ہندوستان کے چار نامور شہنشاہوں کی شاہی سیرِ کشمیر
عہد اکبری میں سفر کشمیر
آج کل جب وہ کارآمد مگر بدنما گاڑی جسے ٹانگہ کہتے ہیں، سیر کشمیر کے شائقین کو راولپنڈی سے سری نگر دو دن میں پہنچا دیتی ہے اور ملک کے ہر گوشہ سے راولپنڈی تک تیز رفتار ریل موجود ہے، کیونکر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہان مغلیہ سیر کشمیر کے لیے کیسی کیسی مشکلات اٹھاتے تھے۔ بہت سے لوگ جنھیں مناظر قدرت کی خوبیوں کی شناخت فطرتاً نصیب نہیں ہوئی مگر جو عہد اکبری کے شعرا کی نظمیں تعریف کشمیر میں پڑھ چکے ہیں، کشمیر پہنچ کر سوال کرتے ہیں کہ وہاں کون سی چیز ہے جس کی اس قدر تعریف کی جاتی تھی۔ اس سوال کے دو جواب ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب بھی دیکھنے والے کے لیے وادی کشمیر وادئ جنت نظیر ہے، بشرطیکہ کوئی ہمت سے کام لے اور کوہ و دریا پھاندتا ہوا ملک کے اندرونی حصوں میں پہنچ جائے اور دوسرے یہ کہ جن شعرا نے تعریفیں لکھی ہیں وہ خود حسن قدرت کے دلدادہ ہونے کے علاوہ ایسے ساز و سامان کے ساتھ سفر کشمیر کرتے تھے کہ اس سفر کی ہر منزل ان کی شاعرانہ طبیعت کو گدگداتی ہوگی اور ہر قدم پر وہ اشعار آبدار انھیں سوجھتے ہوں گے جن کی بدولت کشمیر کو ایسی عالمگیر شہرت حاصل ہوئی ہے۔ میں نے اکبر نامہ ابو الفضل سے بعض اقتباسات کیے ہیں جو نہ صرف شائقین فن تاریخ کے لیے دلچسپ ہوں گے، بلکہ جن سے اس زمانہ کے شاہانہ دورہ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ جائے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہو گا کہ خاندان مغلیہ کا وہ نامور تاجدار جو اپنی پائدار شہرت صفحہ تاریخ پر چھوڑ گیا ہے کس راستہ سے کشمیر گیا تھا اور کشمیر کا پرانا راستہ کون سا تھا۔ (ایڈیٹر مخزن)
عہد اکبری کو شروع ہوئے چونتیسواں برس تھا جب دربار([1]) اکبری نے اس سیر کشمیر کا ارادہ کیا جس کا بیان آج لکھ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے لاہور سے کشمیر تک اس وقت نہ کوئی سڑک تیار تھی نہ شاہراہ موجود۔ راستے کا پتہ لگانا اور اسے صاف کر کے شاہی جلوس کے گزرنے کے قابل بنانا، یہ کام سفر مینا آگے آگے کرتے جاتے تھے اور جلوس شاہی پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ جو مقامات راہ میں آتے تھے ان کے انتظام کی دیکھ بھال، وہاں کے عاملوں کا عزل و نصب یہ سب کام ساتھ ساتھ ہوتے جاتے تھے۔ کیا زمانہ تھا، کیسے سفر تھے اور کیسے مسافر۔ ابو الفضل کی روح کے حق میں دل سے دعا نکلتی ہے جس کا قلم معجز رقم اس سفر کی تصویر الفاظ میں کھینچ گیا ہے۔ لاہور سے روانگی ملاحظہ ہو:
“شب شانزدہم اُردی بہشت پس از سپری شدنِ دو ساعت و چہل و ہشت دقیقہ از آب راوی گزشتند و نزدیک سرائے مادھو سنگھ نزول ہمایوں شد۔ سہ ہزار سنگ تراشانِ کوہ کن و خارا شگافانِ فرہاد فن، دو ہزار بیلداران کار گزار بہ سرکردگیٔ قاسم خاں دستوری یافتند تانشیب و فراز ایں راہ شگرف را ہموار سازند۔ دریں منزل سیالکوٹ و برخے جا درتیولِ زین خاں کوکہ دادند۔ راجا بھگونت داس و راجا ٹوڈرمل و قلیج خاں را بدار الملک لاہور گذاشتند تا ہمگی مہمات بہ بہدید ایناں سر انجام یابد۔”
راوی سے پار ہوتے ہی پہلا پڑاؤ شاہدرہ تھا۔ وہاں سے ایمن آباد، ایمن آباد سے سوہدرہ۔ یہاں راجا رورا اس نواح کا ایک جاگیر دار ملاقات کے لیے حاضر ہوا اور علاوہ خلعت اور ایک سو ایک گھوڑے انعام پانے کے چند پرگنے اسے اور مل گئے۔
چوتھی منزل(١) کنار دریائے چناب پر تھی اور پانچویں سیالکوٹ کے مضافات میں جے پور کھیڑی اور بھنبر چھٹی اور ساتویں منزلیں ہوئیں۔ اب پہاڑی علاقہ شروع ہوا۔ بادشاہ گھوڑے پر اور کچھ پیادہ پہاڑ پر چڑھے۔
غازی کوٹ پر آٹھویں منزل ہوئی اور نویں راجوری پر۔ قاسم خاں نے پہلے ہی پہنچ کر خیمے لگا رکھے تھے؛ ان میں اُترے۔ یہاں مشکل کا سامنا تھا۔ آگے کئی راہیں نکلتی تھیں اور ہر ایک برف سے اٹی ہوئی۔ واقف کار آدمیوں کو راستہ ڈھونڈنے اور بہترین راستہ انتخاب کرنے کے لیے روانہ کر دیا۔ انہوں نے پیر پنجال کو پسند کیا اور ادھر کو چلے۔ آگے رتن پنجال کے قریب ایک موضع ہے تہتہ، وہاں آرام کیا۔ یہاں سے کشمیری زبان شروع ہوتی ہے۔ بادشاہ نے جب لوگوں کو یہاں کشمیری زبان بولتے سنا تو بولے: “ولایت ہا از یکدیگر بکوہ و دریا وہا موں و زباں جدا گردد”۔
اکبر کو جو چیز نہ صرف اپنے خاندان کے بادشاہوں سے بلکہ دنیا کے تاریخی لوگوں میں بیشتر سے ممتاز کرتی ہے، وہ اس کی وہ خداداد قوتِ ادراک ہے جس کی بدولت وہ ملک داری کی باریک سے باریک باتوں کو سمجھ جاتا تھا اور باوجود ذی علم نہ ہونے کے نہایت سلیس اور سادہ الفاظ میں ان باریکیوں کو ادا کر دیتا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ زبان کی یگانگت بہت بڑا رشتۂ اتحاد اور زبان کی جدائی بہت بڑا ذریعہ علاحدگی ہے ۔ لیکن قدرتی جغرافی حدود کو جو ملکوں کے درمیان حد فاصل ہیں، زبان سے اور زبان کو کوہ و دریا و ہاموں سے بہ حیثیت حد فاصل ہونے کے تشبیہ دینا اسی کا حصہ تھا۔ کاش اہل ملک اس نکتہ پر اِس زمانے میں غور کریں اور خود اپنی تخریب کی کوشش نہ کریں۔ جہاں جہاں زبان کی علاحدگی کی کوشش ہو رہی ہے، ایک بڑی حد فاصل ایک قوم اور دوسری قوم میں اور ایک صوبہ اور دوسرے صوبہ میں کھڑی کی جا رہی ہے جو کوہ و دریا سے بڑھ کر علاحدہ کرنے والی ثابت ہو گی۔ اکبر کا حکیمانہ قول دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیااور میں نے چند الفاظ ایسےلکھ دیے ہیں جو گو مضمون موجودہ سے غیر متعلق ہیں مگر نہایت ضروری ہیں۔ اب احوال سفر کی طرف عود کیجیے۔
پیرم کل پر گیارھویں منزل ہوئی۔ ابو الفضل لکھتا ہے کہ نہایت دلکشا جگہ ہے اور آب و ہوا اور رنگا رنگ کے پھولوں میں بے مثال ہے۔ کیوں نہ ہو، کشمیر کا علاقہ شروع ہو گیا ہے۔ ایک سے ایک جگہ بڑھ کر آئے گی۔ بارھواں پڑاؤ بوشانہ تھا۔ اس کی مختصر تعریف یہ ہے “کوہ ہائے پُردخت و بسیار گل و چشمہائے جاں پرور”۔ یہاں پر لطیفہ ہوا۔ اب برفانی پہاڑ آنے لگے۔ بادشاہ کے ہندوستانی ہمراہی گھبرائے۔ نہ آگے جانے کی ہمت نہ پیچھے جانے کی جرأت۔ بادشاہ نے خود ان کو تسلی دی اور پیر پنجال کا پہاڑ ختم کر کے موضع دونیا میں پہنچے۔ اس تیرھویں منزل کی کیفیت ابو الفضل نے مختصر لفظوں میں یوں بیان کی ہے:
“از سختیٔ سرما سخن سراید۔ یا شگرفیٔ برف و سراسیمگیٔ ہندی نژاداں باز نماید۔ از بلندیٔ کریوہ حرف زند۔ یا داستانِ تنگیٔ راہ برگزارد۔ از نشیب و فراز ایں مرحلہ باز گوید۔ یا از چشمہ و درخت و گُل برنویسد۔”
اب پہاڑ کے ندی نالوں کی بہتات کی یہ حالت تھی کہ ایک منزل میں چوالیس پُل گزرنے پڑے۔ ہیرہ پور پر قیام ہوا۔ مرزا یوسف خاں نے اس مقام کو خیمہ و خرگاہ سے آراستہ کر رکھا تھا۔ یہاں سب نے آرام کیا۔ یوں تو بھنبر سے چل کر جو جگہ رستے میں پڑی، سفر کی سختی کے لحاظ سے ایک سے ایک دشوار اور خوبصورتی کے لحاظ سے ایک سے ایک دلاویز مگر ہیرہ پور پہنچ کر عجیب حالت ہوئی۔ میں ترجمہ کر کے فارسی عبارت کا لطف کیوں گھٹاؤں۔ ابو الفضل سے ہی سن لیجیے:
“از نیرنگئ درخت زار و شگفتگیٔ گلہا و شگرفیٔ ہوا و نغمہ سرائی آبشار ہا زماں زماں حیرت می افزود۔ وآزردگیٔ راہ را از دل می برد۔ لیکن امروز کہ از کوہستان بدشت گزارشد، شگفت نمائشے کرد۔ جہانے دیگر پدید آمد۔ ونو بہشتے نقاب از رو بر گرفت۔ عادتیانِ سبب بیں را محنت راہ یکبارگی فراموش شد و ژرف نگاہانِ خدا پرست بہ خرمئ دیگر شدند۔”
پندرھواں مقام جس کا نام اس مختصر سفر نامہ میں درج ہے سری نگر ہے۔ پچیسویں ماہ خرداد کو سری نگر پہنچے۔ سری نگر کے مقامات گو اب بھی خوشنما ہیں مگر خاص شہر اب سیاح کے دل پر عموماً بہت اچھا نقش نہیں چھوڑتا۔ اس وقت شہر زیادہ خوش رنگ اور باشندے زیادہ خوش حال اور خوش مذاق ہوں گےکہ ابو الفضل لکھتا ہے:
“سری نگر بزرگ شہرے است بہ دراز آباد۔ رودبار بہت (جہلم) ازمیان آں برگزرد۔ و در آں بیشترچو بیں کا خہا تا بہ پنج آشیانہ برسا زند و برفراز بامہا لالہ و رنگا رنگ گل بکا رند۔ و در بہاراں رشک افزائے گلستاں گردد۔”
ابو الفضل نے جو سحر نثر میں کیا ہے، وہی جادو بیانی اس کا بھائی فیضی نظم میں کرتا ہے۔ اس کے قصیدے کے یہ شعر کشمیر کی شان میں نہایت مشہور ہیں:
ہزار قافلہ عیش میکند شبگیر درد بجائے گیا زعفراں ہمی روید زمینِ او چو دل بے غماں طرب خیز است |
کہ بار عیش کشاید بہ عرصۂ کشمیر کہ آب و خاکِ طرب را چنیں بود تاثیر سپہر کردہ مگر خاکِ او بیادہ خمیر |
سری نگر میں جاتے ہی جو چیز آج کل بھی سب سے نئی اور دلچسپ معلوم ہوتی ہے وہ وہاں کی متحرک آبادی ہے جو کوٹھی نما کشتیوں میں رہتی ہے، جنھیں انگریزی میں “ہوس بوٹ” کہتے ہیں۔ جب تک جی چاہا ایک جگہ ٹھہرے، ذرا جی اکتایا کشتی کو آگے لے گئے۔ جن کشتیوں میں انگریز سیاح فروکش ہوتے ہیں، وہ نہایت آراستہ نظر آتی ہیں۔ چھت پھولوں کے گملوں سے سجی ہوتی ہے۔ شام کو ان آبی مکانوں کے خوش پوش مکین چھت پر کرسیاں بچھا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور کشتیاں آہستہ آہستہ چلتی جاتی ہیں تو عجب بہار دیتی ہیں۔ مگر موجودہ حالت اور اس زمانہ کی حالت کا مقابلہ کرنے کے لیے ذرا تخیل سے مدد لیجیے۔ اب ایک وقت میں چند صد سے زیادہ ایسی کشتیاں سری نگر کے قریب نظر نہیں آتیں۔ اُس وقت کی رونق کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ایک ہزار سے اوپر کشتی بادشاہ اور خاصان دربار کی موجود تھی۔ اور لوگوں کی کشتیوں کا تو شمار ہی نہیں۔ ابو الفضل لکھتا ہے:
“دریں ملک از سی ہزار کشتی افزوں است لیکن سزاوار نشیمن کشور خدائے نبود۔ کار آگہانِ خدمت گزار در کمتر فرصتے گزیں کاخہائے دریائی سر انجام نمودند۔ و گلزارے بر سطح دریا اساس نہا دند و نام آوران و نزدیکان نیز بہ بہین روشے آمادہ گردانیدند۔ افزوں از ہزار کشتی آراستہ شد و شہرستانے بر فراز دریا آبادی گرفت۔”
ان انتخابات میں مَیں نے فقط وہ حصے لیے ہیں جو غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر جزویات کا ذکر بھی کیا جاتا جو بجائے خود کم دلچسپ نہیں تو اس سے بہت زیادہ لکھا جا سکتا تھا۔ ان حالات کو پڑھ کر زبان سے اکبر کی عالی ہمتی کی بیساختہ داد نکلتی ہے اور عہد اکبری کی عظمت و شان کا ایک جلوہ عالمِ خیال میں نظر آجاتا ہے۔ مگر اس عظمت و شان کے ساتھ جو چیز اکبر کی پائدار ہر دلعزیزی کا باعث ہوئی، اس کا ذکر کیے بغیر اس مضمون کو ختم کرنا زیبا نہیں۔ رعیت کے آرام اور غریبوں کی حفاظت پر اس شہنشاہِ عادل اور اس کے فاضل وزرا کو اس قدر توجہ تھی کہ سری نگر میں پہنچتے ہی حکم دیا کہ شاہی لشکر کا کوئی شخص رعیت کے مکانوں میں نہ اُترے اور اپنی آسائش کا بند و بست آپ کرے۔ اور جب سب فرو کش ہوئے اور ہر طرح سے اطمینان ہوا تو خاص آدمی تعینات کیے گئے جو “پاسبانیٔ زیر دستاں و کاشتکاراں” میں کوشش کریں۔
(از رسالہ مخزن اپریل 1910ء جلد 19 نمبر1)
اکبر اور کشمیر
جب اکبر پہلی مرتبہ کشمیر آیا ہے، اس وقت مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر تھا۔ اکبر نے اسی کے مکان میں قیام کیا۔ سلطان شہاب الدین کے نام پر شہاب الدین پورہ دریا کے کنارے ایک دلکش جگہ تھی۔ بادشاہ یہاں کی سیر سے بہت محظوظ ہوا۔
اہل حرم بھی چند دنوں کے بعد آ پہنچے۔ مریم مکانی اکبر کی والدہ بھی ساتھ تھی۔ اس نے بادشاہ کے پاس آنے کی خواہش کی۔ بادشاہ نے جواب میں لکھا:
حاجی بسوئے کعبہ رود از برائے حج | یارب بود کہ کعبہ بیاید بسوئے ما |
کشمیر کا آخری بادشاہ یعقوب شاہ اکبری اقبال کی تاب نہ لا کر جان چھپائے پھرتا تھا۔ آخر گرفتاری کے خوف سے بادشاہ کے پاس عرضداشت بھیجی۔ اس نے جان بخشی کی اور 20 ہزار کی جاگیر مقرر کر کے کشتواڑ میں رہنے کا حکم دیا جہاں وہ اس واقعہ کے پانچویں سال ١٠٠١ھ میں اپنے بھائی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
بادشاہ نے مراج و کامراج کی سیر کشتی کے ذریعہ کی۔ پٹن کے مقام پر جو بارہ مولا اور سری نگر کے درمیان مشہور پڑاؤ ہے، ہزار ہا روپے کی خیرات کی۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ کوئی افسر، کوئی اہلکار، کوئی سپاہی رعایا کے کسی فرد کو خواہ کسی حیثیت اور کسی مذہب کا ہو تکلیف دے گا تو اس سے سخت باز پرس کی جائے گی۔ چنانچہ رعایا نہایت امن اور آرام سے رہی۔ بادشاہ ایک ماہ پانچ دن کی سیر کے بعد واپس لاہور آ گیا۔
بادشاہ ٩٩٧ھ کی سیر کشمیر میں نشاط افزا نظارے دیکھ چکا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر سال کشمیر آیا کرے مگر امرائے دولت برفباری کے خوف اور رستے کی تکلیفات کی وجہ سے اس کا ارادہ بدل دیا کرتے تھے۔ جب ١٠٠٠ھ میں مرزا یادگار نے (جو مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر کے بادشاہ کے ہمراہ آ جانے کی وجہ سے حکومت کشمیر کا عارضی ناظم اور مرزا کا بھتیجہ بھی تھا) خوشامدیوں اور مفسدیوں کےکہنے میں علم بغاوت بلند کر لیا، بلکہ خطبہ و سکہ بھی اپنے نام کا جاری کر دیا تو بادشاہ باوجود امرائے دولت کے منع کرنے کے کشمیر کو روانہ ہو گیا۔ شورش کشمیر کس طرح ہوئی اور کس طرح مٹی یہ ایک طویل داستان ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یادگار گرفتار ہو کر قتل کیا گیا۔ 51 روز تک اس نے کشمیرمیں سکہ و خطبہ اپنےنام کا جاری رکھا۔ باغیوں اور سرکشوں کی تحقیقات ہوئی۔ جو بانی مبانی تھے ان کو سزائیں ملیں اور باقی سب کے لیے عام معافی و جان بخشی کا اعلان ہوا۔ بادشاہ کے تلا دان کی رسم سری نگر میں ادا ہوئی۔ بادشاہ کے حکم سے ابو الفضل نے چودہ ہزار آدمیوں کو کھانا کھلایا۔ ابو الفضل لکھتا ہے: “اس ملک میں چور اور گدا بہت کم پائے جاتے ہیں”۔ بادشاہ زعفران کی سیر کو پانپور میں کشتی پر سوار ہو کر گیا۔ اس کی شادابی و نشاط بخشی اور خوشبو سے بہت خوش ہوا۔ پانچویں دن دیوالی تھی، حکم دیا کہ دریا کے کناروں پر کشتیوں کے اوپر اور مکانات کی چھتوں اور منڈیروں پر چراغ روشن کیے جائیں۔ حکم کی دیر تھی، شہر بقعۂ نور بن گیا۔ امرائے کشمیر اور کشمیر کے شاہی خاندان سے وہی رشتہ قائم کیا جو اس نے راجپوتانہ کے ہندو راجاؤں سے کیا تھا۔ شمس الدین چک کی بیٹی کو حرم سرا میں داخل کیا۔ درحسین چک کی بیٹی کا نکاح شہزادہ سلیم سےکیا۔ ان جدید تعلقات سے کشمیر کی شورش بہت کچھ کم ہو گئی۔
بادشاہ کو کشمیر کی صنعت میں ایک سیاہی دکھائی گئی جو پانی سے اور ہاتھ کے مٹانے سے محو نہ ہوتی تھی اور لکھنے میں خط کو خراب نہ کرتی تھی۔ بادشاہ کشمیریوں کی اس صنعت سے بہت خوش ہوا اور ان کی ذہانت کی تعریف کی۔ اسی سفر میں بادشاہ نے زینہ لنک کی سیر کی جو جھیل ولر کے درمیان سلطان زین العابدین نے پانی سے ایک جریب کے قریب بلند چبوترہ پر بڑے تکلف سے 11٩ گز لمبا اور 82 گز چوڑا بنایا تھا۔ نظام الدین طبقات اکبری میں لکھتا ہے: “جس خوبی سے اس چبوترہ پر عمارات عالی پانی میں پتھر ڈلوا کر زین العابدین نے بنوائی ہیں اس کی نظیر ملک میں کہیں نظر نہیں آتی۔” بادشاہ براہ بارہ مولا، پگھلی واپس لاہور آ گیا۔ پگھلی میں برف و بارش کی وجہ سے بادشاہ ایک ماہ تک رُکا رہا۔
اکبر تیسری مرتبہ ١٠٠٥ھ میں کشمیر گیا۔ آگرہ سےلاہور اور لاہور سے بھمبر میں آیا۔ یہاں فوج کے کئی حصے کیے۔ ایک حصہ اپنے لیے، ایک حرم سرا کے لیے، ایک شہزادہ سلیم کے لیے۔ راجوری میں معمول سے زیادہ دن ٹھہرا اور وہاں عظیم پیمانہ پر ایک جشن کیا۔ پیر پنجال کی برف جس کو دیکھ کر ہندوستانیوں اور پنچابیوں کے دم خشک ہو جاتے تھے کاٹ کر ہیرا پور آیا۔ یہاں سے حال نگری کی سیر کو گیا جس کی ویرانی اس کی آبادی اور جس کے کھنڈرات اس کی عالیشاں عمارتوں کا پتہ بتاتے تھے۔ منزل بمنزل چلتا اور بعض مقامات میں گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کھیلتا ہوا سری نگر آ گیا۔ کوہ ماراں کے نیچے پہاڑ کے دامن میں بہت سی زمین خالی پڑی تھی۔ بادشاہ نے اس کے گرد فصیل اور مکانات بنانے کا حکم دیا اور پھر ایک قلعہ سنگین تعمیر کرایا جس نے کسانوں کی پراگندگی کو جو کمی بارش کی وجہ سے بڑھ رہی تھی اور گرانی اجناس کو جو بادشاہی سپاہ کے آنے سے بہت زیادہ ہو گئی تھی ، دور کر دیا۔ شہر میں بادشاہی حکم سے بارہ مقامات پر عام لنگر جاری ہوتا جہاں ہر حاجتمند کو کھانا ملتا۔ اس کے علاوہ ہر یک شنبہ و اتوار کو عید گاہ میں قریباً 80 ہزار بھوکوں کو خوراک ملا کرتی۔
قلعہ کی تعمیرنے غریب آدمیوں کو مزدوری پر لگا کر جانکاہی و جان کندنی سے بچا دیا۔ بادشاہ کے پاس رپورٹ پہنچی کہ کارپردازان سلطنت اور ان کے ماتحت اہلکار زمینداروں پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ بادشاہ نے گروہا گروہ زمینداروں کی جمع معاف کر دی، ظالموں کو سزائیں دیں اور کشاورزی کےلیے بہت کچھ مدد دی۔ بادشاہ نے سری نگر میں مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر کا وہ محل بھی دیکھا جس کے تین سو زینے تھے۔ شہاب الدین پورہ اور زینہ لنک کی دلفریبیوں اور دلچسپیوں نے پھر اس کا دامن دل کھینچا۔ چنانچہ بادشاہ اس سفر میں بھی ان مقامات کی سیر سے محظوظ ہوا۔ بادشاہ کے حکم سے دریا میں ایک ایسا جہاز بنایا گیا جیسا سمندر میں چلتا ہے۔ بادشاہ نے اس میں بیٹھ کر دریا کی خوب سیر کی۔
کشمیریوں میں خصوصاً ہندو کشمیریوں میں ایک روایت ہے کہ 13 بھادوں کی رات کو دریائے بہت (جہلم) جو شہر کے اندر بہتا ہے پیدا ہوا تھا اس لیے سب لوگ اس رات کو خوشی مناتے ہیں۔ اکبر تو عجیب طبیعت لے کے آیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا سب کا مذہب میرا مذہب ہے۔ اس نے حکم دیا بادشاہ بھی اس خوشی میں شریک ہوگا۔ چنانچہ دریا کے کناروں پر، پہاڑوں پر، کشتیوں پر، مکانات پر چراغوں کی روشنی نے شہر کو نورستان بنا دیا۔ بادشاہ کے حکم سے ایک دلکشا مکان لکڑی کا جس کو کشمیر میں لڑی کہتے ہیں، بنا دیا گیا۔ بادشاہ نے اس خوشی میں وہاں جشن کیا اور لوگوں کو باریابی کا موقع دیا اور انعام و اکرام عطا کیے۔
خزاں کے دن تھے لیکن بادشاہ نے اس موسم میں بھی سری نگر کے باغوں میں سیب و شفتالو اور انگور و چنار کی فصل دیکھی۔ بادشاہ نے خزاں کی رنگ آمیزیوں پر بہار کا عالم دیکھ کر فرمایا:
ذوقِ فنا نیافتہ ورنہ در نظر | رنگیں تر از بہار بود جلوۂ خزاں |
بادشاہ چاہتا تھا کہ کل ایام گرما و سرما اسی عشرت گاہ (کشمیر) میں بسر ہوں، لیکن بادشاہ کے ہمراہی اور اس کی فوجیں اور اہل حرم یہاں کے زمستان کا نام ہی سن کر لرز جاتے تھے۔ اس لیے بادشاہ گلزار زعفران (پانپور) میں سات روز قیام کرنے کے بعد پیر پنجال کی راہ سے لاہور واپس آ گیا۔ یہ سفر ایک ماہ دس روز میں طے کیا گیا۔
جہانگیر کشمیر میں
توزک جہانگیری کو پڑھیے۔ جہانگیر میں مظاہر فطرت و مناظر قدرت کی ایک عجیب استعداد خداداد نظر آئے گی۔ اس کو باغوں اور پھولوں کا خاص شوق تھا اور کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب کسی نے پھولوں کا کوئی گلدستہ پیش کیا ہے تو اس نے اپنی چلتی سواری ٹھہرا لی ہے اور اس گلدستہ کو خود ہاتھ میں لیا ہے۔ اپنی عظیم الشان سلطنت کے بڑے بڑے تالابوں، جھیلوں اور آبشاروں کی حسن و خوبی کو خوب بیان کرتا ہے اور ہمالیہ پہاڑ کے مناظر و مظاہر کی نہایت دلکش تصویر کھینچتا ہے۔ وہ کشمیر بھی گیا اور کئی مرتبہ گیا۔ راستوں کی کیفیت، کشمیر کے سبزہ زاروں، مرغزاروں اور ڈل کے نظاروں سے وہ نہایت محظوظ ہوا۔ یہ تمام حالات اس نے اپنی توزک میں اپنے قلم سے تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں۔ یہاں صرف ناظرین کی تفنن طبع کے لیے ان کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔ بعض حالات میں اب بہت سا تفاوت ہے جیسے پرگنوں اور کشتیوں کی تعداد، محاصل کشمیر کا ذکر جن کو واقف کار ناظرین بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
رستے کی کیفیتیں
حسن ابدال سے کشمیر تک جس راہ سے بادشاہ آیا، پچھتر (75)کوس کی مسافت تھی۔ جس کو بادشاہ نے 19 کوچ اور 9 مقام کر کے 25 روز میں طے کیا۔ حسن ابدال کا حال بادشاہ نے تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس منزل سے آگے پہاڑ کے نشیب و فراز کثرت سے ہیں۔ سارے لشکر کا ایک ہی دفعہ گزرنا محال تھا۔ اس لیے یہ طے پایا کہ حضرت مریم مکانی بیگمات کے ساتھ توقف کریں اور سہولت کے ساتھ تشریف لائیں۔ بیوتات کے میر سامان مدار الملک اعتماد الدولہ وغیرہ کو حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے آدمی گزریں۔ رستم مرزا صفوی اور خان اعظم اور ان کی جماعت کو ہدایت ہوئی کہ پونچھ کی راہ سے آؤ۔ بادشاہ خود خدمتگاروں کے ساتھ موضع سلطان پور میں آیا۔ اس ملک کے آدمیوں کی زبانی سنا کہ غیر ایام برسات میں جب کہ بجلی اور بارش کا مطلق اثر نہیں ہوتا، اس پہاڑ سے صدائے ابر کی مانند آواز آتی رہتی ہے جس سے اس کا نام کوہ گرج مشہور ہو گیا ہے۔ 20 سال ہوئے جب سے یہاں قلعہ کوہ پر ایک قلعہ بنایا گیا ہے، آواز کا آنا موقوف ہے۔ اس قلعہ کو گندھ گڑھ کہتے ہیں جو بظاہر گنج گڑھ معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ پہاڑ درختوں اور سبزہ کے نہ ہونے سے خشک اور برہنہ ہے۔ سلہر اور نوشہرہ کے حالات میں بادشاہ لکھتا ہے :
“جہاں تک نظر کام کرتی تھی، یہ قطعہ سبزہ زاروں سے شگفتہ اور پھولوں سے گلریز نظر آتا تھا۔ سلہر میں ایک پھول دیکھا کہ اندام میں گل خطمی کے برابر اور رنگ میں سرخ آتشیں تھا۔ اسی رنگ کے اور بھی بہت پھول تھےلیکن وہ سب چھوٹے تھے۔ دور سے ان پھولوں کا نظارہ نہایت دلفریب معلوم ہوتا تھا۔ دامن کوہ میں بھی نہایت عجیب منظر تھا۔ یہاں سے گزر کر پگھلی کے علاقہ میں داخل ہوا جہاں معمولی برفباری سے بھی روشناس ہونا پڑا۔ چمبہ اس راہ میں کثرت سے تھا۔ شفتالو اور زرد آلو کے درختوں میں شگوفے لگے ہوئے تھے۔ صنوبر کے درخت مثل سرو کے دیدہ فریب تھے۔ پگھلی کا رئیس سلطان جبین مرزا زمیں بوس ہوا۔ اس نے اپنےمکان پر مجھے مدعو کیا۔ چونکہ والد ماجد (اکبر) بھی دوران سفر کشمیر میں اس کے گھر گئے تھے، اس لیے میں نے اس کی درخواست منظور کر لی اور اس کے ہمسروں میں اس کا درجہ بڑھایا۔ یہاں میوے بغیر پرورش کے خود رو ہوتے ہیں۔ اس علاقہ میں کشمیر کی روش پر خانہ و منازل چوب سے بناتے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ چند منزل تک ایسی بستی نہیں ہے کہ وہاں غلہ اس قدر مل جائے کہ لشکر کفایت کرے، اس لیے ہاتھیوں اور ہمراہیوں کی تخفیف ہوئی جو بعد میں ہمارے ساتھ آ شامل ہوئے۔ پانچ کوس کے فاصلہ پر نین سُکھ کی ندی آئی جو بدخشاں اور تبت کے درمیانی پہاڑوں سے نکلتی ہے۔ ندی کی دونوں شاخوں پر دو پُل، ایک 17 گز، دوسرا 14 گز طولانی اور عرض میں صرف پانچ گز بنائے گئے۔ ہاتھیوں کو پایاب اُتارا اور سوار اور پیادے پُل پر سے اُترے۔ یہاں پُل لکڑی کے بنائے جاتے ہیں اور سالہا سال برقرار رہتے ہیں۔ تین کوس کے قریب چل کر دریائے کشن گنگا کے کنارے پر منزل ہوئی۔ راہ میں ایک پہاڑ جس کا ارتفاع ڈیڑھ کوس ہے، واقع ہے۔ پُل سےگزر کر ایک آبشار آتا ہے جو نہایت لطیف و صاف ہے۔ میں نے نہایت شوق سے سایۂ درخت میں اس کا پانی پیا۔ اُس پُل کے محاذ میں دوسرا پُل میں نے بھی تعمیر کرایا۔ پانی عمیق اور تند تھا۔ ہاتھیوں کو ننگا اس دریا سے عبور کرایا گیا۔ دریا کے مشرق میں عین پہاڑ پر میرے باپ کے حکم سے ایک پختہ سرائے پتھر اور چونے کی بنی ہوئی ہے۔”
بادشاہ مقام بھول باس سے کچھ آگے نکل گیا تھا کہ برف و باراں نے اُسے گھیر لیا۔ جہانگیر مع اہل حرم اس بلائے آسمانی سے بچنے کے لیے معتمد خاں مصنف اقبال نا مہ جہانگیری کے خیمہ میں جو بالکل خالی تھا، چلا گیا اور وہاں شبانہ روز رہا۔ جب معتمد خاں کو خبر ہوئی تو وہ پیادہ پا ڈھائی کوس کی مسافت کر کے دوڑا آیا۔ جو کچھ نقد و جنس اس کی بساط میں تھی، بادشاہ کو پیش کی۔ بادشاہ نے نذر معاف کر دی اور فرمایا، متاع دنیا ہماری چشم ہمت میں ہیچ ہے۔ ہم جوہر اخلاص کو گراں بہا سے خریدتے ہیں۔
راجا کشتواڑ کی حاضری
غرض 15؍ربیع الاول ١٠٢٩ھ مطابق 10 مارچ 1620ء کو سرحد کشمیر میں بادشاہ جب شہاب الدین پور میں آیا تو دلاور خاں حاکم کشمیر بادشاہ کی پیشوائی کے لیے اس منزل پر حاضر ہوا۔ راجا کشتواڑ کی سرکوبی کےلیے جو اپنے آپ کو سرکش و خود مختار سمجھتا تھا، دلاور خاں کو دس ہزار جنگی سواروں اور پیادہ کی جمعیت دے کر کشتواڑ روانہ کیا۔ راجا دو ایک معمولی لڑائیوں کے بعد تاب مقاومت نہ لایا، گرفتار ہو کر جہانگیر کے حضور میں لایا گیا۔ جہانگیر لکھتا ہے: راجا کی شکل وجاہت سے خالی نہیں تھی۔ اس کی پوشش اہل ہند کی روش پر تھی اور وہ ہندی اور کشمیری خوب بولتا تھا۔ وہ اپنے فرزندوں کو بادشاہ کی ملازمت میں دے کر مرحمت شاہی سے سرفراز ہوا۔
کشمیر کے قدیم فرمانروا
جہانگیر لکھتا ہے کشمیر اقلیم چہارم میں ہے۔ عرض اس کا خط استوا سے 35 درجہ اور طول اس کا جزیرہ سفید سے 105 درجہ ہے۔ اس ملک میں قدیم سے ہندو راجا حکومت کرتے تھے۔ ان کی حکومت کی مدت چار ہزار سال بیان کی جاتی ہے۔ ان کا حال تاریخ راج ترنگنی میں جو والد ماجد کے حکم سے سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ ہو چکی ہے، مفصل مرقوم ہے۔ ٧١٢ھ میں اس ملک نے نور اسلام سے روشنی پائی۔ 32 مسلمان بادشاہوں نے 282 برس اس ملک پر سلطنت کی ہے۔ ٩٩٤ھ میں والد ماجد نے اس کو فتح کیا اور اس تاریخ سے اب تک کہ 35 سال ہوئے ہمارے قبضہ میں ہے۔
شہر سری نگر
شہر کا نام سری نگر ہے۔ اس کی آبادی کے اندر سے دریائے بہت (جہلم) گزرتا ہے۔ اس کے سرچشمہ کا نام ویرناگ ہے، وہ شہر سے چودہ کوس پر جانب جنوب واقع ہے۔ میں نے اس چشمہ کے اوپر ایک عمارت اور باغ ترتیب دیا ہے۔ شہر میں چار پل سنگ و چوب کے نہایت مستحکم بنے ہوئے ہیں۔ اس ملک کی اصطلاح میں پُل کو کدل کہتے ہیں۔ شہر میں ٧٩٥ھ میں ایک مسجد نہایت عالی سلطان سکندر نے بنائی تھی۔ ایک مدت کے بعد وہ جل گئی۔ ٩٠٩ھ میں ابراہیم ماگرے وزیر سلطان حسین کے زمانہ میں دوبارہ تعمیر ہوئی۔ حکام کشمیر کی سب سے عمدہ یادگار یہی مسجد ہے۔ آدمیوں کی آمد و رفت اور غلہ وغیرہ کا کاروبار اکثر کشتیوں ہی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ شہر اور پرگنوں میں 5070 کشتیاں اور 7400 ملاح ہیں۔
انتظام اور آمدنی وغیرہ
کشمیر میں 38 پرگنے ہیں جن کے دو حصے کیے گئے ہیں۔ بالائے آب کو مراج اور پایان آب کو کامراج کہتے ہیں۔ ہر خر وارتین من 8 سیر وزن حال ہے۔ کشمیری دو سیر کو ایک من اور چار من یعنی 8 سیر کو ایک ترکھ کہتے ہیں۔ ولایت کشمیر کی جمع 30 لاکھ 63 ہزار پچاس خروار اور گیارہ ترکھ ہے جو بحساب نقدی سات کروڑ 46 لاکھ 70 ہزار دام ہوتی ہے۔
کشمیر کی بہار
جہانگیر اکثر کہا کرتا تھا کہ کشمیر میری قلمرو میں بہشت روئے زمیں ہے اور اسی لیے ہر سال کشمیر کی سیر کو جاتا تھا۔ اس نے کشمیر کی بہت تعریف کی ہے۔ وہ لکھتا ہے: کشمیر ایک باغ ہے سدا بہار، قلعہ ہے آہنی حصار۔ بادشاہوں کے لیے ایک گلشن عشرت افزا ہے، درویشوں کے لیے ایک خلو ت کدۂ دلکشا ہے۔ چمن خوش، آبشار دلکش۔ آب ہائے رواں شرح و بیان سے زیادہ اور چشمہ سار حساب و شمار سے باہر ہیں۔ بہار میں کوہ و دشت اقسام شگوفہ سے مالا مال۔ در و دیوار اور صحن و بام گھروں کے مشعل لالہ سے بزم افروز ہیں۔ کشمیر میں لکڑی کے مکانات یک منزلہ سے 4 منزلہ تک بناتے ہیں اور چھتوں کو خاک پوش کر کے پیاز لالہ کو سال بہ سال لگاتے ہیں۔ موسم بہار میں وہ کھل کر نہایت خوشنما معلوم ہوتا ہے۔ “استاد حضور” نے جو تصویریں کھینچی ہیں وہ سو سے زیادہ ہیں۔
باشندوں کے حالات اور دیگر کوائف
چنا اس ملک میں اول سال خوب پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے سال کم اور چھوٹا اور تیسرے سال مونگ کی دال کے برابر ہوتا ہے ۔ زمانہ سابق میں یہاں اچھا اور قد آور گھوڑا اور گاؤ اور گاؤ میش بالکل کمیاب تھے۔ تازہ طعام کھانے کا رواج بہت کم ہے۔ عموماً ایک وقت کا پکا ہوا دو وقت کھاتے ہیں۔ طعام میں نمک ڈالنے کا رواج اس قدر کم ہے کہ مردوں کے چہرہ پر نمک کا اثر نہیں ہے۔ عورت و مرد کا ملبوسات پشمینہ متعارف ٹپّو ہے۔ اس ملک کے باشندوں کا قول ہے کہ اگر ہم یہ نہ پہنیں تو ہوا کا اثر جسم پر ایسا ہوتا ہے کہ کھانا ہضم نہیں ہو سکتا۔ اس ٹپو کا ایک کرتہ عورتیں تین چار سال تک پہنتی ہیں اور کبھی اس کو دھلواتی نہیں۔ بحالیکہ پانی کی یہ بہتات ہے کہ ہر محلہ میں نہر جاری ہے۔ اس گل زمین کے باشندے جدت فہم و ذکا اور جوہر رشادت سے آراستہ ہیں۔ کشمیری گول پگڑی پہنتے ہیں۔ ازار پہننا عیب جانتے ہیں۔ کرتہ دراز و فراخ سر سے پا تک پہنتے ہیں اور کمر باندھتے ہیں۔ اس ملک کے آدمی سوداگر اور اہل حرفت ہیں۔ سُنی، شیعہ اور ہنود کے علاوہ ایک فرقہ نور بخشی مذہب کا بھی ہے جو اہل سنت اہل تشیع دونوں کے برخلاف ہے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ عبادات و معاملات میں اس فرقہ نے اس قبیل کے تصرفات کیے ہیں کہ تفرقہ عظیم ہو گیا ہے۔ میں نے ان کی کتاب موطۂ نور بخشیہ علمائے ہندوستان کے پاس فتوے کے لیے بھیجی جنھوں نے بالاتفاق لکھا کہ اس قسم کی کتاب کا مٹا دینا اور معدوم کر دینا واجبات و فرائض سے ہے۔ برہمنوں اور مسلمانوں کا لباس یکساں ہے لیکن برہمنوں کی مذہبی کتابیں سنسکرت زبان میں ہیں، وہ ان کو پڑھتے ہیں اور بت پرستی کی شرائط کو ادا کرتے ہیں۔ بت خانوں کی عمارتیں سنگین ہیں اور بنیاد سے لے کر چھت تک ان میں تیس تیس چالیس چالیس من کے پتھر لگے ہوئے ہیں۔ شہر کے متصل کوہ ماراں یا ہری پربت ہے جہاں والد ماجد نے ایک قلعہ بنوایا ہے۔ میں نے یہاں ایک باغ لگایا جس کا نام نور افزا رکھا ہے۔
کشمیر میں نئی باتوں کا رواج
اقبال نامہ میں لکھا ہے کہ اکبر کے عہد میں کشمیر کا حاکم مرزا حیدر تھا۔ اس کے زمانہ میں کشمیر میں اسپ کلاں کی سواری اور بنائے عمارات دل نشیں اور اکثر وضع معقول کا رواج ہوا۔ اشجار میوہ دار کے پیوند لگانے کا رواج اکبر کے زمانے سے پہلے تمام ہندوستان میں بھی نہ تھا۔ اس کو محمد قلی افشار داروغہ باغات کشمیر نے رواج دیا۔ اول کابل سے شاہ آلو کو منگوا کرپیوند دیا گیا تو یہاں کی آب و ہوا اس کو موافق آئی۔ جب اس میں کامیابی ہوئی تو اور بھی کئی درختوں کو آزمایا گیا۔ جن سے خوب شادابی بڑھی۔
دریائے جہلم کی سیر
جہانگیر لکھتا ہے، جمعہ کو میں ویری ناگ کے سرچشمہ دریائے بہت (جہلم) کی سیر کو روانہ ہوا۔ پانچ کوس کشتی میں گیا۔ موضع پان پور کے باہر اترا لیکن کشتواڑ سے جب یہ خبر آئی کہ نصر اللہ عرب کو (جس کو دلاور خاں حاکم کشتواڑ کشتواڑ کی فتح اور راجا کی گرفتاری کے بعد کشتواڑ کا محافظ بنا آیا تھا) کشتواڑیوں نےاس کے ظلم و تشدد کی وجہ سے ایک لڑائی میں مار ڈالا ہے تو تمام سیر منغض ہو گئی۔
کشت زعفران
جہانگیر جب سیر کشمیر سے فارغ ہو کر ہندوستان کو واپس چلا تو زعفران کے پھول کھل رہے تھے۔ بادشاہ شہر سے کوچ کر کے موضع پان پور میں آیا جو زعفران کی پیدائش کے لیے تمام کشمیر میں مشہور ہے۔ جہانگیر لکھتا ہے: جہاں تک نظر کام کرتی تھی، پھول ہی پھول دکھائی دیتے تھے۔ اس کی نسیم دماغوں کو معطر کرتی تھی۔ زعفران کا مُنہ زمین سے پیوستہ ہوتا ہے۔ اس کے پھول کی پانچ پتیاں بنفشہ کے رنگ کی ہوتی ہیں۔ یہ معمولی سالوں میں 400 من یعنی ٣٢٠ خراسانی من پیدا ہوتا ہے۔ نصف حصہ خالصہ یعنی بادشاہ کا ہوتا ہے اور نصف حصہ رعایا کا۔ ایک سیر دس روپیہ کو فروخت ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ نرخ کم و بیش بھی ہو جاتا ہے۔ گل زعفران کو تول کر کاریگر اپنے گھر لے جاتے ہیں اور زعفران اس میں سے نکالتے ہیں۔ وہ اس کو بادشاہی ملازموں کو دیتے ہیں اور اپنی اجرت میں اُن سے زعفران کے وزن کے برابر نمک لیتے ہیں۔ کشمیر میں نمک نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں سے آتا ہے۔
کشمیر میں عمارات جہانگیری
بادشاہ چونکہ سفر کشمیر کے تجربہ سے برف و باراں کی تکالیف اٹھا چکا تھا، اس لیے اس نے حکم دیا کہ کشمیر سے انتہائے کوہستان تک ہر منزل میں بادشاہ اور اس کے اہل حرم کے لیے ایک عمارت عالیشان تعمیر کی جائے کہ سرما اور برف میں خیموں میں گزارہ نہیں ہو سکتا۔ کشمیر کے معماران چابکدست اور کارداران زیرک نے بہت تھوڑے دنوں میں یہ عمارتیں تعمیر کر دیں۔ بادشاہ نے ایک باغ تعمیر کرایا۔ اس میں ایک تصویرخانہ بنوایا جس میں سب سے اوپر اکبر اور ہمایوں کی تصویر تھی، پھر اپنی اور اپنے ہمعصر شاہ عباس والیٔ ایران کی۔ پھر درجہ بدرجہ شہزادوں اور امرائے خاص کی تصاویر رکھی گئیں۔
تھنہ و راجوری کے راستے واپسی
جہانگیر میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ جن مشہور اضلاع و مقامات میں سے گزرتا تھا، ان کے تاریخی حالات کی خوب تحقیقات کرتا اور وہاں کے باشندوں کی حالتیں، رسم و رواج، طرز معاشرت، آب و ہوا، غرض ہر چیز کا بیان لکھتا۔ چنانچہ واپسی کے وقت جب وہ تھنہ میں پہنچا، جو پیر پنجال کے نشیب میں واقع ہے اور وہاں سے راجوری کو روانہ ہوا، تو اس منزل کی کیفیت میں لکھتا ہے کہ یہاں کے آدمی فارسی اور ہندی دونوں زبانیں بولتے ہیں۔ اصل زبان ان کی ہندی ہے۔ قرب و جوار کے سبب سے کشمیری بھی عام طور پر بولی جاتی ہے۔ یہاں کی عورتیں پشمینہ کا لباس نہیں پہنتیں۔ ہندوستان کی عورتوں کی طرح ناک میں نتھ کا استعمال کرتی ہیں۔ راجور کے باشندے پہلے زمانے میں ہندو تھے۔ یہاں کے رئیس کو راجا کہتے ہیں۔ ہرچند یہاں مسلمان کثرت سے ہیں لیکن ہندو پنے کی رسمیں اُن میں جاری تھیں۔ یہاں تک ہوتا تھا کہ ہندو عورتوں کی طرح مسلمان عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ زندہ دفن ہو جاتی تھیں۔ اکثر بے بضاعت اور جاہل آدمی اپنی لڑکیوں کو ہلاک کر ڈالتے تھے۔ ہندوؤں سے رشتہ داری بھی جاری تھی۔ لڑکی دیتے بھی تھے اور لیتے بھی تھے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ یہ حالات جب میرے گوش گزار ہوئے تو میں نے سختی سے ایک فرمان جاری کیا کہ پھر یہ باتیں نہ ہونے پائیں اور جو کوئی ان کاموں کا مرتکب ہو اس کو خوب سزا دی جائے۔ کسی مسلمان کا کسی ہندو کو لڑکی دے دینا سخت جرم قرار دیا گیا۔ لڑکی لینا چنداں جرم نہیں تھا۔
شاہجہاں کی سیاحت کشمیر
شاہجہاں عالم شہزادگی میں تو باپ کے ساتھ کئی مرتبہ کشمیر کی سیر کر چکا تھا لیکن جب سے بادشاہ ہوا تھا نہ لاہور آیا تھا اور نہ کشمیر ہی گیا تھا۔ جلوس کے ساتویں سال یعنی ١٠٤٣ھ مطابق 1634ء میں تیسری شعبان کو وہ اکبر آباد (آگرہ) سے لاہور کشمیر کی سیر کے لیے روانہ ہوا۔
بادشاہ عدل پرور اور رعایا گستر تھا۔ اُس نے حکم دیا کہ لشکر کے گزرنے سے رعایا پامال نہ ہو۔ اگر لوٹنے والے کے ہاتھوں میں زراعت کا ایک پودا بھی دیکھا جائے تو اس کے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں اور صاحب کاشت کو اس کی قیمت دُگنی دلائی جائے۔ اور اگر کہیں بہ امر مجبوری افواج کی کثرت اور انبوہ عظیم اور راہوں کی تنگی خصوصاً کوہستانی رستوں کی مشکلات کی وجہ سے زراعت پامال بھی ہو تو خدا ترس امین اس کی برابر درد بنائیں اور رعیت کا حصہ رعیت کو اور جاگیردار کا حصہ جاگیردار کو بشرطیکہ دو ہزاری منصب سے کم درجہ رکھتا ہو، سرکار سے نقد دلایا جائے۔
دوستو! یہ خالی باتیں ہی نہ تھیں۔ طفل تسلیوں کے لیے کاغذی ناؤ ہی نہیں چلتی تھی۔ حصول انصاف کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہا دینے کے باوجود مہینوں اور برسوں تک انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ان باتوں پر عمل ہوتا تھا اور سختی سے ہوتا تھا اور فوراً ہوتا تھا۔
بادشاہ 6 شوال کو لاہور پہنچا۔ آصف خاں (نور جہاں کے بھائی) نے اپنی عالیشان حویلی(١) میں بادشاہ کی دعوت کی اور چھ لاکھ روپیہ پیشکش میں دیا۔ ٢٤ ذیقعدہ کو بادشاہ کشمیر روانہ ہوا۔ لاہور سے بھمبر تک اپنے رعایا پرور احکام کی تعمیل کراتا آیا۔ یہاں اونٹوں کو چھوڑ دیا گیا اور باربرداری کے لیے گھوڑے اور خچر مہیا کیے گئے۔ بھمبر سے کوہستان کشمیر اُس زمانہ میں بارہ منزل اور 47 کوس تھا۔ جہانگیر نے گیارہ منزلوں میں عمارتیں تعمیر کرائی تھیں۔ ہر ایک عمارت میں دولت خانہ خاص بھی بنایا۔ بادشاہ رستے کے مناظر دیکھتا، لوگوں کی فریادیں اور شکایتیں سنتا، رؤسا امرا کی نذریں قبول کرتا 18 ذی الحجہ یعنی 24 دن کے بعد کشمیر کے دارالخلافہ سری نگر میں پہنچا۔ اس زمانہ میں ظفر خاں احسن گورنر کشمیر تھا۔ شاہجہاں ہر صبح و شام دلکشا باغوں میں بزم نشاط آراستہ کرتا اور لالہ دریا، حسین اشجار سراپا بہار و اثمار رنگیں، انہار و چشمہائے زلال و شیریں سے دل و دماغ کو فرحت بخشتا۔ بادشاہ نے محرم یہیں گزارا۔ 12 ربیع الاول کو محفل میلاد اپنے خاص اہتمام سے منعقد کی اور خاص و عام کو اس میں بلایا۔ اس موقع پر کشمیر کے علما و فضلا، صلحا و حفاظ کو خلعت گراں بہا مرحمت فرمائے۔ مددِ معاش میں کسی کو جاگیر دی، کسی کا نقد روزینہ مقرر کر دیا۔ حکم دیا کہ ہرسال بادشاہ کی طرف سے محفل میلاد بارہ ہزار روپے کے خرچ سے ہوا کرے۔
کشمیر میں بادشاہ قریباً تین مہینے تک رہا۔ 23 ربیع الاول کو کشتی کے رستے پانپور اور بج بہارہ سے ہوتا ہوا اننت ناگ آیا جو اسلام خاں کی جاگیر میں تھا۔ بادشاہ نے اس کا نام اسلام خاں کے نام پر اسلام آباد رکھا اور یہاں دلنشیں عمارتوں کی تعمیر کا حکم دیا۔
بادشاہ یہاں کشتی کی بجائے تخت رواں پر کہ خود ہی اس کا موجد بھی تھا، سوار ہوا۔ 7ربیع الثانی کو رستے ہی میں جشن قمری کیا۔ قرب و جوار کے محتاجوں، غریبوں اور مستحقین کو خیرات و عطیات سے مالا مال کر دیا۔ 27 ربیع الثانی کو بھمبر میں منزل ہوئی جو اس رستے سے سفرِ کشمیر کی آخری کوہستانی منزل ہے۔
اسی مقام پر بادشاہ کی پینتالیسویں سالگرہ کا جشن منعقد ہوا۔ شاہی کلاونت جگن ناتھ بادشاہ کے ساتھ رہتا تھا۔ اس نے ہندی دوہڑے سنا سنا کر بادشاہ کو ایسا محظوظ کیا کہ بادشاہ نے حکم دیا اس کو روپیہ سے تولا جائے۔ اس کو تولا گیا تو اس کا وزن ساڑھے چار ہزار روپئے کے برابر نکلا جو بادشاہ کی طرف سے بطور انعام دے دیے گئے۔
بادشاہ گو اسی رستے کشمیر گیا تھا، لیکن روانگی کے وقت معمولی قیام ہواتھا۔ واپسی پر یہاں اپنی سالگرہ کے جشن کی وجہ سے اُسے کئی دن ٹھہرنا پڑا اور اس لیے کئی باتیں اس کے نوٹس میں لائی گئیں۔
جہانگیر کے سفر کشمیر میں ناظرین نے پڑھا ہو گا کہ علاقہ راجور میں مسلمان ہندوؤں سے لڑکیاں لیتے بھی تھے اور دیتے بھی تھے۔ جہانگیر کو جب قیام راجور کے ایام میں اس کا علم ہوا تو اس نے اس رسم کو مٹانے کے لیے نہایت سخت احکام جاری کیے۔
شاہجہاں بھمبر میں تھا کہ اسی قسم کی شکایتیں اس کے بھی گوش گزار ہوئیں۔ اس کو بتایا گیا کہ بھمبر کے مسلمان کلمہ تو پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے معنی نہیں جانتے۔ اسلام کی تعمیل سے قطعاً بے خبر ہیں۔ ہندوؤں سے رشتہ داریاں کرتے، ان سے بیٹیاں لیتے اور ان کو بیٹیاں دیتے ہیں۔ ہندو کی لڑکی جو مسلمان کی بیوی ہے، مرنے کے بعد دفن کی جاتی ہے اور مسلمان کی لڑکی جو کسی ہندو کی عورت ہے، مرنے کے بعد جلائی جاتی ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا میرے باپ کے احکام کی پھر تجدید کی جائے اور جس ہندو کے گھرمیں کوئی مسلمان عورت ہو، اگر وہ ہندو مسلمان ہو جائے تو عورت کا نکاح از سر نو اس سے کیا جائے اور اگر وہ ہندو مسلمان نہ ہو تو مسلمان عورت کو اس سے علاحدہ کر لیا جائے۔ لیکن قبولیت مذہب کے معاملہ میں سختی نہ کی جائے۔ بھمبر کا راجا جو ہندو تھا اور جس کے محل میں کئی مسلمان عورتیں تھیں مسلمان ہو گیا۔ بادشاہ نے راجۂ دولتمند اس کو خطاب دیا۔ راجہ دولت مند کی تقلید جگہ جگہ ہونے لگی۔ یہاں تک کہ گجرات و بھمبر کے علاقہ میں چار سو ہندو جن کے گھروں میں مسلمان بیویاں تھیں ، مسلمان ہو گئے۔ بادشاہ نے مسلموں کو احکام شریعت اور آداب عبادت سکھانے کےلیے قاضی اور معلم مقرر کیے۔
بادشاہ جب بھمبر سے حوالیٔ گجرات میں آیا تو قصبہ کے مشائخ و سادات نے یہ استغاثہ پیش کیا کہ بھمبر کی طرح یہاں بھی کئی ہندو مسلمان عورتوں کو اپنے تصرف میں رکھتے ہیں اور کئی مسجدوں پر انہوں نے قبضہ جما رکھا ہے، بلکہ ان کو مکانات کی شکلوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ بادشاہ نے شیخ محمود گجراتی کو اس مقدمہ کی چھان بین اور تحقیقات کے لیے مقرر کیا۔ اس نے تحقیقات کرنے کے بعد بادشاہ کے حکم سے کئی مسلمان عورتوں کو ہندوؤں کے قبضہ سے نکالا اور متدین اور پرہیز گار مسلمانوں کے ساتھ اُن کے نکاح کیے۔ کئی مسجدیں ہندوؤں سے واپس لیں جن کی شکلیں تبدیل کر دی گئی تھیں۔ ان کی تعمیر و مرمت کے لیے روپیہ بھی انہی سے لیا۔ جن لوگوں نے قرآن مجید کی نہ صرف بے ادبی کی تھی، بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری کےلیے مسلمانوں کو دکھا دکھا کر جلایا کرتے تھے، بعد از ثبوت ان کو قتل گاہ میں لے جا کر پھانسی دی گئی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ مہمات شرعی کے متکفل سارے پنجاب میں اس بات کی تحقیق کریں کہ کہاں کہاں مسلمان عورتیں ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں اور جہاں کہیں ایسی صورت ہو فوراً احکام شاہی کی تعمیل کرائی جائے۔
بادشاہ 25 شوال ١٠٤٩ھ کو پونچھ کے راستے سے پھر کشمیر کو روانہ ہوا۔ اس زمانہ میں بھی ظفر خاں احسن ہی گورنر تھا۔ اس سفر کی تین باتیں قابل ذکر ہیں، ایک تو یہ کہ سلطان مراد (ٹرکی کا سفیر) ارسلان آقا بادشاہ کی خدمت میں آیا۔ چونکہ بادشاہ ان دنوں کشمیر میں تھا۔ اس لیے سفیر روم کو بھی کشمیر ہی میں بُلوا لیا گیا۔ جہاں بادشاہ نے اس کو کشمیر کی خوب سیر کرائی۔
ڈل اور ولر کے کناروں پر نواب علی مردان خاں نے اس کثرت اور اس خوبی سے چراغوں کی روشنی کرائی کہ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ شاہجہاں نے سُنا کہ ان ایام میں سنگ سفید پر جو سری نگر سے دو تین منزل کے فاصلہ پر ہے، بڑی بہار ہے۔ رستہ ہر چند بڑا دشوار گزار اور ناہموار بتایا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ وہاں موقع بے موقع عموماً بارش ہوتی رہتی ہے۔ لیکن بادشاہ نے فرمایا وہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے۔ چنانچہ ضروری سامان کے ساتھ تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ابھی منزل مقصود پر پہونچے بھی نہیں تھے کہ مینہ اس زور سے برسا اور ہوا میں ایسی خُنکی پیدا ہو گئی کہ سوار اور پیدل اور انسان اور حیوان سب لرزہ براندام ہو گئے۔ جنس پختہ یا خام جیسی ہمراہ تھی ویسی ہی رہی۔ نہ اس کو کھانے پکانے کی فرصت ملی اور نہ اس کی مناسب احتیاط ہو سکی۔ تین چار روز تک بارش اور ہوا کا برابر ساتھ رہا۔ آسمانوں اور پہاڑوں سے پانی کے نالے بہتے تھے اور پتھروں سے پانی اس زور سے ٹکرا رہا تھا کہ دور دور تک آواز جاتی تھی۔ بلکہ کیچڑ اور پانی کی طغیانی سے راہیں بالکل ناپید ہو گئیں۔ بادشاہ ہمراہیوں سمیت واپس آیا۔ رستے میں پانی کی شدت اور دلدل کی کثرت کی وجہ سے آدمی اور گھوڑے بہت ضائع ہوئے۔ چار کوس کی منزل چھ پہر میں طے کی گئی اور مینہ نے پھر بھی فرصت نہ دی۔
اس سال طغیانی و سیلاب سے ڈل کے چار ہزار گھر اور دریا کے کنارے پر جو گاؤں آباد تھے، ان میں سے چار ہزار گھر اور پرگنات بھمبر وغیرہ کے دیہات میں سے چار سو ستاسی گھر خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔ اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ زراعت کا کیا حال ہوا ہو گا اور قحط کی شدت اور اجناس کی نایابی نے کیا ستم ڈھایا ہو گا۔ سری نگر میں صدہا مکانات منہدم ہو گئے۔ کئی دنوں تک بازار بند رہے اور آمد و رفت بالکل موقوف ہو گئی۔ بادشاہ اس مرتبہ 6 ماہ تک کشمیر رہا۔ لیکن قحط و سیلاب کی خوفناک حالت دیکھ کر 7جمادی الثانی ١٠٥٠ھ کو واپس روانہ ہوا اور غرّۂ شعبان کو لاہور پہنچ گیا۔
بادشاہ نے لاہور پہنچ کر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کشمیر کے قحط زدہ لوگوں کی امداد کے لیے بھیجا۔ ظفر خاں احسن ناظم کشمیر نے رعایا کی طرف سے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ اگر تیس ہزار روپیہ تخم ریزی کے لیے زمینداروں کو مزید مرحمت ہو تو ملک آبادی و خوشحالی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ بادشاہ نے اسے منظور کرلیا۔
تیسری مرتبہ بادشاہ 6صفر ١٠٥٤ھ کو لاہور سے کشمیر کی طرف روانہ ہوا۔ اس زمانہ میں بھی ظفر خاں احسن ناظم کشمیر تھا۔ اسی سفر میں بادشاہ نے چشمہ ویر ناگ کی مرمت کا حکم دیا اور چشمہ کے منبع پر ایک آبشار تعمیر کرائی جس کے ایک پتھر پر ؏:
از چشمہ بہشت برو آمدست جُو
تاریخ تعمیر کندہ ہے۔ (چشمہ بہشت 1073، جوئے 19۔1054ھ)
بادشاہ کی پیاری بیٹی جہاں آرا بیگم نے جو بادشاہ بیگم کے خطاب سے ملقب تھی، صفاپور میں جو بادشاہ بیگم کی جاگیر میں اور اپنی خوبیوں اور اپنے دلکش مناظر کی وجہ سے اسم بامسمیٰ تھا، بادشاہ کی ضیافت کی اور مانس بل کے ارد گرد ایسی دیدہ فروز روشنی کی کہ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ شہزادی نے بہت سا نقد و جواہر بادشاہ کی پیشکش میں دیا۔
بادشاہ نے چوتھا یعنی آخری سفر کشمیر جلوس، بست و پنجم ١٠٦٠ھ و ١٠٦١ھ میں کیا۔ اس سفر میں بادشاہ اپنے بیٹے دارا شکوہ کے مرشد ملا شاہ بدخشانی کی ملاقات کےلیے اس مسجد(١) میں گیا جو جہاں آرا بیگم نے اپنے بھائی دارا شکوہ کے پیر کی خوشنودی کے لیے چالیس ہزار روپے کی لاگت سے زیارت حضرت مخدوم صاحب کے قرب میں تعمیر کرائی تھی اور جس کے اطراف میں فقرا و طلبا کے رہنے کے لیے مکانات بھی تعمیر کرائے گئے تھے۔ ملاشاہ نے جو اپنی حق آگاہی و صفا کیشی کی وجہ سے پنجاب و کشمیر میں بہت مشہور تھے، بادشاہ کی آمد پر ایک نظم پڑھی۔ جس کا پہلا شعر یہ ہے:
امروز شاہ شاہاں مہماں شد است ما را | جبرئیل با ملائک درباں شد است ما را |
بادشاہ مسجد میں گیا اور حضرت شاہ صاحب کے پاس دیر تک بیٹھ کر ان کی نصیحت آموز باتیں سُنتا رہا۔ اس زمانہ میں کشمیر کا گورنر حسن بیگ خاں تھا جس کا عہد حکومت صرف ڈیڑھ سال ہی رہا ہے۔
جب بادشاہ کشمیر میں تھا تو لوگ خشک سالی کی وجہ سے بہت بے چین تھے۔ آخر مینہ برسا تو ایسا برسا کہ زراعت تو ایک طرف، گلزار اور سبزہ زار اور ثمرہ دار درخت سب تباہ ہو گئے۔ اس وقت بادشاہ کو کشمیر میں آئے ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ طبیعت اس قسم کے واقعات دیکھ کر بہت پراگندہ ہو گئی۔ فرمایا “لاہور اور شاہجہاں آباد کے باغات و مرغزار و مصفیٰ و مجلیٰ مکانات چھوڑ کر محض حظ نفس کے لیے اس مسافت بعیدہ کو طے کرنا اور مختلف پیرایوں میں خلق خدا کو مصیبت و تکلیف میں مبتلا کرنا خدا پرستوں کے نزدیک مناسب نہیں ہے”۔ دریا کو عبور کرنے میں پُل جو بہت پرانا تھا، ٹوٹ گیا۔ ڈھائی سو آدمی، کئی جانور اور بہت سا اسباب دریا میں جا پڑا جس میں سے ایک سو آدمی طعمۂ نہنگ اجل ہو گئے۔ اس سے بادشاہ کی طبیعت اور بھی مکدر ہو گئی اور پھر جب تک کہ وہ بادشاہ رہا، یعنی ١٠٦٨ھ تک کشمیر میں نہیں آیا۔
اورنگ زیب عالمگیر اور جنتِ کشمیر
سیر کشمیر کا شوق عالمگیر کے لیے جَدّی ورثہ تھا۔ اکبر، جہانگیر، شاہجہاں ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی کئی دفعہ کشمیر کی سیر سے محظوظ ہو چکے۔ عالمگیر بھی برسوں سے کشمیر کو جنت نظیر سن رہا تھا۔ آخر ششم سال جلوس ١٠٧٣ھ میں رمضان کے مہینہ میں کہ پچیسویں تاریخ تھی، قلعہ لاہور سے سفر کشمیر کے لیے باہر نکلا۔
اہل حرم کی کئی پالکیاں ساتھ تھیں۔ ہاتھی، گھوڑے، فوج، لشکر کا انبوہ کثیر تھا۔ شان و شوکت اور جاہ جلال کے ساتھ رستے کے نشیب و فراز کی تکالیف اٹھاتا، بعض دلکش مقامات کی سیر کرتا اور کئی کئی دن وہاں ٹھہرتا ذیقعدہ کے مہینہ میں سری نگر پہنچ گیا۔ اس سفر میں کئی جانور اور کئی آدمی پہاڑی دشوار گزار راہوں کی نذر ہو کر غاروں میں گرتے رہے۔ ایک فیل کوہ پیکر بھی پہاڑ کے ڈھلوان سے قلابازیاں کھاتا اپنی لپیٹ میں بہت سے لشکروں اور کئی کنیزوں کو لے کر چاہ عدم میں جا پہنچا۔
کشمیر میں عالگیر کا ایک نہایت معتبر افسر راجا رگناتھ متصدی مہمات دیوانی کے عہدہ پر تھا۔ وہ بادشاہ کی موجودگی ہی میں انتقال کر گیا۔ بادشاہ نے اس کے مرنے کا بڑا غم کیا اور وزارت کا منصب جلیل القدر فاضل خاں میر سامان کو عنایت کیا جو عالمگیر کے آخری عہد حکومت میں کشمیر کا گورنر بھی ہو گیا۔
شاہجہاں کے زمانہ سے اُناسی ہزار روپیہ بوساطت صدر الصدور ارباب استحقاق کو بلا تمیز مذہب و ملت ملتا تھا اور مہینوں کے حساب سے اس کی تقسیم اس طرح ہوتی تھی: محرم اور ربیع الاول میں بارہ بارہ ہزار روپیہ، رجب میں دس ہزار روپیہ، شعبان میں پندرہ ہزار روپیہ، رمضان میں بیس ہزار روپیہ، باقی سات مہینے خالی رہتے تھے۔ عالمگیر نے حکم دیا کہ اس خیرات کے علاوہ باقی سات مہینوں میں دس دس ہزار روپیہ فی ماہ کے حساب سے خیرات دی جایا کرے۔ غرض سالانہ خیرات کی رقم جو اناسی ہزار تھی، اب ایک لاکھ انچاس ہزار تک کر دی گئی۔
“بادشاہ نامہ عالمگیری” نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ یہ خیرات سارے ہندوستان کے لیے تھی یا صرف کشمیر کے لیے، لیکن اس کا ذکر چونکہ کشمیر کے حالات میں ہے اس لیے خیال ہے کہ اس خیرات کا تعلق کشمیر ہی سے ہے۔
١٧؍ ذیقعدہ کو بادشاہ کی عمر کا سینتالیسواں سال شروع ہوا۔ جشن قمری میں کئی مستحقین کو انعام و اکرام ملے۔ اسی جگہ بادشاہ کو اپنے وزیر اعظم فاضل خاں کے متعلق جس کی عمر ستر سال کی تھی، اطلاع ملی کہ وہ یگانہ روزگار جامع العلوم ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ لاہور میں اُس نے اپنا مقبرہ بنوایا تھا، وہیں دفن ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ کو اس کے مرنے کا بہت سخت صدمہ ہوا۔ یہاں تک کہ عید الاضحیٰ کا دربار اور تمام مراسم ملتوی کر دیے گئے۔ فاضل خاں کا بھتیجا بادشاہ کے پاس آیا۔ اس کو تسلی و تشفی دینے کے بعد خلعت و منصب عطا کیا گیا۔
بادشاہ نے ڈل کی سیر کی۔ ڈل کے دونوں طرف چراغاں کیا گیا۔ عجب کیفیت تھی۔ یہاں سے ویری ناگ کے چشمہ پر گیا جہاں اس کے باپ (شاہجہاں) اور دادا (جہانگیر) نے دلنشیں اور خوبصورت عمارتیں تعمیر کرائی تھیں اور افسوس ہے آج جن میں سے بہت سی مٹ چکی ہیں اور بہت سی کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں۔ صرف چشمہ کے گرد جو چاروں طرف عمارت ہے وہ موجود ہے گو اس کی حالت بھی ابتر ہے۔ پان پور میں زعفران زار کو دیکھا لیکن کچھ رستے کی تکلیفات، آدمیوں اور جانوروں کے اتلاف، اور وزیر اور دیوان کی موت کی وجہ سے بادشاہ کا غنچۂ خاظر چمنستانِ کشمیر میں ناشگفتہ ہی رہا۔بلکہ فرمایا کہ ضروری امورات ملکی کے بغیر یہاں صرف سیر و شکار کے لیے بادشاہوں کا آنا رائے صائب کے خلاف ہے۔ آخر بادشاہ تین ماہ کے قیام کے بعد 7 صفر کو لاہور واپس چلا آیا۔
[1] ۔ اس سفر میں زین خاں کوکہ، شاہزادہ سلیم، شہزادہ سلطان راؤ، مرزا خان خاناں، حکیم ابو الفتح، جگن ناتھ، رام داس، ابو الفضل فیضی، سلطان خسرو، سلیم یعنی جہانگیر کا بیٹا، مرزا کیقباد خلف مرزا حکیم وغیرہ نامور امرائے دربار بادشاہ کے جلوس میں تھے۔
١۔ منزل کا لفظ یہاں ایک دن کے سفر کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ایک ایک مقام کے لیے خواہ وہ کتنے ہی وقت میں طے ہو۔
١۔ یہ حویلی 24 لاکھ کی لاگت سے بنی تھی۔ آصف خاں کے مرنے کے بعد دارا شکوہ کو ملی۔ سرائے میاں سلطان چاہ میاں سلطان، لنڈا بازار کا بہت سا حصہ اسی حویلی کے کھنڈرات پر آباد ہے۔
١۔ یہ مسجد افسوس ہے سالہا سال سے موجودہ حکومت کشمیر نے ضبط کر رکھی ہے۔