ہوتا ہے جو بھی اپنی بلا سے ہوا کرے
کچھ غم نہیں خدا ترے غم کا بھلا کرے
ناآشنا کرے کہ ہوس آشنا کرے
وہ زندگی ہی کیا جو کسی سے وفا کرے
حالت خراب ہو تو مسیحا دوا کرے
نیت خراب ہو تو بھلا کوئی کیا کرے
عہدِ شبِ الست کا وہ بھی شریک تھا
اپنی سی ہم تو کر گئے آگے خدا کرے
ہم تم تو ایک جان ہیں دو قالبوں میں دوست
ترکِ وفا کرے تو کوئی دوسرا کرے
ہڈی بنا ہوا ہے تقدس کباب میں
مسجد میں خاک عرض کوئی مدعا کرے
فتنہ اگر ہے عشق تو آفت ہے حسن بھی
اس سے کہو کہ اپنے لیے بھی دعا کرے
دوزخ کا خوف تو نے دلایا تو کیا کیا
ملا کا بس چلے تو کچھ اس سے سوا کرے
راحیلؔ عاشقی بھی حسینوں کا کام ہے
وہ ابتدا کریں نہ کوئی انتہا کرے