ادب کلام کی پاکیزہ شکل ہے اور کلاسیک ادب کی پاکیزہ شکل ہے۔
مگر یہ پاکیزگی کیا ہے؟ ہر شخص کے ہاں اس کے اپنے پیمانے ہو سکتے ہیں۔ اور ہیں۔ تاہم جو معیار ہم نے منتخب کیا ہے وہ ہمارا نہیں اگرچہ ہمارے دل کے بہت قریب ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
اَلَمْ تَـرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُـهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِى السَّمَآءِ تُؤْتِـىٓ اُكُلَـهَا كُلَّ حِيْنٍ بِاِذْنِ رَبِّـهَا ۗ وَيَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُـمْ يَتَذَكَّرُوْنَ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ ِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَـهَا مِنْ قَرَارٍ
(سورۂ ابراہیم – آیات ۲۴-۲۶)
کیا تو نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے پاکیزہ بات کی کیسی مثال دی، گویا ایک پاک درخت ہے کہ جس کی جڑ قائم اور اس کی شاخ آسمان میں ہے۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل لاتا ہے اور اللہ لوگوں کے واسطے مثالیں دیتا ہے کہ شاید وہ سمجھیں۔ اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا گیا، اسے ٹھہراؤ نہیں۔
سبحان اللہ۔ بشر کی مجال نہیں کہ اس سے بڑی بات کہہ اور سمجھ سکے۔
یارانِ نکتہ داں کے لیے صلائے عام ہے کہ کلام کی اس کسوٹی پر غور کریں۔ پروردگارِ کن فیکوں نے بھید کھولا ہے۔ اس نے پاکیزہ کلام کو ایک درخت کی مثل قرار دیا ہے اور اس کے تین خصائص گنوائے ہیں۔
اول یہ کہ اس کی جڑ قائم ہے۔ کلامِ مقدس کی عبارت میں اس کے لیے لفظ ثابت آیا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ ثابت کی ضد سیار ہے۔ سیار بہت سیر کرنے والے کو کہتے ہیں۔ سیارہ کا لفظ مشہور ہے۔ اسے سیارہ اس لیے کہتے ہیں کہ مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔ آوارہ ہے۔ سکون اور قرار سے ناآشنا ہے۔ اسے ٹھہراؤ نہیں۔ ثابت اس کے برعکس ہے۔ مگر اردو میں اس مفہوم کے لیے ثابت کی بجائے قائم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کھڑا ہوا۔ جما ہوا۔ ڈٹا ہوا۔ مستحکم۔ برقرار۔ مستقل۔
تو پہلی شرط پاکیزہ کلام کی یہ ہے کہ وہ ثابت یا قائم ہو۔ ناپاک درخت کی مثل نہ ہو کہ کہ جڑ زمین میں اترنے نہ پائی اور اکھیڑ لیا گیا۔ اب ٹھکرایا اور روندا جاتا ہے۔ در بدر گھسٹتا اور رلتا پھرتا ہے۔ نہیں، یوں نہیں۔ پاکیزہ بات کی جڑ مضبوط اور گہری ہے۔ وقت کی آندھیاں اسے ہلا نہیں سکتیں اور زمانے کے شیاطین اسے اکھیڑ نہیں سکتے۔ وہ وہیں ہے جہاں تھی اور وہیں رہے گی جہاں ہے۔
تعبیر اس کی یہ ہے کہ پاکیزہ کلام زمان و مکان سے ماورا ہے۔ یوں نہیں کہ وقت نے کروٹ لی اور اس کی عمارت منہدم ہو گئی۔ بلکہ وہ قائم ہے۔ ہزاروں برس پہلے جو بات کہہ دی گئی آج بھی اس کا وہی اثر ہے، وہی شان ہے اور وہی حقانیت ہے۔ یونان میں کہی گئی اور ہندوستان میں سنی گئی تو یوں نہیں جیسے کوئی پھل دساور کی منڈی سے گھر پہنچتے پہنچتے سڑ گیا ہو۔ بلکہ یوں کہ گویا ہندوستانیوں کے گھر کا میوہ ہے۔
سکہ بند ناقدین کے ہاں ایک کچا پکا تصور اس اصول کا پایا جاتا ہے۔ وہ اسے آفاقیت کہتے ہیں۔ لیکن اہلِ بصیرت پر روشن ہے کہ قرآنِ مجید کے بیان میں اور آفاقیت کے روکھے پھیکے تصور میں جیتے اور مردے کا سا فرق ہے۔
دوسری نشانی ہمارے علیم و خبیر پروردگار نے یہ بیان فرمائی کہ ناپاک درخت کے برخلاف جس کی ٹہنی کے نمو پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پاکیزہ بات وہ درخت ہے جس کی شاخ آسمان میں ہے۔ گویا ایک طرف جڑ ہے کہ زمین میں یوں اتر گئی ہے کہ پیڑ پہاڑ کی طرح ڈٹ گیا ہے۔ دوسری طرف رفعتوں کا یہ عالم ہے کہ شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ سبحان اللہ۔ اس ذات سے بہتر مثال کون دے سکتا ہے؟
مراد یہ ہے کہ پاک کلام محض عالمگیر حقائق کو بیان نہیں کرتا بلکہ ان میں بھی بڑے بلند پایہ اور رفیع الشان نکات پر مشتمل ہوتا ہے۔ مثلاً دیکھیے کہ انسان ایک دوپایہ ہے جو عقل رکھتا ہے اور کلام کرتا ہے۔ تاریخ میں خدا جانے کتنی بار یہ بات بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر دہرائی گئی ہو گی۔ لیکن ایک ناقابلِ تردید سچائی اور آفاقی حقیقت ہونے کے باوجود اس میں وہ رفعت اور علو ہرگز نہیں پایا جاتا جو اسے کسی بلند پایہ عبارت کے مقابل لا کھڑا کرے۔ اس کے برعکس یہ شعر دیکھیے:
ہم نے ایسے اجاڑ دی جیسے
زندگی باپ کی کمائی ہو
دل والوں کے لیے اس سے آگے کچھ کہنا بیکار ہے۔ البتہ جن کی طبیعتیں ابھی جمال کی لطافتوں سے کماحقہٰ آشنا نہیں ہوئیں انھیں غور کرنا چاہیے کہ کس طرح دو مختصر مصرعوں میں وہ حق بیان کیا گیا ہے جو نہ صرف انسانیت کا آفاقی احساس ہے بلکہ اس میں وہ عظمت بھی بدرجۂ اتم موجود ہے جو کرۂ ارض پر رینگتی ہوئی آدمیت کے لیے نوائے سروش کا حکم رکھتی ہے۔ جیسے کسی نے انسانوں سے اوپر اٹھ کر آسمان کی کھڑکی سے ان پر نگاہ ڈالی ہو اور اپنے تاثر کی حیرانیوں کو بےساختہ زبان دے دی ہو۔ کون ہے جسے کبھی نہ کبھی یہ احساس شدت سے دامن گیر نہ ہوا ہو کہ اس نے اپنی زندگی ضائع کر دی؟ اور ضیاع کی اس سے بہتر مثال کیا ہو سکتی ہے کہ زندگی جیسی متاعِ گراں مایہ کو باپ کی کمائی سمجھ بیٹھے؟ سبحان اللہ!
اب دیکھیے تیسری خصوصیت۔ کہا ہے کہ پاکیزہ کلام کا پیڑ اپنے رب کے حکم سے پھل لاتا ہے۔ اکھڑی ہوئی ناپاک جھاڑی کی یہ اوقات نہیں کہ ثمر بار ہو سکے چاہے ٹھوکریں کھاتی ہوئی کسی مرغزار ہی میں کیوں نہ جا پڑے۔ یہ شان صرف گہری جڑ اور اونچی شاخوں والے پاکیزہ اور قائم درخت کی ہے کہ وہ برگ و بار سے لد جاتا ہے اور خدا کی مخلوق اس سے بہرہ یاب ہوتی ہے۔
گویا پاک باتیں فائدہ رکھتی ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے۔ ہمارے زمانے میں سائنسی طریقِ کار کا بول بالا ہے جس کی اساس معروضیت پر ہے۔ معروضیت عملی طور پر اسے کہتے ہیں کہ حسن و قبح، خیر و شر، نفع و ضرر وغیرہ ہر شے سے بےنیاز ہو کر حقیقت کی کنہ تک پہنچا جائے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ انسان کا مرتبہ نہیں کہ حقیقت کو حقیقت کی خاطر تلاش کرے۔ انسان ایک حقیر، مجبور اور محتاج مخلوق ہے۔ کھانے پینے اور بول و براز کے حوائج سے لے کر آڑ اور چھاؤں کی ضروریات تک حیوانی سطح کی زندگی بسر کرتا ہے۔ پھر جذباتی، فکری، اخلاقی اور روحانی وجود کے تقاضے ہیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے خود کو یہ جل دینا کہ ہم حقیقت کو اپنی محتاجیوں اور تعصبات سے بالاتر ہو کر دیکھ سکتے ہیں ایسا ہی ہے جیسے کوئی خانماں برباد افیمچی دعویٰ کرے کہ وہ نشہ خریدنے کے لیے نہیں بلکہ معاشی تحقیق کی خاطر بھیک مانگتا ہے۔
ہمارے پرودگار نے اس قسم کے معروضی حقائق کے بیان کو تیسری شرط لگا کر پاکیزگئِ کلام کے دائرے سے خارج کر دیا ہے۔ پس سائنسی، فلسفیانہ اور آج کل کے معیار کے مطابق تحقیقی مقالات پاک باتوں کے درجے کو نہیں پہنچنے کے جب تک وہ معروضیت کے زعمِ باطل سے چھٹکارا نہ پائیں اور انسان کی سرشت میں گندھے ہوئے جلبِ منفعت کے رجحان کا اعتراف نہ کریں۔ ان کے علی الرغم پاکیزہ کلام ہمیشہ انسان کے لیے فکری، جذباتی، اخلاقی اور روحانی لحاظ سے پھل لانے ولا ہوتا ہے۔ گویا ایک روحانی دستر خوان ہے جس کے بچھانے والے نے خبطِ عظمت کا شکار ہو کر اپنے مہمانوں کی بھوک کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ بڑی مستعدی سے گوناگوں لذائذ اور قویٰ کا لافانی سامان ان کے لیے فراہم کر دیا ہے۔
خلاصہ بیان کیا جائے تو پاکیزگئ کلام تین چیزوں پر منحصر ہے۔ اول یہ کہ بات قائم ہو۔ دوم یہ کہ بلند ہو۔ سوم یہ کہ مفید ہو۔ ان تینوں اصولوں کی معراج پر کلامِ باری تعالیٰ متمکن ہے اور انسانِ ضعیف البنیان کی اوقات نہیں کہ اس کی بات اس منتہائے کمال کو پہنچے۔ اس کے بعد کا درجہ ادبِ عالیہ یعنی کلاسیک کا ہے۔ یہ انسان کا کلام ہے اور ان معیارات کے قریب ترین ہے جن کی تشکیل و تجسیم کلامِ باری تعالیٰ نے کی ہے۔ گویا آدمی کی باتوں میں پاکیزہ ترین بات کلاسیکی ادب ہے۔ تیسرے درجے پر عام ادب ہے جس کا مرتبہ کلاسیک سے اتنا ہی کم ہے جتنا وہ ان معیارات سے دور پڑے۔ یہی قیاس دیگر فنونِ لطیفہ پر کر کے ان کے فن پاروں کے مراتب بھی متعین کیے جا سکتے ہیں۔ حاصل یہ کہ کلام جب پاکیزگی کے اصولِ سہ گانہ کا کسی قدر پابند ہو جائے تو ادب تخلیق ہوتا ہے۔ اور ادب جب اپنی معراج پر پہنچتا ہے تو کلاسیک ہو جاتا ہے۔ کلامِ انسانی کا اس سے آگے کوئی درجہ نہیں۔
آخر میں ایک مغالطے پر نظر کر لینی بھی مناسب معلوم ہوتی ہے جس نے کلاسیک کو خواہ مخواہ ماضی سے متعلق بلکہ منسلک کر دیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کلاسیکی فن پارے ضرور بالضرور وہی ہونے چاہئیں جو اگلوں نے پیش کیے ہیں۔ معاصرین کا کام کلاسیک کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ اس بات میں ایک پہلو سے صداقت بھی پائی جاتی ہے مگر دراصل معاملہ یہ نہیں ہے۔
ہے یوں کہ ماضی کے جو فن پارے آج بھی لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ان کی نسبت تو خود ان کا وجود گواہ ہے کہ زمانہ ان کی حقانیت اور تاثیر کو مٹانے میں بالکل ناکام رہا ہے۔ ورنہ ماضی کے مزاروں سے کتنی ٹھیکریاں روز نکلتی ہیں اور دوبارہ ٹھوکریں کھاتی ہوئی وقت کی گرد میں دفن ہو جاتی ہیں۔ کم چیزیں ہیں کہ پرانی ہونے کے باوجود نئی معلوم ہوتی ہیں اور بارہا ملاحظہ کر چکنے پر بھی ان کا سحر نہیں ٹوٹتا۔ یہ بدیہی طور پر کلاسیک ہیں۔ زمانہ خود بدل گیا مگر انھیں نہیں بدل سکا۔ یہ قائم بھی ہیں، بلند بھی ہیں اور مفید بھی ہیں۔ ورنہ اپنے ساتھ کی ان گنت دوسری چیزوں کی طرح کب کی خاک نہ ہو گئی ہوتیں؟ ان کی جڑ اکھڑ گئی ہوتی۔ ان کی بلندیاں زمین بوس ہو جاتیں۔ اور ان کے میوے ہم تک پہنچنے سے پہلے کیڑوں کا رزق ہو گئے ہوتے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کلاسیک اس کے سوا کچھ نہیں۔
اب ماضی کے کلاسیک کا فیصلہ تو زمانے نے کر دیا۔ حال کے شہ پاروں کا فیصلہ کون کرے گا؟ ہمارا خیال ہے کہ یہ حکم بھی زمانہ ہی لگائے گا۔ ماضی بھی کبھی حال تھا۔ اور حال بھی جلد ماضی ہونے والا ہے۔ ہمارے زمانے کی جو تخلیقات نئے زمانوں میں معنیٰ رکھیں گی وہی کلاسیک ہوں گی۔ لہٰذا ماضی کی طرح حال کے کلاسیک کا حتمی فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔ تاہم قرانِ مجید کے ٹھہرائے ہوئے اصولِ سہ گانہ کی کسوٹی پر پرکھ کر اور ماضی کے کلاسیک سے رہنمائی پا کر کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور کر سکتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے ادب میں ادبِ عالیہ کیا ہے اور کیا نہیں۔ مثل ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ جو کل کلاسیک کہلانے والا ہے اہلِ نظر اس کے تیور آج بھی بھانپ سکتے ہیں اگر اہلِ نظر ہوں۔