یا رب یہ کس آسیبِ تمنا کا اثر ہے
دل ڈھونڈ رہا ہوں نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے
دیوانے کو کیا اس سے کہ اسود ہے کہ احمر
پتھر کو مبارک ہو کہ دیوانے کا سر ہے
دیکھیں گے حقیقت کو حیاتِ اَبَدی میں
فیالحال تو افسانۂِ دل پیشِ نظر ہے
آنکھوں سے نہ ٹپکے گا تو جھلکے گا غزل میں
آخر مری جاں خونِ جگر خونِ جگر ہے
جو یاد میں گزرے سو وہی پَل ہے زمانہ
جو آہ میں ڈھل جائے وہی سانس امَر ہے
کوچے میں کبھی جھانک تو معلوم ہو تجھ کو
کہتے ہیں کہ دنیا بھی فقط راہگزر ہے
مُلّا کے فرشتوں کو بھی کوثر کا نہیں علم
میخوار سے پوچھو جسے اندر کی خبر ہے
دھڑکن ہے جو سینے میں تو دھڑکا ہی اسے جان
راحیلؔ تجھے عشق نہیں عشق کا ڈر ہے