دوست ہو کر دوستی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
حسن والے آدمی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
کیا کہوں جب ان کہی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
آنکھ کی گویا نمی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
بندہ پرور بندگی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
جو سمجھتا ہے اسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
عاشقوں کی عاشقی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
کچھ کو چھوڑو وہ کئی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
آپ کی دانش وری کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
بلکہ وہ تو آپ ہی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
لیجیے اب پھر سے کہتے ہیں کہ سمجھاؤ ہمیں
سمجھی سمجھائی ہوئی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
کیا کہیں گے آپ سے ہم اور کہیں بھی کچھ تو آپ
کیا سنیں گے جب کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
ہم کھڑے اس در پہ اب تک سوچتے ہیں کیا ہے یہ
بیٹھنے والے گلی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
بس چلے تو جان بھی اس سادگی پر وار دوں
سادگی میں سادگی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
مت ہی ماری عشق نے باقی تو ہم کو خیر ہے
اچھی خاصی زندگی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
جانتے ہیں عزت و ذلت خدا کے ہاتھ میں
شیخ جی بے عزتی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
جانے مانے شاعروں کو ہم سے یہ شکوہ رہا
قافیوں کی ڈگڈگی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں
داد دینے کو وہی راحیلؔ دنیا رہ گئی
جن پہ کی وہ شاعری کو کچھ سمجھتے ہی نہیں