ایک قاتل ہے کہ اس دل پہ نظر رکھتا ہے
ایک یہ دل ہے کہ قاتل پہ نظر رکھتا ہے
خواب ساحل کے اسے دیکھتے پایا ہم نے
ناخدا کہتے تھے ساحل پہ نظر رکھتا ہے
وقت کی چال فقط چال نہیں ہے غافل
چلنے والا کسی منزل پہ نظر رکھتا ہے
ہو خبردار تو خود سے ہے خبردار بشر
خود سے غافل ہو تو غافل پہ نظر رکھتا ہے
دیکھنا چاہتی ہے روح کو عقل آنکھوں سے
عشق ویرانے سے محفل پہ نظر رکھتا ہے
لوگ پاگل ہوں تو اونٹوں سے لگاتے ہیں دوڑ
قیس مجنوں ہو تو محمل پہ نظر رکھتا ہے
فلسفے کی یونہی اندھیر نہیں ہے دنیا
آنکھ رکھتا ہے مگر تل پہ نظر رکھتا ہے
حق کبھی گھات میں بیٹھا نہیں دیکھا راحیلؔ
وہ بھی باطل ہے جو باطل پہ نظر رکھتا ہے