کئی گزرے ہیں دل و جاں سے گزرنے والے
آپ پہلے نہیں راحیلؔ پہ مرنے والے
آئنہ دیکھ کے نک سک سے سنورنے والے
حسن کے اور بھی کچھ کام تھے کرنے والے
شرم سے ڈوب نہیں مرتے مکرنے والے
کہ خدا سے نہ ڈرے خلق سے ڈرنے والے
نئی دنیا کو پرانا ہی لگا ہے دھوکا
کارواں پہلے بھی آئے تھے ٹھہرنے والے
آدمی ہو کے کبھی منکشف آنکھوں پہ بھی ہو
اے خدا بن کے مرے دل میں اترنے والے
تیرے کوچے کو مبارک ہوں ہمارے دشمن
ہم تو تہمت بھی کسی پر نہیں دھرنے والے
کیسے کیسے انھی ذروں سے ستارے ابھرے
بن گئے ٹوٹ کے کیا لوگ بکھرنے والے
جنھیں کہتے ہیں شرر عشق کے ہم شاعر لوگ
وہ ستارے ہیں تری مانگ میں بھرنے والے
ان کا دل رکھنے کو راحیلؔ کہاں سے دل لائیں
ہائے وہ اور بھی رو رو کے نکھرنے والے