دیباچہ
شیرازہ میں مشاہیر ہند کے متعلق مضامین کا ایک سلسلہ مدت سے چھپ رہا ہے۔ یہ مضامین زیادہ تر ایسے لوگوں سے متعلق ہیں جن سے حسرت صاحب کو ملنے، ان کے خیالات کو سمجھنے اور ان کے عادات و اطوار پر غور کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس سلسلہ کے سات مضامین تو “مردم دیدہ” کے نام سے کتابی صورت میں یکجا کر دیے گیے ہیں اور اب ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر عالم کے سوانح ایک الگ کتاب کی صورت میں شائع کیے جارہے ہیں۔
مغرب میں سوانح نگاری ایک مستقل فن کی حیثیت اختیار کرچکی ہے لیکن اردو ادب نے اس سلسلہ میں ابتدائی مدارج بھی طے نہیں کیے ہیں۔ ہمارے ہاں سوانح نگاروں کا انداز بیان پختہ غلو پر مبنی ہوتا ہے۔ سوانح نگار جس شخص کے حالات لکھنے بیٹھتا ہے یا تو اسے تمام غلطیوں اور برائیوں سے پاک اور مبرا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یا اس کی تمام خوبیوں پر یکسر سیاہی پھیر دیتا ہے۔ اس کے قلم کی جنبشیں شیطان-فرشتہ، فرشتہ-شیطان کی انتہائی حدوں پر جا ٹھہرتی ہیں۔ حالانکہ انسان کی سیرت اور بالخصوص ایک بڑے آدمی کی سیرت گوناگوں صفات کا مرکب ہے۔ مغرب کے موجودہ دور کے سوانح نگار جو ایک بہت بڑی حد تک فرائڈ کی نفسیاتی تاویلوں سے متاثر ہوتے ہیں اپنے مشاہیر کو ہمیشہ اسی پہلو سے جانتے ہیں۔ ان کی سیرت نگاری اور کردار نگاری کا یہ کمال ہے کہ ان کے لکھے ہوئے سوانح حیات میں ایک بڑا سیاست دان، سپاہی، ادیب یا فلسفی ایک انسان نظر آتا ہے۔ خوبیوں اور برائیوں کا مجموعہ ایک زندہ چلتا پھرتا انسان، نہ کہ ایک تخیلی فرشتہ یا ابلیس۔ اس قسم کے سوانح نگاروں میں آندرے، موروا، اسٹریچی، گنتھرا اور لڈوگ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اگر آپ حسرت صاحب کی سوانح نگاری کو اس اصول پر رکھیں گے کو آپ کو معلوم ہوگا کہ پنجاب کے ان دو مشہور لیڈروں کے سوانحی حالات لکھنے میں ان کا مقصد کسی کی تنقیص یا تعریف نہیں بلکہ ان کا مقصد صرف اتنا ہے کہ صحیح قسم کی سوانح نگاری کو فروغ حاصل ہو اور اس میں وہ بلاشبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ مضامین دو انسانوں کے جیتے جاگتے مرقعے ہیں۔ ان میں زندگی کی لہر ہے۔ کشمکش اور اضطراب پر دقیق سیاسی رموز مزاح کے لطیف پیرائے میں کچھ اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ انھیں بار بار پڑھنے میں ایک نیا لطف حاصل ہوتا ہے۔ حسرت صاحب کے دل آویز انداز بیان سیرت نگاری اور سوانحی تصویر کشی سے ہمارے سوانح نگار بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
کرشن چندر، ایم اے
ڈاکٹر ستیہ پال
1930ء کی نمکین ستیہ گرہ اور ڈانڈی کا مارچ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں نہ بھولنے والی چیزیں ہیں۔ ستیہ گرہ کے آغاز سے کچھ روز پہلے گوجرانوالہ میں ایک دھوم دھامی ستیہ گرہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور پنجاب کے ضلع کے قومی خدام اور سیاسی کارکن سمٹ سمٹا کر گوجرانوالہ میں جمع ہو گئے تھے۔ کوئی تین چار ہزار رضاکار تھے۔ پچاس ساٹھ چھوٹے بڑے لیڈر اور ان کا عملہ فعلہ، مولانا ظفر علی خاں کانفرنس کے صدر تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو بھی ایک دن کے لیے تشریف لے آئے تھے۔ ان دنوں ہم لوگ ایک حماقت کر بیٹھے تھے یعنی انصاف کے نام سے ایک روزانہ اخبار نکال رکھا تھا جس کی ملکیت میں ایڈیٹر سے کاتب اور کاتب سے چپراسی تک سب برابر کے شریک تھے۔ اس لیے دن بھر میں اخبار کو فروغ دینے اور اس کی اشاعت بڑھانے کی بیسیوں تجویزیں پیش ہوتی تھیں اور ان پر گرما گرم بحثیں رہتی تھیں۔ چپراسی نے ایک تجویز پیش کی۔ ہیڈ کاتب صاحب نے اس کی تائید فرمائی۔ دوسرے کاتبوں کو بھی مجبوراً حمایت کرنی پڑی۔ دفتری نے مخالفت کی اور کلرکوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اب اس پر بحث جو شروع ہوئی تو آدھے ایڈیٹر ایک طرف ہو گئے، آدھے دوسری طرف۔ تجویز منظور تو نہ ہو سکی لیکن کام رک گیا۔ کاپیاں ذرا دیر سے پریس میں پہنچیں۔ اخبار دیر میں چھپا اور ڈاک وقت پر نہ بھیجی جا سکی۔
گوجرانوالہ کانفرنس کے متعلق اخباروں میں اطلاعات چھپیں تو یہ تجویز بھی پیش ہوئی کہ اس کانفرنس میں انصاف کا ایک نمائندہ ضرور ہونا چاہیے جو اخبار کے لیے پروپیگنڈا بھی کرے، ضروری اطلاعات بھی بھیجے اور ممکن ہو تو مستقل خریدار بھی فراہم کرے۔ یہ تو یاد نہیں پڑتا کہ یہ تجویز کس نے پیش کی تھی۔ بس اتنا یاد ہے کہ استاد چلتی رقم منشی محمد دین کلیمی نے جو مدت تک مولانا ظفر علی خاں کی خدمت میں رہے ہیں، مقالہ افتتاحیہ کی کتابت فرماتے ہوئے حقہ کا ایک کش لگا کے جو کہا کہ اتنی بڑی کانفرنس میں بڑی آسانی سے اخبار کے تین چار سو خریدار فراہم ہو سکتے ہیں، تو سب کاتبوں کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ اور تو سب سر ہلا کے خاموش ہو رہے لیکن بخشی چپراسی نے جو استاد چلتی رقم کے بالمقابل پھسکڑا مارے بیٹھا تھا، حقہ کی لے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا: “سچ فرمایا استاد”۔ یوں کہنا چاہیے کہ یہ تجویز استاد چلتی رقم کی تحریک اور بخشی چپراسی کی تائید سے کاتبوں کی بڑی محفل میں منظور ہوگئی اور ایڈیٹروں کو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
غرض یہ تو طے ہوگیا کہ گوجرانوالہ کانفرنس میں “انصاف” کی طرف سے ایک نمائندہ بھیجا جائے۔ اب سوال یہ تھا کہ کسے بھیجا جائے؟ چونکہ میں اپنے رفقا سے کسی قدر زیادہ کانگرسی واقع ہوا تھا، اس لیے سب کی نظر انتخاب مجھی پر پڑی۔ میں تو پہلے ہی کانفرنس میں شریک ہونے پر ادھار کھائے بیٹھا تھا۔ ساتھیوں کا اصرار اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔ کھدر کے دو جوڑے جو مَیں نے کلکتہ کانگرس کے موقع پر بنوائے تھے، سوٹ کیس کے ایک گوشہ میں مدت سے پڑے تھے۔ انھیں نکالا، کھدر کی اچکن ایک دوست سے مانگ کے پہنی اور آٹھوں گانٹھ کانگرسی بن کے گوجرانوالہ کا رخ کیا۔
مارچ کا مہینہ تھا۔ ہوا میں ابھی تک کسی قدر خنکی تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ کوئی کمبل بھر کا جاڑا تھا۔ میں کانفرنس سے ایک دن پہلے سرشام گوجرانوالہ پہنچا۔ شہر کے باہر ایک وسیع میدان میں کانفرنس کا پنڈال تھا اور اس کے ساتھ رضاکاروں کا کیمپ تھا جس میں دور تک خیمے ہی خیمے لگے ہوئے تھے۔ میں کیمپ میں داخل ہوا تو مجلس استقبالیہ کے صدر ملک لال خان مہمانوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ دور تک لوگ دو رویہ صفیں باندھے بیٹھے تھے۔ سب کے سامنے پتّل بچھے تھے۔ رسوئیا آتا تھا اور پتلوں پر اڑد کی دال، آلو کی بھاجی اور چپاتیاں رکھتا چلا جاتا تھا۔ ملک صاحب نے مجھے دیکھ کر کہا: خوب وقت پر آئے۔ اب بیٹھ کے پہلے کھانا کھالو۔ پھر تم سے باتیں ہوں گی۔ میں نے پتلوں پر ایک نظر ڈال کر کہا: خانۂ احسان آباد! مجھے بھوک نہیں۔ ملک صاحب کہنے لگے: بھاجی اور دال گرما گرم ہیں۔ چپاتیاں بھی ابھی ابھی توے سے اتری ہیں۔ دو نوالے کھالو۔ میں نے عرض کیا: لاہور سے کھانا کھا کے چلا تھا۔ اب کیا کھاؤں گا؟ تھوڑی دیر میں مولانا حبیب الرحمن تشریف لے آئے۔ کہنے لگے کھانا کھایا؟ میں نے کہا کھانا تو نہیں کھایا اور اب کھاؤں گا بھی نہیں۔ البتہ اگر آپ کی توجہ سے چائے کی ایک پیالی مل جائے تو بڑا کرم ہوگا۔ گھنٹہ بھر انتطار کے بعد رسوئیا پیتل کا ایک گلاس جو چائے سے منہا منہ بھرا ہوا تھا، لے کے آیا۔ پیالی وہاں کہاں تھی۔ میں نے کچھ چائے پی۔ جو باقی بچی تھی پھینک دی۔ایک وسیع خیمے میں مرطوب زمین پر دریاں بچھی تھیں۔ ان پر رضاکار کمبل اوڑھے لیٹے تھے۔ میں بھی ان کے درمیان میں کمبل اوڑھ کے سو رہا تھا۔ ادھر بچارے مولانا حبیب الرحمان مجھے ڈھونڈتے پھرے۔ کیونکہ انھوں نے اپنے خیمے میں میرے قیام کا انتظام کر رکھا تھا۔ خیر وہ رات تو جوں توں کر کے کاٹی۔ صبح ہوئی تو چائے کی طلب نے پھر پریشان کیا۔ وہ پیتل کا گلاس یاد تھا۔ اس لیے مولانا حبیب الرحمن سے تو پھر عرض کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ صبح اٹھتے ہی منہ ہاتھ دھو کر شہر کا رخ کیا اور بھٹیاروں کی ساری دکانوں پر پھر آیا۔ لیکن چائے نہ ملی۔
دس بجے کی گاڑی سے صدر منتخب اور دوسرے لیڈر پہنچے۔ انھیں میں شیخ محمد حیات بھی تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگے۔ تم کچھ پریشان معلوم ہوتے ہو۔ میں نے کہا: عرب ہوٹل کی چائے اور کباب یاد آتے ہیں۔ کہنے لگے: چائے نہیں ملی؟ میں نے کہا: چائے کا کیا ذکر ہے رات سے بھوکا ہوں۔ وہ بولے میرے ساتھ آؤ۔ میں نے کہا: مجھے معاف کرو، میں “کانگرسی چائے” پی چکا ہوں۔ کہنے لگے: بھائی! لیڈروں کے لیے الگ انتظام ہوتے ہیں۔ تم آؤ تو سہی۔
کیمپ سے اچھے خاصے فاصلہ پر ایک بنگلہ میں لیڈروں کے قیام کا انتظام تھا۔ بنگلہ بہت سجا سجایا تھا۔ قالینوں کا فرش، دروازوں پر ریشمی پردے، لیڈروں میں سے اکثر میری جان پہچان اور بعض سے خاصی بے تکلفی تھی۔ کچھ لوگ ایسے بھی جنھیں میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر سب لوگ اٹھ کے کھانے کے کمرے میں جا بیٹھے۔ میز پر وشنو بھوجن بھی تھا اور پلاؤ قورمہ بھی۔ جو لیڈر اس موقع پر موجود تھے۔ ان میں ایک پست قامت مہاشے بھی تھے جو کھدر کا سفید پاجامہ، سفید کوٹ اور سپید پگڑی پہنے میز کے سرے پر بیٹھے تھے۔ وہ آلو کا ایک قتلہ منہ میں رکھ چکے تھے اور دوسرا قتلہ ان کے منہ اور میز کے درمیان خلا میں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ شیخ محمد حیات نے میرا ان سے تعارف کرایا۔
یہ مہاشے ڈاکٹر ستیہ پال تھے اور مجھے قابوں کے دور اور چھری کانٹوں کی جھنکار میں پہلی مرتبہ ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔
ولایت کے ایک اخبار نویس نے صحیح کہا ہے کہ ساری دنیا تماشا ہے اور اخبار نویس تماشائی ہے۔ مجھے گوجرانوالہ کانفرنس پر پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اخبار نویس، مورخ، شاعر اور فلسفی صرف حقیقی انسان ہیں۔ باقی انسانوں کی حیثیت محض ایکٹروں کی ہے جو رنگا رنگ سوانگ بھر کر زندگی کے اسٹیج پر آتے ہیں اور اپنا پارٹ ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔ اسمبلی کے اجلاس، وزرا کی پارٹیاں، شادی بیاہ کی محفلیں، جلوس، جلسے اور کانفرنسیں کیا ہیں، محض ایک سیمیائی نمود جس کی اصل کچھ بھی نہیں۔ حقیقی انسان تو صرف ہم ہیں۔ ہم جنھیں دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ جن کے بچوں کو تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا نہیں ملتا۔ ان لوگوں کا کام طرح طرح کے روپ بھر کر نقل اتارنا ہے اور ہمارا کام ان پر تنقید کرنا۔ کبھی کبھی یہ نقلیں یہ سوانگ یہ ناٹک اور ڈرامے ہمیں دلچسپ معلوم ہوتے ہیں اور ان میں حقیقی زندگی کی ہلکی سی جھلک نظر آجاتی ہے۔ لیکن بسا اوقات ان کی یکسانی ہمیں اکتا دیتی ہے۔ کیونکہ ان سب ناٹکوں کا مرکزی تخیل ایک ہے اور وہ سب کے سب ایک ہی محور پر گھوم رہے ہیں۔
میرے نزدیک ڈاکٹر ستیہ پال بھی ایکٹر ہیں اور کسی حد تک کامیاب ایکٹر۔ کیونکہ وہ اپنے نقادوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان کی حرکات و سکنات فن کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ بایں ہمہ میں ان کے سامنے جا کر ایک لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں بھولا کہ وہ ایکٹر ہیں۔ کیونکہ جب شیخ محمد حیات نے انھیں میرا نام بتایا تو ان کے ہاتھ سے آلو کا قتلہ گر پڑا اور دونوں ہاتھ بے ساختہ پیشانی کی طرف اٹھ گئے۔ ایک مشاق ایکٹر کے لیے جس نے لیڈر کا روپ بھر رکھا ہو ایسے موقعوں پر مسکرانا نہایت ضروری ہے اور اس معاملہ میں انھیں کوئی زیادہ دقت پیش نہیں آئی کیونکہ غالباً انھوں نے بہت سی مسکراہٹ اپنے کلوں میں گلوکاری کی طرح دبا رکھی تھی جو ہاتھوں کے پیشانی کی طرف اٹھتے ہی ہونٹوں تک پہنچی اور آن کی آن میں باچھوں تک پھیل گئی۔ نوالہ چباتے چباتے مسکرانا اور پھر اس طرح مسکرانا کہ دیکھنے والوں کو اس مسکراہٹ کے مصنوعی ہونے کا وہم و گمان تک نہ ہو، ہر شخص کا کام نہیں۔
میں نے ڈاکٹر ستیہ پال کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا لیکن ان کا نام بارہا سنا تھا۔ ان کی شہرت کا آغاز مارشل لا کے زمانہ سے ہوتا ہے۔ جلیانوالہ باغ کے حادثہ کے بعد ان کا نام بچہ بچہ کی زبان پر تھا اور ڈاکٹر کچلو کے نام کے ساتھ ان کا لیا جاتا تھا۔ لیکن انھیں جو شہرت اور ہر دلعزیزی اس زمانہ میں نصیب ہوئی پھر کبھی نہیں ہو سکی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تقریر کا آغاز جلیانوالہ باغ سے کرتے ہیں اور اکثر اوقات اسی تذکرہ پر ختم کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی نہیں کہ وہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثہ کو نہیں بھول سکے، بلکہ اس پرانی داستان کو بار بار دہرانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھیں اپنی عظمت و شہرت کے اس عہد کی یاد بے چین کیے رکھتی ہے۔
دراصل مارشل لا عدم تعاون کے زمانے میں جن لوگوں کو شہرت حاصل ہوئی ان میں اکثر ایسے تھے جو سیاسی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت بالکل نہیں رکھتے تھے۔ البتہ جذبات کو ابھارنے والی تقریریں خوب کر سکتے تھے۔ وہ دور جذبات کی کارفرمائی کا دور تھا۔ اہم سیاسی مسائل پر نہ لیڈروں کی نظر تھی، نہ عوام کی تھی۔ اس لیے جن لوگوں کو اس زمانے میں لیڈری کا موقع ملا، ان میں اکثر ایسے ہیں جو اس زمانہ میں جبکہ جذبات کے بجائے حقائق سے بحث کی جاتی ہے، بہت حد تک بے مصرف ہو رہے ہیں۔ اور ڈاکٹر ستیہ پال کا شمار بھی اسی قسم کی مخلوق میں ہے۔
دراصل مارشل لا اور اس کے بعد کا زمانہ بھی عجیب تھا۔ اس زمانے میں لیڈر بننے کے لیے صرف دو شرطیں تھیں: زناٹے کی تقریر اور جیل یاترا۔ کیونکہ لوگ قید کی میعاد اور تقریر کی بے سروپائی سے لیڈری کے طول و عرض کا اندازہ لگاتے تھے، اور وہی شخص بڑا لیڈر سمجھا جاتا تھا جس کی تقریر میں دلائل سرے سے نہ ہوں، یا ہوں تو بہت کم۔ چند رٹے رٹائے جملے تھے جو عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لیے چھو منتر کا کام دیتے تھے۔ ہر لیڈر نے یہ جملے یاد کر رکھے تھے اور حسب موقع تھوڑے سے تصرف سے انھیں دہرا دیتا تھا۔ اسے ڈاکٹر ستیہ پال اور دوسرے لیڈروں کا کمال سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ ان کی لیڈری کو لونی لگنی شروع ہوگئی ہے، پھر بھی ان کی تقریروں کا وہی ہنجار ہے جو آج سے بیس برس پہلے تھا۔
ڈاکٹر ستیہ پال کی تقریر کا عام انداز یہ ہے کہ پہلے تشبیب کے طور پر جلیانوالہ باغ کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر اس سے گریز کرکے آزادی کی مدح و توصیف پر پہنچتے ہیں اور اس کی خوبیوں کے متعلق چند فرسودہ کلمے دہرا کے ہندو مسلم اتحاد پر تقریر ختم کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ کسی قدر منطقی بھی واقع ہوئے ہیں، اس لیے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہندو مسلم اتحاد سے آزادی ملے گی اور آزادی ملتے ہی جماعتی اختلافات خود بخود مٹ جائیں گے، اقتصادی مصائب کا خاتمہ ہوجائے گا اور ملک میں کوئی بھوکا ننگا نہ رہے گا۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آزادی سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو وہ سر کو کھجلا کے کچھ سوچنا شروع کردیں گے اور پھر مسکرا کے فرمائیں گے: آزادی سے میری مراد “آ – زا- دی” سے ہے، آیا خیال شریف میں! معلوم ہوتا ہے اب بھی آپ نہیں سمجھے، اجی یہی آزادی۔
ڈاکٹر صاحب نازک اور پیچیدہ سیاسی بحثوں اور دقیق مسائل میں نہیں الجھتے بلکہ آزادی کے متعلق وہ جو کچھ کہتے چلے آئے ہیں، برابر کہتے چلے جاتے ہیں۔ تقریر ہو یا تحریر، دونوں میں ان کا طرز استدلال یکساں ہے۔ نج کی بحثوں اور گفتگوؤں میں بھی وہ اکثر اسی طرز استدلال سے کام لیتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ڈاکٹر ستیہ پال رائے جواہر لال کی طرح مفکر نہیں لیکن اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ ان کی لیڈری جس موسم کی پیداوار ہے اس موسم میں مفکر نہیں بلکہ صرف آتشیں تقریریں کرنے والے لیڈر پیدا ہوا کرتے تھے۔ پھر ان کی تعلیم پر غور کیجیے تو عجیب حال ہے، ایلوپیتھی کے ساتھ ہومیوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے ساتھ دندان سازی۔ انگریزی کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ تھوڑی سی فارسی۔ چنانچہ ایک دوست کا بیان ہے کہ انھوں نے حکیم فیروز الدین طغرائی مرحوم سے نام حق، کریما اور گلستان بھی پڑھی ہے۔ لیکن گلستان کے باب پنجم سے آگے نہیں بڑھے۔ پہلے امرتسر میں مطب کرتے تھے، پھر لاہور اٹھ آئے۔ اب مدت سے نسبت روڈ پر رہتے ہیں۔ مطب کے ساتھ ساتھ دندان سازی کا اسکول بھی چلاتے ہیں۔ ان کے پیشہ پر غور کیجیے تو ہنسنے اور مسکرانے میں انھیں جو مہارت حاصل ہے اس کا راز بھی کھل جاتا ہے۔ دانت نکالنا ان کا پیشہ ہے۔ خود بھی دانت نکالتے ہیں، دوسروں کو دانت نکالنا سکھاتے بھی ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ پال نے جب سے قومی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا ہے وہ برابر کانگرس سے وابستہ رہے ہیں۔ عدم تعاون کے زمانے میں تو خیر ہر قسم کے لوگ کانگرس میں شریک تھے۔ لیکن جب اس تحریک کا زور ٹوٹا اور شدھی اور سنگٹھن کی تحریکیں شروع ہوئیں تو جماعتی اختلافات کا سیلاب اس طرح امڈا کہ بڑے بڑے لیڈر اس کی رو میں بہ نکلے۔ لالہ لاجپت رائے پرانے انقلابی تھے اور کانگرس کی تحریک سے پہلے بھی بڑی قربانیاں کر چکے تھے۔ لیکن اس امتحان میں وہ بھی پورے نہ اتر سکے، یعنی کانگرس سے الگ ہوکر مہاسبھا سے جا ملے۔ ڈاکٹر گوپی چند نے بھی ان کی پیروی کی۔ ڈاکٹر کچلو پہلے کچھ دیر تو چپ چاپ تماشا دیکھ رہے تھے۔ یہ کیفیت دیکھی تو وہ بھی دامن گردان کے اٹھے اور سنگٹھن کے جواب میں تنظیم کا ڈول ڈال دیا۔ غرض یہ بھرا پرا میلہ دنوں میں بچھڑ گیا۔ یا تو پنجاب میں کانگرس کی تحریک کا یہ زور تھا کہ خلقت کھچی چلی آتی تھی یا پھر عالم نظر آیا کہ ہر طرف خاک اڑ رہی ہے اور وفا کا مارا بچارا ستیہ پال تن تنہا کانگرس کا دامن تھامے کھڑا ہے۔
ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد وقتی جذبات پر تھی۔ اس لیے اس اتحاد کا مٹ جانا لازمی اور یقینی تھا۔ چنانچہ جس تیزی سے ہندو مسلم اتحاد ہوئے تھے اسی تیزی سے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور ان کے اختلافات جو زیادہ تر اقتصادی تھے نئی نئی صورتوں میں نمودار ہونے لگے۔ اس حالت میں دونوں جماعتوں کے لیڈروں کا کانگرس سے علاحدہ ہوجانا قدرتی تھا۔ صرف وہی لوگ کانگرس سے وابستہ رہ گئے تھے جو بے حد غور و خوض کے بعد اس جماعت میں شریک ہوئے تھے۔ یا وہ لوگ جن میں بدلنے کی صلاحیت کم تھی۔
ڈاکٹر ستیہ پال کو اس آخری گروہ میں شمار کرنا چاہیے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ کانگرس سے الگ ہو جاتے تو سخت غلطی کرتے کیونکہ ہندو مہا سبھا میں لالہ لاجپت رائے کے سامنے ان کا چراغ جلنا مشکل تھا۔ ثابت قدمی کا فائدہ یہ ہوا کہ کانگرس کی باگ ڈور پوری طرح ڈاکٹر صاحب کے قبضہ میں آگئی اور وہ پنجاب میں کانگرس کے سب سے بڑے لیڈر سمجھے جانے لگے۔ یہ اور بات ہے کہ لوگ ان کے ساتھ نہیں تھے اور ان کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ انتخابات میں جب انھوں نے ہندو مہا سبھا کا مقابلہ کرنا چاہا تو اپنی ضمانت ضبط کرا بیٹھے۔ لیکن جو انے گنے آدمی ان کے ساتھ رہ گئے تھے وہ سب کے سب ان کی طرح دھن کے پکے اور ارادے کے مضبوط تھے۔
ڈاکٹر ستیہ پال کی ذہانت کا میں قائل نہیں۔ شاید وہ ذہین ہوتے تو اتنی دیر کانگرس سے وابستہ نہ رہ سکتے۔ البتہ ان میں ایک نڈر اور بے باک سپاہی کے تمام اوصاف موجود ہیں۔
شجاعت کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں کسی قدر اکل کُھرا پن بھی ہے۔ جب بگڑ گئے، بگڑ گئے۔ پھر سرکش گھوڑے کی طرح پٹھے پر ہاتھ دھرنے نہیں دیتے۔ لالہ لاجپت رائے کا مقابلہ کرنا سنگ خارا کی چٹان سے ٹکرانا تھا۔ ڈاکٹر ستیہ پال ان سے خوب خوب لڑے، بار بار گرے لیکن چھاڑ پونچھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور متواتر شکستوں کے باوجود ان کے دم خم میں کوئی فرق نہ آیا۔
ان کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے فوراً زبان پر آجاتا ہے۔ تلخ سے تلخ بات بر سر عام کہہ گزرتے ہیں اور کوئی سمجھائے بھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ لالہ لاجپت رائے کے ساتھیوں سے ان کے تعلقات آج تک درست نہیں ہو سکے۔ ان کی رائے ہے کہ پنجاب کانگرس کی عنان انھیں لوگوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جو کانگرس کی تحریک سے وابستہ رہے ہیں اور ذرہ بھر ادھر ادھر نہیں ہوئے۔ اور سچ پوچھیے تو اسی دلیل کے زور سے انھوں نے کانگرس کی صدارت پر اجارہ قائم کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند سیرت کے اعتبار سے ڈاکٹر ستیہ پال کے الٹ ہیں۔ ان میں اکل کھرا پن نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس بچھے ہی جا رہے ہیں۔ یوں تو جوڑ توڑ میں ڈاکٹر ستیہ پال بھی کم نہیں۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس فن میں وہ اپنے حریف کو نہیں پہنچتے۔ ڈاکٹر ستیہ پال اپنے سیاسی حریفوں سے میل جول کو بہت معیوب سمجھتے ہیں اور ڈاکٹر گوپی چند ہر قسم کے لوگوں سے ملتے ہیں۔ لیکن اس آزادانہ خلا ملا کے باوجود ان کے دل کی تھاہ پانا مشکل ہے۔
کچھ عرصہ سے پنجاب کی سیاست کا یہ رنگ ہے کہ کانگرس سوشلسٹ پارٹی ڈاکٹر ستیہ پال کے ساتھ ہے۔ احرار سے بھی ڈاکٹر صاحب کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ادھر اکالی پارٹی ڈاکٹر گوپی چند کی پشت پر ہے۔ اتحاد ملت والے اگرچہ مٹھی بھر ہیں لیکن ڈاکٹر گوپی چند کو وہ ڈاکٹر ستیہ پال سے کم خطر ناک سمجھتے ہیں۔ یونینسٹ پارٹی کا رجحان بھی زیادہ تر ڈاکٹر گوپی چند کی جانب ہے۔
مجھے ڈاکٹر ستیہ پال سے بہت کم ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ گوجرانوالہ میں دو تین دفعہ ملاقات ہوئی۔ وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے۔ گوجرانوالہ کانفرنس کے بعد صرف دو دفعہ لاہور میں ملا۔ پھر سات آٹھ سال ان سے ملنے کا موقع ہاتھ نہ آیا۔ البتہ جلسوں میں ان کی تقریریں ضرور سنتا تھا۔ کیونکہ ان کی تقریریں اپنی اکتا دینے والی یکسانی کے باوجود مجھے پسند ہیں۔ وہ بار بار ایک ہی بات کہتے ہیں اور ایک ہی اسلوب سے کہتے ہیں۔ وہ کتابیں نہیں پڑھتے، مسائل پر غور نہیں کرتے اور اپنے پرانے ڈھرّے پر چلے جا رہے ہیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی نظروں میں شاید ان کی حرکت معیوب ہو لیکن داغ مرحوم نے جو پرانے انداز کے شاعر تھے، وضعداری کے مفہوم کو اس قدر وسعت دی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ ادا بھی ایک قسم کی وضعداری معلوم ہوتی ہے۔ داغ کا مشہور شعر ہے ؎
کتنا باوضع ہے خیال یار!
بیکسی میں بھی آئے جاتا ہے
پچھلے سال کئی برس کے بعد پھر مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ واقعہ یوں ہے کہ کشمیر میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو قومی کارکنوں میں سے دو صاحب بخشی غلام محمد اور پنڈت پریم ناتھ لاہور تشریف لائے اور یہاں مختلف لیڈروں سے ملے۔ ڈاکٹر گوپی چند نے فوراً تحریک کشمیر کی حمایت میں ایک بیان شائع کرادیا۔ لیکن کچھ ایسے واقعات پیش آتے رہے کہ ڈاکٹر ستیہ پال سے انھیں ملنے کا موقع نہ ملا۔ ایک دن میں ان دونوں کو ساتھ لے کے لالہ کرم چند ایڈیٹر پارس سے ملنے گیا۔ ایک اور کشمیری نوجوان مسٹر درگا پرشاد بھی ہمارے ساتھ تھے۔ لالہ کرم چند نے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا: آپ ڈاکٹر ستیہ پال سے بھی ملے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ کہنے لگے ضرور ملیے۔ میں چاہتا ہوں کہ تحریک کشمیر کی حمایت میں ایک جلسہ ہو جائے۔ اگر کسی وجہ سے جلسہ نہ ہو سکا تو کم از کم ڈاکٹر صاحب ایک آدھ بیان ہی شائع کرا دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب پارس کے دفتر سے چند قدم کے فاصلہ پر رہتے ہیں۔ ہم سب اٹھ کے ان کی خدمت میں پہنچے۔ اس وقت وہ تنہا بیٹھے تھے۔ لالہ کرم چند نے ہم سب کا تعارف کرا کے کہا: میں تو چلتا ہوں آپ خود باتیں کر لیجیے۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ کشمیر کا نام سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ ان کی باچھوں پر جو مسکراہٹ سی پھیلی ہوئی تھی وہ آناً فاناً کہیں غائب ہو گئی۔ انھوں نے زور سے منہ بند کر لیا اور ذرا تن کے بیٹھ گئے۔ بخشی غلام محمد ان کے بالکل بالمقابل تھے اور ان دونوں کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دو حریف آمنے سامنے بیٹھے اس انتظار میں ہیں کہ دیکھیں پہلے کون وار کرتا ہے۔
پہلا وار بخشی غلام محمد نے کیا۔ یہ وار ڈاکٹر ستیہ پال کے دماغ پر تھا۔ یعنی بخشی صاحب نے ریاستوں کے مسئلہ کی اہمیت اور اس مسئلہ کے متعلق کانگرس کے زاویۂ نگاہ کا ذکر چھیڑ دیا۔ لیکن انھیں تھوڑی دیر میں ہی معلوم ہوگیا کہ ڈاکٹر ستیہ پال کا دماغ بعض قدیم تصورات کی تاریکی میں اس طرح گھرا ہوا ہے کہ اس تک روشنی کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر تک ان کی باتیں سنتے رہے اور پھر کہنے لگے: “ان باتوں کو کانگرس ہائی کمانڈ ہی سمجھ سکتی ہے۔ ہم تو ان معاملات میں اس کے تابع فرمان ہیں”۔ ایسے موقعوں پر بے خبری اور لا علمی کا اظہار بہت بڑا دفاعی حربہ ثابت ہوتا ہے۔ بخشی صاحب نے جب دیکھا کہ یہ وار خالی گیا تو وہ دماغ سے دل کی جانب متوجہ ہوئے۔ یعنی کشمیریوں کی مظلومی کی داستان سے ڈاکٹر صاحب کو متاثر کرنا چاہا۔ لیکن یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا اور ڈاکٹر صاحب نے کچھ سننے کے بعد فرمایا: “کشمیر کا موجودہ وزیر اعظم گوپال سوامی آئنگر بہت بڑا مدبر ہے۔ دیکھا، چند دنوں کے اندر تحریک کو کچل کے رکھ دیا”۔ اب تک ان کے چہرے پر انقباض کے آثار نمایاں تھے۔ لیکن آئنگر کا نام آتے ہی ان پر انقباض کے بجائے انبساط کی کیفیت طاری ہونے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انھیں بیٹھے بیٹھے کسی نے گدگدا دیا ہے۔ انھوں نے مسکرا کے پھر ایک مرتبہ کہا: “ہاں یہ آئنگر بڑا قابل شخص ہے۔ سول نافرمانی کی تحریک کو دبا دینا اسی کا کام تھا”۔
میری حیثیت تو تقریباً تماشائی کی تھی۔ اس لیے مجھے اس موقع پر ان سے کچھ کہنا مناسب معلوم نہ ہوا۔ بخشی صاحب نے بھی مصلحت اسی میں سمجھی کہ خاموش رہیں۔ ورنہ اس قدر ظاہر تھا کہ آئنگر کے کارنامہ پر وہ اس طرح خوش ہیں جس طرح ولنگڈن کی کارکردگی پر برطانیہ کے بڑے بڑے امرا اور حکام خوش تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد جب بخشی صاحب نے ان سے استدعا کی کہ آپ سے اور کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم موجودہ تحریک کشمیر کی حمایت میں ایک آدھ جلسہ ہی کرا دیجیے تو انھوں نے فرمایا: “مجھے معاف رکھیے۔ شیخ محمد عبد اللہ بڑا فرقہ پرست ہے اور مجھے یقین نہیں آتا کہ کشمیر میں ہندوؤں کا جان و مال محفوظ ہے”۔ یہ الفاظ کہہ کے انھوں نے ہاتھ جوڑ لیے اور سرجھکا دیا۔ جس کے معنی یہ تھے کہ “اب ہوا کھائیے”!
اس واقعہ کو مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہوا تھا کہ ڈاکٹر ستیہ پال نے “نیشنل کانگرس” نکالنے کا ارادہ کیا۔ شیخ محمد حیات نے ایک دن مجھ سے کہا کہ تم نیشنل کانگرس میں کیوں نہیں آجاتے۔ کانگرس کا پر چہ ہے تمھیں اس میں آزادی سے کام کرنے کا موقع ملے گا۔ میں نے کہا: “میرے نزدیک تو ڈاکٹر ستیہ پال کی کانگرسیت بھی مشتبہ ہے”۔ کہنے لگے: “تمھیں وہم ہوا ہے۔ ڈاکٹر ستیہ پال ایسے نہیں اور پہلے کبھی ایسے تھے تو اب ویسے نہیں رہے۔ اور پھر اخبار میں ڈاکٹر ستیہ پال کا کیا ہے، اس کی ترتیب تمھارے سپرد ہوگی جو چاہو کیجیو”۔ اس کے کہنے سے میں “نیشنل کانگرس” کے ادارہ میں شامل ہو گیا۔
ڈاکٹر ستیہ پال کو خود تو اخبار سے زیادہ تعلق نہیں تھا۔ وہ صرف اخبار کے لیے لیڈنگ آرٹیکل گھسیٹ دیا کرتے تھے اور کسی دن مزے میں آکر تین تین چار چار لیڈنگ آرٹیکل گھسیٹ ڈالتے تھے۔ اخبار کا انتظام ڈاکٹر صاحب کے ایک نوجوان عقیدت مند لالہ رام لال کے سپرد تھا۔ لالہ رام لال کی قابلیت، استعداد اور ان کے گذشتہ مشاغل کے متعلق تحقیق کے باوجود مجھے صرف اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ وہ پنجاب کانگرس میں مدت سے کام کر رہے ہیں اور ڈاکٹر ستیہ پال کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں تک عقیدت کا تعلق ہے، جتنی عقیدت لالہ رام لال کو ڈاکٹر ستیہ پال سے ہے اس سے کہیں زیادہ ڈاکٹر صاحب کو ان کے ساتھ ہے۔ لالہ رام لال غالباً پنڈت چمبا رام کے توسط سے ڈاکٹر ستیہ پال تک اور ان کے توسط سے پنجاب کانگرس تک پہنچے۔ کانگرس میں ان کا عمل دخل نہیں رہا۔ لیکن ڈاکٹر ستیہ پال کی طبیعت میں وہ اب تک دخیل ہیں۔ چھریرے بدن کے آدمی ہیں۔ گوری رنگت، عمر اکیس بائیس سال کی ہوگی۔
پنڈت چمبا رام پنجابی زبان کے شاعر ہیں اور ڈاکٹر ستیہ پال کی پارٹی انھیں پنجاب کا قومی شاعر کہتی ہے۔ زیادہ لکھے پڑھے نہیں۔ شاید اپنا نام پڑھ لیتے ہوں۔ لیکن اپنے دوستوں میں وہ اقبال اور ٹیگور دونوں سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔
لالہ رام لال سے ان کی پرانی دوستی ہے اور ابھی تک بچارے برابر اسے نباہتے چلے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں پنجاب کانگرس کے اندر ان دونوں کا اثر بہت بڑھ گیا تھا۔ کیونکہ ڈاکٹر ستیہ پال ہمیشہ انھیں کے اشاروں پر چلا کرتے تھے۔ میرے ایک دوست انھیں “چمبا رام لال کانگرس مرچنٹس یا ڈیلرز ان کانگرس” کہا کرتے ہیں۔ لالہ رام لال نیشنل کانگرس کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور مینیجنگ ایڈیٹر تھے اور نیشنل کانگرس کے خاتمہ تک اس عہدہ پر رہے۔ چمبا رام کا عہدہ تو مشخص نہیں ہو سکا۔ بہر حال وہ اس اخبار میں کوئی اعلیٰ عہدہ رکھتے تھے۔ اخبار میں ان کا کام صرف اتنا ہے کہ رات کو جب کاپیاں مرتب ہو کے پریس میں بھیجی جاتی ہیں تو وہ انھیں ایڈیٹر سے لے کے چپراسی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ چونکہ وہ بچارے ہمیشہ “فکر شعر” میں کھوئے رہتے ہیں، اس لیے انھیں اخبار کے معاملات میں دخل دینے کا موقع کم ملتا ہے۔
ان کے علاوہ لالہ دیسراج مہاجن بھی اخبار کے کاموں میں بہت دخیل تھے۔ مہاجن صاحب کسی زمانے میں سیالکوٹ سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالتے رہے ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر ستیہ پال کی پارٹی میں ان سے زیادہ اخباری تجربہ کسی کو حاصل نہیں۔
مقالہ افتتاحیہ خود ڈاکٹر ستیہ پال لکھتے تھے اور میرا بہت سا وقت اس کی تصحیح میں صرف ہو جاتا تھا۔ وہ لکھنے پر آتے ہیں تو بس لکھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی تحریر کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ موضوع کچھ ہو، ہر پھر کے ایک ہی بات کہیں گے۔ ان کے مضامین کی اصلاح کرتے کرتے میرا یہ حال ہوگیا کہ خود کچھ لکھنے بیٹھتا تھا تو اس میں بھی ایک حد تک ڈاکٹر ستیہ پال کی تحریر کا انداز ہوتا تھا۔
چند دنوں میں ہی ہمیں معلوم ہوگیا کہ ان لوگوں سے زیادہ دیر تک نباہ نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلے مجھ سے کہا گیا کہ آپ تحریر میں مہاشہ ناز کا تتبع کیجیے کیونکہ اردو لکھنے کا صحیح انداز وہی ہے۔ پھر ارشاد ہوا کہ اخبار میں عربی فارسی کے الفاظ بہت ہوتے ہیں۔ ایک دن تو معاملہ حد سے گزر گیا، یعنی صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اخبار میں جمعرات اور جمعہ کے بجائے ویروار اور شکروار لکھا جائے۔
ہم سمجھتے تھے کہ یہ اخبار لوگوں کو کانگرس کے قریب لانے کی کوشش کرے گا لیکن ڈاکٹر ستیہ پال اور ان کے ساتھیوں کو پارٹی بازی کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا۔ آخر اخبار کے کالم انھیں جھگڑوں کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ مسٹر رام لال جب تک صرف “چمبا رام رام لال” تھے اس وقت بھی ان کے غرور کا یہ حال تھا کہ زمین پر پاؤں نہیں دھرتے تھے۔ جب سے وہ اخبار کے مینیجنگ ڈائریکٹر بنے، اپنے آپ کو “مہاشہ ویریندر” کا حریف سمجھنے لگے۔ ہم میں ناز برداری کا حوصلہ نہیں تھا۔ اس لیے مجبور ہو کے علاحدگی اختیار کر لی۔ پہلے میں علاحدہ ہوا پھر باری صاحب اور حمید نظامی صاحب بھی الگ ہو گئے۔
ہمیں اخبار میں ڈاکٹر ستیہ پال سے ملاقات کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ وہ کچھ دن تو روز آیا کرتے تھے۔ پھر دوسرے تیسرے آنے لگے۔ اسی زمانہ میں انتخابات کا قصہ شروع ہوگیا اور ان کی توجہ اس طرف بٹ گئی۔ بہرحال ان دنوں ان سے جو باتیں ہوئیں ان سے معلوم ہوتا تھا کہ اب وہ لیڈری چھوڑ کے اخبار نویسی کو اپنا مستقل پیشہ بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اخبار کا معاملہ بھی ذرا ٹیڑھا ہے۔ لیڈری ہر حال میں چل جاتی ہے اور اخبار ذرا مشکل سے نکلتا ہے۔ مولوی عبد القادر صاحب قصوری کانگرس کے صدر مقرر ہوجاتے۔ ڈاکٹر صاحب کی چاندی تھی۔ یعنی اخبار بھی چلاتے اور مولوی صاحب کے پردہ میں کانگرس کی صدارت بھی کرتے۔ لیکن بدقسمتی سے ادھر ڈاکٹر کچلو صدر منتخب ہوئے، ادھر اخبار کی کشتی ڈانوا ڈول نظر آنے لگی۔ آخر انھوں نے سوچا کہ ان سارے قضیوں کو چھوڑ کے ریاستوں کے سیاسی معاملات میں حصہ لینا چاہیے۔ چنانچہ ادھر پٹیالہ کے بعض ریاستی کارکنوں کو گانٹھا، ادھر جموں کے کانگرسیوں سے تعلقات پیدا کیے۔ ساتھ ہی حیدرآباد ستیہ گرہ میں بھی دلچسپی لینی شروع کردی اور اس ستیہ گرہ کے سلسلہ میں ایک دو ایسی تقریریں کرگئے جن پر ڈاکٹر مونجھی اور بھائی پرمانند دونوں کو رشک آئے۔
ڈاکٹر ستیہ پال کے اکثر مسلمان دوستوں کو ان کے موجودہ طرز عمل سے شدید اختلاف ہے۔ لیکن بچارے ڈاکٹر ستیہ پال کیا کریں۔ جب تک ان سے ممکن ہوا انھوں نے کانگرس کی حمایت میں خون پسینہ ایک کر دیا۔ اب ڈاکٹر کچلو کے صدر منتخب ہوجانے کے بعد کانگرس میں سرے سے ان کی گنجائش نہیں رہی۔ ایسی حالت میں وہ اگر آریہ سماج کی طرف جھک گئے اور جوش کے عالم میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہر کانگرسی آریہ سماج کی تحریک کے ساتھ ہے تو انھیں معذور سمجھنا چاہیے۔
میں یہ بات اس مضمون کے آغاز میں کہہ چکا ہوں کہ ڈاکٹر ستیہ پال کوئی صاحب فکر شخص نہیں تھے۔ لیکن اس دور میں جب کہ سیاسیات کے اہم مسائل کو اقتصادی زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کا مذاق عام ہو رہا ہے، وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ پنجاب کی موجودہ طبقاتی جنگ میں جو زراعت پیشہ اور غیر زراعت پیشہ جماعت کے درمیان ہے انھیں لا محالہ غیر زراعت پیشہ کا ساتھ دینا پڑے گا۔ چنانچہ جس زمانہ میں کانگرس کے صدر کی حیثیت سے ان پر بڑی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں انھوں نے اس معاملہ میں اس حد تک جرات کا ساتھ دیا کہ ہائی کمانڈ کے احکام تک کی پروا نہیں کی۔ کانگرس کی صدارت کے بار گراں سے سبک دوش ہونے کے بعد ان کے لیے بنیوں اور ساہوکاروں کی حمایت کرنا بہت آسان ہو گیا ہے اور وہ یہی کریں گے۔
پچھلے دنوں انھوں نے فارورڈ بلاک سے تعلق قائم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن فارورڈ بلاک ان کے ڈھب کی چیز نہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں جو کچھ کیا ہے اس کی حیثیت محض انتقامی ہے۔
ڈاکٹر عالم
ڈاکٹر شیخ محمد عالم جنھیں اکثر لوگ صرف ڈاکٹر عالم کہتے ہیں پنجاب کے مشہور لیڈروں میں سے ہیں۔ کسی جلسہ یا کانفرنس میں آپ نے انھیں ضرور دیکھا ہوگا۔ ذرا “الفربہ” قسم کے آدمی ہیں۔ قد درمیانہ، رنگ گندمی، بڑی بڑی روشن آنکھیں، ہنستا ہوا چہرہ۔ اب ڈاڑھی منڈواتے ہیں اور اس طرح منڈواتے ہیں کہ کھونٹی تک باقی نہیں چھوڑتے۔ لیکن کسی زمانے میں ان کے چہرے پر گنجان ڈاڑھی تھی جو بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔
وطن مالوف کے متعلق صرف اتنا معلوم ہے کہ چکوال اور جموں دونوں کو ان پر حق حاصل ہے۔ اور اب تو لاہور اور گجرات کا بھی حق شفع ہوتا جاتا ہے۔ کیونکہ انھوں نے شادی گجرات میں کی اور رہتے لاہور میں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آپ ان کا پتہ پوچھیں اور ہم نہ بتا سکیں۔ کیونکہ وہ زیادہ دیر ایک مکان میں نہیں ٹکتے۔ آج یہاں ہیں، کل وہاں۔ کل شام تک وہ مزنگ سے ادھر 7 فین روڈ پر رہتے تھے، آج خدا جانے کہاں ہیں۔ لیکن کہیں بھی ہوں مولانا عبد القادر کو ان کا پتہ ضرور معلوم ہوگا۔ لاہور سے قصور تک صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر ہے۔ چاہے ریل پر جائیے چاہے بس پر۔
ڈاکٹر صاحب نے کچھ دنوں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں بھی تعلیم پائی ہے۔ لیکن بی اے آکسفرڈ سے پاس کیا۔ بیرسٹری کی ڈگری لندن سے لی۔ چلتے چلتے ڈبلن سے ایل ایل ڈی کا ڈپلومہ بھی لے آئے اور لاہور آ کے مزے سے بیرسٹری کی پریکٹس شروع کردی۔ جنگ سے پہلے کا زمانہ تھا اور ڈاکٹر صاحب کی اٹھتی جوانی۔ اور جوانی چنانکہ افتد دانی۔ اگرچہ ان کی پریکٹس دنوں میں ہی چمک گئی لیکن لاہور کی آب و ہوا راس نہ آئی اور وہ جہلم اٹھ گئے۔ جہلم میں بھی ایسا پیچ پڑا کہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور “سر شوریدہ بر بالین آسائش رسید ایں جا” کہہ کر سرگودھا میں ڈیرے ڈال دیے۔
سرگودھا ایک چھوٹا سا بے روبق شہر ہے۔ نہ لاہور کی سی چہل پہل، نہ جہلم کی سی دلآویزی۔ لیکن شہر کے بے رونقی نے عدالتوں پر اثر نہیں ڈالا اور ڈاکٹر عالم کے قیام کے زمانے میں تو وہاں کی عدالتیں خصوصیت سے آباد تھیں۔ کیونکہ جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی، زمین داروں کے پاس روپیہ کی فراوانی تھی اور انھیں مقدمہ بازی کے سوا روپیہ کا کوئی دوسرا مصرف معلوم نہیں تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی طبیعت سرگودھا میں بھی جلد اکتا گئی۔ آکسفرڈ اور لندن کی زندگی کے بعد لاہور غنیمت تھا۔ جہلم بڑا شہر نہ سہی لیکن پرفضا جگہ تو ہے۔ اور سرگودھا – خدا کی پناہ – کچھ اونچے نیچے مکان، دو تین لمبے لمبے بازار، زمین داروں کی ہیبت ناک صورتیں، بڑی بڑی گنجان ڈاڑھیاں، سر کے لمبے لمبے بال کندھوں تک پھیلے ہوئے، نیلے تہ بند۔ جو آتا ہے سیدھا کوٹھی میں گھس جاتا ہے اور پہروں اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اہل مقدمہ آئیں تو خیر اور بات ہے۔ لیکن بعض لوگ تو دانت نکلوانے بھی چلے آتے ہیں۔ انھیں اتنا معلوم نہیں کہ ڈاکٹر عالم بیرسٹر ہیں دندان ساز نہیں۔ یہاں پڑے رہے تو کیا ہوگا۔ یہی کہ زندگی اطمینان سے گزر جائے گی۔ لیکن دنیا کے نزدیک سرگودھا کے ایک وکیل کی کیا حیثیت ہے؟ اس علاقہ سے باہر کتنے لوگ اسے جانتے ہیں۔ سرگودھا میں وکالت ہی کرنا تھا تو بیرسٹری کیوں پاس کی؟ آکسفرڈ سے بی اے کی ڈگری کیوں لی؟ ایل ایل ڈی کا ڈپلومہ آخر کس کام آئے گا؟ مجبوری کی اور بات ہے۔ لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اسی گوشہ کمنامی میں ساری عمر گزار دی جائے۔ عمر گزارنا تو درکنار۔ اس تصور سے خفقان ہونے لگتا ہے۔
جنگ کے بعد رولٹ ایکٹ اور مارشل لا کے ہنگامے ہوئے۔ ساتھ ہی خلافت کی تحریک شروع ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب روزانہ اخبار پڑھتے اور دل ہی دل میں سوچتے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ بار روم میں دوسرے وکیلوں سے روز بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کہتا تھا کہ انگریز ہندوستان میں چند دن مہمان ہیں، کسی کا خیال تھا کہ یہی لوگ جو آج جیلوں میں ہیں ملک کے حکمران ہوں گے۔ مہاتما گاندھی کی پر اسرار اشخصیت نے سب کو مرعوب کر رکھا تھا۔ چرخہ، کھدر، اہنسا، ستیہ گرہ وغیرہ الفاظ سے لوگوں کے کان پہلی مرتبہ آشنا ہوئے تھے۔ پنڈت نہرو گاندھی جی کے فلسفہ کی تائید میں گیتا اور وید کے شلوک اور مولوی قرآ۔ کی آیتیں اور حدیثیں پیش کر رہے تھے۔ اگرچہ مہاتما گاندھی جی کی باتوں کا مطلب بہت کم لوگ سمجھتے تھے مگر اس بات پر تو سب کا اتفاق تھا کہ گاندھی جی کا چرخہ برطانیہ کی توپوں پر بھاری ہے۔ ہندوستان آزاد ہوگا۔ گاندھی جی کے ہاتھوں آزاد ہوگا اور چرخہ کے ذریعہ آزاد ہوگا۔
ڈاکٹر عالم کے ذہن میں خلافت، کانگرس، چرخہ، ستیہ گرہ اور اس قسم کے دوسرے مسائل تیزی سے گردش کر رہے تھے۔ مذہب سے انھیں چنداں شغف نہ تھا۔ مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں سے بھی وہ الگ تھلگ رہتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے گھر کا ماحول کسی حد تک مذہبی تھا لیکن آکسفرڈ اور لندن کے قیام نے اس برائے نام سی مذہبیت کو بھی بالکل دبا دیا تھا۔ بایں ہمہ خلافت کا مسئلہ اور چیز تھا اور وہ محسوس کررہے تھے کہ اس دور میں جب کہ خلافت اور کانگرس کی تحریکوں کی باگ ڈور مشہور وکیلوں اور قانون دانوں کے ہاتھوں میں ہے، ان کا ان تحریکوں سے علاحدہ رہنا کسی طرح مناسب نہیں۔ آزاد ہندوستان میں بڑے بڑے عہدے انھیں لوگوں کے قبضہ میں ہوں گے جنھوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے قربانیاں کی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ لیڈری کی راہ جیل کی پھاٹک سے ہو کر گزرتی ہے۔ لیکن انسان ذرا عقلمند ہو تو جیل جانے کے بغیر بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو اکثر لوگوں نے صرف جیل میں رہ کر حاصل کیا ہے۔
ایک دن ڈاکٹر عالم بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، دفعتاً انھیں خیال آیا کہ لوگ بڑے بڑے عہدے چھوڑ کے کانگرس اور خلافت کی تحریکوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ میں بھی کیوں نہ پریکٹس ترک کر دوں۔ انھوں نے اسی وقت مولانا محمد علی کو خط لکھا۔ چند دن کے بعد جواب آیا کہ سیدھے علی گڑھ چلے آؤ۔
سرگودھا کے اسٹیشن پر دوست احباب کے علاوہ بہت سے کانگرسی اور خلافتی کارکن انھیں چھوڑنے آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب شدھ کھدر کا لباس پہنے ہوئے تھے۔ گلے میں پھولوں کے ہار تھے جن کے بوجھ سے ان کی گردن خم ہوئی جا رہی تھی۔ انجن نے سیٹی دی اور وہ گاڑی میں جا بیٹھے۔ اسٹیشن بندے ماترم، اللہ اکبر اور زندہ باد کی صداؤں سے گونج اٹھا۔ علی گڑھ میں مولانا محمد علی اور دوسرے لیڈر “جامعہ ملیہ” کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کر رہے تھے۔ اس نئی یونیورسٹی کے پاس نہ روپیہ تھا اور نہ اپنی عمارت۔ صرف “اللہ” کا نام تھا۔ پہلے خیموں میں تعلیم دی جاتی تھی۔ پھر گھاس پھوس کے چند جھونپڑے تعمیر کر لیے گئے۔ مسلم یونیورسٹی کے بہت سے طلبہ جو ترک موالات کی تحریک سے متاثر تھے، ادھر سے ٹوٹ کے جامعہ ملیہ میں شامل ہو گئے تھے۔ باہر کے طلبہ بھی برابر چلے آرہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو اگرچہ ملک میں کوئی خاص شہرت حاصل نہیں تھی، لیکن ان کے پاس ولایت کی ڈگریاں تو تھیں۔ پھر ان کی قربانی سے سب متاثر تھے۔ کیونکہ وہ اچھی خاصی پریکٹس چھوڑ کر آئے تھے۔ اس لیے علی گڑھ پہنچتے ہی انھیں نائب شیخ جامعہ مقرر کر دیا گیا۔ مولانا محمد علی کو ڈاکٹر کی اگر کوئی بات ناپسند تھی تو ان کا پنجابی لب و لہجہ اور پنجابی محاورے۔ وہ اردو بولتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ الفاظ حلق کی بعض خاص رگوں سے نکل رہے ہیں جن کا استعمال یوپی کے لوگوں کو سرے سے معلوم ہی نہیں۔
ایک تو ان کا لہجہ بھی اردو کے لیے نا موزوں تھا۔ پھر وہ جب باتیں کرتے کرتے “میں نے دلی جانا ہے” یا اس قسم کا کوئی اور جملہ بول دیتے تھے تو سننے والوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہو جاتی تھی۔ لیکن مولانا محمد علی تو چلتی تلوار تھے۔ زیر لب مسکرا کر چپ رہنا ان کی وضع کے خلاف تھا۔ ایسے موقعوں پر وہ ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کو ٹوکتے تھے اور سب کے سامنے ٹوکتے تھے۔
ڈاکٹر عالم جب تک خلافت کی تحریک میں شامل نہیں ہوئے تھے ولایتی سوٹ پہنتے تھے۔ ڈاڑھی روز اسی طرح گھٹتی تھی کہ کھونٹی تک نہیں چھوڑتے تھے۔ لیکن جامعہ پہنچتے ہی ان کی وضع قطع بدل گئی۔ کھدر کا پاجامہ، کھدر کا کرتا اور اس پر کھدر کی ایک عبا۔ سر پر کھدر کی ایک سرخ ٹوپی جس پر چاند تارا کڑھا ہوا۔ شعر و شاعری کا تھوڑا بہت ذوق انھیں پہلے بھی تھا۔ لیکن جامعہ پہنچ کر تو وہ اچھے خاصے شاعر بن گئے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ذرا “استخوان بند” قسم کے شاعر تھے۔ تقریر بھی کر لیتے تھے اور ان کے پنجابی لب و لہجہ سے قطع نظر کر لیجیے تو ان کی تقریریں خاصی ہوتی تھیں۔ اسی زمانے میں فیروز پولٹیکل کانفرنس ہوئی۔ مولانا آزاد کانفرنس کے صدر تھے۔ ڈاکٹر عالم بھی تشریف فرما تھے۔ مولانا نے بھی تقریر کی اور ڈاکٹر صاحب نے بھی۔ اگرچہ دونوں کی تقریریں اپنی جگہ خوب تھیں لیکن ڈاکٹر عالم کی تقریر زیادہ زوردار تھی، اور کسی کی یہ رائے ہو نہ ہو کم از کم ڈاکٹر صاحب کی یہی رائے تھی۔
خواجہ عبد الحمید شیخ جامعہ یعنی پرنسپل تھے اور ڈاکٹر عالم نائب شیخ جامعہ یعنی وائس پرنسپل۔ خواجہ صاحب گرفتار ہوئے تو ڈاکٹر صاحب ان کی جگہ پرنسپل مقرر ہوئے۔ پہلے کچھ دیر علی گڑھ میں لشٹم پشٹم گزارہ ہوتا رہا۔ پھر جامعہ کو دہلی منتقل کردیا گیا۔ اب جذبات کی طغیانی کا دور گزر چکا تھا۔ بہت سے طالب علم جو محض ہنگامی اثرات کے تحت جامعہ میں داخل ہو گئے تھے واپس جارہے تھے اور صرف وہی لوگ رہ گئے تھے جو واقعی قومی درس گاہوں کو حکومت کے اثر سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر عالم پہلے پہل سرگودھا سے علی گڑھ گئے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہندوستان میں انگریزی حکومت بس چند دنوں کی مہمان ہے۔ سوراج اب ملا کہ ملا۔ لیکن چورا چوری کے واقعہ نے لٹیا ڈبودی اور عدم تعاون کی تحریک سرد پڑگئی۔ اس واقعہ نے طلبہ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کو بھی بد دل کر دیا اور انھوں نے جو منصوبے باندھ رکھے تھے، آن کی آن میں ملیا میٹ ہو گئے۔
انھیں اگر یہ یقین ہوتا کہ وہ مستقل طور پر جامعہ کے پرنسپل رہیں گے تو وہ شاید یہیں پڑے رہتے۔ لیکن اس کی بھی کوئی امید نہیں تھی۔ جامعہ کی پرنسپلی کے لیے جس قسم کی قابلیت اور استعداد کی ضرورت تھی وہ ان میں سرے سے نہیں تھی۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے پاس بہت سی ڈگریاں بھی تھیں۔ لیکن ادبیات سے انھیں کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ درس و تدریس کے نئے طریقوں کے متعلق بھی ان کا علم بہت محدود تھا۔ نظم و نسق کی صلاحیت بھی بہت کم تھی۔ اور جامعہ کے انداز کی درس گاہ چلانے کے لیے سب سے زیادہ اسی قسم کی چیزوں کی ضرورت تھی۔ پھر سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس کام میں کوئی خاص مالی نفع بھی نہیں تھا۔ اس لیے تھوڑے عرصہ میں ہی ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ ان سے یہ کھکھیڑیں نہیں اٹھ سکیں گی۔ چنانچہ 1933ء میں وہ جامعہ سے مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے اور یہاں آتے ہی پریکٹس شروع کردی۔
وہ دلی سے لاہور آئے تھے تو بغل میں سجادہ بھی تھا۔ ہاتھ میں تسبیح، منہ پر ڈاڑھی، ماتھے پر نماز کا گٹھا۔ کچھ وقت مناجات سحر میں بسر ہوتا تھا۔ کچھ تلاوت میں۔ لیکن وکالت کے جھنجھٹ میں پڑ کے وہ آہستہ ہستہ ان چیزوں کو بھول گئے۔ ایک دن بار روم میں بیٹھے زور زور سے ڈاڑھی کو کھجلا رہے تھے کہ کسی نے پوچھا: ڈاکٹر صاحب خیر تو ہے آج آپ ڈاڑھی کھجلا رہے ہیں۔ کہنے لگے: “بھائی کیا کہوں، اگزیما ہوگیا ہے”۔ دوسرے دن پھر یہی ماجرا پیش آیا اور بار روم میں شور مچ گیا کہ ڈاکٹر صاحب کو اگزیما ہو گیا ہے۔
اگزیما کا علاج ڈاکٹر صاحب کو بھی معلوم تھا اور ان کے رفقا کو بھی۔ تیسرے چوتھے دن وہ آئے تو ڈاڑھی صفا چٹ تھی۔ چونکہ اگزیما کا ذکر کئی دن سے ہو رہا تھا، اس لیے لوگوں کو چنداں تعجب نہ ہوا اور بار روم میں اس واقعہ ذکر بھی آیا تو اس انداز میں کہ ایک نے مسکرا کے پوچھا: “ڈاکٹر عالم نے ڈاڑھی کیوں منڈوا دی؟” دوسرے نے جواب دیا: “انھیں اگزیما ہو گیا تھا”۔
سنا ہے ڈاڑھی کا مرثیہ بھی لکھا گیا۔ خداجانے یہ مرثیہ ڈاکٹر صاحب نے خود لکھا تھا یا ان کے کسی دوست نے۔ بہرحال ہمیں اس کا صرف ایک شعر یاد رہ گیا ہے:
جس کے لیے حضور کو کہتے تھے مولوی
عالم کہو کہ آج وہ ڈاڑھی کدھر گئی
ڈاکٹر عالم پہلی دفعہ لاہور آئے تھے تو ان کی حیثیت محض ایک نوجوان بیرسٹر کی تھی۔ دوسری دفعہ آئے تو بڑے بیرسٹر ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے لیڈر بھی تھے۔ پھر ان کے ساتھ “سابق شیخ الجامعہ” کا پر طمطراق لقب بھی لگا ہوا تھا۔ اس لیے یہاں لوگوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خاص طور پر قومی حلقوں میں تو ان کی بڑی شہرت تھی اور خلافت کمیٹی کے ارکان ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔
ان دنوں مولانا عبد القادر قصوری پنجاب میں سب کچھ تھے۔ یعنی خلافت کمیٹی اور کانگرس دونوں پر وہی چھائے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے ربط و ضبط بڑھایا اور رفتہ رفتہ یہ کیفیت ہوئی کہ مولانا کی زبان پر اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ڈاکٹر عالم کا ہی کا نام ہوتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اکثر لوگوں کو جن میں پنجاب کے خلافتی حضرات پیش پیش نظر آتے تھے، ڈاکٹر عالم سے چڑھ سی ہوگئی تھی۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جنھیں بچارے ڈاکٹر عالم کے خلوص پر شبہ تھا۔ لیکن مولانا عبد القادر کے پاس خاطر سے کسی کو زبان ہلانے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔
ڈاکٹر عالم اب انیلے نوجوان نہیں تھے۔ زمانے کے بہتیرے اتار چڑھاؤ دیکھ چکے تھے۔ قانون میں ان کی سوجھ بوجھ مشہور تھی۔ فوجداری میں بڑے بڑے جغادری وکیلوں کے کان کاٹتے تھے۔ خاص طور پر جرح کا انھیں کچھ ایسا ڈھب آگیا تھا کہ اچھے مقدمہ باز جنھوں نے عدالتوں میں ہی عمریں گزار دی تھیں، ان کے اینڈے بینڈے سوالات کے سامنے ٹھہر نہ سکتے تھے۔ اس لیے ان کی پریکٹس دنوں میں چمک گئی۔ اگرچہ وہ شعر بھی کہتے تھے۔ کبھی کبھی مضمون بھی لکھ لیا کرتے تھے۔ جلسوں میں تقریریں بھی کرتے تھے۔ لیکن لوگوں میں وہ قانون دان اور مقرر کی حیثیت سے زیادہ مشہور نہیں ہو سکے اور اس معاملہ میں انھیں ہمیشہ زمانہ کی قدر ناشنانی کا گلہ رہا۔
لاہور پہنچ کر پہلے تو ڈاڑھی پر آفت آئی۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے پرانا لباس بھی ترک کر دیا۔ یعنی سرخ ٹوپی، عبا، کرتے اور پاجامے کی جگہ سوٹ اور ہیٹ پہننے لگے۔ کبھی کبھی اچکن اور تنگ پاجامہ بھی پہن لیتے تھے لیکن اب بھی ان کا سارا لباس کھدر کا ہوتا تھا اور آج تک وہ اس معاملہ میں وضعداری نباہتے چلے جاتے ہیں۔
ان دنوں خلافت اور کانگرس کے عروج و شباب کا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔ ادھر شدھی اور سنگٹھن کا زور، ادھر تبلیغ و تنظیم کا غلغلہ۔ جو لوگ کانگرس کی تحریک میں پیش پیش رہے تھے، اب وہی سنگٹھن اور شدھی تحریکوں کو چلا رہے تھے۔ اگرچہ تبلیغ اور تنظیم کی تحریکیں محض جوابی طور پر شروع کی گئی تھیں۔ لیکن ان کی پشت پر بھی اکثر پرانے قومی کارکن تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے لیے بڑا مشکل تھا کہ اس عالم میں کس کو چھوڑیں اور کس کا ساتھ دیں۔ تبلیغ و تنظیم کی طرف جھکتے ہیں تو کانگرس میں آگے بڑھنے کا موقع نہیں رہتا اور اس کے ساتھ ساتھ پریکٹس پر بھی اثر پڑتا ہے، اور مسلمانوں سے بالکل بے تعلقی اختیار کر لیتے ہیں تو انتخابات سر پر ہیں اور طریق انتخاب جداگانہ ہے۔ اس زمانے میں انھوں نے ایسی عقلممندی سے کام لیا کہ دونوں میں سے کسی کو شکایت کا موقع نہ ملا۔
ڈاکٹر صاحب پنجاب کونسل کی ممبری کے لیے دو مرتبہ راولپنڈی کے شہری حلقہ میں کھڑے ہوئے۔ دونوں مرتبہ سر عبد القادر ان کے حریف تھے۔ پہلی مرتبہ شکست کھائی اور دوسری دفعہ کامیاب ہوئے۔ ان کی کامیابی کی بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ سر عبد القادر بعض دوسرے کاموں میں الجھ گئے تھے۔ ورنہ ڈاکٹر عالم پر تو وہ ہر حالت میں بھاری تھے۔ میرے شیر نے چاہا تھا کہ بڑھ کے وزارت پر ہاتھ صاف کرے لیکن مرحوم میاں فضل حسین بڑے مردم شناس بزرگوار تھے۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ڈاکٹر عالم جب تک کانگرس سے وابستہ ہے اس کا بھرم قائم ہے۔ ورنہ کونسل کے ممبروں میں ایک ایسا نہیں جو ہر حالت میں اس کے ساتھ چپکا رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک فیروز خاں نون وزیر بن گئے، ڈاکٹر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھر کے آسمان کی طرف دیکھا اور دلی دروازے کا رخ کیا۔ یہاں ان کے خلافتی اور کانگرسی دوست کئی دن سے ان کی راہ تک رہے تھے۔ انھوں نے پوچھا: “کیوں ڈاکٹر صاحب اتنے دن کہاں رہے؟” جواب ملا: بھائی لڑکا صاحب فراش ہے۔ میں خود بھی علیل ہوں۔ کبھی نزلہ کبھی کھانسی کبھی بخار کبھی درد سر۔ اصل میں زندگی کے بکھیڑے کچھ کرنے نہیں دیتے ؎
یہ درد سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے
ڈاکٹر عالم کا دل ہمیشہ ان کے دماغ کے تابع رہا ہے۔ انھیں ایسے موقعے شاذ ہی پیش آئے ہیں کہ ان کے دل نے دماغ کی اطاعت سے انحراف کیا ہو اور ایسے موقعے بھی زیادہ تر جوانی میں پیش آئے ہیں جس کا زور و شور جامعہ جانے سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ دل پر ان کے دماغ کی گرفت زیادہ محکم ہوتی گئی۔ چنانچہ وہ جب سرگودھا سے دلی کے راستے لاہور پہنچے تو ان کے دل میں سرکشی اور بغاوت کی زیادہ صلاحیت نہیں رہی تھی اور ان کے عزم و ارادہ پر دماغ کا پورا پورا تسلط ہو چکا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں جن کی وجہ سے انھیں کئی مرتبہ سخت ندامت اٹھانی پڑی ہے۔ لیکن یہ دل کی غلطیاں تھیں۔ ان کے فہم و رائے کا قصور، ان کی قوت فیصلہ کی کوتاہی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ہمیشہ دل کو دماغ کی غلطیوں کا قصور وار ٹھہراتے رہے۔ کیونکہ لوگ دل کی غلطیوں کو معاف کردیتے ہیں اور دماغ کی غلطیوں کے باب میں وہ ہمیشہ سے سخت گیر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اگر چند لمحوں کے لیے خود کو وزارت کا اہل سمجھ لیا تو یہ ان کے دماغ کی غلطی تھی۔ ان کے فہم کا قصور۔ وہ اس موقع پر بھول گئے کہ وزات کے لیے ذاتی قابلیت ہی شرط نہیں بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جو شخص وزارت کے عہدے کا امیدوار ہے اس کے پشت پر کتنے ووٹوں کی قوت موجود ہے۔ ورنہ کانگرس سے علاحدگی اختیار کرکے وزارت قبول کرلینا کوئی بڑی چیز نہیں۔ ڈاکٹر گوکل چند نارنگ یہی کر چکے ہیں۔ اور کانگرس میں ہمیشہ ایسے لوگ شامل رہے ہیں جنھیں اس قسم کا موقع مل جائے تو وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ تاہم ڈاکٹر صاحب نے اس قصہ میں کچھ کھویا نہیں۔ ان کے دوستوں میں عفو کا مادہ ضرورت سے زیادہ تھا۔ اس لیے وہ اس واقعہ کو چند دنوں میں بھول گئے۔ اب ڈاکٹر صاحب کونسل کے ممبر بھی تھے، لیڈر بھی۔ کونسل کے اندر بھی تقریریں کرتے تھے، باہر بھی۔ الاؤنس بھی ملتا تھا اور لوگوں کی واہ واہ کے ساتھ زندہ باد کے نعرے بھی وصول کرتے تھے۔ قوم پرستی کا بازار اگرچہ ٹھنڈا پڑا جاتا تھا۔ لیکن سائمن کمیشن کی آمد آمد کے شور نے پھر ایک حد تک گہما گہمی سی پیدا کر دی۔
ڈاکٹر صاحب کو میں نے پہلے پہل 1928ء میں دیکھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور گلابی جاڑا۔ کلکتہ میں کانگرس کے اجلاس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ اور خلافت کانفرنس کے اجلاس بھی ہونے والے تھے۔ ایک رات کو عجب ماجرا گزرا۔ بنگال پراونشل خلافت کمیٹی کا انتخاب ہو رہا تھا کہ علی برادران مولوی شفیع داؤدی اور بنگال کے بہت سے خلافتی کارکنوں کے ساتھ پہنچے اور انتخاب کو ناجائز قرار دے کے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ اس موقع پر تھوڑی سی ہشت مشت بھی ہوئی اور ایک دو آدمی پٹ بھی گئے۔ دو تین آدمی جن میں مَیں بھی تھا، یہ خبر لے کے کانگرسی لیڈروں کے قیام گاہ پر پہنچے۔ اس وقت پنڈت موتی لال نہرو، ڈاکٹر انصاری اور مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ ڈاکٹر عالم بھی تھے۔ اور سب تو یہ قصہ سن کے چپکے ہو گئے لیکن ڈاکٹر عالم نے انصاری مرحوم کی طرف رخ کرکے کہا: “حضور! کوئی بات نہیں ہم بدلہ لیں گے”۔
انصاری مرحوم مسکرائے اور کوئی بات چھیڑ دی۔ ڈاکٹر عالم نے تھوڑی دیر میں پہلو بدل کے پھر وہی قصہ شروع کردیا: “یہ بات اچھی نہیں۔ ہم بھی چاہیں تو جلسوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ آپ یہ معاملہ میرے سپرد کر دیجیے”۔ اب کے مولانا ابو الکلام نے “خیر دیکھا جائے گا” کہہ کر بات ٹال دی۔
میں ڈاکٹر عالم کو نہیں جانتا تھا۔ ہم رخصت ہوئے تو میں نے اپنے ایک ساتھی مسٹر محسن علی رنگونی سے پوچھا۔ یہ الفربہ قسم کے بزرگ کون تھے؟ وہ کہنے لگے “تم نہیں جانتے، ڈاکٹر عالم یہی تو ہیں”۔ میں نے کہا: وہی ڈاکٹر عالم جو شیخ الجامعہ رہ چکے ہیں؟ کہنے لگے: “ہاں وہی”۔
میں نے کہا: “یہ تو مولانا محمد علی کے سخت مخالف معلوم ہوتے ہیں”، اور یہ بات صحیح بھی تھی۔ اور سب لوگ تو اصلاح کی کوشش کر رہے تھے لیکن ڈاکٹر عالم سمجھتے تھے کہ اب علی برادران سے ٹھن گئی تو ہم کیوں دبیں۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں غیر شعوری طور پر علی برادران خصوصاً مولانا محمد علی کے خلاف عناد کا جو جذبہ پرورش پا رہا تھا اس کے اسباب بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ انھیں وہ دن یاد تھے جب کانگرس کے اندر، کانگرس کے باہر، خلافت کمیٹی میں، جامعہ ملیہ میں، غرض ہر جگہ مولانا محمد علی چھائے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر عالم کانگرس اور خلافت دونوں کے رکن تھے، لیکن مولانا محمد علی کے سامنے نہ یہاں نہ وہاں کہیں بھی ان کا چراغ نہیں جل سکتا تھا۔ اور اسے بھی جانے دیجیے۔ جامعہ ملیہ میں جو حیثیت حاصل کرنا چاہتے تھے وہ انھیں کبھی حاصل نہ ہو سکی۔ کیونکہ مولانا محمد علی جامعہ میں سب کچھ تھے اور ڈاکٹر عالم پرنسپل ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں تھے۔ انھیں سختی سے بات بات پر ٹوکا جاتا تھا۔ ان کے لب و لہجہ اور ان کی زبان پر اعتراض کیے جاتے تھے۔ اب ان کا جذبۂ خودی بیدار ہو رہا تھا۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ جامعہ میں ان کی “حیاتِ سیاسی” اور ان کے جذبۂ عزت نفس کو بری طرح پامال کر ڈالا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی احساس تھا کہ کانگرس سے مولانا محمد علی کی علاحدگی نے ان کے لیے آگے بڑھنے کا ایک بہت اچھا موقع فراہم کر دیا ہے۔ کیونکہ مولانا کے الگ ہوتے ہی بہت سے مسلمان کانگرس سے علاحدہ ہو گئے تھے، اور جو علاحدہ نہیں ہوئے تھے ان میں سے بھی اکثر مذبذب تھے۔ اور بڑے بڑے لیڈروں میں سے یا مولانا ظفر علی خاں اور یا پنجاب کے خلافتی کانگرس کے ساتھ رہ گئے تھے۔ اور ان میں ڈاکٹر عالم سب سے زیادہ نمایاں نظر آتے تھے۔
جب تک مولانا محمد علی کانگرس میں تھے، ڈاکٹر عالم کانگرس کے جلسوں میں یوں چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے گویا ان کے منہ میں زبان ہی نہیں۔ مولانا کے الگ ہوتے ہی ہر محفل میں وہ اس طرح چہکنے لگے گویا اس برات کے دولہا وہی ہیں۔
مولانا ظفر علی خاں سے ڈاکٹر عالم کی راہ و رسم پہلے بھی تھی لیکن اب تو ڈاکٹر صاحب نے ان سے ایسا ربط و ضبط بڑھایا کہ جب دیکھو یا ڈاکٹر صاحب مولانا کے ہاں یا مولانا ڈاکٹر صاحب کے ہاں۔ “زمیندار” میں ڈاکٹر عالم کا نام جب آتا تھا اس کے ساتھ ہاتھ بھر کے القاب ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب مولانا کی طبیعت سے واقف تھے۔ بڑھاوے دے دے کے انھیں علی برادران کی مخالفت پر کھڑا کر دیا۔
1928ء میں علی برادران اور ان کے ساتھی کانگرس سے الگ ہوئے اور ڈاکٹر عالم کانگرس کے اجتماعات میں پیش پیش نظر آنے لگے۔ پنجاب کے لیڈروں میں اگرچہ ڈاکٹر کچلو اور مولانا ظفر علی خاں کانگرس کے ساتھ تھے۔ ان کے علاوہ پرانے خلافتی کارکنوں کی ایک پوری جماعت تھی جو آگے چل کر مجلس احرار کے نام سے مشہور ہوئی۔ لیکن ڈاکٹر کچلو تنظیم کی وجہ سے بدنام تھے اور ابھی تک اکثر کانگرسی ان سے بھڑکتے تھے۔ مولانا ظفر علی خاں کو لیڈری کا ڈھب کبھی نہ آیا اور نہ کبھی آئے گا۔ ادھر کانگرس اور ہندوستان کی آزادی کا ذکر چھڑا ادھر انھوں نے اسلام کی نصفت شعاری کی حکایت چھیڑی اور کانگرس سے اسلام کا جوڑ اس طرح ملایا کہ نہ ہندو خوش ہوئے نہ مسلمان۔ ہندوؤں نے کہا: “ارے یہ تو پکا مسلمان ہے”، مسلمان بولے کہ “لو ہندوؤں کے ہاتھ بک گیا”۔ باقی رہے مولانا حبیب الرحمن اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری تو یار لوگوں نے انھیں نرے مولوی سمجھ کے نظر انداز کر دیا۔
ان دنوں اسی مسلمان کو پکا کانگرسی سمجھا جاتا تھا جو پہلے اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھے اور بعد میں مسلمان۔ مولانا ظفر علی خاں اس امتحان میں فیل ہو گئے۔ یعنی جب ان سے پوچھا گیا کہ مولانا! آپ پہلے ہندوستانی ہیں یا مسلمان تو چمک کر بولے کہ میں پہلے مسلمان ہوں اور بعد میں ہندوستانی۔ ڈاکٹر عالم سے یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا: حضور میں تو اول سے آخر تک ہندوستانی ہوں۔ اسلام سے مجھے محبت ضرور ہے لیکن مذہب ذاتی عقیدہ کا نام ہے۔ اسے سیاسیات سے کیا تعلق۔
اگرچہ ڈاکٹر صاحب نہرو رپورٹ کی حمایت میں بہت سرگرم تھے لیکن اس زمانے میں بھی انھوں نے کچھ ایسی دانائی سے کام لیا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں پٹے نہیں بلکہ صاف بچ گئے۔ دراصل جن جلسوں میں پٹنے کا خطرہ ہوتا تھا اس میں وہ سرے سے شریک ہی نہیں ہوتے تھے۔ پٹنے کا کیا ذکر ہے؟ اس کے باوجود وہ ملتے سب سے تھے۔ یعنی انھوں نے مولانا ظفر علی خاں سے بھی پینگ بڑھا رکھے تھے۔ نوجوان بھارت سبھا والوں سے بھی ان کے اچھے تعلقات تھے۔ طلبہ کے جلسوں میں بھی جاتے تھے۔ ریلوے یونین سے بھی ان کا تعلق تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے مساوات کے نام سے ایک روزانہ اخبار نکالا اور سید ابن الحسن فکرؔ کو اس کی ایڈیٹری کے لیے کلکتہ سے بلوایا۔ لیکن یہ اخبار صرف دو تین مہینے چل کے بند ہو گیا۔
ابھی مساوات کا چہلم بھی نہیں ہوا تھا کہ کانگرس کا اجلاس سر پر آگیا۔ اس قصہ کو نمٹا کے اچھی طرح سانس بھی نہیں لینے پائے تھے کہ گاندھی جی نے نمک ستیہ گرہ شروع کردی۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی کونسل کی ممبری چھوڑ کے ستیہ گرہ میں شریک ہونا پڑا۔ لاہور کے ایک بہت بڑے اجتماع میں انھوں نے نمک بنایا، ایک پر زور تقریر کی اور گرفتار ہو کے ٹھنڈے ٹھنڈے جیل پہنچے۔ آزمائش بڑی سخت تھی۔ یعنی ڈاکٹر صاحب گرمیوں کے دنوں میں گرفتار ہوئے تھے۔ مگر اس امتحان میں بھی وہ پورے اترے۔ جوں توں کر کے قید کاٹی اور باہر نکل کے پہلے سے دگنی قوت کے ساتھ کانگرس کے کاموں میں حصہ لینے لگے۔
پنجاب کے خلافتی کارکنوں نے جو کسی زمانے میں “پنجابی ٹولی” اور اب احرارِ پنجاب کہلاتے ہیں، نمک ستیہ گرہ میں بڑی بڑی قربانیاں کی تھیں۔ لیکن جب ستیہ گرہ ختم ہو گئی اور صلہ و انعام کا وقت آیا تو دنیا نے کیا دیکھا۔ ڈاکٹر عالم کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر بنے ہوئے ہیں اور بچارے احرار یہ شعر گنگنا رہے ہیں ؎
سب کی مرادیں کی تو نے پوری
یا شیخ عبد القادر قصوری
ورکنگ کمیٹی کی ممبری کا فیصلہ مولوی عبد القادر صاحب قصوری کے مشورہ سے ہوا تھا۔ احرار پنجاب کو ان سے شکایت تھی کہ مولوی صاحب نے ہماری نیازمندی کی قدر نہ کی اور ہمیں چھوڑ کے عالم کو آگے بڑھایا حالانکہ ؏
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
ادھر مولوی صاحب کا یہ حال تھا کہ ڈاکٹر عالم کے سوا کوئی دوسرا شخص ان کی نظروں میں جچتا نہ تھا۔ اس واقعہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ چودھری افضل حق اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہ مولوی عبد القادر قصوری اور ان کے ساتھ ساتھ کانگرس سے ہٹتے چلے گئے۔ آخر انھوں نے احرار اسلام کے نام سے ایک علاحدہ مجلس کی بنیاد ڈال دی۔
کراچی میں تو مولانا ظفر علی خاں بھی کانگرس سے بگڑ گئے تھے۔ کچھ دن پہلے تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ؏
لنگوٹی والا ہمارا گاندھی مہاتما بھی ہے منیم بھی ہے
اور کراچی کانگرس سے واپس آئے تو یہ مصرع وردِ زبان ؏
نیشنلسٹ ہے وہی ضد ہو جسے نماز سے
اب پنجاب کے مسلمانوں میں یا ڈاکٹر کچلو کانگرس کے حامی رہ گئے تھے یا ڈاکٹر عالم۔ لیکن عالم سے کچلو کا کیا مقابلہ۔ کیونکہ عالم ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے اور کچلو کچھ بھی نہیں تھے۔
گاندھی جی گول میز کانفرنس سے واپس نہیں آئے تھے کہ لارڈ ولنگڈن نے گرفتاریوں، ضبطیوں اور قرقیوں کا سلسلہ شروع کرکے کانگرس کو ستیہ گرہ کرنے پر مجبور کردیا۔ احرار پنجاب تحریک کشمیر میں الجھے ہوئے تھے۔ مولانا ظفر علی خاں نہ کانگرس کے ساتھ نہ کانگرس سے الگ۔ یعنی انھوں نے خود تو تحریک میں شرکت نہیں کی البتہ اخبار میں برابر کانگرس کی حمایت کرتے رہے۔ ڈاکٹر عالم کے لیے گرفتاری سے کوئی راہ گریز نہ تھی۔ اس لیے وہ گرفتار ہوئے اور جیل بھیج دیے گئے۔ جیل سے نکلے تو ہائی کورٹ نے پریکٹس کرنے کی اجازت نہ دی۔ کیونکہ پریکٹس کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ خلاف قانون سرگرمیوں سے احتراز کا وعدہ کیا جائے اور ورکنگ کمیٹی کی ممبری اس قسم کا وعدہ کرنے میں حائل تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ورکنگ کمیٹی کی ممبری اور ہائی کورٹ کی وکالت دونوں کو تولا تو ممبری کو کم وزن پایا اور فوراً استعفیٰ داغ دیا۔ یہ اگرچہ بہت بڑی غلطی تھی لیکن بچارے ڈاکٹر کے لیے اس کے سوا چارہ بھی نہیں تھا۔
ورکنگ کمیٹی کی ممبری بڑی چیز تھی۔ تاہم ڈاکٹر عالم کی ذہانت نے اس کا بدل تلاش کر ہی لیا۔ یعنی انٹی کمیونل لیگ کا ڈول ڈال دیا۔ اس انجمن کا مقصد خود ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں “ملک کو فرقہ واری کے زہر سے پاک کرنا” تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی ہی میں اس لیگ کا صدر دفتر تھا۔ وہی اس کے صدر تھے، وہی سکتّر۔ کچھ اور لوگ بھی اس میں شامل تھے لیکن برائے نام۔ خلیفہ فضل دین جو ایک پرانے کانگرسی کارکن ہیں، اس وقت صرف نام کے خلیفہ تھے۔ لیکن اب سب مچ ڈاکٹر صاحب نے انھیں اپنا خلیفہ بنا لیا۔ انٹی کمیونل لیگ کا کام اگرچہ ابھی تک “بیان بازی” کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ لیکن اس فن میں خلیفہ فضل دین ڈاکٹر صاحب سے کئی قدم آگے تھے۔ اخباروں میں ڈاکٹر صاحب کا ایک بیان چھپتا تھا اور اتنے میں ان کے خلیفہ کے دو بیان چھپ جاتے تھے۔ اگرچہ “ملاپ ”، “پرتاپ ” وغیرہ میں ڈاکٹر صاحب کے بیان بڑے اہتمام سے شائع کیے جاتے تھے اور ایڈیٹوریل کے کالموں میں بھی جی کھول کر ان کی تعریفیں کی جاتی تھیں۔ پھر بھی ڈاکٹر صاحب کی طبیعت سیر نہ ہوتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اپنا اخبار ہو اور اس میں جو جی چاہیں لکھیں۔ اخبار نکالنے کا تجربہ پہلے بھی کر چکے تھے اور یہ تجربہ کچھ ایسا خوشگوار نہیں تھا۔ پھر انھوں نے اخبار نکال کے ہی چھوڑا۔ چونکہ “فرقہ واری کے زہر” کی رعایت منظور تھی، اس لیے اس کا نام “تریاق” رکھا۔ اس کی ایڈیٹری کے لیے علی گڑھ سے مسٹر رحم علی الہاشمی کو بلوا بھیجا۔ لیکن بد قسمتی سے اخبار چند مہینے چل کر بند ہو گیا۔ انٹی کمیونل لیگ پہلے بھی صرف “نمود بے بود” ہی تھی۔ لیکن اخبار بند ہوا تو اس بچاری نے بھی ڈاکٹر صاحب کی گود میں دم توڑ دیا۔
تریاق بند ہو گیا۔ انٹی کمیونل لیگ کا جنازہ نکل گیا۔ اس عالم میں خلیفہ فضل الدین نے ڈاکٹر صاحب کا ساتھ چھوڑا۔ یوں تو کبھی لنڈا بازار میں اور کبھی ریلوے اسٹیشن پر ان کی ملاقات ہوجاتی تھی۔ یوں بھی کبھی ہفتے عشرے میں ایک آدھ مرتبہ کبھی مہینہ بھر کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں چلے آتے تھے۔ لیکن وہ بات ہی نہ رہی کہ جب دیکھیے خلیفہ صاحب ڈاکٹر عالم کے ہاں بیٹھے ہیں، اپنا بیان لکھوا رہے ہیں۔ یا ڈاکٹر صاحب کا بیان سن کے داد دے رہے ہیں۔ یوں تو بچارے ڈاکٹر کی زندگی پشٹم پشٹم گزری جا رہی تھی۔ دوسرے تیسرے ایک آدھ تقریر کرنے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔ کبھی کبھی اخباروں میں کوئی زناٹے کا بیان شائع ہوجاتا تھا اور یار لوگ اسے پڑھ کے ڈاکٹر صاحب کا دل رکھنے کے لیے سبحان اللہ کہہ بھی دیتے تھے۔ لیکن جس شخص کی زندگی کا بڑا حصہ ہنگاموں میں گزر گیا ہو اسے ان باتوں سے کیا تسکین ہو سکتی ہے۔ دس گیارہ بجے ہائی کورٹ پہنچنا، چار پانچ بجے واپس آنا۔ وہاں جرح بحث کے بکھیڑے، یہاں نوکروں سے بم چخ۔ خدا جانے زمانے کو کیا ہوگیا۔ کام کو نوکر ملتا نہیں۔ جسے دیکھو کام چور، نوالہ حاضر۔ مہینہ بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ادھر مہینہ گزرا اور ادھر انھوں نے شور مچایا کہ لائیے ہماری تنخواہ۔ اور یہی نہیں، مہینہ دو مہینہ سے زیادہ کوئی کمبخت ٹکتا بھی تو نہیں۔
لاہور میں دو چیزوں کا قحط ہے۔ کام کا نوکر اور ڈھب کا مکان۔ مکانوں کی حالت یہ ہے کہ پلستر اکھڑا ہوا، دیواریں سیلی ہوئی۔ ہر لمحہ خطرہ رہتا ہے کہ منڈیر سے کوئی پتھر سرکا اور سر پر آ پڑا۔ مکان کا مالک مرمت کراتا نہیں۔ البتہ مہینے کے مہینے کرایہ لینے چلا آتا ہے۔ خود سال کے سال مرمت کرانا چاہو تو سال بھر کا کرایہ مرمت میں کٹ جائے۔ اس لیے مالک مکان سے کسی بھلے آدمی کے تعلقات ٹھیک رہ ہی نہیں سکتے۔ آپ کو شاید اس قسم کا تجربہ نہ ہوا ہو لیکن ڈاکٹر عالم کو جنھوں نے لاہور میں رہ کر کئی مکان بدلے ہیں، اس معاملہ میں نہایت تلخ تجربات ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ قانون دان ہیں اس لیے اکثر موقعوں پر انھیں بعض لوگوں سے تنگ آ کر قانون کی پناہ لینی پڑی ہے۔ یعنی ؎
دھمکی میں مرگیا نہ باب نبرد تھا
لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ مخالف مقابلہ پر اڑ گیا اور ڈاکٹر صاحب کی صلح جو طبیعت کو یہی مناسب معلوم ہوا کہ صلح کر لی جائے۔ اس قسم کے دو واقعات تو ہمیں بھی یاد ہیں۔ ایک مرتبہ “سیاست” میں ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایک مضمون چھپ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دعوی داغ دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ سید حبیب بھی کچی گولیاں نہیں تھے۔ یہ ڈال ڈال وہ پات پات۔ مقابلہ پر اڑ گئے۔ آخر ڈاکٹر صاحب نے یہ سوچ کر ہتھیار ڈال دیے کہ سید حبیب آل نبی اولاد علی۔ ان سے کوئی لڑے تو کیا لڑے۔ دوسری مرتبہ نواب احمد یار خان دولتانہ سے یہی ماجرا گزرا۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ میں ان کا ایک مضمون چھپا تھا جس میں ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ کانگرس نے ڈاکٹر عالم کو اخبار نکالنے کے لیے روپیہ دیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب بگڑ گئے اور ایسے بگڑے کہ دعوی دائر کر دیا۔ یہ سید حبیب تو نہیں تھے جن سے ڈاکٹر صاحب کی کور دبتی۔ نواب دولتانہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو یقین تھا کہ اول تو نواب اور سول اینڈ ملٹری گزٹ دونوں ہتھیار ڈال دیں گے اور ہتھیار نہ ڈالے تو دونوں پر ڈگری ہو جائے گی۔ لیکن نہ تو نواب دولتانہ جھکے نہ سول ملٹری والے۔ آخر ڈاکٹر صاحب کی صلح پسندی نے ایسا زور دیا کہ خود انھیں جھکنا پڑا۔ یعنی انھوں نے مقدمہ واپس لے لیا۔
1936ء کی گرمیوں میں ڈاکٹر عالم تقریباً بیکار تھے یعنی بیرسٹری کے سوا انھیں اور کوئی شغل باقی نہیں رہ گیا تھا۔ انتخاب سر پر تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انتخابی جنگ میں یا تو یونینسٹ پارٹی کا زور رہے گا یا احرار کا۔ کم از کم مسلمانوں میں تو کسی تیسری جماعت کے لیے کوئی موقع نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی عمر کانگرس میں گزری تھی اور اگرچہ کانگرس بڑی اچھی جماعت ہے لیکن مسلمانوں کے لیے انتخاب کے معاملہ میں بالکل بے مصرف۔ ایک دن ڈاکٹر عالم صاحب اس موقع پر غور کررہے تھے، اتنے میں خبر ملی کہ سکھ مسلمانوں کی ایک پرانی مسجد گرا رہے ہیں۔ مسلمانوں میں جوش پھیلا ہوا ہے۔ احرار اس معاملہ میں دخل دینے پر آمادہ نہیں ہوتے اور اس جھگڑے نے ایک اچھی خاصی تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے جس کے لیڈر مولانا ظفر علی خاں ہیں۔ یہ سن کے ڈاکٹر صاحب کو جامعہ ملیہ کی پرنسپلی کا زمانہ یاد آگیا جب وہ پانچ وقت نماز بھی پڑھتے تھے، قران کی تلاوت بھی کرتے تھے۔ ایک قدم جامعہ کے دفتر میں ہوتا تھا، ایک قدم مسجد میں اور اس تصور نے انھیں آبدیدہ کر دیا۔
شام کو موچی دروازہ کے باغ میں جلسہ تھا۔ ڈاکٹر عالم بھی پہنچے اور اس زناٹے کی تقریر کی کہ ڈاکٹر عالم زندہ باد کے نعروں سے سارا موچی دروازہ گونج اٹھا۔ چونکہ مسلمانوں کے اجتماع میں اس قسم کا نعرہ مدت سے نہیں لگایا گیا تھا، اس لیے لوگ راستہ چلتے چلتے ٹھٹک گئے۔ اکثر لوگ حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔ یہ ڈاکٹر عالم تقریر کر رہے ہیں؟
شہید گنج کی تحریک نے اکثر ایسے لوگوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کر دیا تھا جن کا آگ پانی کا میل تھا ۔ ڈاکٹر عالم کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ کے ملک لال خاں پہنچے اور تقریر کرکے داخل حسنات ہوئے۔ مولانا ظفر علی خاں تو خیر تھے ہی۔ سید حبیب بھی آ موجود ہوئے۔ مولانا عبد القادر قصوری خود تو تشریف نہ لائے لیکن ڈاکٹر عالم کے سر پر انھیں کا دست شفقت تھا۔ احرار الگ الگ رہے۔ اس لیے مسجد شہید گنج کی تولا کے ساتھ ساتھ احرار کی تبرا کے جذبہ نے بھی فروغ پایا۔ جلسوں میں مسجد کا ذکر کم ہوتا تھا، احرار کا زیادہ۔ جو مقرر اٹھتا تھا پہلے احرار پر تبرا بھیجتا تھا پھر مسجد کا ذکر کرتا تھا۔
اب تک تو خیر آئینی جد و جہد کے ذکر اذکار تھے۔ سب یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ بڑے زناٹے کا مقدمہ چلے گا اور کہیں برس چھ مہینے میں فیصلہ ہوگا۔ ڈاکٹر عالم بار بار کہتے تھے کہ مسلمانوں کے مطالبہ میں بڑا وزن ہے۔ خدا نے چاہا تو ہم مقدمہ جیتیں گے اور بر سر عدالت مسجد لے کے رہیں گے۔ ایک دن دفعتاً خبر ملی کہ رات کو مسجد گرادی گئی۔ جس نے سنا سن ہو کے رہ گیا۔ اب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ جو لوگ اس تحریک میں پیش پیش نظر آتے تھے انھیں گرفتار کر کے مختلف مقامات پر نظر بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر عالم اس موقع پر صاف بچ گئے یعنی مسجد کے انہدام سے ایک دن پہلے وہ اپنی کوٹھی میں پڑے تھے اور بخار سے سارا جسم پھنک رہا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کا بخار اس وقت اترا جب ہر طرف امن و امان ہو گیا۔ پیر حمایت علی شاہ امیر ملت بن کے لاہور آئے اور شاہی مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں مسجد کے گنبد یا مینار پر چڑھ جاؤں تو پولس مجھے کیسے پکڑے گی؟ بعض لوگوں نے کہا کیا نکتہ ارشاد فرمایا ہے۔ بعض لوگ کہنے لگے یہ عالم اسرار کی باتیں ہیں، انھیں اہل تصوف ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اگرچہ حضرت امیر ملت کے عقیدت مند ہزاروں تھے لیکن بحمد اللہ کہ ڈاکٹر صاحب ان کی عقیدت کے معاملہ میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔
ایک صاحب کا بیان ہے کہ ایک دن مَیں پیر جماعت علی شاہ کی خدمت میں موجود تھا، فرش کی نشست تھی۔ بیچ میں پیر صاحب۔ ارد گرد خدام بارگاہ۔ لاہور کے کچھ لوگ بھی پیر صاحب سے ملنے آئے تھے کہ اتنے میں ڈاکٹر عالم بھی پہنچے۔ دروازہ کے باہر جوتا اتارا۔ پیر صاحب کے ہاتھوں کو چوما اور خدام سے ذرا ہٹ کے اس طرح بیٹھ گئے کہ دونوں ہاتھ سینے پر تھے اور آنکھیں جھکی ہوئیں۔ پیر صاحب نے فرمایا: “ڈاکٹر صاحب، آپ اچھے تو ہیں؟” ڈاکٹر عالم نے اسی طرح سر جھکا کر کہا: “قبلۂ عالم کی دعا ہے”۔ پیر صاحب نے اپنے خرق عادت کے بعض واقعات بیان کرنے شروع کیے۔ اگرچہ “بجا و درست” کہنے والے اور بھی تھے لیکن ڈاکٹر صاحب پر تو وجد سا طاری تھا۔ بار بار سبحان اللہ اور حضور نے درست ارشاد فرمایا کہتے جاتے تھے۔ میں حیران تھا کہ ڈاکٹرصاحب کو کیا ہو گیا ہے۔ پیر صاحب سے رخصت ہوا تو راستہ بھر یہی سوچتا آیا۔ ایک دو دوستوں سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ ہم نے ایسے ایسے تماشے بہت دیکھے ہیں، دیکھو تو سہی کیا ہوتا ہے؟ ہوا یہ کہ پیر جماعت علی شاہ حج کو سدھارے اور واپس آکے گوشہ نشین ہو گئے۔ مسٹر محمد علی جناح آئے۔ نظر بندیوں اور قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ مجلس اتحاد ملت قائم ہوئی۔ مولانا ظفر علی خاں نے نیلی پوش تحریک شروع کی اور عالم تو عالم، ملک لال خاں تک نیلا کرتہ پہن کے “نیلی خاں” بن گئے۔ ساتھ ہی شہید گنج کا مقدمہ شروع ہوا۔ اگرچہ بہت سے دوسرے وکلا بھی اس مقدمہ کو ناموری کا ذریعہ بنانے کے لیے بے تاب تھے لیکن ڈاکٹر صاحب نے کسی کو پاس نہ پھٹکنے دیا، اور تو اور ملک برکت علی بھی اس قضیہ میں پھسڈی رہ گئے۔ غرض شہید گنج کی تحریک میں ڈاکٹر صاحب کا نام مولانا ظفر علی خاں کے نام کے ساتھ لیا جاتا تھا اور اتحاد ملت کے جلسوں میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس برات کے دولہا وہی ہیں۔
ادھر مسٹر سیل کی عدالت میں شہید گنج کے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی، ادھر “انقلاب زندہ باد” کے ساتھ “انتخاب زندہ باد” کے نعرے بلند ہونے لگے۔ ڈاکٹر عالم کے دعوے تو بڑے بڑے تھے، لیکن عدالت میں مقدمہ ہارے اور بہت بری طرح ہارے۔ دوپہر کو فیصلہ سنایا گیا، سہ پہر کو مولانا ظفر علی خاں کے ہاں مختصر سا اجتماع ہوا جس میں چودھری افضل بھی موجود تھے۔
مسئلہ زیر بحث تھا کہ اب مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ کچھ جوشیلے نوجوان کہہ رہے تھے کہ آج سے سول نا فرمانی شروع کردی جائے۔ مولانا ظفر علی خاں بھی کچھ مذبذب معلوم ہوتے تھے۔ لوگوں نے ڈاکٹرعالم کی رائے دریافت کی تو وہ کہنے لگے کہ ہائی کورٹ میں اپیل ہونی چاہیے۔ کسی نے پوچھا اور اگر ہم اپیل ہار گئے؟ پھر کیا کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے: اسمبلی میں پہنچ کر مسجد کی واگزاری کا قانون بنوائیں گے۔ ایک صاحب نے پوچھا: کیوں ڈاکٹر صاحب! آپ میں اتنی ہمت ہے کہ اسمبلی میں جا کے قانون بنوائیں۔ ڈاکٹر صاحب کے منہ میں سگریٹ تھا۔ دیا سلائی تلاش کر رہے تھے۔ میں نے بڑھ کے دیا سلائی پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب نے سگریٹ سلگایا اور کہنے لگے: جب تک میں کانگرس کے ساتھ تھا آپ مجھے کافر کہتے تھے۔ اب میں مسلمان ہوگیا ہوں جب بھی آپ کو میری باتوں کا یقین نہیں آتا ؎
یقین عشق کن و از سر گماں برخیز
شام کو شاہی مسجد میں جلسہ ہوا، ڈاکٹرصاحب نے بڑے معرکے کی تقریر کی۔ یہاں بھی وہی اسمبلی کی ممبری ٹیپ کا بند تھی۔ یعنی ڈاکٹر صاحب بار بار کہہ رہے تھے کہ آپ میرے ساتھ ساتھ تقریباً بیس آدمی اسمبلی میں بھجوا دیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ اگرچہ اسی دن مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا تھا اور دلوں پر ناکامی کا داغ تازہ تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے ٹوٹی ہوئی ہمتیں بندھ گئیں۔ سب پھیپھڑوں کی پوری قوت صرف کرکے چلا اٹھے “ڈاکٹر عالم زندہ باد”۔
ڈاکٹر عالم پہلے بھی دو مرتبہ راولپنڈی سے شہری حلقہ سے امیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ اس دفعہ کے انتخابات میں بھی انھوں نے یہی حلقہ پسند فرمایا، سید حبیب ان کے مد مقابل تھے۔ اگرچہ دونوں اتحاد ملت میں شامل تھے اور مسجد کی واگزاری کے لیے پہلو بہ پہلو کام کرتے چلے آئے تھے لیکن انتخابی جد و جہد شروع ہوئی تو ساری مجلس اتحاد ڈاکٹر عالم کی پشت پر تھی اور سید حبیب “یوسف بے کارواں” بنے ہوئے تھے۔
ہم نے بڑے بڑے خطیبوں کی تقریریں سنی ہیں۔ اس زمانے میں ڈاکٹر عالم نے جو تقریریں کیں وہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ یعنی پہلے وہ شہید گنج کے تذکرہ سے لوگوں کے دلوں کو گرماتے، پھر یکبارگی ان کی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ جاتیں۔ ان کا داہنا ہاتھ مشرق کی طرف پھیل جاتا اور وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہتے: “مجھے ووٹ نہ دو، شہید گنج کی مسجد کو ووٹ دو”۔ جہاں جہاں انھوں نے تقریر کی یہ فقرہ کام کر گیا اور لوگوں نے ڈاکٹر عالم یا یوں کہیے کہ شہید گنج کی اینٹوں کو جی کھول کے ووٹ دیے۔
ڈاکٹر صاحب اسمبلی میں پہنچے تو ان کے حامیوں کو یہ فکر ہوئی کہ کسی طرح انھیں وزارت مل جائے۔ غالباً سکندر حیات خاں سے اشاریوں کنایوں میں یہ ذکر بھی کیا گیا۔ مگر انھوں نے بات ہنسی میں ٹال دی۔ اتحاد ملت والے تو اس خیال میں مگن تھے کہ اسمبلی میں کم از کم ہمارا ایک ممبر تو موجود ہے۔ اتنے میں خبر آئی کہ ڈاکٹر عالم کانگرس پارٹی میں شامل ہو گئے اور یہ لوگ گھبرا کے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
ممبری پر ہاتھ صاف کر کے ڈاکٹر صاحب گھر سے نکلے اور بعض آل انڈیا لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ لیکن وہاں ان کی دانش مندی کی داد دینے والا کون تھا۔ اور تو اور پنڈت جواہر لال نہرو بھی ملے تو بڑی بے رخی سے پیش آئے۔ انھیں یہ قلق کہ ڈاکٹر عالم نے ممبری کی خاطر کانگرس کو چھوڑا، انھیں یہ افسوس کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں کانگرس کی باگ ڈور ہے وہ سب کے سب مغز سخن سے بے خبر واقع ہوئے ہیں۔ مصلحت اور ضرورت کو نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت سے برابر کانگرس کے ساتھ ہیں۔ کبھی کبھی تحریک شہید گنج کا زمانہ، مولانا طفر علی خاں، پیر جماعت علی شاہ وغیرہ یاد آجاتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب سے دور ایک خواب سا دیکھا تھا۔ ڈاکٹر گوپی چند سے بھی ان کے تعلقات ہیں۔ ڈاکٹر ستیہ پال سے بھی۔ ہائی کمان سے بھی راہ و رسم ہے۔ فارورڈ بلاک والوں سے بھی گاڑھی چھنتی ہے۔ شہید گنج کی تحریک سے ان کا تعلق صرف اتنا رہ گیا ہے کہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے پیروی کی اور اس دفعہ بھی ہار گئے۔ اب مقدمہ پریوی کونسل میں ہے اور مسلمان انھیں اگر لندن بھیجنا چاہیں تو چلے جائیں۔
ڈاکٹر عالم کی سیاسی زندگی سے قطع نظر کرکے دیکھیے تو ان میں بڑی بڑی خوبیاں ہیں۔ جس سے ملتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں اور ہر شخص سے بآسانی گھل مل جاتے ہیں۔ “حضور” ان کا تکیۂ سخن ہے۔ ہر فقرہ اسی لفظ سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہوجاتا ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی اتنے بے تکلف ہو جاتے ہیں گویا برسوں کی جان پہچان ہے۔ وہ “بھاری بھرکم پن” جو لیڈری کا خاص وصف سمجھا جاتا ہے ان میں نام کو نہیں۔ البتہ جسمانی لحاظ سے ضرور بھاری بھرکم ہیں اور اس وصف نے ان کی بہت سی خامیوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ یوں تو پہلے بھی ان کا جسم دوہرا تھا لیکن ادھر آٹھ دس سال سے توند بہت بڑھ چلی ہے۔ چونکہ قد میانہ ہے اس لیے فربہی بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آنکھیں بڑی بڑی اور ان کے گرد حلقے۔ آواز گونجیلی۔ اردو بولتے بولتے پنجابی بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگرچہ دہلی میں برسوں رہے ہیں اور انھیں اپنے لب و لہجہ پر ناز بھی ہے۔ لیکن لب و لہجہ میں “پنجابی پن” اتنا زیادہ ہے کہ ان کی اچھی خاصی اردو بھی پنجابی معلوم ہوتی ہے۔ ان کی تقریر خاصی موثر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ موقع محل کے مطابق بات کرتے ہیں۔ “مصلحت کوشی اور زمانہ شناسی” ان کا خاص وصف ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسی مصلحت کوشی نے انھیں مارا۔ ورنہ آج وہ خدا جانے کیا ہوتے۔ جس شخص سے ملتے ہیں اسی کے ڈھب کی بات کہتے ہیں اور بحث و مباحثہ سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان سے جب ملیے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماحول سے غیر مطمئن ہیں۔ چنانچہ جس زمانے میں ان کا شمار کانگرس کے بڑے بڑے لیڈروں میں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں بھی ان کی بے اطمینانی کا یہی حال تھا۔ جب کبھی لاہور کے کانگرسی کارکنوں سے ملتے تھے، یہی کہتے تھے کہ بھئی کانگرس کے اندر ایک علاحدہ پارٹی قائم کرنی چاہیے جو ہر تحریک میں پیش پیش نظر آئے۔ اس قسم کی باتوں سے انھوں نے نوجوانوں میں جو کانگرس کے بڑے بوڑھے لیڈروں کے خلاف ہمیشہ تیار رہتے تھے، اچھا خاصا رسوخ حاصل کر لیا تھا۔ لیکن افسوس کہ چند دنوں میں یہ لوگ بھی ان سے کھٹک گئے۔ ڈاکٹر صاحب کو اور کوئی سہارا نظر نہ آیا تو انٹی کمیونل لیگ قائم کرکے یہ پرانا شوق پورا کرنا چاہا۔ مگر اس میں ان کے اہالی موالی کے علاوہ اور کوئی شریک نہ ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کو شعر کہنے کا بھی شوق ہے۔ لیکن ان کا کلام واجبی سا ہی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی نثر بھی لکھتے ہیں اور اسے اشعار کی کثرت اور تشبیہوں کی بھرمار سے عجیب چیز بنا دیتے ہیں۔ لیکن شعر کہنے اور مضمون لکھنے سے زیادہ انھیں بیان شائع کرنے کا شوق ہے۔ اپنی لیڈری کے شباب کے زمانے میں ان کا یہ حال تھا کہ جب تک دن بھر میں وہ ایک آدھ بیان نہ شائع کرالیتے تھے، انھیں چین نہیں آتا تھا۔ “بیان بازی” میں صرف مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ہی ان کے مد مقابل سمجھے جاتے تھے۔ مگر یہ شوق چھٹے بھی مدتیں ہوگئی ہیں۔ اور ایک انھیں پر کیا موقوف ہے، اب تو نواب احمد یار خاں دولتانہ جن کے بیانوں کی دھوم پنجاب بھر میں تھی کبھی کبھار ہی کوئی بیان شائع کراتے ہیں۔ ڈاکٹر عالم کے ماضی سے ان کے حال کا مقابلہ کیجیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اگلی سی امنگیں باقی نہیں رہیں۔ لیڈری کو انھوں نے خوب برتا اور اس سے حتی الامکان فائدہ بھی اٹھایا۔ لیکن دنیا کو وہ کسی طرح اپنے خلوص کا یقین نہ دلا سکے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کی لیڈری ختم ہو چکی ہے۔ بلکہ بد قسمتی سے زمانہ ایسا نازک ہے کہ کسی بڑے سے بڑے لیڈر کی لیڈری بھی خطرات سے محفوظ نہیں۔ اس لیے بالفعل وہ خانہ نشین ہیں اور زمانے کا اتار چڑھاؤ دیکھ رہے ہیں۔ کیا عجب کہ کل کلاں زمانہ پھر لیڈروں کے لیے سازگار ہو جائے اور ان کے ولولوں کی راکھ سے کوئی ایسی دبی ہوئی چنگاری نکل آئے جو ان کی لیڈری کو چمکا دے۔