جسم فرصت کے لمحوں کی تخلیق تھا، روح چالاک ڈالی گئی ہو تو ہو
وہ بتِ آتشیں سرد تھا ہی نہیں، مشت بھر خاک ڈالی گئی ہو تو ہو
تاج ور اور گدا آمنے سامنے، کر دیے تھے کسی بزمِ ہنگام نے
آج تاریخِ اسلاف کھنگال کر، چشم اِدراک ڈالی گئی ہو تو ہو
شورِ سیلاب میں، سرخئِ جام میں، ماہِ بیتاب میں، ہیبتِ شام میں
میرے آگے دھرے جام میں، آج نابِ خطرناک ڈالی گئی ہو تو ہو
دم نکل ہی گیا، سرِ باغِ محن، بجلیاں آسماں سے گریں دفعتاََ
چونکہ تھا بے کفن، لاشۂِ سیم تن، چادرِ خاک ڈالی گئی ہو تو ہو
شوقتِ قامت و قد میں تھا، جسم تکفیر کی زد میں تھا، اور دل رَد میں تھا
بتِ شہزادؔ منشائے اِیزد میں تھا، خاک پر خاک ڈالی گئی ہو تو ہو