیکھا کہ ایک دیونی ہے جوگرم گرم چائے کی ایک بڑی سی پیالی میں مجھ کو غوطہ دے رہی ہے۔
آٹھواں باب
شوہر صاحب دوستوں کے اصرار سے ایک میلے میں چلے گئے تھے۔ بمصداق “نیش بعد از نوش” واپسی کے بعد جو کچھ پیش آیا پیشکش ناظرین ہے۔
پھبن اکڑ چھب نگاہ سج دھج جمال و طرز خرام آٹھوں
اگر نہ اس بت کے ہوں پجاری تو کیوں ہو میلہ کا نام آٹھوں
اب تو کوئی میلہ ٹھیلہ آپ سے نہیں بچتا۔ کیوں صاحب یہ تو سن بال کھچڑی ہو گئے ہیں، مگر میلے کی سیر نہیں چھوٹتی، سینگ کٹا کے بچھڑوں میں داخل ہوں گے۔ مونچھوں میں کاجل لگا لیا کرو جس میں خوب جوان معلوم ہو۔
“میری مونچھیں کہاں سفید ہیں جن میں کاجل لگا لیا کروں؟ البتہ سر میں دو چار بال ہیں تو وہ بھی نزلہ کے باعث، بتیس تینتیس برس کہیں بال سفید ہونے کے دن ہیں؟”
اے دن ہوں یا نہ ہوں، ہو تو گئے ہیں۔ بزرگوں کی دعا لگی ہوگی نہیں تو میرا صبر پڑا ہوگا، رات دن جلاتے ہو یہ بھی نہ ہوگا؟
“اچھا خیر، وہ جو جو کچھ سمجھو اب ان شاء اللہ تعالی خضاب منگواؤں گا۔ لاہور میں سنا ہے کہ۔۔۔۔”
اب وہ لاہور میں بعد کو سننا، اس وقت بات کو نہ ٹالو اور یہ بتاؤ کہ اب تمھارے میلے ٹھیلے کے دن ہیں جو تم یہ باتیں کرتے ہو؟ بوڑھے ہو گئے، دو چار برس میں ناتی پوتے والے ہوگے، میلے ٹھیلے کی سیر تم پر نہیں پھبتی۔ اجی دیکھو بی ہمسائی مسکراتی ہوئی آئیں اور پوچھنے لگیں کہاں گئے تمھارے میاں؟ مگر کیا کروں جب۔۔۔۔
“تم نے کہہ کیوں نہیں دیا کہ معلوم نہیں کہاں گئے ہیں”۔
ان کو تو خود ہی معلوم تھا، اسی لیے تو آئی تھیں اس طرح پوچھتی ہوئی۔
“بی ہمسائی کو دوسروں کی بہت پڑی رہتی ہے، اور ان کے میاں بھی تو گئے تھے میلے میں”۔
اچھا خیر! وہ گئے ہوں کہ نہ گئے ہوں، تم کیوں گئے؟ وہ جی چاہیں کریں، تم کو تو سوچنا تھا کہ اب تمھاری عمر میلے تماشے کی نہیں ہے۔
“ارے بھئی بندہ بشر ہے، یار دوستوں کے اصرار سے چلا گیا تھا، ایک بات ہوگئی”۔
تمھارے لیے تو ایک بات ہو گئی اور میں اپنا خون جگر پی پی کر رہی۔ اور ہنڈولے پر سوار ہوئے تھے یا نہیں؟
“لاحول و لاقوۃ، نہیں جی”۔
تم نے نہیں جی کہہ دیا اور میں نے مان لیا، اے کہو قران اٹھالوں کہ ضرور سوار ہوئے ہوگے۔ موئے ذلیل بھنگیڑیوں، بگڑی ہوئی گھر گرستوں کے بیچ میں ایک تخت پر تم بھی بیٹھے ہوئے ہوگے اور یہی تھوڑی، رومال ہاتھ میں لیے دوسرے تخت کو چھوتے جاتے ہیں، اٹھ کھیلیاں ہوتی جاتی ہیں، بدن میں آگ لگ جاتی ہے جب یہ سوچتی ہوں، اس وقت مجھ نگوڑی کا خیال بھی رہا ہوگا؟
“تم تو اپنے دل سے باتیں پیدا کیا کرتی ہو، اول تو میں ہنڈولے پر چڑھا ہی نہیں، دوسرے یہ کہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ میں تم کو بھول گیا تھا؟ تم بھولنے والی چیز ہو بھلا؟”
میں بھولنے والی چیز کیوں نہیں ہوں؟ تمھارے ایسے کے ساتھ میں بھول ہی جانے والی چیز ہوں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ اگر میری تقدیر کسی اچھے کے ساتھ ہوتی تو پاؤں ہی دھو دھو کر پیتا، تمھارے یہاں تو میری قدر ہی نہیں۔
“اس میں کیا شک ہے، سچ کہتی ہو”۔
تو اب مجھ کو بتاؤ گے بھی، یہ دیکھیے اتنی دیر سے مجھ نگوڑی کی سمجھ ہی میں نہ آیا۔ مارے اور رونے نہ دے اسی کو کہتے ہیں۔ اس کی داد وہی دے گا میں کچھ نہ بولوں گی۔
“برائے خدا اب کوسنے نہ دو اور مجھ سے قران اٹھوا لو کہ میں ہنڈولے پر سوار ہوا ہوں تو خدا مجھ کو دین دنیا میں غارت کرے، اب اور کون قسم کھاؤں، لو اب تو جان چھوڑو گی؟”
یہ ناحق کا غصہ تو دیکھیے، آپ ہی دل کی کرتے ہیں اور آپ ہی غصہ دکھاتے ہیں اور پھر کس پر؟ کمزور پر، واہ کیا بہادری ہے؟
“مجھے غصہ وصہ تو نہیں آیا، یوں کہنے کو جو چاہے کہو، تمھیں نے ہنڈولے والی بات نکالی تھی، میں نے قسم کھالی کہ غلط ہے، بس ہو گیا”۔
اے وہ ہنڈولے والا نہ سہی، چکر پر تو ضرور ہی چڑھے ہوگے۔ گھر میں گھوڑے اونٹ باندھنے کی تو مقدرت نہیں، کاٹھ ہی کے گھوڑے پر چڑھ کر حسرت نکل جائے۔ اب نہیں بولتے، اب پتہ کی بات سن کر یہ چپ سی کیوں لگ گئی؟ کچھ تو کہو، کچھ تو بولو، ذرا چار آنکھیں کرو۔ مجھ سے خالی آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں اس سے یہ تھوڑی سمجھ لوں گی کہ سو گئے، بھلا میں پوچھتی ہوں سوائے تمھارے کوئی مرد آدمی (کہنی کا ٹھوکا دے کر) بھلے میلے میں چکر پر چڑھے گا؟
(شوہر صاحب نیند سے چونک کر) “اوں ولایتی چکر کلکتے میں ہے”۔
اے لو اب کلکتے کی خبر لانے لگے، اے سنو تو ابھی سو رہنا۔
“اچھا کہو ذرا غافل ہوگیا تھا”۔
غافل وافل تو کیا ہوئے ہوگے؟ مجھ کو چھیڑنے کے لیے بن کے سوئے تھے۔ میں کہتی ہوں ایک جوڑا چوڑیوں کا بھی ہمارے لیے نہ لائے؟
“ہاں پیاری یہ تو بڑی بھول ہو گئی، معاف کرنا”۔
میں نے سب معاف کیا، میں تومعاف کرنے کے لیے بنی ہی ہوں، مگر ان بچوں نے کیا قصور کیا تھا کہ ان کو بھول گئے؟ جب سے بی ہمسائی میلے کا نام لے کے گئی ہیں، بچوں نے آفت کر دی۔ ابا میلے سے یہ لائیں گے، ابا میلے سے وہ لائیں گے، یہی کہتے کہتے بچارے سب کے سب سو گئے۔ اور وہاں سے ابا آئے تو خالی ہاتھ، موئے دو پیسے کے مٹی کے کھلونوں میں کون چھپن ٹکے کا خرچ تھا جو نہ لائے؟ اب صبح دیکھنا بچے کیسا منہ دیکھ کر رہ جائیں گے؟
“خیر چوڑیوں تک تو ایک بات تھی، یہ میں کھلونے کیونکر لاد کے لے آتا؟”
اے یہ کہو کہ لانے کو جی نہ تھا، اے رومال میں لپیٹ لاتے۔ کوئی کیا علم غیب پڑھا تھا جو جان لیتا؟ اور جو جان ہی لیتا تو اس میں شرم کی کون سی بات تھی؟ ابا ہمارے تھے، کبھی خالی ہاتھ ڈیوڑھی کے اندر انھوں نے قدم نہیں رکھا، کچھ نہیں تو دھنیا یا پودینے کی دو گڈیاں ہی لاکے اماں کے آگے رکھ دیں، اور نہیں تو ریوڑی ہی سہی۔ جیب سے نکالی اور ہم لوگوں کے ہاتھ میں دھر دی۔
“تو وہ افیمی تھے، میں کہاں سے لاؤں ریوڑیاں، افیم کی گولی تو نہیں دے دی کسی دن؟”
یہ دیکھو، اب تم بزرگوں تک پہونچنے لگے! نشہ میں تم ہی نے شراب کی بوتل دے دی ہوگی کسی دن وہی تم کو یاد ہے۔
“میں شراب کب پیتا ہوں؟”
پیتے ہی ہوگے، میری بلا جانے اس کو۔ دیکھو میں کہے دیتی ہوں یہ باپ دادا کی دل لگی مجھ سے نہ سہی جائے گی۔ کہہ دیا ہے، اپنی موت بھول گئے ہو جو مردے کی برائی کرتے ہو۔ لیجیے صاحب ،جس دن سے میں بیاہ کے آئی اور چھ برس وہ اس کے بعد جیے، پانی تک تو انھوں نے اس گھر کا پینا روا نہیں رکھا، کبھی پیسے کے شرمندہ اِن کے نہیں ہوئے۔ جب آئے آپ ہی کچھ سلوک کر گئے اور یہ چلے ہیں برائی کرنے۔ ہو تو لے کوئی ہمارے باپ کا ایسا، اور یوں تو سب اپنی ناک سوا ہاتھ کی سمجھتے ہیں۔
شوہر صاحب فرماتے ہیں کہ آج میں بہت خستہ تھا لہذا تمام لکچر نہ سن سکا اور سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ ہمارے سسر صاحب تشریف لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری لڑکی کو فوراً رخصت کر دو۔
نواں باب
شوہر صاحب کو دراصل دیر ہوگئی ہے، بیوی نے غصہ میں دروازہ بند کر لیا۔ پانی بہت برس رہا تھا، شوہر صاحب اچھی طرح شرابور ہو لیے تو دروازہ کھولا۔ شوہرصاحب کا غصہ، بیوی کا جواب ترکی بہ ترکی۔
بیوی کنوڑیا کھولو
رس کی بوندیں پڑیں
“لاحول ولا قوۃ، یعنی سنا کیں اور دروازہ نہ کھولا، یہ کیا مذاق تھا؟”
مذاق کیسا؟ مذاق دل لگی میں نہیں کرتی اور مذاق دل لگی جو کرتے ہیں ان کو بھی میں جانتی ہوں۔ کیا میری آنکھیں پھوٹ گئی ہیں جو تم سمجھتے ہو کہ یہ باتیں میں نہیں دیکھتی، مگر مجھ سے مطلب؟ جو جی چاہے کر لو۔
“فضول بیکار بک بک مت لگاؤ، یہ بتاؤ کہ تم نے دروازہ کیوں نہیں کھولا؟”
دروازہ کھولتی میری بلا! میں یونہی دن بھر مرتی کھپتی ہوں۔ اب رات کو بھی آرام نہ کروں؟ اور ان کے لیے مسٹ مارے بیٹھی رہوں۔
“اچھا خیر، میں کہے دیتا ہوں کہ اگر اب کی مرتبہ ایسا ہوا تو بس دیکھ لینا”۔
دیکھ کیا لیں گے؟ کیا دکھا دوگے؟ کیا ماروگے؟ اس کا خیال بھی نہ لانا دل میں، تم نے ہاتھ اٹھایا اور نہ نکل پڑوں دن دہاڑے باہر تب ہی کہنا، اب جڑ سے کٹ جائے گی، یہ غرّے ڈبے کسی اور کو دکھلانا۔
“اچھا ان فضول باتوں سے کیا فائدہ؟ کل سے کھڑکی میں باہر سے قفل لگا کر کنجی اپنے پاس رکھا کروں گا اور اندر سے کنڈی ہی نکلوا ڈالوں گا۔ کل ہی صبح بڑھئی نہ لگاؤں تو سہی”۔
یہ بھی کر کے دیکھ لو، میں ابھی اپنے میکے نہ چلی جاؤں تو سہی، لگاؤ تو تم کنڈی۔ یہ دیکھیے صاحب، اب بی بی بچے قید فرنگ میں رکھے جائیں گے کہ جب میاں آئیں تو دروازہ کھلے، نہیں ڈھابلی بند۔ ایسا ظلم تو میں نے آج تک سنا نہیں۔ گھر کے کاروبار کے لیے دروازہ کھلا نہ رہے گا، تو یہ کہو اب پڑوسنوں کو جو آنا ہوگا وہ مردانے سے ہو کر آیا کریں گی۔ ایک تو یونہی کوئی تمھارے گھر میں جھانک کے نہیں دیکھتا تھا، اب تو اور بھی کوئی اس طرف نہ تھوکے گا۔ ایسے کبھی کبھی آدمی کی صورت بھی دیکھنے کو مل جاتی تھی اب تو اس کو بھی جی ترسے گا۔
گھرمیں آگ لگے، سانپ نکلے، کوئی آفت آئے یا دن دوپہر سڑک پر نکل کھڑی ہو، نہیں توگھٹ گھٹ کر مرو۔
میں ابھی سے کہے دیتی ہوں، صبح ہی میں اپنے میکے چلی جاؤں گی۔ اپنے بچے لو، اپنا گھر سنبھالو، مجھ سے کوئی واسطہ نہیں، چاہے اس میں آگ لگے چاہے جو ہو۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ میاں باہر کے مالک، گھر کے اندر بی بی ہوئی تو وہ مالک۔ یہ تو آج تک نہیں دیکھا کہ کوئی اپنی سہرے جلووں کی بی بی کو مرغی کی طرح ڈھابلی میں بند کرے۔ یہ کوئی اور ہوں گی اس طرح داد بے داد اٹھانے والیاں، مجھ سے اس کی برداشت کہاں؟ جی چاہتا ہے پانی پی کر کوسوں ان موؤں کو جنھوں نے مجھے اس طرح بھاڑ میں جھونک دیا۔
“خوب کوسنے دو، ہم خوش ہمارا خدا خوش”۔
جب جی چاہے گا دیں گے، کچھ تمھارے کہنے سے دیں گے؟ یہ تو میں جانتی ہوں کہ تم ہمارے لوگوں کے خون کے پیاسے ہو، نہ معلوم انھوں نے تمھارا کیا بگاڑ رکھا ہے جو اس طرح جانی دشمن ہوگئے؟ نہ تمھارے لینے میں نہ دینے میں، مگر ناحق کو خار کھاتے ہیں ان کے نام سے۔ کبھی جو اماں بچوں کے دیکھنے کو چلی آتی ہیں دن بھر ناک بھویں چڑھی رہتی ہیں۔ تمھارا ایسا سسرال والوں کا دشمن تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ مجھی سے پھرے پھرے معلوم ہوتے ہو، اسی وجہ سے یہ سسرال والے بھی نہیں دیکھے جاتے۔ ذرا سی دیر ہو گئی دروازہ کھلنے میں اس کے اوپر یہ آفت۔ شام سے دم مارنےکی فرصت نہیں۔ جو ذرا دھندے سے چھٹی ملے تو آرام کیسے کروں؟ میاں کے انتظار میں در سے لگی کھڑی رہو تو خوش، نہیں چیتھڑوں سے بیزار۔ اسی جاگنے نے تو مجھے بیمار ڈال دیا۔ ایک دن کا ہو تو کوئی کہے، روز کا یہی قرینہ ٹھہرا۔ کوئی ایسی ہی منحوس رات ہوتی ہوگی جو ایک بجے کے ادھر آتے ہوگے اور پھر جاگو تو جاگو نہیں یہ خفگی انگیز کرو۔ یہ مزاج داری تو میں بادشاہ کی بھی نہ کروں، تم بیچارے کون کھیت کی مولی ہو؟ اپنا آرام اپنی آسائش کھو بیٹھے ان کے لیے اور یہ انعام ملا کہ چاہے بیمار ہو چاہے حیران ہو دروازہ کھلنے میں دیر کیسے لگے؟ آج مہینہ بھر سے ساری رات کھانستے گذرتی ہے، اتنا کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیسی ہو؟ ابھی ذرا سی انگلی اپنی دکھتی ہو تو حکیم بھی ہوتے، ڈاکٹر بھی، پُوِلٹس بھی، ہائے ہائے بھی۔ کیا کچھ نہ ہوتا؟ مگر سچ ہے کوئی اپنا نہیں، سب اپنا آرام چاہتے ہیں۔
“میں نے کھانسی وانسی نہیں سنی، کھانسی ہوتی تو میں بھی تو کبھی سنتا؟”
تم کاہے کو سنتے؟ تمھاری بلا کو کیا غرض تھی کہ تم سنتے؟ اور پھر تم سنتے تو نہیں نہیں کرکے دو ایک پیسے “رب السوس” ملٹھی میں خرچ ہی کرنے پڑتے، یہاں جان پر بھی بن جائے تو تم یوں ہی انجان بنے رہو گے۔ یہی تو امید ہے مجھے تم سے، تم سوچتے ہوگے کہ مر ہی جائے کہیں کمبخت، کال کٹے ہے، اب تمھاری دعا پوری ہی ہوگی، میں بہت تھوڑی جیوں گی۔ ایک میں یونہی دو ہڈی کی آدمی تھی اور دوسرے برا نہ ماننا، تمھارے برتاؤ نے اور بھی مجھ کو مار اتارا، خیر یاد کرو گے جب مر جاؤں گی۔ جب دوسری آئے گی تو میری قدر ہوگی ابھی نہیں۔ کسی چیز میں میرا سا برتاؤ اس کے ساتھ کرکے دیکھنا، نہ کھانا پانی حرام کردے تب ہی کہنا۔ ہاں ہاں میں جانتی ہوں تم ہنس رہے ہو، خوش ہو رہے ہو۔
“اے لو تم نے کیسے جانا کہ میں ہنس رہا تھا؟”
اے چرپائی کے ہلنے سے، منہ کی جنبش سے اور کیسے جانا؟ خیر خوش ہو، منت مانو کہ گھی کے چراغ جلائیں گے جو یہ مرجائے گی، میرا بھی جی سیر ہو گیا ہے۔ اب مالک اٹھا ہی لے تو بہتر ہے اس طرح کے جینے سے۔
“خدا نہ کرے کہ اٹھالے، یہ آخر تم اس طرح کی باتیں کیوں کرنے لگیں؟”
اس طرح کی باتوں پر موقوف نہیں، اب میرا جی بھی بھر گیا ہے۔ تمھاری طرف سے ایسی بے پروائی ہونے لگی کہ جیسے محبت ہی اٹھ گئی۔ تمھیں یاد کرو ایک زمانہ وہ تھا کہ جو میں تھی وہ کوئی اور نہیں اور وہی اب ہوں کہ مجھ سے تم پھٹکے ہی پھٹکے رہتے ہو۔ کہیں کلب گھر ہے، کہیں فرامشن ہے، یار ہیں، دوست ہیں۔ اور مجھ کو بڑی فکر اس بات کی ہے کہ تمھارا تو یہ حال ٹھہرا، میرے بعد ان بچوں کی خبر کون لے گا؟ محلے والے ترس کھا کر منہ دھلا دیں گے، کرتی اوڑھنی کی پھونک سی دیں گے۔ اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتے ہیں؟ رہا کھانا، اس کی فکر لینے والا اللہ ہے۔ اول تو گھر میں چیز بست کیا ہے؟ اور جو تھوڑی بہت ہے بھی وہ محمد حسین اور ان کے ہوتے سوتوں کے نیگ لگے گی۔ یہ بچے معصوم بیچارے بھیک مانگیں گے، مگر اتنا میں کہے دیتی ہوں کہ اگر تم نے دوسرا بیاہ کیا تو ان بچوں کے خیال سے میری پیٹھ قبرمیں نہ لگے گی، تم ان کو پڑھوا لکھوا کے بیاہ شادی کرکے پروان چڑھا دینا، پھر جو جی چاہے کرنا۔ نہ میں ہوں گی نہ منع کروں گی۔
شوہر صاحب کا بیان ہے کہ الحمد للہ خلاف امید آج وہ خود سو گئیں اور لکچر تمام ہو گیا۔ گو کہ کھڑکی میں باہری زنجیر کا ارادہ مصمم تھا مگر “ارادۃ اللہ غالب علی ارادۃ الناس”، نہ لگا سکے۔
دسواں باب
بچوں کے لیے سرمائی کپڑوں کا بجٹ اور اس کی منظوری
سرمائی دلائیے ہماری ورنہ
تم کھاؤگے کوسنے جو ہم کھائیں گے ٹھنڈ
تم جانتے ہو کہ میری عادت مانگنے کی نہیں، اگر میری بات ہو تو میں مصیبت اٹھالوں، مگر مجھ سے کہتے نہیں بنتا۔
“اچھا تمہید ختم کرو اور مطلب کہہ چلو”۔
مطلب کیا کہہ چلوں؟ جو تم اپنے گھر بار کو دیکھتے تو مجھ سے مطلب کیوں پوچھتے؟ دیکھ لیتے کہ بچوں کی کیا حالت ہو گئی ہے۔
“خیریت تو ہے کیا حالت ہو گئی ہے؟”
حالت کیا ہوگئی؟ یہی حالت ہو گئی کہ جاڑے سر پر آپہنچے اور ایک کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ مجھے برا بہت معلوم ہوتا ہے تم سے بار بار کہتے مگر۔۔۔۔۔۔۔
“تو پھر کہتی کیوں ہو؟”
کہوں کیسے نہ؟ سنکھیا گھول کے گھر بھر کو پلا دو تو نہ کہوں۔ جب تک جان میں جان ہے روٹی کپڑے کے خرچ سے نجات نہیں۔ خدا جانتا ہے اگر میرے پاس کچھ بھی ہوتا تو یوں میں فقیروں کی طرح روز سوال نہ کرتی۔ گو کہ روٹی کپڑا تمھارے ذمے ہے مگر میں نہ مانگتی۔ لیکن مجبور ہوں، بے پیسے کوڑی کے عورت نگوڑی کسی شمار میں ہے؟ پیسے پیسے کے لیے مصیبت اٹھانی پڑتی ہے۔ اپنے پاس ہوتا صندوقچہ کھولتی اور نکال کے دے دیتی۔ تمھارے ہی لڑکوں کے لیے مانگتی ہوں، کچھ قبر میں تھوڑی لے جاؤں گی؟ تمھارا جی چاہے دو جی چاہے نہ دو۔ دو گے بزّاز کے یہاں سے کپڑا منگوا کرقطع کردوں گی، سی دوں گی۔
نہ دوگے تمھارے ہی بچے جاڑا کھائیں گے، لنگوٹی باندھے پھریں گے، مجھے کیا؟ دیکھو سونے کا سامان ابھی سے نہ کرو، میری بات کا جواب دے لو تو سونا۔ میں کہتی ہوں تم کو معلوم ہے کون مہینہ ہے یہ؟
“مہینہ پوچھ کے کیا کروگی؟ مطلب کہو”۔
مطلب یہی کہ جاڑے کا مہینہ کاتک ہوتا ہے نہ؟ کہو نا۔ تو اب کچھ جڑاول کا بھی سامان کروگے یا نہیں؟
“کرنا ہی پڑے گا، جب تک پار سال کے کپڑے پہناؤ، کچھ ملے گا تو نئے بھی بنوادیں گے”۔
پار سال کے گرم کپڑے ہیں کہاں؟
“کیوں کیا ہوئے؟”
پھٹ گئے، چھوٹے ہوگئے، اور کیا ہوئے؟ اب کے ما شاء اللہ ایک اور بڑھ گئے پہننے والے۔
“اچھا تو میں بتاؤں جو کپڑے تنگ ہو گئے ہیں وہ چھٹن کو پہناؤ، اوروں کے بن جائیں گے”۔
لے معاف رکھیے، اس کے کپڑوں سے آپ کو مطلب نہیں۔ یہ تو کوئی سنے؟ پرانے کپڑے اس کو میں پہناؤں گی۔ اس کے کپڑوں میں خرچ ہی کیا ہے جو تم ابھی سے اس کو شمار میں لانے لگے؟ تم کو پرانے کپڑے پہنانا ہیں تو جب میں مرجاؤں گی پہنا لینا۔ اپنے جیتے جی تو میں اس کو اچھا ہی پہناؤں گی۔ اور تم کو کہتے ہوئے بھی برا نہ معلوم ہوا کہ ابھی چھ مہینے کی تو اس کی جان۔ ایسی کون مصیبت پھٹ پڑی ہے جو اس کے دشمن ابھی سے چیتھڑے لگائیں۔ اب جو اس کے کپڑوں کے لیے کبھی تم سے کہوں تب ہی کہنا۔
“اچھا بھئی ہوگا۔ اب یہ بتاؤ کہ کتنا خرچ ہوگا؟ روپیہ مجھ سے لو۔۔۔۔۔۔”۔
میں کیا کروں گی روپیہ لے کے؟ کیا کچھ میرا کام ہے؟ تمھارے ہی لڑکوں کا کپڑا بنے گا، میں جو بتاؤں تم لادو، بس۔
“نہیں مجھ سے نہ بنے گا، روپیہ لے لو اور خود منگوا کر بنالو، مجھ سے نہ طے کرتے بنے گا نہ حساب کرتے”۔
اچھا وہ خیر روپیہ ہی دے دینا۔ میں ہی منگوالوں گی۔ پہلے سن تو لو کہ کیا کیا بنے گا۔
“جو جی چاہے بناؤ، مجھے فہرست سنانے کی کوئی ضرورت نہیں، اسی مارے تو میں ٹالتا تھا، فہرست سے میرا دم الجھتا ہے”۔
واہ۔ اچھا آپ کا جی ہے کہ جب نئے کپڑے اللہ رکھے بنتے ہیں تب ہی آپ کا جی الجھنے لگتا ہے۔ تم کو شک بھی نہیں آتا یہ کہتے؟
“اچھا کہو میں سنتا ہوں”۔
کہوں کیا؟ بڑی لڑکی کی چار اوڑھنیاں آٹھ گز، منجھلی کی چار اوڑھنیاں آٹھ گز سولہ گز ہوئے؟ منی بھی کہتی ہے میں اوڑھنی ہی لوں گی، دو اس کی بھی رکھو تین گز؟ اس میں سے پٹی اترے گی؟ اس کی کلیاں کرتوں کی ہو جائیں گی۔ منی کے آٹھ کرتے، بڑے عرض کی تنزیب اگر ہوئی تو بارہ گرہ میں ایک کرتہ بنے گا۔ آٹھ کرتوں کے کئے گز ہوئے؟ بولتے نہیں (کہنی مارکے) سو ہی رہنا ہے تو پھر مجھےکیوں بکواتے ہو؟ میں پوچھتی ہوں بارہ بارہ گرہ کے حساب سے آٹھ کرتے کئے گز میں ہوئے؟
“چھ گز میں”۔
اچھا چھ گز میں۔ اب چھ کرتے چھ پائجامے بڈھن کے، ڈیڑھ گز میں پائجامہ، ڈیڑھ گز میں کرتہ، حساب لگاؤ۔
“چوبیس گز”۔
چوبیس گز: بارہ گز تنزیب، بارہ گز چھالٹین، چھٹّن کے لیے کوئی اچھا کپڑا ہو، کوئی اچھا کپڑا دیکھ کے لے آنا، دو کرتے فلالین کے ہوں گے، آخر جاڑے کی فصل ہے۔
“جھوٹی فلالین کے بنالو”۔
جھوٹی فلالین کے میں نہ بناؤں گی۔ تم ہی نہ بنا لو؟ وہی محلے میں دھنیے جلاہوں کے لڑکے پہنیں، وہی ہمارے لڑکے پہنیں۔ یہ مجھ سے نہ ہوگا، کسی اور سے بنواؤ۔
"بھئی بہت خرچ پڑ جائے گا۔ اچھا یہ کرو ایک ایک کرتا فلالین کا اور ایک ایک شلوکہ روئی دار”۔
روئی دار شلوکے میں بھی وہی بیٹھےگا، چاہے یہ کرو، چاہے وہ کرو۔ اب رہے لڑکیوں کے پائجامے، وہ کاہے کے بنواؤگے؟
“یہی معمولی چھینٹ”۔
اچھا چھینٹ سہی، مگر ایک ایک پائجامہ بھی تو جھوٹے مشروع کا ہو؟
“اچھا وہ بھی سہی”۔
اور بڈھن کی اچکن کاہے کی بنے؟
“اب صبح پوچھنا اس وقت نیند بہت آرہی ہے”۔
نیند تو تم کو روز ہی بہت آتی ہے، پھر جو تم اسی طرح سے نیند بلایا کروگے تو گھر کا کام تو بند ہوا، آخر یہ بھی ضروری کام ہے کہ نہیں؟ دن بھر تو تم کو قسم ہے گھر آنے کی، پھر اگر رات کو بھی تم سے نہ پوچھوں تو کب پوچھوں؟ اب یہ بتاؤ کہ بڈّھن کی اچکنیں کاہے کی بنیں گی؟
“جس چیز کی چاہے بناؤ”۔
دام تو تم دوگے۔ میرا جی کون چیز ہے؟ اور تمھارا یہ مطلب ہو کہ اس طرح کی لاپروائی سے میں گھر کا حال نہ کہوں گی تو یہ دل سے نکال ڈالو، بھگتنا تو مجھے پڑتا ہے، کہوں کیوں کر نہ؟ دو اچکنیں بڈّھن کی ہوں۔ ایک گرنٹ کی روئی دار اور ایک پھولدار مخمل کی۔
“جی نہیں جامے وار کی مع بنارسی بیل کے”۔
یہ مخمل میں کون ایسا صرف ہے جو تم نے جامے وار کا طعنہ دیا؟ غریب آدمیوں کے لڑکے تو مخمل پہنے پھرتے ہیں جو میں نے مخمل کو تجویز کیا تو کون سا گناہ کیا؟ جس پر تم نے یہ آوازہ کسا، آخر ایک اچکن کہیں آنے جانے کے لیے ہونی چاہیے کہ نہیں؟ یا وہی گرنٹ پہن کے عیدگاہ بھی جائیں گے؟ جواب دو؟
“اچھا وہ بھی سہی۔ سب کہنا ہو گیا؟”
سب جتنا ہوا ہو حساب لگالو۔ اور اے لو رضائی، لحاف تو رہ ہی گئے۔
“رضائی لحاف تو موجود ہیں”۔
اے وہ ہوں یا نہیں، آخر اب کی تیسرا سال ہے بنے ہوئے۔ نئے بننے چاہیے یا نہیں؟ اور ہیں کس جگہ؟ تمام روئی پھٹ پھٹ کر ادھر کی ادھر ہو گئی ہے، ایسے لحافوں سے بے لحاف بھلا۔
“اچھا پچاس روپیہ صبح دے دیں گے”۔
کیا کہا! کیا کہا! ذری پھر تو کہنا! پچاس روپیہ اور ماشاء اللہ سے گھر بھر کا کپڑا؟ تمھیں بنوانا، مجھ نگوڑی کی تو سمجھ میں بھی نہ آوے گا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں؟
“اچھا تو پھر کتنا لوگی؟”
میں کیا کروں گی لے کے؟ گھر بھر کا حساب میں نے بتلا دیا۔ اب تم آپ ہی خرید کر بنوا دو، مجھ سے پچاس روپیہ میں نہ ہو سکے گا۔
“یہی تو پوچھتا ہوں کہ پھر کتنا دوں؟”
اے سو روپیہ سے کیا کم ہو؟
“سو روپیہ تو اس وقت نہیں ہے”۔
نہیں ہے تو جانے دو، اب کی سال نہ بنواؤ، کوئی ہنسے گا ہنس لے گا، بچے سردی کھائیں گے کھا لیں گے۔
“اے بھئی کچھ تو کم کرو سو روپیہ سے۔ واللہ آج کل کام نہیں چلتا، نہیں تو میں ایسا نہ کہتا، پچھتر لے لو”۔
اچھا پچھتر ہی سہی، مجھ کو خود تمھاری تکلیف کا خیال رہتا ہے، مگر کیا کروں گھر کا خرچ رکتا ہی نہیں، جس طرح بنے گا پچھتر ہی میں گھٹا بڑھا کر کر لوں گی۔
مگر کچھ ہم کو بھی بنوا دوگے یا نہیں؟
“جوکہو”۔
کہوں کیا وہی ریشمی پائجامے کو جی چاہتا ہے۔
“اچھا”
اور وہ ڈھاکہ کی ململ؟
“وہ بھی سہی”۔
شوہر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آج شروع سے میں ڈر رہا تھا کہ بات بڑھے گی ضرور، مگر اول تو مجھے نیند بہت آرہی تھی دوسرے خرچ بھی ضروری تھا۔ ایک یہ البتہ نہ سمجھ میں آیا کہ صبح کو لڑکوں کی اماں میرے سر کی قسم کھا کر کہنے لگیں کہ ریشمی پائجامہ کے ساتھ تم نے ایک پڑاقے دار گوٹ کی دُلائی کا بھی وعدہ کیا تھا۔ کہتی ہیں تم نیند میں تھے مگر تم نے وعدہ کیا تھا ضرور۔
گیارھواں باب
لڑکوں کی اماں ایک روز کے لیے اپنے میکے گئی تھیں۔ شوہر صاحب نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر چند احباب کو مدعو کیا۔ دعوت کے بعد جو مکالمہ ہوا وہ ہدیۂ ناظرین ہے۔
رقعۂ دعوت
عیشے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند
یہ تو صاحب بڑے غضب کی بات ہے، ادھر میری آنکھ اوٹ ہوئی اور ادھر تم کھل کھیلے، ذری دیر اماں کو دیکھنے چلی گئی تھی کہ آفت آگئی۔ گھر کی صورت ہی بدل گئی، پہچان نہیں پڑتا کہ وہی گھر ہے۔ موئے بھنگیڑ خانے میں ایسی ابتری کیا ہوگی؟ کوئی چیز اپنے جگہ پر نہیں۔ جتنا اسباب ہے تتر بتر؟ یہی تو میں کہتی تھی کہ آج کیا ہے جو یہ مجھ سے کہتے ہیں کہ رات کو بھی اپنی اماں کے وہاں رہ جانا، رات کو آؤگی تو سردی میں زکام ہو جائے گا، بیمار پڑ جاؤگی۔ یہ مجھ کمبخت کو کیا خبر تھی کہ یہ ارادے ہیں اور یار دوستوں کی دعوت ہوگی۔ یہ کمبخت گھر میں رہے گی تو لطف نہ آوے گا، کسی طرح اس کو دفان کرو۔ یہ تو اب میری سمجھ میں آیا کہ یہ اصرار اسی وجہ سے تھا۔ اور حقے کی بو تو دیکھو، اس وقت تک گھر میں مچی ہوئی ہے، جدھر پھر کے دیکھو کولوں کا انبار ہی نظر آتا ہے اور باورچی خانہ کے باہر اللہ جھوٹ نہ بلائے کوئی سو سوا سو جلے گل پڑے ہوں گے۔ اے میں پوچھتی ہوں کتنے حقے تھے اور کتنے پینے والے موئے تھے جو اتنی تمباکو پی ڈالی؟ اور چاندنی تخت پر کل ہی بچھائی تھی، معلوم ہوتا ہے دو مہینے کی بچھی ہوئی ہے۔ اور پھر دو تین جگہ پیسے پیسے بھر جل بھی تو گئی ہے؟ یہ کیسے جلی؟ بولتے نہیں۔
“حقہ گر پڑا تھا”۔
اے لو حقہ گر پڑا تھا، آسمان نہ گر پڑا گرانے والوں موؤں پر؟ نئی چاندنی مٹیا میل کر کے رکھ دی۔ اور اے لو یہ تو میں نے دیکھا ہی نہیں، یہ نئے قالین کی گت؟ یہ بھی جل گیا؟ یہ کیسے جلا؟
“یہ بھی اسی حقہ سے جل گیا تھا، چنگاری پڑی رہ گئی، کسی نے دیکھا نہیں”۔
آنکھیں بھی پھوٹ گئی تھیں؟ اور آنکھ تو آنکھ میں کہتی ہوں ان نکٹوں کے منہ پر ناک بھی نہ تھی کہ غالیچہ جلا کیا اور ان کو خبر نہ ہوئی؟
“بو ہی سے تو پتہ چلا، قالین کے جلنے کا مجھے بھی افسوس ہے، مگر خیر اب تو ہو گیا”۔
اے افسوس تو تم کو گھر جل جانے کا بھی نہ ہو، یہ قالین کون بڑی چیز ہے؟ ایسا تو میں نے آج تک آدمی ہی نہیں دیکھا جس کو اپنی چیز کا درد نہ ہو، وہ کیا گھر رکھے گا۔ اور مجھے بھی ناحق ہی فکر ہے، جب تم ہی چاہتے ہو کہ گھر نہ رہے تو میری حماقت ہے جو میں اس طرح سے ایک ایک چیز سنبھال کے رکھتی ہوں۔ اب خدا چاہے تو ایسا قصور نہ ہوگا، گھر تمھارا، مال تمھارا چاہے رکھو چاہے پھینکو؟ میں بیچ میں بولنے والی کون؟ دعوت دنیا کرتی ہے مگر اس طرح گدھوں سے کھیت کوئی نہیں چرواتا۔ ابھی چوتھا روز ہے کہ شکر کی بوری آئی تھی، ایک مٹھی بھر شکر باقی ہوگی؟ یہ شکر کیا ہوئی؟
“شربت بنوایا تھا”۔
اور میری دوا کے لیے کاغذی نیبو آئے تھے وہ تو نہیں صرف کر ڈالے؟
“نہیں نیبو میں نے بازار سے منگوائے تھے”۔
یہی تو میں نے کہا بے ترشی شربت ان چٹوروں کے حلق سے کاہے کو اترتا، گھر میں چاہے گڑ کا شربت بھی نہ میسر آتا ہو مگر یہاں جب تک نیبو نہ ہو شربت ہی نہ پئیں گے۔ خدا نہ کرے ایسی دعوت کوئی کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ گھر میں بھونچال آیا تھا۔ جو چیز ہے ٹوٹی پڑی ہے، ایک گلاس ٹوٹا، ایک طشتری ٹوٹی۔ سنہرے کام والی پلیٹ میں بال پڑ گیا، میں اس کے جوڑ کی تلاش میں تھی یہاں وہ بھی گئی۔
“تو اس میں بال تو پہلے ہی سے پڑا تھا”۔
اے کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ کھاؤ تو میرے سر کی قسم کہ اس میں بال پہلے ہی سے پڑا تھا۔ یہ تو سب ایک طرف، جس بات پر بدن میں آگ لگ جاتی ہے وہ تو یہ ہے کہ نقصان کا نقصان کریں اور پھر اوپر سے چالبازی۔ دالان کے طاق پر والا چینی کا کھلونا دو ٹکڑے کرکے پھر اس کو ویسے ہی جما کے رکھ دیا کہ معلوم نہ ہو۔ ایسی چھچھوری حرکتیں، چھی چھی! اس وقت تک تو اتنا ہی نقصان کھلا ہے، اب دیکھیں کل کو کون کون چیزیں ٹوٹی ہوئی نکلتی ہیں؟ خیر بھئی ہوگا، ہم سے کیا مطلب؟ جس کا مال ہے جب اس کو خیال نہیں تو ہماری جوتی رنج کرے، جو کچھ بچا ہے خدا کرے وہ بھی نہ رہے، مگر دیکھ کے تاب نہیں رہتی، نقصان سے دل کڑھتا ہے تو منہ سے نکل ہی جاتی ہے بات۔ تم کو تو ایسی کے ساتھ بیاہ کرنا تھا کہ جو گھر لٹتے بھی دیکھتی تو منہ سے نہ بولتی۔ جیسی تمھاری طبیعت لا ابالی تھی، اگر ایسی ہی وہ بھی ہوتی تو اچھا تھا۔ نہ گھر میں ستھرائی دی جاتی، نہ لڑکوں کے سر اور کپڑوں کی خبر لیتی، نہ انھیں نہلاتی دھلاتی۔ ہر چیز تتر بتر یونہی پڑی رہتی تو تمھارا جی خوش ہوتا۔ خیر جب میں مرجاؤں گی تو ایسی ہی کے ساتھ بیاہ کر لینا پھر معلوم ہوگا کہ پھوہڑ اور سوگھڑ میں یہ فرق ہوتا ہے۔
آج میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ سو رہوں، لہذا میں سو رہا۔ لکچر نہ معلوم کب تک ہوتا رہا۔
بارھواں باب
“گھر میں ایک دور کی رشتہ کی مہمان آئی ہیں، بیوی کو بمصداق:
با سایہ ترا نمی پسندم
عشق است و ہزار بدگمانی
کچھ اور وسواس ہوا ہے، دن تو خیر لڑکوں کی ماں نے کسی طرح بسر کر لیا، رات کا سماں شوہروں کی تنبیہ کے لیے قلمبند ہوتا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔”
بنتی نہیں ہے بزم میں اس کی حیا کیے
بیٹھا رہا اگر چہ اشارے ہوا کیے
اللہ مجھے آنکھوں کی اندھی کانوں کی بہری پیدا کرتا تو اس سے اچھا تھا، نہ دیکھتی سنتی نہ دل کڑھتا، ان انگاروں پر زندگی بسر کرنے سے تو اچھا تھا؟ بلا سے کچھ نہ دکھائی دیتا، یہ تو نہ دیکھنا پڑتا؟ اور پھر گھر کے اندر۔ باہر کے تم مالک ہو جو جی چاہے کرو، گھر میں تو نہ کرتے۔
“یہ آج کیا نیا رنگ ہے؟”
وہی نیا رنگ ہے جو تمھارے دل میں ہے، اور کیا رنگ ہوگا؟ جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔
“مجھ کو تو کچھ نہیں معلوم، اتنا جانتا ہوں کہ جب تک رات کو تھوڑی دیر دنیا بھر کی بے سروپا باتیں نہیں کر لیتی ہو سونا نہیں ملتا، ایک رات تو ذری آرام سے پڑ رہنے دو”۔
ہائے اللہ پھر میں ہی بری، میری ہی چھاتی پر یوں کودوں دَلی جائے اور پھر میں ہی آرام نہیں لینے دیتی۔
“کچھ خیر ہے؟ یہ کہہ کس کو رہی ہو؟”
اے انھیں کو کہہ رہی ہوں جو بڑی نیک پارسا دن بھر ماموں ماموں کہتے کہتے منہ تھکاتی ہیں اور ہتھکنڈے یہ کہ بیسواؤں کے کان کاٹ لیے۔ خدا نہ کرے کسی کی آنکھ کا پانی یوں مر جائے۔ ایسی موئی تو پیدا ہوتے ہی مرجائے تو اچھا ہے، خاندان کا نام تو نہ ڈوبے۔ نہیں تو کسی کسبی بازاری کے گھر میں پیدا ہو۔ خدا نہ کرے کسی بہو بیٹی کے دیدے ایسے چربانک ہوں۔ اور پھر وہ دیدہ دلیری تو دیکھو کہ میرے ہی سامنے بن بات کی بات پر ہنسی۔ تم نے گھر میں قدم رکھا اور ان کے دانت نکل آئے۔ یوں چاہے گھی کے گھڑے ڈھلک جائیں وہ بندی جگہ سے نہ ٹسکے گی، اور ادھر تم آئے اور ادھر آٹھ آٹھ مرتبہ آنگن میں چک پھیریاں ہونے لگیں۔ کہیں یہ کام کہیں وہ کام، اور پھر جو کام کریں گی تو تمھاری موجودگی میں بگڑ ہی جائے گا۔ پانی انڈیلیں گی تو اس طرح کہ آدھا گھڑا بہ گیا تو کٹورا بھرا۔ پھر اس پر قہقہہ۔ وہ تو دیکھ کے آپے ہی میں نہیں رہتیں۔ بات کریں گی تو چہرے کی حالت ہی اور ہو جائے گی۔ اللہ خاک میں ملا دے اس چہرے کو جس کے باعث دوسروں کی بربادی ہو۔ اچھے خاصے آدمی سڑی ہو جائیں کہ آدمی کا ڈر رہے نہ خدا کا۔
“یہ تم ہذیان کیا بک رہی ہو؟ اول تو جتنی باتیں تم نے کہی ہیں ان میں سے میں ایک بھی نہیں دیکھتا اور اگر بفرض محال ہوں بھی تو کسی کے ہنسنے میں میرا کیا قصور؟”
اے تمھاری بھی تو صورت بدل جاتی ہے ان کو دیکھ کر، تمھاری بھی تو آنکھیں انھیں کو ڈھونڈھا کرتی ہیں۔ پان مانگیں گے تو انھیں سے، بیٹھیں گے تو اس طرح سے کہ سامنا انھیں کا رہے۔ کیا یہ باتیں میں نہیں دیکھتی ہوں؟ اتنا سِن آیا، اتنے دن کا سابقہ تمھارا ہے۔ کیا اتنی بھی نگاہ نہیں پہچانتی ہوں؟
“اس بدگمانی کی دوا لقمان کے پاس بھی نہیں ہے، میں کیا کر سکتا ہوں؟ تم زبردستی کہتی ہو کہ ہئی ہے۔ مجھ سے قرآن اٹھوالو جو میرے دل میں کوئی برا خیال آیا ہو”۔
قرآن کتاب میں کون ہوں اٹھوانے والی اور میں کیوں اٹھوانے لگی؟ مجھ کو کیا غرض؟ تم مختار ہو اپنے فعل کے، مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ اگر تمھارا دل مجھ سے بھر ہی گیا تھا تو میرے سامنے تو یہ نہ کرتے، آج نہ سہی کبھی تو ہم بھی کسی گنتی شمار میں تھے۔ اسی وقت کا خیال کرکے آنکھوں کی مروت باقی رکھتے۔
“یہ تمھارا خیال کدھر ہے؟ ادھر دیکھو، مجھ کو دنیا میں تم سے زیادہ کس کا خیال ہوگا؟”
یہ ناحق کو کہتے ہو، ہوگا کیسے نہیں؟ میں پانچ لڑکوں کی ماں، وہ ابھی جوان جہاں، کوئی پانچ برس مجھ سے چھوٹی، پھر نہ کوئی لڑکا بالا، میں تو الگنی پر ڈالنے کے قابل ہو جاؤں گی تب بھی وہ ایسی ہی پٹھیا بنی رہیں گی۔
“لاحول و لاقوۃ، تم نے یقین ہی کرلیا کہ مجھے ان سے لگاؤ ہے، تو اب یہ خیال تمھارے دل سے کیوں کر دور ہو؟”
دور اس طرح سے ہوگا کہ اس موئی سبز قدمی کو ہمارے گھر سے نکال دو۔
“اچھا تو صبح جب میں کام پرچلا جاؤں، تم کہیں جانے وانے کا بہانہ کرکے کسی اچھے اسلوب سے رخصت کر دینا”۔
ہائے یہی تو میں کہتی ہوں کہ اس وقت بھی تمھیں اس کا خیال ہے کہ مروت نہ ٹوٹے، چاہے بی بی کا دم نکل جائے، مگر آشنا کے دل پر کیسے میل آئے؟
“پھر وہی! آخر ذر اغور کرو، میں کیسے انھیں کھڑے کھڑے نکال دوں؟ کوئی بات ہے؟”
اچھا تم کو اتنے مروت ان کی ہے تو مجھی کو جانے دو۔ اپنی آبرو اپنے ہاتھ ہے، کیا فائدہ کہ سوت کے ہاتھوں جوتیاں کھالوں تب نکلوں؟ پہلے ہی نہ چوکھٹ چوم کے چلی جاؤں؟ اللہ تم کو تمھارے بچوں کے سر پر برقرار رکھے۔ تم وہ خیرسے رہو، میں سمجھوں گی کہ میرے دشمن ویسے ہوگئے۔
ناظرین! آج کا لکچر زبردست ہوا، وہ تھوڑی دیر رویا کیں اور پھر آپ چپکی ہو کے سو گئیں۔ مگر مجھ سے کچھ عذر کرتے نہ بن پڑا، بہت دیر تک جاگتا رہا۔ چونکہ آپ لوگ میرے راز دار ہیں لہذا اگر یہ راز بھی آپ کو معلوم ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ مجھ سے اور ان صاحب سے کسی طرح کا واسطہ نہ تھا اور نہ ہے۔ مگر لڑکوں کی ماں کے کہنے پر میں نے جو اپنے دل کو تولا تو معلوم ہوا کہ دراصل بلا ارادہ میرے دل میں ایک بات پیدا ہو گئی تھی اور گو کہ پان مانگنے اور سامنے بیٹھنے کا کوئی فعل میں نے عمداً نہیں کیا تھا مگر کوئی چیز دل کے اندر مجھ پر ضرور نفرین کر رہی تھی۔ چونکہ اس بیماری کی خبر مجھ کو ٹھیک وقت پر ہو گئی لہذا وہ مُسمَّاۃ بلطائف الحِیَل رخصت کر دی گئیں۔
تیرھواں باب
باہر سے گھر آتے وقت ڈاکیے نے ایک رسالہ جو نمونے کے طور پر آیا تھا شوہر صاحب کو دیا۔ شوہر صاحب نے خاصہ نوش فرمایا، بیوی گھر کے کسی کام دھندے میں مصروف ہو گئیں۔ شوہر صاحب پلنگ پر لیٹ کر اخبار دیکھنے لگے یہاں تک کہ بیوی تشریف لائیں۔
نئی تہذیب ہوگی مشرقی پتلے صنم ہوں گے
بہت نزدیک ہے وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے
یہ آج کس چیز کا مطالعہ ہو رہا ہے؟ کیا کوئی امتحان پاس کرنا ہے؟ جب امتحان کرنے کے دن تھے تب تو پاس نہ کیا، اب آموختہ پڑھنے سے فائدہ؟
“آموختہ واموختہ نہیں ایک اخبار نیا نکلا ہے، نمونہ کا پرچہ تھا۔ میں نے کہا لاؤ ذرا دیکھ لوں، ابھی رکھے دیتا ہوں اتنا پڑھ لوں”۔
اور اس کا نام کیا ہے؟
“نیا فیشن”۔
ہاں تو یہ کہو، یہی تو میں کہتی تھی کہ نیا فیشن آج کیسا نکلا ہے کہ سوتے وقت اخبار بینی ہو رہی ہے؟ کیوں صاحب تو اب یہ فیشن تو روز کا ہوا اور میں دن بھر کی تھکی ماندی سوؤں گی کیوں کر؟
“تم سو رہو میں ابھی ختم کیے دیتا ہوں، ایک ذرا یہ مضمون ختم ہو جائے”۔
مضمون گیا بھاڑ میں۔ میری بات سنو، تم جانتے ہو کہ مجھے تیز روشنی میں نیند نہیں آتی۔ اور بغیر تیز روشنی کے تم سے مضمون نہ پڑھا جائے گا۔ اگر تمھارا یہی دل چاہتا تھا کہ یہ کمبخت الگ سویا کرے تو ویسا ہی کہہ دیتے؟ ان چالوں سے کیا فائدہ؟ یہ تو میں جانتی ہی ہوں کہ تمھارا دل مجھ سے اکتا گیا ہے۔
“تم سے دل کیسے بھرے گا؟ میں ابھی ابھی رکھے دیتا ہوں، ذرا ٹھہر جاؤ”۔
ٹھہرے میری بلا (اخبار چھیننے میں آدھا ادھر اور آدھا ادھر)۔
“اے لو آخر نچ گیا نہ؟”
نچ گیا ہوگا جانے دو۔
اچھا تو لمپ کم کردوں؟
“کر دو”۔
تو تم ہی ہاتھ بڑھا کے کم کردو گے تم کیا حرج ہوگا۔۔۔۔۔۔؟ اے لو خفا ہو گئے، تمھیں ہمارے سر کی قسم بتاؤ خفا ہوگئے؟
“نہیں پیاری میں خفا نہیں ہوا”۔
اچھا تو تمھارا دل چاہتا ہی ہے تو دیکھو میں منع نہیں کرتی۔
“منع اور کیوں کر کرتیں؟ کیا آنکھیں پھوڑ دیتیں؟”
نوج۔ ایسی باتیں نہ کیا کرو، لمپ تیز کر لو میں اب کچھ نہ بولوں گی۔
“لمپ تیز کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ اب تو وہ تم نے پھاڑ ہی ڈالا؟”
میں نے تو نہیں پھاڑ ڈالا۔ میں نے اخبار لینا چاہا، تم نے اس زور سے پکڑا کہ نگوڑا کپڑا بھی ہوتا تو ٹکڑے ہوجاتا، کاغذ کی کیا بساط تھی؟ اچھا تو نہ پڑھو تو یہ توبتاؤ کہ اس میں لکھا کیا تھا؟
“کچھ نہیں ایسی ہی ویسی باتیں تھیں”۔
تو دیکھتے کاہے کو تھے؟
“یونہی دیکھتا تھا”۔
خوب ایسی ہی ویسی باتیں تھیں، یونہی دیکھتے تھے، یہ آخر پردہ داری کیوں ہے؟ کیا یہ بھی موا فرامشن ہوگیا؟ بولو میں پوچھتی ہوں اس میں کیا لکھا ہے؟
“ہوگا بھئی کسی بارے میں، اب چپ چاپ پڑ بھی رہنے دوگی کہ کہیں اور جا کے پڑ رہوں؟”
تو یہ ناحق کا غصہ کیوں کرتے ہو؟ میں ہی نہ علاحدہ جا کے مر رہوں؟ تم کاہے کو اٹھوگے؟ ادھر میں کئی دن سے دیکھ رہی ہوں کہ تمھاری طبیعت بدلی ہوئی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر رنج کرتے ہو، ہنسی کی بات بھی ہو تو تم منہ پھلا لیتے ہو۔ یہ آخر کیا بات ہے؟ ابھی اس دن بھی باتوں ہی باتوں میں تم رنج کر بیٹھے، آج بھی وہی ہوا۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ کیا یہی نیا فیشن ہے؟
“نہیں کوئی بات نہیں، یونہی کام وغیرہ آج کل زیادہ ہے”۔
اچھا تو جانے دو، اب ذرا اپنے نئے فیشن کے اخبار کو تو سناؤ، آخر اس کے اغراض کیا ہیں؟
“اغراض اس کے یہی ہیں کہ چونکہ زمانے کا رنگ بدل گیا ہے لہذا وضع قطع تراش خراش نئی نئی ہونی چاہیے، اسی طرح کی باتیں ہیں”۔
یہ عورتوں کے کپڑوں سے اخبار کو کیا واسطہ؟ جو یہ موا ہم کو سکھانے آیا ہے۔ یہ ہوتا کون ہے ہمارے کپڑوں کا ذکر چھاپنے والا؟ اور واہ رے عزت مردوں کی کہ اپنی عورتیں یوں بکھانی جاتی ہیں اور تم لوگ ہنس ہنس کے پڑھ رہے ہو؟ خوشی خوشی اخبار خریدا جاتا ہے، ماں بہنوں کے چھوٹے کپڑوں، بڑے پائنچوں کا پردہ فاش کیا جاتا ہے اور آپ خوش ہو رہے ہیں۔ واہ کیا عزت نئے فیشن کی ہے؟ اور کیا لکھا ہے؟
“اور یہ لکھا ہے کہ برقع پہن کر اگر عورتیں باہر نکلا کریں تو بہت بہتر بات ہے، علم کو ترقی ہوگی، تعلیم زیادہ پھیلے گی”۔ تعلیم کسبیوں کے یہاں ہوتی ہے۔ شریفوں کے یہاں تو سنا نہیں کہ استاد جی نوکر ہوئے ہوں۔ اب جو نہ ہو تھوڑا ہے، شرم ہی سے سب کچھ ہے۔ جب تم لوگوں نے وہی بھون کھائی تو سب کچھ ہی ہوگا۔ اور اللہ کی مار اس اخبار والے موئے پر جو ایسی باتیں چھاپ چھاپ کر سب کے پاس بھیجتا ہے۔
“بھیجتا کاہے کو ہے؟ لوگ منگواتے ہیں”۔
وہ کون لوگ ہیں جو منگواتے ہیں؟
“میں تم سب ہی خریدتے ہیں”۔
تم ایسے خریدتے ہوں گے؟ میں تو لاکھ برس نہ منگواؤں اور تم کو بھی نہ منگوانے دوں گی۔
“کیوں؟ آخر اس میں کیا حرج ہے؟”
اے لو ابھی سے نیا فیشن بدل گیا؟ ایک ہی دن کی اخبار بینی میں یہ کایا پلٹ ہو گئی۔ کہتے ہیں کیا حرج ہے؟ اگر اس میں حرج نہیں تو حرج ہے کاہے میں؟ ایک دن میں یہ ہوا ہے تو میں جانتی ہوں کچھ دنوں پڑھ کر مجھ سے کہو گے کہ مونڈھا بچھا کے بیٹھو۔ لے اب اخبار رہے اس گھر میں یا میں ہی رہوں۔ میرے سر پر ہاتھ رکھو کہ آج سے یہ موذی اخبار خدائی خوار کی صورت نہ دیکھوں گا تو میں گھر میں رہوں گی، نہیں تو کچھ کھا کے سو رہوں گی۔ آبرو پر سے جان قربان کی ہے، جب اسی کے لالے پڑ گئے تو زندگی پر تین حرف ہیں۔
“آبرو جانا کیسا۔ ترکی میں۔۔۔۔۔۔”
ترکی رومی تو میں جانتی نہیں، سیدھی سادھی بات جانتی ہوں کہ جب تم نے یہ کہا کہ باہر نکلنے میں حرج ہی کیا ہے تو آبرو رہی کہ گئی؟ یا تو میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ، نہیں مجھ سے نہ رہا جائے گا۔ میں عورت ذات بے بس چیز، تم اپنے اخبار کے جوش میں کسی دن یار دوستوں کو اندر بلالو تو میں تو کہیں کی نہ رہی، نہ میکے میں منہ دکھانے کے قابل رہوں گی نہ سسرال میں۔
ناظرین! آخر وعدہ ہی کرتے بنی کہ میں خود اس اخبار ناہنجار سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہ رکھوں گا اور جو شخص اس سے واسطہ رکھے گا اس سے اور اس کے واسطے والوں سے مجھ سے آج یا کسی وقت کوئی سروکار نہ ہوگا (پرچہ کلب کے پتہ سے جاری ہوگا)۔
چودھواں باب
آج شوہر صاحب فری میشن کے ایک جلسے میں شریک ہوئے ہیں کوئی چندہ ہونے والا تھا، اس خیال سے شوہر صاحب نے بٹوہ کپڑوں کی جیب میں رکھ دیا تھا، وہاں پہنچ کر بٹوہ جیب میں نہ پایا، سمجھے کہ راستے میں کوئی شخص نکال لے گیا، یہاں تک کہ گھر واپس آئے اور راز کھلا۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
کھو دیں چندے میں جو یوسف سا برادر پائیں
کیا کہوں؟ خدا نے مجھے عورت بنایا، جومرد وا ہوتی۔۔۔۔۔۔
“جو مرد وا ہوتیں تو میرا دل بہت خوش ہوتا؟”
تمھارا دل کیوں خوش ہوتا؟
“یوں ہی”
یوں ہی نہیں بلکہ اس واسطے کہ میں بیاہ کے نہ آتی تمھارے گھر، کیا میں مطلب بھی نہیں سمجھتی؟
“یہ مطلب نہ تھا میرا، تم نے ایک بات کہی وہی الٹ کے میں نے بھی کہہ دی؟”
یہ تم نے الٹ کے کہی کہ آج پھر روز کے جھنجھٹ کا ڈھنگ ڈالا؟ دن بھر تو میں کام دھندھے میں مروں پھروں، رات کو بھی سونا نصیب نہ ہو؟ لیجیے صاحب دعا مانگی جاتی ہے کہ خدا کرے میں مرد وا ہو جاؤں، ایسے بھی کسی کے پیچھے نہیں پڑ جاتے، ایسا بھی کسی کو بے بس کر کے نہیں جلاتے ہیں۔
“لے بھلا میں نے کیا کہا تھا جس پر تم نے اتنی بڑی بات کہہ دی؟ تم نے نہیں کہا تو میں نے کیا کہا؟ ”
تم نے کچھ کہا ہی نہیں اپنے نزدیک؟ اور کیا کہتے؟ کیا لاٹھی مارتے یا جھونٹے پکڑ کے باہر نکال آتے؟
(شوہر صاحب نے اونھ کرکے کروٹ پھیرلی)
میں جانتی ہوں جس بات پر ناک بھوں چڑھائے ہو، مگر جو غور کرو تو تمھارے ہی فائدہ کے لیے کیا تھا، کوئی اپنے نفع کی بات نہیں کی تھی۔
“کون بات؟”
وہی بٹوے والی۔
“کون؟”
اے وہی جو بٹوہ میں نے رکھ لیا تھا، اسی کا تو غصہ ہے؟ اب یہ دانت پیس پیس کر لمبی لمبی سانسیں نہ بھرو، میں نے یہی خیال کرکے تو جیب سے نکال لیا تھا کہ وہاں کسی واہی تواہی چندے میں پھینک آؤگے۔ نہ دین کا نہ دنیا کا، اسی مارے میں نے نکال لیا تھا۔
“تو یہ کہیے کہ بٹوہ آپ ہی نے نکال لیا تھا؟ یہ تو اب مجھ کو معلوم ہوا، مگر تم نے بڑی نالائق حرکت کی، آج مجھ کو بڑی خفت اٹھانا پڑی، تم کو اپنے شوہر کی آبرو کا بھی خیال نہیں؟”
آبرو کا اس میں کون بیچ تھا؟ آبرو کا اگر خیال ہوتا تو ایسی جگہ جاتے ہی کیوں جہاں بے آبروئی کے خیال سے لوگ عورتوں کو نہیں لے جاتے؟
“خیر یہ تو پرانی بات ہے کہ عورتیں فریمیشن نہیں ہوتیں اس لیے فریمیشنری بری چیز ہے۔ مگر یہ بتاؤ تم کو کون سی دولت مل گئی اس حرکت سے جو میں چار ہم چشموں میں شرمندہ ہوا؟”
اسی چار ہم چشموں میں شرمندگی کے خیال سے تو میں نے بٹوہ رکھ لیا تھا۔ جانتی تھی کہ جو کچھ گھر کی جمع پونجی ہوگی وہاں حوالے کر آؤگے؟ دو چار جلسے فرامشن کے یوں ہی ہوں تب البتہ آبرو جائے گی؟ اور تب ہی تمھاری آنکھ بھی کھلے گی کہ ہاں ہم چشموں میں خفت اس طرح کی ہوتی ہے۔ جب روپیہ پیسہ چندوں میں اڑ جائے گا اور میاں کھکھ رہ جائیں گے اس وقت پھر نئی بھائی بندی والے بھی نہ پوچھیں گے۔ اس وقت تک کی بھائی بندی ہے جب تک جیب میں چار پیسے ہیں۔
“لاحول و لاقوۃ تم نے فریمیشنری کو بھی وہ جان لیا ہے۔ یہی تو دنیا میں ایک جلسہ ہے جس میں امیری غریبی کا فرق نہیں”۔
بس رہنے دو، ناحق منہ کھلواتے ہو، ابھی اسی روز اخبار میں فخریہ پڑھ کر مجھے سنا رہے تھے کہ دعوت میں صدر نشینی عالیجناب برادر معظم نواب فلاں صاحب نے قبول فرمائی ہے۔ اگر فرامشنی میں روپے کا خیال نہیں ہے تو اتنے بھائی بندوں میں ان کو کیوں صدر نشینی ملی؟ تم کو کیوں نہ مل گئی؟ اور پھر یہ بھی کہ اور سب کے نام کے آگے خالی برادر اور ان کے نام کے آگے معظم کی مثال بھی روشن، یہ دولت کی وجہ سے نہیں تو اور کیا ہے؟
“(دراصل غصہ میں) زیادہ بک بک مت کرو، میں نے کہہ دیا کہ جس چیز کی واقفیت نہ ہوا کرے اس میں بحث ہی کرنا فضول ہے، مگر تم نہیں مانتیں”۔
مانوں گی کیسے نہ؟ کمزور مانے گا نہ تو کرے گا کیا؟ مگر زبان تو نہیں رکے گی، بس اتنا اپنے دل میں تول لو کہ اسی طرح میں بھی کہیں بہناپا قائم کر آؤں تو کیسی مرچیں لگیں؟
“قائم کیوں نہیں کر آتیں؟ تم کو کسی نے منع کیا ہے؟”
جانتے ہو کہ نہ قائم کرے گی، نہیں تو ایسا نہ کہتے۔ ابھی کوئی کام تم سے چھپا کے کروں تو تمھارے دل میں سو طرح کے وسوسے آئیں گے، چاہے چرا کے نماز ہی کیوں نہ پڑھنے جاتی ہوں، ایسا ہی دوسرے کا دل بھی جانو۔ میں سچ کہتی ہوں جتنی دیر تم جادو گھر میں رہتے ہو میرا دل نہیں ٹھکانے ہوتا ہے، نہ معلوم کیا کیا شک پیدا ہوتے ہیں۔
“ناحق کو شک پیدا ہوتے ہیں، اس میں شک کرنے کی کون سی بات ہے؟”
ہے کیسے نہیں؟ ایک تو اس کے نام ہی سے وحشت معلوم ہوتی ہے، بچپن سے سنتے آئے ہیں جادو برحق کرنے والا کافر؟ اور پھر یہ بات کہ عورت نہیں شریک کی جاتی، دنیا بھر میں کوئی کام ایسا نہیں جو بغیرعورت کے ہاتھ لگے بنتا ہو۔ جو کام بے عورت کی مدد کے ہوگا خدا ہی نے کہا ہے کہ خراب ہوگا، بابا آدم پہلے پیدا کیے گئے جب دیکھا کہ بغیر ماما حوا کے کام نہ چلے گا، وہ پیدا کی گئیں۔
“جی ہاں جبھی تو دونوں جنت سے نکال باہر کیے گئے”۔
اب یوں کہنے کو چاہے کہو مگر قائل ہوگئے ہوگے دل میں؟ نکالے گئے تو اس میں ماما حوا کا کیا قصور تھا؟ اور یہ تو صاف بات ہے اگر ان کا قصور ہوتا تو چھوڑ نہ دیتے ایسی عورت کو؟ خیر یہ باتیں تو اور ہیں اب یہ بتاؤ کہ چندہ وندہ تو نہیں تھا آج؟
“تھا کیوں نہیں؟”
تو پھر تم نے تو نہیں دیا؟ بولتے کیوں نہیں؟ تمھارے مسکرانے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دے آئے ہو جیسے؟ تمھیں ہمارے سر کی قسم۔
(گردن ہلا کے رہ گئے)
پہیلیاں نہ بجھواؤ، منہ سے بولو؟ روپیہ کہاں تھا جو دے آئے؟
“چک بک پڑی تھی میری جیب میں”۔
ہاں تو یہ کہو، بنک گھر سے روپیہ نکلوایا گیا ہے۔ ہاں ٹھیک تو ہے اس میں شان ہی اور معلوم ہوتی رہے گی۔ لوگ خیال کریں گے کہ بھائی صاحب بڑے آدمی ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر بنک گھر کے نام حکم بھیج دیتے ہیں۔ یہ کسے معلوم کہ ہاتھی کے دانت فقط دیکھنے ہی کے ہیں۔ چک بک ہی چک بک فقط ہاتھ میں ہے ورنہ بنک گھر میں سوائے دو چار سو کے میاں کا کچھ بھی نہیں۔ اور پھر میں کہتی ہوں اگر تم کو اس طرح بنک گھر سے روپیہ نکال لینا ہی تھا تو پھر جمع ہی کاہے کو کیا تھا؟ اس سے تو اچھا یہی تھا کہ جمع ہی نہ کرتے، گھر ہی میں رہنے دیتے۔ گھر میں واہی تواہی کاموں کے لیے روپیہ نکالتے کچھ طبیعت رکتی ہے، یہی خیال ہوتا کہ کہیں یہ کمبخت پوچھ بیٹھی تو کیا بتاؤں گا؟ بنک میں تو یہ ڈر نہیں ان سے کیا مطلب؟ جتنا روپیہ جس کا ہے وہ جس وقت چاہے لے جائے، چاہے پھینک دے چاہے لٹادے۔ مگر یہ کہے دیتی ہوں کہ یہ چال اچھی نہیں۔ اس چال میں گھر نہیں رہنے کا، نہ نوکری ہی رہے گی نہ گھر۔ آخرکچھ بتاؤ گے کتنا دے آئے ہو؟ بولو؟ اے بولتے کیوں نہیں؟ کہیں خون کے جوش میں میرے نام کا روپیہ بھی تو نہیں دے آئے؟
“تمھارے روپے میں سے میں کیوں دیتا؟”
اچھا تو اپنے حساب میں سے کتنا خرچ کر آئے؟
“سو روپیہ”
سو روپیہ!!! مجھ کو تو سن کے سکتہ سا ہو گیا ہے، اس وقت سو روپیہ؟ لے اب خدا ہی ہے اس گھر کا، تمھاری اوقات سو روپیہ دینے کی ہے؟ نشہ میں رہے ہوگے۔ ادھر پھرو، ذرا منہ تو سونگھوں تمھارا، کہیں شراب پی کر تو نہیں آئے ہو؟
“لاحول ولاقوۃ، اس میں شراب کا کیا دخل ہے؟”
شراب کا دخل نہیں تو پھر کیا ہے؟ تمھاری اوقات والا آدمی کہیں ہوش و حواس میں بھلا سو روپیہ اس طرح پھینک سکتا ہے؟ میرے تو ہاتھوں کے توتے اڑگئے یہ سن کر۔
“اچھا جو اڑ گئے ہیں تو اڑنے دو اور منگوا لینا، اب آؤ آرام کریں”۔
آرام تم کرو، میں آرام کر چکی۔ آرام کرنے کا حال تو جب معلوم ہوگا جب بھائی بند لوگ بیچ کھائیں گے۔ جب نخاس میں کھڑے ہو کر پرانے کپڑے بیچتے ہو نا تب آرام کرنا؟ ابھی نہیں، میں تو جیوں گی ہی کاہے کو تب تک؟
ناظرین! دیکھا آپ نے روپیہ کی قوت کو، نہ معلوم کتنا طولانی لکچر ہوتا آج کا مگر سو روپیہ والی بات سن کر کروٹ بدل کر جو سوئیں تو پھر خبر نہ ہوئیں۔ حالانکہ میں نے اصل میں دس ہی روپیہ چندہ دیا تھا، مگر زچ ہو کر سو بتا دیے۔ صبح باہر جاتے وقت کہہ دوں گا۔
تمام شد
[1]۔ یہ شعر بزبانِ ہیروئن صاحبہ ہے۔ مترجم بری یا بھلی داد سے معاف رکھا جائے۔