جنون کی نسبت عمومی خیال یہ ہے کہ اس میں دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ مجھے اجازت دیجیے تو عرض کروں کہ یہ محض خیالِ خام ہے۔ مجنون یا دیوانے کا ذہن ایک صحت مند شخص کی طرح بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہی کام کرتا ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ اس کی سوئی بعض مخصوص مقامات پر اٹکی رہ جاتی ہے۔ مثلاً اگر وہ عشق کا گرفتار ہے تو اپنے معشوق کے خیال سے باہر نہیں آ سکتا۔ یہ خیال اس کے لیے زندگی کے برابر اہمیت اختیار کر جاتا ہے لہٰذا اس کا دماغ تمام باقی معاملات کو ہنگامی طور پر موقوف کر کے اسی پر پھرکی کی طرح گھومنے لگتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح اس دیوانے کے زاویۂِ نگاہ سے اس کے مسئلے کو دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو وہ ہمیں بالکل دیوانہ معلوم نہیں ہو گا بلکہ دلائل و براہین کے ساتھ تدبر کرنے والا ایک عاقل شخص دکھائی دے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کیفیت میں باقی دیکھنے والوں کو ہم بھی دیوانے نظر آنے لگیں گے۔
میں نے اکثر غور کیا ہے کہ دیوانوں کی بظاہر ناقابلِ فہم گفتگو اور غیرمنطقی رویے ایک بڑے زبردست نظام کے تابع ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں اتنی ذہانت پائی جاتی ہے کہ اوسط درجے کے صحت مند ذہن کو اس کا عشرِ عشیر بھی میسر نہیں ہوتا۔ شاید اس کی وجہ بھی یہی ہو کہ دیوانوں کے ذہن اپنی پوری قوت کو ایک ہی نکتے پر مرتکز اور مجتمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا موقع علائقِ دنیا میں الجھے ہوئے دماغوں کو شاذ ہی ملتا ہے۔ یہ خیال بھی لائقِ اعتنا نہیں کہ دیوانوں کا ذہن انتشار کا شکار ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دیوانگی انتشار سے پیدا تو ہو سکتی ہے مگر انتشار کے ساتھ چل نہیں سکتی۔ دیوانگی یا جنون دراصل خبط کا ایک درجہ ہے اور خبط توجہ کے کسی چیز پر غیرضروری ارتکاز ہی کو کہتے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر ابلاغ کے حوالے سے کافی سنگین مسائل رہے ہیں۔ میں زندگی میں بہت اہم مواقع پر کسی کی بات سمجھنے میں بری طرح ناکام رہا ہوں یا پھر انھیں اپنی بات بالکل نہیں سمجھا سکا۔ زندگی تو خیر ایک طرف رہی، آج تک ایسا ہوتا ہے کہ اپنے تئیں ایک نہایت چست شعر کہنے کے بعد کسی کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ بات سر پر سے گزر گئی۔ کئی بار یوں بھی ہوا ہے کہ مجھے کسی شعر کی نسبت گمان ہوا کہ یہ شاید کوئی بھی نہ سمجھ پائے اور احباب نے ہنس کر فرمایا کہ یہ تو ایک دہقان بھی سمجھ سکتا ہے۔ پھر مجھے دیوانگی یا کم از کم نیم دیوانگی کی حالت میں بھی کچھ مدت گزارنے کا اتفاق ہوا ہے اور نشے وغیرہ کی کیفیات سے بھی میں مناسب حد تک شناسائی رکھتا ہوں۔ مجھے کافی حد تک اندازہ ہے کہ اس دوران میں میرا دماغ کس طرح کام کرتا تھا اور کس کس طرح کی منطقوں کے تحت زندگی سے نمٹنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ ان حالات میں پیدا ہونے والی افہام اور ابلاغ کی مختلف مشکلات پر غور کرتے کرتے ہی میری توجہ پورے اور مستقل دیوانوں کی جانب مبذول ہوئی اور میں نے دیکھا کہ عام آدمی ان سے اور وہ عام آدمی سے مختلف نہیں ہیں۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دیوانگی اور جنون کا ہمارے نظامِ اخلاق سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ نظامِ اخلاق ہمارے شعور کا وہ پیمانہ ہے جو ہمیں چیزوں کی قدر سے آگاہ کرتا ہے۔ ہمیں بتاتا ہے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔ اچھائیوں میں کون سی اچھائی زیادہ اچھی ہے اور کون سی کم۔ برائیوں میں کیا زیادہ برا ہے اور کیا برداشت کیا جا سکتا ہے۔ کسی چیز میں فائدہ ہے اور کس چیز میں نقصان۔ پھر یہی نظام آگے چل کر خوبصورتی اور بدصورتی کے فیصلے بھی کرتا ہے۔ اب چونکہ ہر انسان فطری طور پر اپنے فائدے کی حرص رکھتا ہے، اپنی زندگی کو خوبصورت بنانا چاہتا ہے اور اپنے لیے اچھی سے اچھی چیز کی تمنا کرتا ہے اس لیے اس کا نظامِ اخلاق اس کی خلوت و جلوت کے ہر رویے پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ لیکن اگر اس نظام میں کوئی گڑبڑ پیدا ہو جائے تو انسان برے کو اچھا، بدصورت کو خوبصورت، غیراہم کو اہم اور نقصان دہ کو فائدہ مند خیال کرنے لگتا ہے۔ کسی چیز کو اس سے زیادہ اہمیت دینا جتنی کی وہ حق دار ہے خبط کہلاتا ہے اور جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا، جنون اسی کا ایک انتہائی درجہ ہے۔
اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ پاگل پن روایتی مفہوم میں بداخلاقی سے پیدا ہوتا ہے۔ میں صرف اتنا عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ جب انسانی ذہن میں موجود اقدار کا نظام حقیقت سے لگا نہیں کھاتا اور کسی معمولی چیز کی قدر و قیمت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تو یہ درحقیقت جنون کا پیش خیمہ ہے۔ جلد یا بدیر وہ وقت آئے گا کہ یا تو ایسے غیرمتوازن خیالات رکھنے والا شخص زندگی کے کوڑے کھا کر سبق سیکھ جائے گا ورنہ اس کی کیفیت بدتر ہوتی چلی جائے گی اور اس کے دماغ کی سوئی اس چیز کی اہمیت پر مستقل طور پر ٹک کر اسے پورا پورا دیوانہ بنا دے گی۔ اب ظاہر ہے کہ اس کا دماغ کام کرنا تو نہیں چھوڑے گا مگر کسی کام کا بھی نہیں رہے گا۔
یہ بات بدیہی ہے کہ ہر فرد کی زندگی میں مختلف چیزوں کی قدر مختلف ہوتی ہے۔ اقدار کا یہی اختلاف ہمیں ہماری انفرادیت عطا کرتا ہے۔ میں کھانے پینے کی لذیذ ترین چیزوں کی بھی بہت زیادہ قدر نہیں کرتا مگر جسمانی آسائش کے لیے کوئی بھی قربانی دے سکتا ہوں۔ سادہ لفظوں میں انتہائی سست آدمی ہوں۔ ممکن ہے آپ میرے برعکس اچھا کھانا کھانے کا شوق پورا کرنے کے لیے پورا پورا دن مشقت کرتے رہتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کھانے پینے کے حوالے سے مجھ سے بھی زیادہ مستغنی واقع ہوئے ہوں اور آپ کو چنے اور مونگ کی دال کا فرق بھی معلوم نہ ہوتا ہو۔ مگر آپ یہ سوچ کر یقیناً محظوظ ہوں گے کہ یہ سب رویے درحقیقت جنون ہی کے چھوٹے بڑے درجات ہیں۔
اقدار اور اخلاق کے اس تنوع کو پیمانہ بنا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی سطح پر عدم توازن، پاگل پن، خبط، دیوانگی اور جنون وغیرہ کا شکار ہے۔ ایک ماں جو اپنے لڑکے کو معمولی سی چوٹ لگتے دیکھ کر دیوانہ وار دوڑ پڑتی ہے اس راہگیر کو پاگل ہی معلوم ہوتی ہے جس کے نزدیک اس لڑکے اور اس کی چوٹ کی قدر یا اہمیت اس درجے کی نہیں ہے۔ اور اگر بالفرض وہ راہگیر اپنے یہ خیالات ظاہر کر دے تو وہ خود بھی اس عورت کی نظر میں دیوانہ ہی ٹھہرے گا۔ ہم مختلف چیزوں کو مختلف اہمیت دیتے ہیں۔ ہر چیز کی قدر ہر کوئی نہیں پہچانتا۔ ہر کسی کا جنون مختلف ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس کے باوجود ہم اپنے رویوں کے حق میں دلیل لانے کی کوشش کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ دوسرے ہماری دلیل کو کتنی سہولت سے رد کر دیتے ہیں۔
منطق کی سب سے بڑی کوتاہی بھی شاید یہی ہے کہ یہ ہمیں دوسرے کی دلیل سمجھنا تو سکھا دیتی ہے مگر اس کی ویسی قدر نہیں کروا سکتی!