یاد کرنے سے بھی ظالم کو نظر لگتی ہے
اور تہمت کسی مظلوم کے سر لگتی ہے
آبلے ہیں کہ نئے پاؤں ملے ہیں گویا
رہگزر ہے کہ ہمیں زادِ سفر لگتی ہے
ڈگمگایا نہ کرو دھیان سے چلنا سیکھو
تمھیں معلوم نہیں چوٹ کدھر لگتی ہے
دل میں جو آگ بھڑکتی ہے وہ جانے اور دل
دیکھنے میں تو شبِ غم کی سحر لگتی ہے
شہرِ جاناں میں خدارا کوئی معلوم کرو
کسی اخبار میں دل کی بھی خبر لگتی ہے
آپ اور چاہنے والوں پہ کرم فرمائیں
یہ قیامت مری آہوں کا اثر لگتی ہے
حال یہ ہے کہ کبھی گھر سے جو نکلوں راحیلؔ
دیکھی دیکھی سی کوئی راہگزر لگتی ہے