وطن کے حال کی تصویر کھینچ کر رکھ دی
یہ کس شریر نے پگڑی گدھے کے سر رکھ دی
درست بات کا انعام چونکہ لازم تھا
زبان کھینچ کے گُدّی سے ہاتھ پر رکھ دی
تری قسم ہے کہ تو نے خطا کے پتلے میں
غضب کیا ہے کہ توفیقِ خیر و شر رکھ دی
زر و زمین کی قسمت میں دل نہیں لکھا
بشر کے دل میں تمنائے کر و فر رکھ دی
خدا کے ہاتھ میں ہیں فیصلے شرافت کے
گری جو پاؤں میں دستار ہم نے گھر رکھ دی
محبتوں میں غلط فیصلے تو ہوتے ہیں
وفا کی شرط بھی رکھی تو عمر بھر رکھ دی
یہ سجدہ گاہ تھی یا قتل گاہ تھی راحیلؔ
جو گردن آپ نے کہنے سے پیش تر رکھ دی