زبان کے اصول اس کی تحریر نہیں بلکہ کلام کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔ زبان اصل میں ہے ہی کلام۔ تحریر تو محض اس کلام کو ظاہر کرنے کا طریقہ ہے۔ یہی اصول عروض میں بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ عمل کرتا ہے۔
گھ، پھ، چھ جیسے حروف پر غور کیجیے۔ یہ لکھے تو دو حروف کو ملا کر جاتے ہیں مگر ہم انھیں بولتے الگ الگ نہیں۔ یعنی گھ میں گ ھ کی ادائیگی الگ الگ نہیں ہوتی بلکہ اکٹھا گھ بولا جاتا ہے۔ لہٰذا گھ ایک حرف شمار ہو گا، دو نہیں۔
یہی قاعدہ نونِ غنہ کا ہے۔ اسے آپ لکھتے تو ہیں مگر بولنے میں وہ کوئی الگ آواز نہیں ہوتی بلکہ صرف اصل آواز کو ناک میں ادا کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً جا اور جاں کو دیکھیے۔ دونوں میں ایک ہی آواز نکل رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ "جاں” کو ہم ناک میں بولتے ہیں۔ اسی کو غنہ کہتے ہیں۔ ہم نے کوئی اضافی نون نہیں لگایا۔ ں کی علامت صرف اس لیے ہے کہ ناک میں بولنا ظاہر ہو جائے اور لوگ اس لفظ کو "جا” نہ سمجھ لیں۔
تشدید کا بھی یہی معاملہ ہے۔ آپ لکھتے ہیں شدت۔ اس میں صرف ایک د لکھی جاتی ہے۔ مگر جب آپ پولتے ہیں تو وہ یوں ہوتا ہے:
شِد دَت
یعنی دال پر زور دیتے ہیں۔ یہ دو دال کے برابر ہو جاتا ہے۔ لکھا ایک ہی جاتا ہے۔ مگر چونکہ ہم نے سمجھ لیا کہ زبان سے شاعری تک ہر جگہ اعتبار بولے ہوئے کا ہے اس لیے ہم شدت میں دو دال ہی شمار کریں گے، ایک نہیں۔
اسی طرح بالکل، فی الفور، خود اور خواہش جیسے الفاظ کا معاملہ ہے۔ انھیں بل کل، فل فور، خد اور خاہش بولا جاتا ہے۔ اس لیے ان کا وزن اسی طرح ماپا جائے گا نہ کہ ان حروف کی بنیاد پر جو ان میں خواہ مخواہ موجود ہیں۔
آخر میں یہ بات پھر یاد دلانی ضروری سمجھتا ہوں کہ گو زبان اور شاعری کا مدار بولے جانے پر ہے مگر ہر کسی کے بولنے پر بھی نہیں۔ یعنی اگر کوئی لفظ عوام غلط بولتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ بولا جاتا ہے اس کا وہ وزن یا اصول نہیں سمجھا جائے گا۔ اس کی بجائے اردو میں معیار ان شائستہ، پڑھے لکھے اور مہذب لوگوں کا لہجہ اور تلفظ ہے جو زبان و ادب سے ایک تعلق اور اس کے بارے میں حساسیت رکھتے ہوں۔ آپ یہ تلفظ عموماٖ اردو کی مستند لغتوں سے معلوم کر سکتے ہیں۔