اب تک ہم نے جانا ہے کہ علمِ عروض شعر کے وزن سے بحث کرتا ہے۔ شعر کا وزن الفاظ کے معیاری تلفظ میں پائی جانے والی حرکات و سکنات سے ماپا جاتا ہے۔ اب ہم دیکھنے جا رہے ہیں کہ کہ حرکات و سکنات کیونکر کسی لفظ کے وزن کا تعین کرتی ہیں۔
فی الحال ہمارے لیے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ تمام حرکات آپس میں برابر ہیں اور تمام سکنات آپس میں برابر ہیں۔ یعنی؟
یعنی یہ کہ زیر ہو، زبر ہو یا پیش۔ وزن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر حرکت درکار ہے تو کوئی بھی حرکت یہ ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ سکون کا معاملہ بھی یہی ہے۔ مگر تھوڑی سی سمجھ لینے کی بات یہ ہے کہ سکون کے سلسلے میں آپ یوں نہیں کہہ سکتے کہ وقف کی جگہ جزم اور جزم کی جگہ وقف چل جائے گا۔ کیونکہ دونوں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ زیر زبر پیش کی طرح مختلف آوازیں نہیں دیتے۔ بلکہ ان میں فرق ان کی ترتیب کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ لہٖذا جب سکون کا مقام ہو تو سکون چاہیے ہو گا مگر ایک سکون ہو گا تو اسے جزم کہیں گے۔ کیونکہ ہم سیکھ چکے ہیں کہ پہلے سکون کو جزم ہی کہتے ہیں۔ دوسرا سکون ہو گا تو ہے تو وہ بھی سکون مگر اسے وقف کہیں گے۔ یعنی یہ کہنا حماقت ہو گا کہ مثلاً وقف کی جگہ جزم آ سکتا ہے۔ کیونکہ جزم وقف کی جگہ آئے گا تو جزم نہیں رہے گا بلکہ وقف ہی ہو جائے گا نا!
پس وزن کا پہلا عملی اصول یہ ہے کہ حرکت کے برابر حرکت ہونی چاہیے اور سکون کے برابر سکون۔ یہ ہو جائے تو باقی کسی معاملے سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اب ذرا کچھ مثالیں دیکھیے:
لفظ ہے دِل۔
اس میں د پر زیر ہے۔ یعنی حرکت۔
ل پر کچھ نہیں۔ یعنی لام ساکن ہے۔
یعنی ایک حرکت اور اس کے بعد سکون۔
تو وزن کیا ہوا اس کا؟
اس کے لیے ہم نے ایک لفظ مقرر کر لیا ہے جس سے ہم اس وزن کا پیمانہ یا باٹ کہہ سکتے ہیں۔ وہ لفظ ہے فَع۔ یعنی ہم کہیں گے کہ خبر کا وزن فَع ہے۔ یہ دکاندار کے باٹ ہی کی طرح ہے جس سے وہ کسی چیز کی مقدار کو تولتا ہے۔ اب اگر کوئی لفظ ایسا ہو گا کہ دو حرفوں پر مشتمل ہو اور ان میں سے پہلا متحرک ہو اور دوسرا ساکن تو ہم کہیں گے کہ اس کا وزن فع کے برابر ہے۔ ٹھیک؟
کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔
چَل۔
اس میں چ پر زبر ہے۔ یعنی حرکت۔
ل پر کچھ نہیں۔ یعنی سکون۔
ایک حرکت، ایک سکون۔
وزن کیا ہوا؟
فَع۔
یاد ہے نا کہ ہمیں زیر زبر پیش کی فکر نہیں کرنی۔ کوئی بھی حرکت ہو تو وہ حرکت کے مقابلے پر آ جائے گی۔ اسی طرح سکون کے مقابلے پر سکون ہونا ضروری ہے۔
دوسری مثال ہے غم۔
اس میں غ پر زبر ہے اور م ساکن ہے۔ یہ بھی فع کے وزن پر پورا اترا۔
تیسری مثال۔
تُو۔
اس میں ت پر پیش ہے اور و پر کچھ نہیں۔ نہ زیر نہ زبر نہ پیش۔ تو و ساکن ہوا۔ وزن برابر ہو گیا فَع کے۔