یہی آرزو رہی ہے کہ وہ شاعری سمجھتا
کبھی ان سنی نہ کرتا اگر ان کہی سمجھتا
نہ سمجھ کہ زندگی میں بڑی خوبصورتی ہے
اگر ایسی بات ہوتی تجھے زندگی سمجھتا
بڑے فلسفوں میں گم تھی غمِ عشق کی حقیقت
میں غزل سرا نہ ہوتا تو کوئی کوئی سمجھتا
ترے ہجر میں جو میں نے ترے ساتھ کی ہیں باتیں
کوئی ناشناس سنتا تو کچھ اور ہی سمجھتا
دلِ نکتہ رس نہ ہوتا تو قریب تھا کہ میں بھی
تری بے نیازیوں کو تری بے رخی سمجھتا
یہ زمانہ یہ نہ ہو گا نئی ہو گی یہ حکایت
یہ زمانہ یہ نہ ہوتا تو اسے نئی سمجھتا
ترے شہر میں وہ گزری کہ اگر کسی سے کہتا
وہ ستم ظریف مجھ کو کوئی اجنبی سمجھتا
متغزلِ تصوف وہی ایک میں ہوں راحیلؔ
کوئی غالبؔ آج ہوتا تو اسے ولی سمجھتا