عروض میں بحر سے مراد وہ خاص وزن لیا جاتا ہے جو اہلِ عروض نے شعر کہنے کے لیے طے کر لیا ہو۔ آپ سمجھتے ہیں کہ وزن حرکات و سکنات کی اس ترتیب کو کہتے ہیں جس کی تکرار کلام میں یقینی بنا لی جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم الفاظ کی کسی بھی ترتیب کو لے کر اس کی تکرار کرنا شروع کر دیں تو وہ ایک وزن ہی ہو گا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح ان گنت اوزان ممکن ہیں جن کی تاب کسی بڑے سے بڑے شاعر اور موسیقار کی طبیعت نہیں لا سکتی۔ اس قسم کی اکثر تکراریں مصنوعی ہوں گی، زبردستی کی جائیں گی اور انسانی روح پر ان کا وہ اثر کبھی نہ پڑے گا جو شاعرانہ کلام کے مترنم اتار چڑھاؤ سے عام طور پر پیدا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر سعادت حسن منٹو کا درجِ ذیل جملہ دیکھیے:
رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کرواتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔
اس کا وزن سادہ طور پر ان ارکان کے برابر ہے:
فعلن فع فعلن فع فع فاع فعلن مفعول فع فعلن مفعولن فع فاع فاعلن فاع فعلن فع مفعول فعلن فعل فع۔
اگر ہم ان ارکان کے برابر الفاظ کو اسی ترتیب میں بار بار لانے کا التزام کریں یعنی اس وزن کی تکرار کریں تو یہ کلامِ موزوں ہو گا۔ مگر کتنا مشکل، مصنوعی اور تکلف زدہ!
ہم نے پہلے کہیں عرض کیا ہے کہ شاعری مترنم کلام کا نام ہے۔ یعنی وزن کا التزام شعر میں کیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس میں آہنگ اور ترنم پیدا ہو جائے۔ لیکن مندرجہ بالا مثال جیسی لمبی چوڑی، الٹی سیدھی تکرار سے وزن تو پیدا ہو جاتا ہے مگر ترنم ہلاک ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترنم اور نغمگی کا تعلق کسی تہذیب اور ثقافت کے اجتماعی مزاج سے ہوتا ہے۔ لوگوں کے دل کچھ تالوں پر دھڑکتے ہیں اور باقی ٹھیکے انھیں بالکل بےلطف معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً مغربی موسیقی ہم لوگ لاکھ سنتے رہیں مگر قبولیتِ عامہ اور ہردلعزیزی کے درجے پر وہ مغرب ہی میں پہنچ سکتی ہے، یہاں نہیں۔ اسی طرح ہندوستانی راگ ودیا سے گورے متاثر ہوتے رہتے ہیں مگر اس کے سچے نام لیوا اور جاں نثار آپ کو پاک و ہند ہی میں ملیں گے۔
یہ معاملہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا زبان کا ہے۔ زبان کو آپ اپنی مرضی سے نہیں گھڑ سکتے۔ لوگ جیسے بولتے ہیں اور کسی لفظ کے جو معانی مراد لیتے ہیں وہی آپ کو سیکھنے پڑتے ہیں اور انھی کے تحت وہ لفظ بولنا پڑتا ہے۔ ورنہ بات سمجھنا سمجھانا ناممکن ہو جائے گا۔ دوسری مثال یہ ہے کہ کسی برمحل پنجابی لفظ کا جو اثر کسی مخصوص ماحول میں ایک پنجابی نژاد پر ہوتا ہے وہ کبھی کسی عرب پر نہیں ہو سکتا خواہ اس لفظ کے معانی کی پوری تفصیل بھی بیان کر دی جائے۔
مطلب یہ ہے کہ بعض چیزیں معاشروں، ثقافتوں اور تہذیبوں اور لوگوں کے مزاج میں داخل ہوتی ہیں اور انھیں مرضی یا زور زبردستی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ بحر ایک ایسی ہی چیز کا نام ہے۔ وزن کوئی بھی تکرار ہو سکتی ہے مگر بحر اس تکرار کا نام ہے جو کسی ادب کے قارئین و سامعین کی طبیعتوں سے موافقت رکھتی ہو اور ان پر خوشگوار اثر ڈال سکے۔ ماہرینِ عروض نے اسی اصول پر عوام کے مزاج کو سمجھ کر اور موسیقی سے متعلق ان کی ترجیحات و رجحانات کو دیکھ کر کچھ اوزان مقرر کر دیے ہیں جن کا لوگوں کے قلب و روح پر اثر مسلّم ہے۔ ان کے علاوہ اوزان نکالنے اور مقرر کرنے بھی ممکن ہیں اور ہر دور میں کوششیں کی بھی جاتی رہی ہیں مگر شاید ہی کسی طالع آزما کو کبھی کوئی قابلِ ذکر کامیابی نصیب ہوئی ہو۔
عروض عرب میں ایجاد ہوا تھا اور اس کے موجد خلیل بن احمد الفراہیدی البصری نے عربوں کے مزاج دیکھ کر پندرہ بنیادی اوزان مقرر کر دیے تھے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی شاعر کا کلام انتہائی مترنم اور خوش آہنگ ہوتا تھا مگر ان اوزان پر ٹھیک نہ بیٹھتا تھا۔ اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ انھی پندرہ بنیادی اور اصل اوزان پر زحافات کے عمل سے کچھ اور اوزان نکال لیے جاتے تھے جن کی مدد سے آئندہ اس طرح کے آہنگ پر شعر کہنا اور سمجھنا نہایت آسان ہو جاتا تھا۔ زحافات کو عروض کے اوزار سمجھیے جن سے ماہرینِ عروض اصل اور بنیادی بحروں کو ٹھونک بجا کے، تراش خراش اور جوڑ توڑ کر کے ضرورت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔
بعد میں ایرانیوں نے بھی اپنی شاعری میں عربی عروض سے کام لینا شروع کر دیا۔ مگر ان کا مزاج عربوں سے مختلف تھا۔ کچھ بحریں انھیں پسند نہ آئیں۔ انھوں نے وہ نکال دیں اور کچھ نئی بحریں اور شامل کر لیں۔ اردو تک آتے آتے مشہور اصل بحروں کی تعداد پندرہ سے بڑھ کر انیس ہو گئی۔ اردو والوں کا مزاج ہندوستانی ہونے کے سبب ایرانیوں سے نسبتاً قریب تھا۔ انھوں نے ایرانیوں کے اکثر رویے جوں کے توں اپنا لیے اور انھی انیس اصل بحور اور ان سے نکلی ہوئی شکلوں کے ساتھ گزارا کرنے لگے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اکثر اصل اور نکلی ہوئی بحریں مقبولیت کھو بیٹھیں اور اب یہ حال ہے کہ آج کا اردو عروض عربی اور فارسی ہر دو عروض سے اپنے مزاج کے اعتبار سے کافی مختلف ہو چکا ہے۔
مذکورہ بالا انیس مشہور اصل اور بنیادی بحروں کو بحورِ نوزدگانہ کہتے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں:
ہزج، رمل، رجز، کامل، وافر، متقارب، متدارک، منسرح، مقتضب، مضارع، محتث، طویل، مدید، بسیط، سریع، خفیف، جدید، قریب، مشاکل۔
کسی فارسی شاعر نے انھیں ایک قطعے میں اکٹھا کر کے لکھ دیا ہے جو یاد کرنے کے لیے مفید ہے:
رَجَز، خَفِیف و رَمَل، مُنسَرِح دگر مُجتَث
بَسیط و وَافِر و کامِل، ہَزَج، طَوِیل و مَدِید
مُشاکِل و مُتَقَارِب، سَرِیع و مُقتَضَب است
مُضارِع و مُتَدَارِک، قَرِیب و نیز جَدِید
لیکن جیسا کہ ہم نے ذکر کیا یہ سب اردو میں مروج نہیں رہیں۔ ان سے نکلی ہوئی بحریں بھی کچھ رائج ہیں اور کچھ نہیں۔ ایک دو بحور البتہ ہم نے ان میں زحافات کی مدد سے کچھ کھینچا تانی کر کے نکالی ہیں اور انھیں عربوں اور ایرانیوں سے زیادہ رواج دے دیا ہے۔
اصل اور بنیادی بحر کو اصطلاح میں سالم کہتے ہیں کیونکہ وہ جوں کی توں استعمال کی جاتی ہے۔ نکلی ہوئی بحر کو مزاحف کہتے ہیں کیونکہ وہ اصل بحر پر زحافات کے عمل سے حاصل ہوتی ہے۔
اردو میں مستعمل ایک سالم بحر کی مثال دیکھیے:
بحرِ ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
یہ ایک مصرعے کا وزن ہے۔ بحر میں ہمیشہ ایک ہی مصرعے کا وزن لکھا جاتا ہے۔ نظم یا غزل کے باقی تمام مصرعے اسی وزن پر آتے ہیں۔ اس بحر میں لکھی گئی اقبالؔ کی ایک مشہور غزل کا مشہور ترین شعر یہ ہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اسی طرح ایک اور مشہور وزن دیکھیے جو ہمارے مزاجوں کے عین مطابق ہے اور اس میں ڈھلا ہوا کلام ہماری طبیعتوں پر بڑا خوشگوار اثر ڈالتا ہے:
بحر متقارب مثمن سالم
فعولن فعولن فعولن فعولن
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
آخری بات!
اگر آپ کو دیے گئے اشعار کے الفاظ متعلقہ بحر کے ارکان کے عین مطابق معلوم نہیں ہوتے تو چنداں فکر نہ کیجیے۔ تقطیع کی بحثوں میں آپ یہ سب خود سیکھ کر ہماری بات پر ایمان لے آئیں گے۔ فی الحال بس یہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ ہر وزن بحر نہیں ہوتا۔ اگرچہ اصولی طور پر زحافات کے ہتھوڑے چھینیاں لے کر ہم ہر وزن کو کسی نہ کسی طرح بحورِ نوزدگانہ میں سے نکال کر آپ کو دکھا ہی دیں گے مگر اس کا کیا حل کہ بحر عروضی طور پر تو ثابت ہو جائے مگر لوگوں کی دھڑکنوں میں رچ بس نہ سکے؟
اردو ہندی کی ایک کہاوت ہے۔ دُلھن وہی جو پیا من بھائے۔ یہی بات ہے۔ بحر وہی جو دل دھڑکائے!