ہم نے اپنے ابتدائی مراسلوں میں ذکر کیا تھا کہ زبان کی اصل کلام ہے۔ تحریر بعد میں ایجاد ہوتی ہے اور کبھی اصلیت اور فطرتیت کے اس درجے کو نہیں پہنچ پاتی جو کلام یعنی بول چال کا ہے۔ یہ معاملہ صرف پرانی زبانوں کا بھی نہیں۔ آئندہ بھی فطری زبانوں کے سلسلے میں ہم یہی توقع رکھتے ہیں کہ ایک نئی زبان اول اول نمودار ہونا شروع ہو گی تو اس کی عبارات و کلمات کو محفوظ کرنے کی غرض سے کوئی نہ کوئی رسم الخظ کام میں لایا جائے گا اورتحریر کی شکل وجود میں آئے گی۔
کلام چونکہ اصل ہے اور تحریر محض اس کی ایک نقل اس لیے تحریر کبھی بھی کلام کے درجے کو نہیں پہنچ سکتی۔ زبان کے طلبہ کو یہ نکتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کسی بھی کشمکش اور گومگو کی کیفیت میں فیصلے کے لیے تحریر سے اوپر اٹھ کر اہلِ زبان کے کلام پر نظر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اصول چونکہ فطری ہے اس لیے اردو ہی سے مخصوص نہیں۔ آپ کو دنیا کی تمام زبانوں میں اس کا اطلاق کسی نہ کسی صورت میں ضرور ہوتا ہوا نظر آئے گا۔
اردو جب ہندوستان کے کثیرثقافتی ماحول میں پروان چڑھ رہی تھی تو بولنے والوں نے لکھنے کی ضرورت پڑنے پر مسلمانوں کے سیاسی اور ثقافتی غلبے کے سبب عربی رسم الخظ سے کام لیا۔ حالانکہ دیوناگری رسم الخظ پہلے سے مقامی زبانوں کے لیے استعمال ہو رہا تھا اور وہ مقامی طور پر پیدا ہونے والی ایک زبان کے لیے حد درجہ موزوں بھی تھا۔ چنانچہ اردو کی جڑواں بہن ہندی اسی میں لکھی جاتی ہے۔ اب ہمارا رسم الخظ چونکہ عربی الاصل ہے اس لیے ہمارے لکھنے پڑھنے کے مسائل بھی ہندی والوں سے قدرے مختلف ہیں۔ وہ لفظ کو تحریر کرتے ہوئے بالکل ویسے لکھتے ہیں جیسے وہ بولا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ حالت نہیں۔ کسی لفظ کے حروف پورے بھی ہوں تو زیر زبر پیش کی عدم موجودگی میں لفظ کو ٹھیک ویسے ہی پڑھنا جیسے وہ اصل میں بولا جاتا ہے، کافی مشکل ہوتا ہے۔ایسی زبانیں دنیا میں کثرت سے پائی جاتی ہیں جن میں بول چال اور طرح کی ہے اور لکھنے کا ڈھنگ کم یا زیادہ مختلف ہے۔مثلاًعربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی وغیرہ۔
اب حروف کی دو قسمیں ہو گئیں۔ ایک تو وہ جو اصل میں بولنے والے بولتے ہیں۔ انھیں حروفِ ملفوظی کہتے ہیں۔ ملفوظی یعنی جو لفظ میں دراصل پائے جائیں۔ دوسرے وہ جو لکھتے ہوئے استعمال کیے جائیں۔ انھیں حروفِ مکتوبی کہا جاتا ہے۔ مکتوبی کا لفظ کتب سے نکلا ہے جس کے معنی لکھنے کے ہیں۔
اردو میں زیادہ تر حروف تو جیسے بولے جاتے ہیں ویسے ہیں لکھے بھی جاتے ہیں۔ یعنی حروفِ ملفوظی اور مکتوبی ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مثلاً
دل، پاکستان، سلیم، تماشا، پری، سلامت وغیرہ۔
مگر بعض لفظوں میں اردو اس اصول سے ذرا ہٹ جاتی ہے۔ مثلاً ذیل کے الفاظ دو طرح سے لکھے گئے ہیں۔ اول اس طرح جس طرح ہم انھیں لکھتے ہیں اور دوم اس طرح جیسے بولتے ہیں۔
شدت = شد + دت
آمادہ = اا + ما + دہ
بالکل = بل + کل
خواہش = خا + ہش
عبداللہ = عب + دل + لاہ
حتیٰ کہ = حت + تا + کہ
دیکھا آپ نے؟
شدت میں ہم نے ایک د لکھی مگر بولتے ہوئے دو بولتے ہیں۔ بالکل میں ہم الف نہیں بولتے مگر لکھتے ہیں۔ اسی طرح باقی الفاظ اور دوسرے بہت سے لفظوں کا معاملہ ہے۔
وہ حروف جو بولے جائیں مگر لکھے نہ جائیں حروفِ ملفوظی غیرمکتوبی کہلاتے ہیں۔ ملفوظی اس لیے کہ اصل لفظ میں بولے جا رہے ہیں۔ غیرمکتوبی اس لیے کہ لکھے نہیں جا رہے۔ جیسے شدت کی دال اور لیلیٰ کا الف۔
ان کے برعکس وہ حروف جو بولے تو نہ جائیں مگر لکھے جاتے ہوں حروفِ مکتوبی غیرملفوظی کہلاتے ہیں۔ مکتوبی اس لیے کہ لکھے جا رہے ہیں اور غیرملفوظی اس لیے کہ اصل میں بولے نہیں جاتے۔ مثلاً بالکل کا الف اور خواہش کا واؤ۔
اس قسم کی زیادہ تر بےقاعدگیاں اردو میں عربی اور فارسی سے آئی ہیں۔ عربی میں جہاں الف لام ہو اور درمیان آئے وہاں الف نہیں بولا جاتا۔ جیسے انالحق کو ہم انل حق بولتے ہیں۔ اسی طرح فارسی الفاظ کی واؤ جب خے کے بعد آتی ہے تو اکثر نہیں بولی جاتی۔ جیسے خواب، خواہش، خود وغیرہ کو ہم خاب، خاہش اور خد بولتے ہیں۔
تشدید کا معاملہ البتہ ہندی الفاظ کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ چکر، رتی، سچا وغیرہ الفاظ عربی یا فارسی نہیں بلکہ مقامی ہیں۔ مگر عربی رسم الخط ہونے کی وجہ سے جب ہم انھیں لکھتے ہیں تو چکر، رتی اور سچا کی بالترتیب دو دو کاف، تے اور چے میں سے ایک ایک اڑا دیتے ہیں اور صرف ایک ایک لکھتے ہیں۔ حالانکہ بولتے دو ہی ہیں۔ چک کر، رت تی، سچ چا!
عروض کے طلبہ کے لیے اس حوالے سے سبق یہ ہے کہ کسی لفظ کا وزن ہمیشہ اس طرح ماپا جائے گا جیسے وہ بولا جاتا ہے اور کبھی اس شکل کا اعتبار نہ کیا جائے گا جس میں وہ لکھا جاتا ہے۔ یعنی خود کا وزن بظاہر تین حرفی ہونے کے باوجود ہم اسے خد سمجھ کر دو حرفی لفظ کے طور پر کریں گے۔ اسی طرح لٹو کا وزن بظاہر تین حرفی ہونے کے باوجود لٹ ٹو کے برابر لے کر چہار حرفی لفظ کے طور پر کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ الفاظ اپنے درست تلفظ میں اسی طرح بولے جاتے ہیں اور یہی بولا جانا اصل ہے نہ کہ لکھا جانا۔
درست تلفظ کے لیے آپ کو پھر یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اہلِ زبان، اہلِ علم اور لغتوں سے مدد لینی چاہیے۔ عوام کی بول چال لاکھ رائج ہو کبھی معیار نہیں بن سکتی۔ بالکل اسی طرح جیسے عام لوگ جتنے بھی زیادہ ہو جائیں بادشاہ نہیں کہلا سکتے۔ بادشاہ بادشاہ ہی ہے اور اہلِ علم اہلِ علم ہی ہیں۔