انسان کے تخیل، تمنا اور تگودو پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ مگر کیا کیجیے کہ فطرتِ انسانی اس قدر آزاد واقع نہیں ہوئی کہ حد سے بڑھے ہوئے امکانات کا ساتھ دے سکے۔ ہم آسائش پیدا کر سکتے ہیں مگر اس آسائش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مٹاپے سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ درد کی دوا ڈھونڈ سکتے ہیں مگر دوا سے پیدا ہونے والے روگ کا چارہ نہیں کر سکتے۔ پھل کو بےموسم اگا اور کھا سکتے ہیں مگر اس شغل کے عواقب سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ تحفظ کے لیے پیسا کما سکتے ہیں مگر پیسے کے ساتھ آنے والے عدمتحفظ کی راہ نہیں روک سکتے۔ ہماری آرزوؤں میں ایک کائنات آباد سہی مگر ہماری فطرت میں بھی ہماری اوقات پھسکڑا مار کر بیٹھی ہوئی ہے۔
سماجی واسطے جنھیں ہم سوشل میڈیا (Social Media) کے نام سے جانتے ہیں مجھے کافی دنوں سے اوقات یاد دلا رہے ہیں۔ انسان نے انسان سے قریب ہونے کی یہ بازی بہت اچھی کھیلی ہے۔ اپنے پیاروں سے دور ہوتے ہوئے بھی ان کے چہرے پڑھنے، دکھ بانٹنے، ساتھ نبھانے بہت آسان ہو گئے ہیں۔ انسان اگر معجزے پر قادر ہے تو وہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟
مگر کیا کیجیے۔ بساطِ ہستی پر ایک شاطر اور بھی موجود ہے۔ انسان سے کہیں تیز۔ اس کی ٹیکنالوجی سے کہیں درازدست۔ اس نے ہماری فطرت، ہماری اوقات میں یہ معجزہ ہضم کرنے کا مادہ ہی نہیں پیدا ہونے دیا۔ جتنا اور جس قسم کا تعلق انسان کا انسان سے ضروری سمجھا بس اسی قدر ارتباط کی گنجائش رکھی۔ اس سے کم پر بھی نتیجہ دیوانگی کی صورت میں نکلتا ہے اور زیادہ پر بھی۔
میں لوگوں سے بہت زیادہ ملنے جلنے والا آدمی تھا۔ شاید کوئی اسے مبالغہ خیال کرے مگر فیالحقیقت سونے جاگنے سمیت دن کے چوبیس گھنٹوں میں میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گنتی کے دو تین گھنٹے بھی نہیں گزارا کرتا تھا۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا اور مجھے مجبوراً وہ صحبتیں ترک کرنا پڑیں۔ طبیعت نے وہ کمی انٹرنیٹ کے ذریعے پوری کرنا چاہی۔ مختلف جگہوں پر کافی کافی دیر سرگرم رہا۔ ماحصل یہ کہ انسانوں سے مجبوری کے عالم میں الگ ہوا تھا اور سماجی واسطوں سے تکدُّر نے دور کیا۔
جہاں تک میں نے دیکھا ہے سماجی واسطوں نے ہماری اس گھٹن کو عریاں کر دیا ہے جو روایتی میل جول میں تہذیب کے پردوں میں چھپی رہتی تھی۔ انسان کے اندر مجروح یا منفی جذبات کا موجود ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اکثراوقات یہی جذبے ہماری ترقی میں مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ مگر انٹرنیٹ نے انھیں ننگا کر کے اسی طرح حقیر، بےوقعت اور باعثِ شرم بنا ڈالا ہے جس طرح کوئی بچہ کسی دلآویز کھلونے کا انجرپنجر کھول کر حیران رہ جائے کہ اس میں تو کچھ بھی دلکش نہیں۔ تہذیب کی بلوغت کے دعویٰدار بچے نے بھی اظہارِ ذات کی ضد میں نفسِ انسانی کی وہ گراریاں باہر نکال پھینکی ہیں جن کی نوکیں چبھنے چبھونے کے سوا کسی کام کی نہیں۔
انسان کے حوائجِ ضروریہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مگر ہر کسی پر عریاں بھی نہیں۔ ننگا ہر کوئی ہے مگر ننگ چھپا کر رکھتا ہے۔ اسی کو تہذیب کہتے ہیں۔ یہ باریک سا نکتہ ایک ذوقی اور وجدانی چیز ہے جسے انٹرنیٹ پر تلاش کرنا روزبروز دشوارتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں دوسروں کی بات نہیں کرتا۔ اپنا اور اپنے چند قریبی دوستوں کا مشاہدہ سامنے رکھتا ہوں۔ ہم جو بات منہ پر کہنے سے کتراتے ہیں انٹرنیٹ پر اس کے اعلان سے خود کو باز نہیں رکھ پاتے۔ شاید اس لیے کہ ہم اظہار کے وقت اپنے سامنے انسان کو نہیں بلکہ ایک مشین کو براجمان دیکھتے ہیں۔ کمپیوٹر، لیپٹاپ، فون، ٹیب!
اسی چیز کو گھٹن اور بھڑاس نکالنے کا نام دیا جاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سماجی واسطوں پر جو لوگ دوسروں کو گھٹن نکالنے کا طعنہ دیا کرتے ہیں وہ خود بھی معمولی سے احتساب سے یہ جان سکتے ہیں کہ اس سے کوئی مبرا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقات کے مطابق فیسبک ہمیں ہمارے بہن بھائیوں سے زیادہ جانتی ہے۔
کچھ لوگ ہیں جو سماجی واسطوں پر کھل کر سامنے نہیں آتے۔ ان کی طبیعت کی نسبت دو باتیں ممکن ہو سکتی ہیں۔ یا تو وہ اس کھلے راز سے طبعاً واقف ہیں کہ انٹرنیٹ بھی بہرحال ایک انسانی بستی ہے اور یہاں کی گئی بکبک عام بکبک ہی کے مماثل ہے۔ بلکہ اس سے کچھ زیادہ خطرناک۔ یا پھر وہ ان لوگوں سے بھی زیادہ گھٹن کا شکار ہو سکتے ہیں جو بہرحال انٹرنیٹ کی حد تک کھل کھیل سکتے ہیں۔ تاہم میرا خیال ہے کہ انٹرنیٹ پر خاموشی سے وقت گزارنے والے لوگ بھلے کسی اور کا نقصان نہ کریں، خود کو خسارے سے کسی طور نہیں بچا پاتے۔ وجہ آگے چل کر عرض کرتا ہوں۔
آپ ٹوئٹر پر جائیے، فیسبک کا دورہ کیجیے، واٹسایپ کھولیے۔ آپ کو لوگ اس رنگ میں نظر آئیں گے جس میں وہ نہ پیدا ہوئے نہ جیتے ہیں۔ سیاسی بڑھکوں سے لے کر مذہبی نکتہسنجیوں اور ادبی شہپاروں سے لے کر ذاتی خرافات تک ہوش اڑا دینے والی چیزیں آپ کے تصور سے کہیں زیادہ آپ کو میسر آ جائیں گی۔ دنیا اور اس کے باشندے حقیقت میں اتنے گھٹیا اور پوچ شاید نہیں جتنے ان جگہوں پر نظر آتے ہیں۔ جیسا میں نے اوپر عرض کیا میں خود انٹرنیٹ پر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ رویے اپنا بیٹھتا ہوں جو میرے رویے نہیں۔ تاہم اس معذرت سے مسئلے کی شدت کو کم خیال نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اور زیادہ ہوشیار ہو جانا چاہیے کیونکہ ایک غلط کام کر لینے کے بعد انسان سے دوسری غلطی کا صدور تقریباً یقینی ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب پہلی غلطی لوگوں کی نظر میں ہو تو انسانی انا کے لیے اس سے برأت کرنا ناممکن سا ہے۔
اس آزادئِ اظہار کا جو انٹرنیٹ اور سماجی واسطوں نے ہمیں دی ہے ایک اور پہلو بھی ہے۔ اور یہی دراصل وہ پہلو ہے جس کے سبب میری طبیعت میں تکدّر اور نفرت پیدا ہوئی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ انٹرنیٹ اور سماجی واسطوں پر ہر شخص اپنی گھٹن کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔ لہٰذا جس شخص کی واہی تباہی دوسروں کی گھٹن کی زیادہ سے زیادہ ترجمانی کرے گی اس کی مقبولیت میں عام طور پر زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عوامی اور سستے جذبات، سطحی افکار، جھوٹی خبریں، گھٹیا مزاح، بےبنیاد دعاویٰ اور الزامات، گالمگلوچ اور طعن و تشنیع، جاہلانہ رعونت اور ریا، مخربالاخلاق اور غیرمہذبانہ مواد وغیرہ ان لوگوں کی زندگیوں میں بھی پوری طرح داخل ہو گئے ہیں جنھوں نے ان کا انتخاب نہ کیا تھا۔
آپ شائستہ گفتگو کے عادی ہیں۔ مگر ڈونلڈٹرمپ اور عمرانخان کی زبان ایک زمانہ بولتا ہے۔ آپ جھوٹ بولنے اور ماننے سے انکاری ہیں۔ مگر آپ کے تمام دوست اور اہلِ خانہ بےبنیاد اور ناقابلِ فہم مواد بتکرار آپ کو بھیجتے رہتے ہیں۔ آپ نیچ ذہنیت سے نفرت رکھتے ہیں۔ مگر یہ آپ کو بظاہر پڑھے لکھوں کا بھی چلن معلوم ہونے لگتی ہے۔ آپ گندے لطیفوں اور تکلیفدہ مذاق کو برا جانتے ہیں مگر یہ نہیں جان پاتے کہ ان کے سوا انٹرنیٹ پر چارہ ہی کیا رہ گیا ہے۔
پھر وہ غیرمہذب ذہنیت ہے جو یہ سب کوڑا کرکٹ دن رات انٹرنیٹ پر پھینکتی رہتی ہے۔ اس کے حامل لوگ ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر تحریک پکڑتے ہیں اور ایک بکواس کے جواب میں بدتر بکواس کرتے ہیں۔ گالی کا جواب موٹی گالی، الزام کا جواب فحش الزام، دعویٰ کا جواب وعیدی دعویٰ، جھوٹ کا جواب بڑا جھوٹ، لعنت کا جواب لکھ لعنت!
نتیجہ یہ کہ بےچینی، اضطراب، غم و غصہ اور خود گھٹن میں بےپناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ سماجی واسطے محبتوں کو برقرار رکھنے سے زیادہ کردار نفرتوں کو بھڑکانے میں ادا کر رہے ہیں۔ بدزبانی، حماقت اور عدمبرداشت معاشرے کے ہر طبقے میں انتہاؤں کو چھونے لگے ہیں۔ ہم وقتی طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ اپنے اندر کا گند انٹرنیٹ پر اچھال دینے سے ہماری متلی کم ہو جائے گی۔ مگر کیا کیجیے کہ ہر کوئی یہی خیال کرتا ہے۔ لہٰذا انٹرنیٹ کوڑے کا وہ ڈھیر بنتا جا رہا ہے جس پر اربوں انسان دن رات بیٹھے قے کرتے رہتے ہیں۔ پیٹ خالی ہوتا ہے تو دل اوب جاتا ہے اور دل اوبتا ہے تو پھر قے آ جاتی ہے۔
مجھے کچھ دنوں سے یہ خیال بار بار آنے لگا تھا کہ انٹرنیٹ، سماجی واسطے اور آزادئِ اظہار کی عمر شاید زیادہ نہ ہو۔ گمان تھا کہ جو حالات ہوتے جا رہے ہیں ریاستیں معاشرے کو عدماستحکام سے بچانے کے لیے ضرور اس فتنے کا سدِ باب کریں گی۔ تھوڑی تحقیق پر معلوم ہوا کہ لوگ متفکر ہیں۔ حکومتیں سوچتی رہتی ہیں۔ شاید جلد یہ چیخمدھاڑ پابندیوں کا شکار ہو جائے۔ مجھے اس کا افسوس تو ہو گا کہ شاید میری بھی زبان بند ہو جائے گی۔ مگر اس سے زیادہ خوشی ہو گی کہ معاشرے کے اپنی تہذیب اور اقدار کی طرف لوٹنے کی امید تو بندھے گی۔