میں نے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جس نے گالی دی ہو اور پھر کھائی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ فکر اپنی نہیں، دوسروں کی عزت کی کرنی چاہیے۔
آج تک صرف سنتے آئے تھے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں انگریزی بولنے یا گفتگو میں انگریزی کا تڑکا لگانے والے لوگ کس قدر احساسِ کمتری کے مارے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ عموماً دو مسائل ہیں۔ اول یہ کہ نہایت ظاہر پرست ہیں اور خود کو اس سے زیادہ اعلیٰ ثابت کرنا چاہتے ہیں جتنے وہ ہیں۔ دوم یہ کہ نہایت کم عقل ہیں اور سابقہ آقاؤں کی نقل کر کے اپنی غلامانہ ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔
انگریزی زبان سے ہمیں کوئی کد نہیں۔ وہ بلاشبہ نہایت ترقی یافتہ اور مہذب زبان ہے۔ مگر دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آپ کے ماں باپ سے زیادہ تعلیم یافتہ، دولت مند اور خوبصورت ہیں۔ آپ ان کی خوبیوں کی وجہ سے انھیں ماں باپ نہیں بنا سکتے۔ عقل ماری گئی ہو تو البتہ یہ کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی سب زبانیں ہماری زبانیں ہیں۔ یہ ہمارے باپ دادا کا ورثہ ہیں۔ ہم انگریزوں کی اولاد نہیں۔ ان سے کمتر بھی نہیں۔ زبان کے معاملے میں تو بہتر ہی ہوں گے۔ غیر مہذب بھی نہیں۔ دنیا کی کوئی ایسی بات نہیں جو ہماری زبانوں میں نہ کی جا سکتی ہو۔ عقل اور غیرت دونوں کا تقاضا ہے کہ ہم انگریزی کو وہ حیثیت دینی بند کریں جو انگریزوں کے ہاں ہے۔ ہمارے ہاں یہ محض ضرورت کی ایک چیز ہو سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ یہی ہونی چاہیے۔ ہمیں شعوری طور پر یہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم آقا بننے کے چکر میں غلام نظر نہ آتے رہیں۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 15 فروری 2022ء
- ربط