دامن کا تار تار پھر آغوش ہو چکا
اے دوست کل کا دکھ تو فراموش ہو چکا
شب مدتِ مدید کو ہونے لگی محیط
دل عرصۂِ دراز سے خاموش ہو چکا
پوشاک حادثات کے ہاتھوں ادھڑ گئی
سایہ فلک کی آنکھ میں روپوش ہو چکا
اب رحم کھا کہ دل بڑی نازک سی چیز ہے
بس کر کہ امتحانِ تن و توش ہو چکا
جی جانتا ہوں آپ سراپا کلام ہیں
فرمائیے کہ میں ہمہ تن گوش ہو چکا
تہمت لبوں پہ آئے تو کیا چارہ ساقیا
ورنہ تو بال بال بلا نوش ہو چکا
یہ عقدہ ہائے عشق مبارک ہوں عشق کو
راحیلؔ کا دماغ تو کم کوش ہو چکا