شاعری الفاظ اور آہنگ کا کھیل ہے۔ جدید شاعری نے اس اصول سے بغاوت کر کے معانی اور خیالات کے مختلف کوائف پر اپنی عمارت استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا ایک دلچسپ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ شاعری اور موسیقی کی راہیں بالکل جدا ہو گئی ہیں۔ فیضؔ اور فرازؔ کے عہد تک چوٹی کے موسیقار چوٹی کے شعرا کا کلام پیش کرتے رہے ہیں۔ مگر نئے شعرا کا کلام لفظی و معنوی ہر دو اعتبار سے گانے کے لیے مشکل ہی نہیں اکثر و بیشتر ناممکن بھی ہے۔ زور زبردستی سے کوئی گا لے تو الگ بات ہے مگر نہ اس گائیکی کا کوئی نام لیوا ہے نہ شاعری کا۔ رائج موسیقی وہی ہے جس کا رائج شاعری سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ فلمی اور غیر فلمی موسیقی کے زوال میں ایک بڑا کردار ہمارے شعرا کا بھی ہے۔ انھوں نے الفاظ و تراکیب کی خوش آہنگی، آفاقی جذبات کی ترجمانی اور خیالات کی سادگی وغیرہ سے منہ موڑ کر اپنے ساتھ تو جو کیا سو کیا، ہماری موسیقی کو بھی ان دلکش اور دلربا نغموں سے محروم کر دیا جو اس کی شناخت تھے۔
موبائل فوٹوگرافی نے تصویر کشی کی دنیا میں جو انقلاب برپا کیا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اس کی خوبیاں خامیاں بھی اکثر لوگوں پر روشن ہیں۔ ایک چیز البتہ میں نے ایسی دیکھی ہے کہ کم لوگ اس پر توجہ کرتے ہیں۔ ورنہ دانش مندی سے کام لیا جائے تو محنت اور وسائل دونوں کی بچت ہو سکتی ہے۔ میری مراد تصویروں کی تعداد سے ہے۔
فون پر تصویریں کھینچتے ہوئے ہم عام طور انتہائی بےپروائی سے کلک کرتے چلے جاتے ہیں۔ خیال یہ ہوتا ہے کہ کلک ہی تو ہے۔ یہ تصویر اچھی نہ نکلی تو اگلی سہی۔
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
اس طرح مثلاً گھنٹے بھر کی تقریب میں متعدد لوگوں کے پاس الگ الگ سیکڑوں تصویریں جمع ہو جاتی ہیں۔ یہاں سے اصل بکھیڑا شروع ہوتا ہے۔ کھینچنے کو تو آپ نے کھینچ لیں۔ اب ان کی چھان پھٹک کون کرے؟ وقت بھی چاہیے اور مشقت بھی اٹھانی پڑے گی۔ اگر کہیں بھیجنی پڑ گئیں تو انتخاب کا مسئلہ جدا ہے۔ فون اور کلاؤڈ کی گنجائش کا دکھ مستزاد۔ پھر اتنی تصویریں یادگار کے طور پر کوئی رکھ لے تو رکھ لے مگر دیکھنی پڑ جائیں تو دیکھی بھی نہیں جاتیں۔
ان سب اور ان جیسے اور بہت سے مسائل کا سیدھا سادہ حل یہ ہے کہ تصویریں بقدرِ ضرورت اور توجہ سے بنائی جائیں۔ ہمارے کیمرے کو بندر کا استرا نہیں بننا چاہیے۔ تھوڑی احتیاط، تھوڑے دھیان اور تھوڑی سمجھداری سے نہ صرف نتائج اچھے آ سکتے ہیں بلکہ بعد کے غیر ضروری مسائل کا بھی سدِ باب ہو جاتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ہمیں معلوم ہے کہ تصویر کیسی نادر اور قیمتی شے ہوا کرتی تھی۔ اب لاگت اور محنت بے شک کم ہو گئی ہے مگر قدر تو وہی ہے۔ یہ قدر پہچانیے اور ایک ایک تصویر کو قیمتی سمجھ کر کھینچیے۔ زیادہ مزہ آئے گا۔
- کیفیت نامہ
- 11 ستمبر 2023ء
- ربط