خود ہی پوچھا خود ہی بولے کون ہے کوئی نہیں
دل دھڑک اٹھتا ہے آخر دل ہے اے کوئی نہیں
زندگی کے مرحلے ہیں منزلیں ہیں موت کی
طے ملاقاتیں ہیں لیکن وقت طے کوئی نہیں
کیا نکھر جاتا ہے منظر ایک ٹک رونے کے بعد
آنکھ والوں کے لیے غم جیسی شے کوئی نہیں
دل کو تھامے اس کی باتیں سن رہا ہوں ہائے ہائے
سر بکھرتے جا رہے ہیں اور لے کوئی نہیں
ساقیا دنیا میں حسن اور عشق دونوں ہیں مگر
مے کدے میں دینے والا بھر کے مے کوئی نہیں
کل تو کیکاؤس کے پیروں تلے روندی گئی
آج اسی مٹی تلے راحیلؔ کے کوئی نہیں