قراردادِ نفاذِ اردو
اردو کو پاکستان کی دفتری اور تعلیمی زبان کے طور پر نافذ کیا جائے
اردو کو اس کے سمجھنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ رابطے کی زبان کی حیثیت سے دنیا کے متعدد ممالک میں کروڑوں لوگ اسے ہر گھڑی کام میں لاتے ہیں۔ مگر عبرت کا مقام ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان، جس کے قیام کی تحریک میں اس زبان کا حصہ تھا اور جہاں اسے اول روز سے قومی زبان کا درجہ دیا گیا تھا، عملاً اردو کی سرپرستی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
عقل و دانش، حکمت و تدبیر اور فلسفہ و ادب کسی زبان اور اس کے بولنے والوں کی جاگیر نہیں۔ اردو بولنے والے ان سب مضامین کو اپنی زبان میں سمجھنے اور سمجھانے پر قادر ہیں۔ ریاست اگر فنِ ترجمہ پر کماحقہٗ توجہ دے تو کوئی وجہ نہیں کہ چند دہائیوں کے اندر اندر اردو علمی اور فنی اعتبار سے عالمی زبانوں کے برابر نہ جا کھڑی ہو۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری کارندے آزادی کی پون صدی گزر جانے پر بھی عوام کے گلے میں اپنے سابقہ آقاؤں کی گٹ پٹ کا پھندا کسا رکھنا چاہتے ہیں۔ اہلِ پاکستان گونگے نہیں۔ غلام بھی نہیں۔ بے شعور بھی نہیں۔ ریاست انھیں بولنے دے تو عجب نہیں کہ وہ جلد یا بدیر دنیا بھر میں سنے جائیں!
ہمیں قدرت نے اپنی زبان دی ہے۔ ہمیں غیر کی زبان بولنے پر مجبور کرنا فطری انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ہم ریاستِ پاکستان کے آزاد شہریوں کی حیثیت سے اپنی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اردو کو ملک کے طول و عرض میں سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان کی حیثیت سے فی الفور نافذ کر کے ہمیں نادیدہ غلامی کے اس اذیت ناک طوق سے نجات دلائی جائے جو ایک غیرت مند اور باشعور قوم کے لیے اپنے ما فی الضمیر کے اظہار اور ابلاغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
آواز اٹھائیے
اردو گاہ
اردو زبان و ادب کی منفرد ترین ویب گاہ۔ انٹرنیٹ کا سب سے بڑا ذاتی اردو بلاگ جو مختلف جامعات کے طلبہ کے لیے مجوزہ مطالعوں میں شامل ہے۔
آپ کے لیے
کاملی گفتست میباید بسی
علم و حکمت تا شود گویا کسیلیک باید عقل بی حد و قیاس
تا شود خاموش یک حکمت شناس(شیخ فرید الدین عطارؔ)
ترجمہ
ایک کامل کا قول ہے کہ بولنے کے لیے بڑے علم اور حکمت کی ضرورت ہے۔ لیکن چپ ہونے کے لیے حکمت والے کو (اس سے بھی زیادہ یعنی) بے انتہا عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔
- کیفیت نامہ
- 1 دسمبر 2021ء
- ربط
اہلِ پنجاب کے حسن کی نسبت ہمارا خیال تو رہا ہے کہ برِ صغیر میں اس کا مقابلہ نہیں۔ آج خاقانئ ہند کا ایک شعر نظر سے گزرا تو حیرت ہوئی کہ ان کا بھی یہی خیال تھا۔
تھا ذوقؔ پہلے دلی میں پنجاب کا سا حسن
پر اب وہ پانی کہتے ہیں ملتان بہ گیا
پانی ملتان بہ جانے میں ایہام ہے۔ یہ دراصل محاورہ ہے جس کا مطلب کم و بیش وہی ہے جو آج کل پانی سر سے گزر جانے کا ہے۔ راوی ملتان کے خطے میں چناب میں مل جاتا ہے اور پھر راوی نہیں رہتا۔ مراد ہے وقت گزر جانا۔ موقع نکل جانا۔
- کیفیت نامہ
- 8 جولائی 2023ء
- ربط