چار آنکھیں بہت بولتی رہ گئیں
لاکھ باتیں مگر ان کہی رہ گئیں
آپ کے پاؤں بھی لڑکھڑانے لگے
میری بانہیں بھی کچھ دور ہی رہ گئیں
میں نے پلکیں اٹھانے کی درخواست کی
اور پلکیں جھکی کی جھکی رہ گئیں
ان نگاہوں کو میں ڈھونڈتا رہ گیا
وہ نگاہیں مجھے سوچتی رہ گئیں
زندگی یاد ہی اب کسے رہ گئی
اب تو یادیں ہی اے زندگی رہ گئیں
جانے دل کس کی آمد سے مایوس تھا
جانے نظریں کسے ڈھونڈتی رہ گئیں
اس قدر دور کیوں تھا خداوند تو
میری آہیں پتا پوچھتی رہ گئیں
جب سے راحیلؔ نکلا ہے دل ہاتھ سے
وارداتیں تو بس نام کی رہ گئیں