وزن اسے کہتے ہیں کہ کوئی پیمانہ مقرر کر لیا جائے اور اس کے مطابق چیزوں کی تکرار کو یقینی بنایا جائے۔
آپ وزن کے جس عمومی مفہوم سے واقف ہیں اسی کو لے لیجیے۔ سیر کا ایک باٹ طے کر لیا گیا ہے۔ اب اگر کسی چیز کا وزن ایک سیر قرار دیا جائے گا تو لازم ہو گا کہ وہ اس باٹ کے عین مطابق ہو۔ یعنی ہم نے ایک پیمانہ مقرر کیا اور پھر مختلف چیزوں میں اس کی تکرار یقینی بنائی۔ اگر کسی معیار کی تکرار نہ ہو تو وہ وزن نہیں کہلا سکتا۔ جیسے ہمالہ کا پہاڑ ہے۔ وہ ہے تو سہی مگر اس کے برابر کی چیزیں ہمارے روزمرہ استعمال میں نہیں آتیں۔ لہٰذا ہمالہ کا وزن کے کسی پیمانے سے کوئی تعلق نہیں۔
یہی معاملہ ہر پیمائش کا ہے۔ لمبائی کے لیے آپ گز مقرر کرتے ہیں اور پھر اسی کی تکرار ہوتی ہے۔ موسیقی میں آپ وقت کی ایک مدت مقرر کرتے ہیں جس کے مکمل ہوتے ہیں طبلے کی ایک مخصوص چوٹ پڑتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اسے تال کہتے ہیں۔ یہ موسیقی کا وزن ہے۔
شعر کے وزن میں بھی ہم پیمانہ مقرر کرتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ وہ لمبائی، مادے یا وقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں شعر کے وزن کا پیمانہ الفاظ کی حرکات و سکنات کو مقرر کیا گیا ہے۔ زیر، زبر، پیش کو حرکات کہتے ہیں اور جزم اور وقف کو سکنات۔ ان کی تفصیل آگے آئے گی۔ مگر یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ وزنِ شعری کی پیمائش الفاظ کے معیاری تلفظ یعنی زیر، زبر، پیش، جزم اور وقف کی بنیاد ہو گی۔