ہم مر گئے تو ایک بڑا کام ہو گیا
سنتے ہیں دل کا درد بہت عام ہو گیا
ایک اور شب بغیر تمھارے گزر گئی
ایک اور داستان کا انجام ہو گیا
خالی نہیں ہے کاسہ گدائے شراب کا
یہ جام وقفِ تلخئِ آلام ہو گیا
مخلوق ہو نہ کس لیے خارج کہ مولوی
لاٹھی سمیت داخلِ اسلام ہو گیا
کوئی تو بندگی بھی نہ بن دیکھے کر سکا
دھوکے میں حور کے ہی کوئی رام ہو گیا
اس علم سے بڑا بھی لطیفہ نہیں کوئی
پختہ ہوا تو اور بھی کچھ خام ہو گیا
وہ پل کہ نذرِ گردشِ ایام ہم ہوئے
وہ پل بھی نذرِ گردشِ ایام ہو گیا
راحیلؔ کو طمع ہو تو کیا شاعری سے ہو
صاحب کا عشق ہی میں بہت نام ہو گیا