کعبہ نہیں تو کیا ہے بت خانہ ہے تو کیا ہے
کوئی اگر کسی کا دیوانہ ہے تو کیا ہے
افسانے بھی تو آخر دنیا میں چل رہے ہیں
دنیا کسی کے نزدیک افسانہ ہے تو کیا ہے
عرشِ بریں بھی دل کو کہتے ہیں کہنے والے
کمبخت کا مزاج اب رندانہ ہے تو کیا ہے
انسان کو فقط ہم انسان جانتے ہیں
دیوانہ ہے تو کیا ہے فرزانہ ہے تو کیا ہے
ہم نے تو خیر مانگی زاہد کی بھی ہمیشہ
بیچارہ آدمی ہے بیگانہ ہے تو کیا ہے
اس نے کسی کو روکا اس نے کسی کو ٹوکا
ساقی کے ظرف سے کم پیمانہ ہے تو کیا ہے
مذہب نہیں ہے آخر افسانۂ محبت
تجدید کی ضرورت روزانہ ہے تو کیا ہے
یہ رند یہ شرابی اے تمکنت مآبی
عاشق بھی ہے تمھارا مستانہ ہے تو کیا ہے
دیکھی گئی ہے اکثر اس رنگ میں فقیری
راحیلؔ کی طبیعت شاہانہ ہے تو کیا ہے