عشق اگر بار بار ہو جائے
حسن پروردگار ہو جائے
اے خدا تھوڑی آدمیت کھینچ
آدمی شاہکار ہو جائے
گل کا احسان ہے جو ہے ورنہ
خار گلشن میں خوار ہو جائے
موت کیا چیز ہے بتاؤں تمھیں
زندگی خود پہ بار ہو جائے
میں تجھے مڑ کے دیکھتا ہوں دوست
سامنے سے بھی وار ہو جائے
آج نشتر کو چھوڑ چارہ گر
ایک تیر اور پار ہو جائے
بے وفائی تو چھپ نہیں سکتی
بے وفا پردہ دار ہو جائے
بحث ہے اور اس آدمی سے ہے
جیت جاؤں تو ہار ہو جائے
اس کو کہتے ہیں دشمنی دل کی
دل کو دشمن سے پیار ہو جائے
اس کا راحیلؔ کوئی یار نہیں
جس کا وہ شخص یار ہو جائے