حرکات اردو میں سادہ طور پر تین ہیں۔ زبر، زیر اور پیش۔ انھیں بالترتیب فتحہ، کسرہ اور ضمہ بھی کہتے ہیں۔
ہر اردو خوان ان کی نوعیت اور فعل سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے اس لیے ان پر بحث کی ضرورت نہیں۔ سکنات البتہ عام طور پر لوگوں کے ذہن نشین نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ان پر ہم کسی قدر تفصیل سے بات کریں گے۔
پہلے تو یہ دیکھیے کہ ساکن وہ حرف ہے جس پر حرکت نہ ہو۔ یعنی جس حرف پر زیر، زبر یا پیش نہ ہو وہ لازماً ساکن ہو گا۔ جیسے دل میں ل، شوق میں و اور ق۔ دشت میں ش اور ت۔ ساکن کی جمع کو سکنات کہتے ہیں جیسے حرکت کی جمع کو حرکات کہا جاتا ہے۔
سکنات کی دو قسمیں ہیں۔ جزم اور وقف۔
جزم وہ ساکن ہے جو کسی حرکت کے فوراً بعد آئے۔ جیسے شب میں ب۔ رقص میں ق۔ نعت میں ع۔
وقف وہ ساکن ہے جس سے پہلے کم از کم ایک ساکن ضرور موجود ہو۔ زیادہ سے زیادہ تین بھی ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہماری زبانوں میں نہیں پائے جاتے۔ مثالیں دیکھیے۔
رقص میں ص۔ اس سے پہلے ق بھی ساکن ہے۔ لہٰذا اس پر جزم ہے اور ص پر وقف۔
دشت میں ت۔ پر وقف ہے کیونکہ ش پہلا ساکن ہے تو وہ جزم والا ہے۔
دوست میں و پر جزم ہے اور س اور ت دونوں وقف والے ہیں۔
جس حرف پر زبر ہو اسے مفتوح کہتے ہیں۔ جس پر زیر ہو اسے مکسور کہتے ہیں۔ جس پر پیش ہو اسے مضموم کہتے ہیں۔ جس پر جزم ہو اسے مجزوم کہتے ہیں۔ اور جس پر وقف ہو اسے موقوف کہا جاتا ہے۔
مختصراً ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلا ساکن مجزوم کہلاتا ہے۔ بعض اوقات اسے صرف ساکن بھی کہہ لیتے ہیں۔ لیکن دوسرے اور تیسرے ساکن کو ہمیشہ موقوف کہیں گے۔
آپ آگے چل کر دیکھیں گے کہ اگرچہ دونوں ساکن ہی کی قسمیں ہیں لیکن شعر کا وزن طے کرنے میں مجزوم اور موقوف حروف مختلف کردار ادا کرتے ہیں۔