شگوفۂ محبت
(فسانۂ عجائب کا حصۂ دوم)
﷽
حمدِ پروردگار بحر ذخّار دریائے ناپیدا کنار ہے، بڑے بڑے پیرا کوں نے اس میں غوّاصی کی، اپنے اپنے ظرف کے موافق بھر لیا، سر پر دھر لیا، نہ کسی کو تھاہ ملی نہ کنارا نظر آیا؛ زیادہ بڑھے تو غوطہ کھایا، جَلّ جلالُہ۔ بال سے باریک یہ راہ ہے، خیٖرہ اس میں دور بینوں کی نگاہ ہے۔ مولوی معنوی
در بہاران زاد و مرگش دردی ست
پشّہ کے داند کہ این باغ از کی ست
لڑکپن میں تمیز نہیں ہوتی، جوانی دیوانی مشہور ہے، موسم شباب میں لہو و لعب کے سوا کوئی شے عزیز نہیں ہوتی۔ صائب
گہ بہ پای خم افتم، گہ سبو زنم بر سنگ
ساقیا مرنج از من عالم جوانیھاست
القصہ ان خرابیوں سے بچ گئے، سواری کی تیاری ہوئی، کوچ کی غل مچ گئی، نشہ اترے، مُسن ہوئے، بڑھاپے کے دن ہوئے، سمجھنے بوجھنے کا جب موقع آیا تو اُدھر ضعف نے جھکایا اِدھر قضا نے گور کے گڑھے کو جھکایا۔ وہ قادر و توانا ہے، علیم و دانا ہے جس نے دو حرف سنا کے ایک عالم کا جلوہ دکھایا، اُس میں بشر ہے جس کی طبیعت کا میلان بہ شر ہے، یہ بہت پسند آیا۔ اسی میں نبی ہوئے، ولی ہوئے، شاہ و گدا ہوئے؛ بغور دیکھیے تو کیا تھے اور کیا ہوئے۔ کبھی رات ہوتی ہے کبھی دن ہے اسی کے امکان میں ناممکن ہے۔ ہر قطرہ اس بحر کا محیط ہے دریا ہے، ہر ذرہ اس صحرا کا بسیط ہے، دیکھنے کا تماشا ہے۔ اس گلشن خزاں مآل میں وہی خار ہے جو اٹکا سب کی آنکھ میں کھٹکا۔ کُمیت فکر بصد جولانی گشت سے رہ گیا، تازیانے کی چوٹ سہ گیا۔ اسکندری کھائی بھٹکا پھر کوئی پاس نہ پھٹکا۔ مگر اس کائنات بے ثبات کے معاملوں سے سر رشتۂ محبت سلسلۂ اتحاد اگرچہ وہ بھی بے بنیاد ہے اس پر سب کو پسند آیا ہے۔ پاکبازوں نے لطف اٹھایا ہے۔ رم خوردہ اس میں رام ہوئے ہیں، اسی دام میں گرفتار دد و دام مدام ہوئے ہیں۔ جب دوئی کو دور کیا یک رنگی نے ظہور کیا۔ سُنا ہوگا لیلیٰ کے ہاتھ پر گذر نشتر ہوا مجنوں کا تمام جسم لہو سے تر ہوا، ایک کا دل خون ہوا تو دوسرے کی خانہ خرابی ہو گئی، جنون ہوا۔ آخر کار لیلیٰ کی حالت جب ہو جاتی ہے وہ کیفیت بہر کیف تحریر تقریر میں نہیں آتی ہے۔ ہم سے کور باطنوں کی نظر میں دید کی طاقت کہاں، حقیقت حال دریافت کرنے کی لیاقت کہاں، ورنہ ہر برگ گل تر ہزار بلبل کے خون کا محضر ہے، نغمہ سنجان گلشن ایجاد کے بولنے کا کچھ اور ہی گھر ہے۔ سرو کی دار پر لاکھ قمری کے قتل کا مدار ہے، فاختہ کی کو کو گواہِ تارا جیِ صبر و قرار ہے۔ تلوّن پر اس کارگاہِ بے بنیاد کی رونق ہے، مستعار سب نقش و نگار ہے، عبرت الناظرین کو کافی تفرقۂ لیل و نہار ہے۔ یہ حیرت نگر جو طلسم خانہ ہے، ہوشیار یہاں دیوانہ ہے۔ بے سقف و جدار ہے، دیوار ہے نہ در ہے، پھنسے ہوئے کہتے ہیں گھر ہے، اُجڑے ہوئے بستے ہیں، رونے کو ہنستے ہیں۔ کون و فسا میں نئی طرح کا یہ مخمصہ پڑا ہے کہ شاہ کے محل سے ملا ہوا چور کا جھوپڑا ہے۔ ہر نفس دونوں کو کھٹکا رہتا ہے، دغدغہ اٹکا رہتا ہے، کوئی بگڑتا ہے کوئی بنتا ہے، کوئی اینٹھ جاتا ہے کوئی تنتاہے۔ اگر منتظم اس کا غفلت پر مدار نہ رکھتا تو اس کارخانے میں سودائی بھی قدم زینہار نہ رکھتا۔ ہوشیار یہاں پھونک پھونک کے قدم رکھتے ہیں، جھلاتے ہیں ٹھوکر کا مزا جب چکھتے ہیں۔ اور وہ جو مست صنم پرست ہیں بخدا جس دم بے دغدغہ باگ اٹھاتے ہیں منزل مقصد پر پہنچ جاتے ہیں۔ جائے دم زدن نہیں خموشی درکار ہے۔ منصور تو لڑائی فتح کر گیا۔ اب تک اس دار ناپائدار میں ہزارہا دار ہے۔ عجز میں نباہ ہوتا ہے، غرور میں تباہ ہوتا ہے۔ سر رشتہ عقل کوتاہ ہے، یہ آیہ گواہ ہے فَبِــأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَــذِّبَانِ۔
نعت سرورِ کائنات ہے چھوٹا منہ بڑی بات ہے
وہ گروہ بہت خوش نصیب ہے جن کا حامی اور شفاعت کنندہ خدا کا حبیب ہے۔ خلقت میں اولین اور خاتم المرسلین، اس کی ذات اور صفات کی کنہ یا حقیقت کون پائے جس کا سایہ تک نظر نہ آئے۔ تقرب میں اُس درجہ پر چڑھ گیا کہ قاب قوسین سے مرتبہ بڑھ گیا۔ جس طرح پروردگار لاشریک ہے، اسی طور پر یہ پیمبر دوربینوں کے نزدیک ہے۔ نبی اور اس کی آل اور اصحاب پر شب و روز درود پڑھے، بکھیڑے میں نہ پڑے، آگے نہ بڑھے۔
صفت بادشاہِ خجستہ خصال، پری پیکر، ماہ رو، والیِ لکھنؤ، رشکِ فریدون، غیرتِ جم سلطانِ عالم خلّد اللہ ملکہ
اور تاج سلطانی اریکۂ جہانبانی نے اُس کے سر و پا سے زیب و زینت پائی ہے جس کے خاندان میں نسلاً بعد نسل فرمانروائی چلی آئی ہے۔ ہر چند کہ موسم شباب ہے، نور کی صورت نہایت آب و تاب ہے، زور شور پر عالم جوانی ہے، نقاش قدرت کے ہاتھ کا نقشہ انتخاب ہے۔ اس پر جتنی خصلتیں فرمانروایان خجستہ خصال کی ماضی و حال کی ہیں سب میں لاثانی ہے، ہمت و جرأت میں یکتا ہے، جود و سخا میں حاتم سے بڑھ گیا ہے، عدل و داد میں یادگار نوشیروان ہے۔ اس چمک دمک کی سلطنت زیر آسمان بروئے زمین دوسری کہاں ہے۔ رفقا کو جاہ و حشمت سے نہال کیا، غریب و غربا کو مال اور دولت سے مالا مال کیا۔ شب شبِ برات، ہر دم عیش و نشاط میں بسر ہوتی ہے۔ روز نو روز، ہر صبح عید کی سحر ہوتی ہے۔ مکانات ایسے بنوائے کہ سمّار کی عقل میں نہ آئے۔ ہر قطعہ فردوس بریں کا نمونہ ہے اور قیصر باغ تو حسن و لطافت میں گلزارِ ارم سے دونا ہے۔ جس چیز کا خیال آیا اسے انتہا کو پہنچایا۔ طبع والا میں نہایت جودت ہے، جو شے ہے اللہ کی قدرت ہے۔ ایسا کرم کارساز اور عنایت بے نیاز ہے کہ اولو العزمی کا سب سامان و ساز ہے۔ وزیر بے نظیر خود سلیمان زمان دہ آصفِ دوران باہم قضیہ لازم و ملزوم ہے، یہ نکتہ سب کو معلوم ہے۔ دیوان ہوشیار وابستۂ فرمان، سر دفتر خیر خواہان کائنات میں فرد ہے۔ دہرم مورت نیک سیرت خوبصورت جوانمرد ہے۔ حساب کیجیے تو سابقین کی نشانی باقی ہے، اس فن میں بڑی مشّاقی ہے۔ فیض کی ندی اس کے دم سے بہی ہے۔ رشوت کھاتا نہیں، بڑی بڑی جفا سہی ہے۔ سپاہی وضع ہر چند نہیں لیکن جان نثاری پر بند نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ملازموں میں ایک سے ایک بہتر ہے، یادگارِ روزگار ہے۔ اگر سب کی شرح کروں طول ہو؛ منظور اختصار ہے، جب تک گردش لیل و نہار ہے جلسہ برقرار رہے۔
سبب تالیف اس قصے لاثانی کی، لکھنے کی وجہ اس کہانی کی
متوقع عنایت، امیدوار رحمت رب غفور مرزا رجب علی تخلص سرورؔ ناظرین پر تمکین سامعانِ باریک بین کی خدمت میں عرض پیرا ہے کہ نامساعدت بخت اور نیرنگیِ زمانہ سے نہ عربی میں دخل ہوا نہ فارسی میں کامل ہوا، دونوں سے ناآشنا رہا، ایک کا بھی علم نہ حاصل ہوا۔ پست ہمتی سے اردو کے لکھنے میں اوقات بسر کی، تردد کی شام سحر کی۔ کچھ دن نظم کا انتظام رہا، شہر کہنے کا خیال خام رہا۔ جب وہ بھی نہ ہو سکا، نثر کی طرف خیال آیا۔ اس کو اُس سے زیادہ مشکل پایا۔ چنانچہ فسانۂ عجائب کہ قصۂ جان عالم ہے بہت مطبوع ساکنان عالم ہے بموجب مثل ؏
قبولِ خاطر و لطفِ سخن خدا داد ست
اور تحریر ثانی حسب ارشاد ہدایت بنیاد حضرت ظل سبحانی سرور سلطانی ہے۔ یہ بھی ہر شخص کو پسند ہے، جو سنجیدہ فہمیدہ ہے اس کا خواہشمند ہے اور چند حکایات مختصر و طویل سامع قاری ان سے بھی ملول نہیں۔ جب ان تحریروں سے فرصت پا چکا تو قضیہ اتفاقیہ درپیش ہوا۔ ایک شفیق کہ مجمع صفات ان کی ذات ہے، جوان حسین رعنا، جرات میں یکتا، غیور ذی شعور، جوہر شناش قاعدہ دان ہیں، قوم کے رئیس ہیں، نام نامی امجد علی خان ہے، ان کے حسب و نسب سے آگاہ جہان ہے۔ شگفتہ خاطر دل شاد، ساکن سنڈیلہ ملیح آباد۔ جتنا کام اس ملک میں مشکل ہے وہ مالی ہے۔ خدا کی عنایت سے اس میں طبیعت کو رسائی ہے ، نہایت ذہن عالی ہے۔ ہمیشہ عمالان سرکار ابد قرار میں وثوق و اعتبار رہا ہے ، نظامت کے انتظام پر بلا جبر اختیار رہا ہے۔ راقم کے حال پر بہت نظر عنایت ہے، منظور سب طرح کی رعایت ہے۔ ایک قصہ مہر چند کھتری کا لکھا جو ان کی نظر سے گذرا، اکثر مضمون اس کا پسندِ خاطر ہوا۔ لیکن وہ بیان اور زبان گذشتہ یعنی تقویم پارینہ ہے۔ اب جو ہندی کی چندی ہوئی ہے اس سے سراسر خالی تھا، روزمرہ محاورہ لاوبالی تھا۔ فقیر نے باعث رغبت خان والا شان اُس داستان کی جان جو کہ مطبوع طبع اُس نکتہ دان کی تھی نکال لی، خوگیر کی بھرتی اُچھال دی۔ غالب کہ منظور نظر اہل بصر ہو اور اس کا مطالعہ مدنظر ہو۔ حظ اٹھائیں یا کچھ لطف پائیں تو گنہگار کو دعائے خیر سے بھول نہ جائیں، یاد فرمائیں۔ اگرچہ پڑھنے لکھنے والے کم نہ ہوں گے، تاسف اتنا ہے کہ ہم نہ ہوں گے۔ قصہ اگر پسند آئے گا تو مشہور ہوگا، ہمارا ذکر ضرور ہوگا۔ اس وقت سہو اور غلطی معاف کر کے، طبیعت کدورت سے صاف کر کے بنظر انصاف جو صاحب اوصاف کلام سرور سے مسرور ہو تو اتنا کلمہ فرمائیے کہ عاصی غلامان حسینؑ کے ہمراہ محشور ہو۔ نہ فردوسی رہا نہ خاقانی، نہ عرفی نہ سعدی ہے۔ شہرۂ آفاق اس سرا کی سراسر بے بنیادی ہے۔ ہزاروں جنگل ایک دم میں آباد ہو گئے، لاکھوں بسے بسائے شہر اس عالم میں برباد ہو گئے۔ شادی کیسی، بڑا غم تو یہ ہے کہ دوام غم نہیں رہتا، ایک وضع پر طرز عالم نہیں رہتا۔ عجیب و غریب یہاں کا لیکھا ہے، ایک کا جنازہ چار کے کندھے پر دیکھا ہے۔ ہر چند اس کی بھی کس کو امید ہے مگر جس کا نام یہاں بہ نیکی رہ گیا ہے وہ ہی زندۂ جاوید ہے۔ دنیا میں سخت جانی سے کڑی نرم سب سہہ جاتا ہے، عالم اسباب کا اسباب سب چھوٹتا ہے۔ غیر مزے لوٹتا ہے لیکن نام نیک ہو یا بد وہ رہ جاتا ہے۔ نہ کچھ ساتھ لاتا ہے نہ لے جاتا ہے۔ جیسا عمل سرزد ہوتا ہے اس کی جزا پاتا ہے
قلم بشکن سیاہی ریز کاغذ سوز دم درکش
حسن ایں قصۂ عشق ست در دفتر نمی گنجد
خدا کی عنایت سے آغاز اس کا خوب ہوا، بخیر انجام ہے۔ “شگوفۂ محبت” اس کا نام ہے۔ امیدوار پروردگار سے ہے کہ جب یہ داستان تمام ہو، مقبول خاص و عام ہو۔
ابتدا اُس کہانی کی ہے جس کے ہر فقرے میں انتہا خوش بیانی کی ہے۔ اضطرار میں نکلنا آذر شاہ کا، پہاڑ پر مل جانا ولی اللہ کا
محررانِ حال و مآلِ شاہانِ گذشتہ، مورخانِ ذی اعتبار تاریخ دان دانستہ لکھتے ہیں کہ یہ جو چار دانگ عالم ہندوستان مشہور ہے، شہر تو کیا ہر دیہ و قریہ تک اس کا لطافت اور حسن و خوبی سے معمور ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کا تاجدار پُر صولت باوقار آذر شاہ معدلت پناہ تھا۔ سزاوار اریکۂ جہاں بانی بزم افروز محفل کیانی
بہت بادشاہ اس کو دیتے تھے باج
خطا و ختن تک تھا اس کا خراج
کوئی دیکھتا آ کے گر اُس کی فوج
سمجھتا کہ ہے بحر ہستی کی موج
عدل و داد کہ ملک جس سے آباد ہوتا ہے، رعایا کا دل شاد ہوتا ہے، اس میں بے مثل لاثانی تھا۔ فی الحقیقت زینت بخش سریر سلطانی تھا۔ گردن کشانِ دہر غاشیۂ اطاعت بر دوش رہتے تھے۔ سطوت و صولت سے باختہ سب کے ہوش رہتے تھے۔ فوج ظفر موج عدد اور شمار سے افزوں، ہزراہا گنج رشک خزانۂ قارون، وزیر امیر عقیل امانت دار دیانت شعار، پسینے پر لہو بہانے والے جان نثار ندیم فہیم ادیب غریب فہمیدہ، طبیب عجیب سنجیدہ، زمانے کے چیدہ، امورات جہان نیرنگی گردونِ گردان سے فارغ البال، لاولدی کے غم چھٹ، رنج نہ ملال، اکثر سلطنت کی ضرورت سے فرصت پا کے تخلیہ میں وہ ندیم تجربہ رسیدہ سیاہ روزگار اور وہ حکیم جہاں دیدہ فلاطون شعار جو تھے سب کو بلا کے ان سے گفتگو رہتی تھی کہ دنیا مقام گذران ہے، ہر شخص یہاں رواں دواں ہے۔ بجز ذاتِ پروردگار یہاں کے لیل و نہار کو ایک ڈھنگ پر دم بھر ثبات و قرار نہیں۔ یہاں کی ہر شے سے پیدا ہے کہ پائدار نہیں۔ خدا نے ساز و سامانِ سلطنت، اسبابِ شوکت و حشمت سب کچھ عطا کیا مگر وارث اس کا جو پیدا نہ ہوا تو ہم نے یہ سب جمع کر کے کیا کیا۔ جو کچھ ہے، ہم تو اس کے چھوڑنے کی حسرت قبر میں لے جائیں گے، غیر اس پر قبضہ کر کے زندگی کے مزے اڑائیں گے۔ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ زیادہ بوجھ اپنے سر پر نہ لیجیے، چھوٹ جانے سے پہلے سلطنت کو چھوڑ دیجیے۔ اس کے جواب میں متفق اللفظ سب تسکین اور تشفی کے کلام عرض کرتے تھے کہ آپ اتنا نہ گھبرائیے، ایسے خیال مزاج مبارک میں نہ لائیے۔ ہر شے کے واسطے ایک وقت معین مقرر ہے، غیب کی کس کو خبر ہے۔ کسی کو وقت سے پیش اور مقدر سے بیش کچھ ملا نہیں، حاکم کا گِلا نہیں۔ یہ سن کے چپ ہو رہتا۔ گو دل کا نہ ملال جاتا، کج بحثی نہ کرتا، ٹال جاتا۔
ایک روز نصف شب گذری، اس کی آنکھ کھل گئی، وہی خیال بہرحال رہتا تھا، صدمے سہتا تھا۔ الجھن میں نیند نہ آئی، دفعۃً زیادہ جو گھبرایا، سلطنت سے منہ کو موڑا، سرد آہ بھر کر گرم رفتار ہوا، شہر کو خالی چھوڑا، بے توشہ و زادِ راہ وہ بادشاہ جنگل کی طرف چل نکلا۔ شب تیرہ و تار، رفیق نہ غمگسار۔ اندھیری رات، میدان کی سائیساں، عقل گم، ہوش حواس پرّاں، نہ سواری کا اہتمام، نہ لوگوں کی دھوم دھام، نہ صدائے نقارہ، نہ ندائے بوق و کوس، پیادہ پا یکہ و تنہا بصد حسرت و افسوس بُری نوبت سے کئی کوس طے کیے کہ فلک جفا پسند پُر گزند نے وہ خراب حال دکھانے کو شمع مومی و کافوری کے فراق میں جلانے کو مشعلِ ماہ آسمان اول پر روشن کی۔ اب جو کوئی ٹھوکر کھائے تو پستی و بلندی نظر آئے۔ پہاڑ دیکھا سر بفلک کشیدہ، چوٹی اُس کی آسمان سے ملی، ہر قسم کا درخت خود رو پھولا پھلا تھا۔ جنگل تک پھولوں کی بو باس سے مہک رہا تھا، جس کو جینے سے یاس ہو، اس کو مرنے کا کب وسواس ہو۔ بادشاہ کو نہ درندے کا ڈر تھا نہ گزندہ سے خوف و خطر تھا۔ مردانہ وار قدم ہمت بڑھاتا تھا، بے تکلف اُس نشیب و فراز میں چڑھا جاتا تھا۔ جب تھکتا تو کسی پتھر پر بیٹھ جاتا، دم لے کے آگے قدم اٹھاتا۔ القصہ بہزار خرابی راہ طے کی، اوپر پہنچا۔ اس عرصے میں صبح کا سپیدا چمکا۔ جانوران خوش الحان بذکر یزدان زمزمہ سنج اور نغمہ پرداز ہوئے، درِ اجابت حاجت مندوں پر باز ہوئے اور سجادہ نشینِ چرخ اول نے جانمازِ انجم لپیٹی۔ و الفجر کی صدا آئی۔ زاہد فلک چارم چونکا، اپنی چمک دمک دکھائی، جہاں تک نگاہ گئی گلہائے رنگا رنگ نظر آئے، چشمہ ہائے سرد و شیریں جا بجا جاری پائے۔ اس نے وضو کر کے نماز صبح پڑھی پھر دستِ دعا بدرگاہ خالقِ ارض و سما بلند کر کےبہت رویا، کہا “اے پروردگار! کل تو وہ شان و شوکت تھی، آج عالم تنہائی اور یہ سامان ہے۔ تو قادر و توانا علیم و دانا ہے، اگر مژدۂ تمنا پاؤں گا تو مُنہ لوگوں کو دکھاؤں گا، وگرنہ اس پہاڑ سے نیچے گر کے جان دوں گا، دربدر بہکتا نہ پھروں گا”۔
یہ تو اس شغل میں تھا، دفعۃً ایک مرد بزرگ سن رسیدہ گرم سردِ زمانہ دیدہ نظر آئے۔ عمامہ سر پر، عبا زیب دوش و بر، داہنے ہاتھ میں کنٹھا بائیں میں عصا، زیتون کا وظیفہ پڑھتا قریب آیا۔ بادشاہ اٹھ کر کھڑا ہوا، سلام کیا۔ اس نے جواب دے کر کہا “اے شہر یار باوقار! اتنے سے امتحان میں اُس کی رحمت کی وسعت کو بھول گئے، ہاتھ پاؤں پھول گئے”۔ آذر شاہ سمجھا کہ گو اس کا مسکن کوہ وجبال ہے مگر یہ برگزیدہ مقرر صاحب کمال ہے۔ لجاجت اور سماجت سے اپنی گذشتہ داستان مشروحاً بیان کی۔ اس مقبول ذو الجلال شیریں مقال نے فرمایا کہ یہ امور تقدیر ہیں، اضطراب اس میں بیجا ہے۔ بابا دنیا کا معاملہ بہت ٹیڑھا ہے۔ حکومت، تدبیر، عقل، مال و زر، فوج لشکر یہاں سب کچھ بیکار ہے۔ حاکم احکم الحاکمین ہے، اس کا اختیار ہے؛ بہر حال اسی سے التجا کرو۔ محتاجوں کی حاجت بر لاؤ، بھوکے کو کھانا، ننگے کو کپڑے پہناؤ۔ سوال کسی کا نہ رد کرو۔ دعا مانگنے میں کد کرو، وہ ارحم الراحمین مشہور ہے۔ اس کی عنایت سے کیا دور ہے کہ نخل تمنا تمھارا گل و بار لائے، فرزند سعادت مند پروردگار مرحمت فرمائے۔
اس کلام سے بادشاہ کی یاس امید سے بدل گئی، طبیعت سنبھل گئی۔ پوچھا کہ آپ کون ہیں، جگہ یہ کیا ہے، بود و باش کیونکر ہے، معاش کیونکر ہے، تنہا ہو یا شریک اور کوئی بندہ خدا ہے۔ دن رات کس شغل میں بسر ہوتی ہے، شامِ تنہا کس طرح سحر ہوتی ہے۔ وہ مرد پیر با دل دلگیر بیٹھ گیا، کہا “اے سلطان ذی شان! یہ بڑی داستان ہے مگر عبرت کرنے کا بیان ہے۔ اور تو مضطر ہے، تجھ سے کہنا بہتر ہے۔ بگوش ہوش سُن اے والا نژاد! بندہ بھی آدم زاد ہے۔ یہ جو موسم جوانی عالم شباب ہوتا ہے بہت خراب ہوتا ہے۔ انسان بے خوف و خطر ہوتا ہے۔ نہ خدا سے شرم نہ حاکم کا ڈر ہوتا ہے۔ اُن دنوں میرا پیشہ قزّاقی کا تھا، انکار خدا کی رزّاقی کا تھا۔ ہاتھ پاؤں میں یہ طاقت تھی کہ ہزار جوان جرّار کا یکہ و تنہا مقابلہ کرتا تھا۔ قتل اور غارت پر اوقات تھی۔ بہ تمنائے زر و مال بہرحال دن رات کشت و خون میں اوقات بسر ہوتی تھی۔ نفع دنیا میں عقبیٰ کا ضرر تھا۔ مجھ کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی۔ اتفاقاتِ زمانہ ایک پری پیکر نوجوان با لباس پُر زر، سترہ اٹھارہ برس کا سن، شباب کے دن، برق دم گھوڑا، طلائی مرصع کار ساز ویراق، ہتھیار کی قسم سے فقط قرولی کمر میں، خود غرقِ دریائے جواہر مگر اُس غزال چشم کے شیر سے بُرے تیور۔ میں تو ہزار خونخوار کا تنہا شکار کرتا تھا، وہ جو نمود ہوا تو نظر میں حلوائے بے دود ہوا۔ نرم آواز سے مَیں نے کہا یہ سب ساز و سامان اے نادان یہاں رکھ دے اور گھر کو سیدھا پھر جا۔ تیرے حال پر رحم آتا ہے، اس صورت کے انسان کو کون ستاتا ہے۔ اسے نہ خوف ہوا نہ ہراس ہوا، نہ مجھ سے ایذا پہنچنے کا وسواس ہوا۔ بکشادہ پیشانی میرے پاس آ کے جواب دیا کہ اے شخص تو بھی بشر ہے، بندۂ خدا ہے مگر یہ کام جو تو نے اختیار کیا ہے اس میں شر ہے، بہت بُرا ہے۔ درِ توبہ باز ہے، آقا بندہ نواز ہے۔ اس فعل لغو سے منفعل ہو، توبہ کر۔ میرے خیال سے درگذر کہ میں ستم رسیدہ یکہ و تنہا جریدہ ہوں، مُورِدِ رنج و محن غریب الوطن، یار و دیار سے جدا، اللہ اعلم ہے کس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ا ور جو تجھ کو اپنے زور و طاقت کا گھمنڈ ہے تو بیجا ہے کہ ہر فرعون کے واسطے ایک موسیٰ خلق میں خلق ہوا ہے۔
مجھ کو اس کے کلام پر ہنسی آئی۔ ترش رو ہو کے اُس سے کہا: صاحبزادے! ملک الموت سے درشت کلام کرتا ہے، کوئی ایسا کام کرتا ہے۔ مصلحت یہی ہے کہ اسباب اور گھوڑا مجھے دے، پیادہ پا اپنی راہ لے۔ کیوں بے گور و کفن طعمۂ زاغ و زغن ہوتا ہے، جان سی چیز جنگل میں کھوتا ہے۔ یہ بات سن کر اس نے تیور بدلے، کہا: اے مردک! کیا جھک مارتا ہے، شیخی بگھارتا ہے۔ انکار قدرت خدا کرتا ہے، دیکھوں تو میرا کیا کرتا ہے۔ پھر تو بموجب مثل کمزور پر غصہ جلد آتا ہے، نزلہ برضعیف مے ریزد، میں نے کمان کا حلقہ کاندھے سے اتارا اور یہ سوچا دو چار تیر بے تاخیر بچا کے اس کو لگاؤ کہ ڈر جائے، مال اسباب یہاں دھر جائے۔ میں نے کمان کھینچی، اس نے قرولی جو تیر قریب آیا بوضع دلکش کاٹا۔ قصہ مختصر سارا ترکش کاٹا۔ پھر تو میں جھلایا، تلوار کھینچ کے اس کے برابر آیا۔ خبردار کہہ کے وار کیا۔ اس نے چالاکی سے عجب کار کیا کہ وہی قرولی قبضے میں ڈال کر جھٹکا جو دیا، تلوار نے ہاتھ سے نکل کے میدان کا رستہ لیا اور دفعۃً بایاں ہاتھ بڑھا کے میری گردن پکڑی۔ گویا ملک الموت کے پنجے میں آئی۔ دم گھٹنے لگا، گلے کا فشار ہوا۔ یقین ہوگیا کہ انگوٹھا اس کا حلق اور گردن میں دوسار ہوا۔ مجھ کو غش آ گیا۔ دو گھڑی کے بعد جو آنکھ کھلی، دیکھا سرنگوں باگ ڈور سے بندھا درخت میں لٹکتا ہوں۔ اس کو جو پاس پایا، آپ کو بدحواس پایا۔ ڈر کے مارے زار و نالے کرنے لگا۔ اپنا عجز اس فعل قبیح کا انکار، اس پر حالی کرنے لگا۔ جس دم قسمیں زبان پر لایا، اس جرار کو رحم آیا۔ فوراً مجھ کو درخت سے کھول دیا اور میرے ہتھیار اس اشجع روزگار نے مجھ کو دے کے قریب بلایا، فرمایا: خبردار! جس بات کا تو انکار کرتا ہے، اس کام کو زینہار نہ کرنا۔ قزاقی کے قصد پر اس دشت میں قدم نہ دھرنا۔ جو روزی کی فکر ہو تو پروردگار صادق الاقرار ہے۔ اس نے فرمایا ہے، قرآن مجید میں آیا ہے وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَااور رسول الثقلین لو کان تحت الجبلین فرماتے ہیں، بشر اپنی حماقت سے گھبراتے ہیں۔ خالق بہر کیف اپنے بندے کو روزی پہنچاتا ہے۔ بھوکا اٹھاتا ہے، پیٹ بھر کے سُلاتا ہے۔ ؏
مگر نشنیدۂ بیدل خدا داری چہ غم داری
جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو
اب دانت بھئے کا اَن نہ دیہے
یہ فرما کے وہ تو چل نکلا۔ مجھ کو تمام دن حیرت رہی۔ وہ ذلت و خواری جو مجھ پر گذری تھی، اس کی غیرت رہی۔ تمام رات نیند نہ آئی۔ صبح کو وہ مال اسباب جو حرام کا جمع کیا تھا، اس کو لٹا کے ایک سمت چلا اور دل میں یہ عزم بالجزم ہوا کہ اگر اکل حلال بہ مشقت کمال میسر ہوا تو کھاؤں گا، ورنہ فاقے کر کے مر جاؤں گا۔ انسان تو سست اساس ہے، بہت بدحواس ہے۔ یہ خیال آیا کہ اب دیکھیے کیوں کر آب و دانہ ملتا ہے، اس دشت پُرخار میں کیا گل کھلتا ہے۔ چلتے چلتے جب تھکا، ایک درخت سایہ دار دیکھ کے بیٹھا۔ بسکہ وہ خوش قطع تھا، بغور اس کو دیکھنے لگا۔ عجب ماجرا نظر آیا۔ ایک کوا بے پر و بال بُرا حال اس کے کول میں گردن باہر نکالے پڑا تھا۔ مجھ کو پھر وہی خیال آیا کہ اس کے دانے اور پانی کی زندگانی کی صورت کیوں کر ہوتی ہوگی۔ یہ تو درخت سے نیچے آتا نہ ہوگا، کچھ پیتا کھاتا نہ ہوگا۔ ابھی یہ وسوسہ دور نہ ہوا تھا کہ ایک باز تیز پرواز جانور پنجے میں دبائے ٹہنی پر آ بیٹھا۔ وہ جو شکار لایا تھا، پنجے میں جسے دبایا تھا، اس کا گوشت نوچ نوچ کے کچھ کھانے لگا کچھ گرانے لگا۔ غور جو کرتا ہوں تو کیا دیکھا جو کچھ باز گراتا ہے وہ کوے کے مُنہ میں آتا ہے، بے تکلف کھاتا ہے۔ جب کوا سیر ہوا، گردن کو اندر کھینچا۔ باز اُڑ گیا، مجھ پر عجب حال طاری ہوا۔ بارے قائل قدرت باری ہوا۔ دل سے کہا جل جلالہ۔ یہ جو سنتے تھے، درست ہے
بے مگس روزی نماند عنکبوت
رزق را روزی رساں پر میدہد
جو تقدیر میں ہے اُڑ کے اس طرح آتا ہے، بے ہاتھ پاؤں ہلائے حلق میں اتر جاتا ہے۔ اسی دن اس پہاڑ پر پھرتا پھرتا آ نکلا۔ یہاں کی بہار، جابجا چشمہ ہائے سرد و شیریں خوشگوار، گل بوٹے کی دید، مجمع خلق سے بعید تنہائی بہت پسند آئی۔ یہ مصرع پڑھ کر بیٹھ رہا ؏
اوقات مکن ضائع و تنہا بنشین
از روئے حساب بہر حال چالیس سال گذر گئے، دَد و دام سے صحبت رہتی ہے، جانوروں کی طرف رغبت رہتی ہے۔ جس لذیذ طعام پر خواہش ہوتی ہے، سرِ شام رازق مطلق اس مقام پر بھیج دیتا ہے۔ نہ جستجو کرتا ہوں نہ کاہش ہوتی ہے۔ سیر ہو کے کھاتا ہوں، ولی نعمت کا سجدۂ شکر بجا لاتا ہوں۔ بعد نماز عشا صدا کان میں آئی تھی، ہاتف نے تیرے آنے کی خبر سنائی تھی کہ آذر شاہ بحال تباہ فرزند کی حسرت میں اس پہاڑ پر آئے گا اور مایوس ہو کے مر جانے کا خیال دل میں لائے گا، تو اس کو منع کرنا، سمجھانا، لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ پڑھ کر سنانا، کہہ دینا کہ اپنے ملک کو پھر جا اور خاقانِ چین سے اس کی بیٹی کا پیام دے۔ عجب وہ یاسمین پیکر گل اندام ہے، سمن رخ اس مہر جبین کا نام ہے۔ نمونۂ کلک قدرت صانع نادر نگار ہے، یکتائے روزگار ہے۔ جب اس کے ساتھ تیری شادی ہوگی، نخل تمنا بار لائے گا۔ خانہ آبادی ہوگی۔ لیکن تیری پہلی عورت جو زلالہ ہے وہ سخت دلّالہ ہے، اس پر سحر کرے گی۔ چندے اس کو جنون ہو جائے گا، حال زار زبون ہو جائے گا۔ مگر بدعائے درویش وہ دلریش نجات پائے گی، تیری مراد بر آئے گی۔ یہ کلمہ کہہ کے وہ تو ایک سمت رواں ہوا، آنکھوں سے نہاں ہوا۔ آذر شاہ بہت شاد ہوا، بندِ فکر سے آزاد ہوا۔ دل میں سوچا کہ دن زیادہ آیا، واللہ اعلم شہر کتنی دور ہے۔ بندہ پیادہ راہ چلنے سے معذور ہے۔ یہ تو اس خیال میں لب چشمہ حیران تھا، ہر طرف نگران تھا۔
اب دو فقرے ان کے ملازمان خاص کے سینے کہ دم سحر بصد کر و فر وزیر، امیر، ارکان سلطنت، ترقی خواہانِ دولت در دیوان خاص پر حاضر ہوئے۔ یہاں سناٹا نظر آیا، ہر ایک کو بحال یاس سراسیمہ و بدحواس پایا۔ معلوم ہوا کہ شب کو شاہ کیوان جاہ کسی سمت راہی ہوا۔ زمانہ سب کی نظر میں سیاہ ہوگیا، ہر شخص کا حال تباہ ہوگیا۔ وزیر صائب تدبیر نے پہلے تو شہر کا بند و بست کیا، کوتوال کو حکم نگہبانی ہوا، وہ مصروف جانفشانی ہوا۔ سب نے با دلِ درد مند شہر کے دروازے بند کیے۔ فرمایا کہ بجز مسافر کوئی اندر آنے نہ پائے، شہر سے جانے نہ پائے۔ پھر اپنا سر اور منہ آغشتہ بہ خاک کیا، تا دامن گریبان چاک کیا۔ کچھ سوار جرار تھوڑے سے پیادے ہمراہ لے کے بہ تلاش شاہ گم گشتہ وہ جگر برشتہ شہر سے باہر نکلا۔ جا بجا خاک اُڑاتا پتا لگاتا چلا۔ قضائے کار اتفاقات روزگار اسی پہاڑ کے قریب پہنچا۔ دل میں آیا اس کے اوپر چلو، کیا عجب ہے کہ اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آئے، بادشاہ یہیں مل جائے۔ القصہ بجد و کد پہاڑ پر چڑھا۔ دور سے بادشاہ اسی چشمہ پر نظر پڑا۔ تشنۂ دیدار نے غریق بحر ذخار نے ساحل کامیابی پایا۔ دوڑ کر لپٹ گیا۔ رونے لگا، داغ مہاجرت دھونے لگا۔ الغرض شوکت و شان، ساز و سامان سے بادشاہ کو لے کے شہر میں داخل ہوا۔ جس مطلب کا جویا تھا حاصل ہوا۔ جان نثاروں نے نذریں دیں، خلعت و انعام پائے۔ خوش و خرم اپنے اپنے گھر آئے۔ شاہ ذی جاہ امور سلطنت میں موافق معمول مشغول تو ہوا مگر ہر دم فراق سمن رخ میں انتظام شہر کا بھولا، یہ تازہ شگوفہ پھولا۔ گل رخسار کی بہار پر خزاں چھائی، زعفران زار کی کیفیت نظر آئی۔ نخلِ محبت نے سینہ میں لگاؤ کیا۔ الفت کے کانٹے نے جگر میں کھٹک کی، کلیجے میں گھاؤ کیا۔ نہ گل و گلزار کی سیر سے رغبت رہی، نہ معاملات سے کچھ کام رہا۔ نہ گانا سُنا، نہ ناچ دیکھا۔ نہ شُربِ بادہ علی الدوام رہا، جو کہیں کھڑا ہوگیا تو بت کی طرح کھڑا رہا۔ جو پلنگ پر گر پڑا تو بہ خدا گھڑیوں پڑا رہا۔ لب خشک، آنکھیں پرنم ہوئیں۔ اندوہ کی کثرت، خوشی کی صحبتیں برہم ہوئیں
کہا گر کسی نے کہ کچھ کھائیے
تو کہنا کہ بہتر ہے منگوائیے
کسی کی تلاش میں خود رفتہ ہو، حیرت زدہ ہر طرف نگاہ کرنے لگا۔ سوزشِ دل کی دم سرد نے تسکین کی۔ جی گھبرایا تو آہ آہ کرنے لگا۔ ہوش و حواس سر سے یکسر سرکے۔ عقل اور عشق میں لڑائی ہونے لگی۔ متاع صبر و خرد لُٹ گئی۔ عنانِ ضبط ہاتھ سے چُھٹ گئی۔ مملکت جسم کی تباہی ہونے لگی۔ دست جنوں تا گریباں پہنچا،جیب کا چاک سرِ داماں پہنچا۔ بھوک پیاس پاس نہ آئی۔ غم کھا کے آنسو پینا اختیار کیا۔ فرقت جاناں میں مر مر کے جینا اختیار کیا۔ جنگل سے رغبت ہوئی۔ بستی اجاڑ معلوم ہونے لگی۔ تنہائی کا دن تڑپ کے کاٹا۔ فرقت کی رات پہاڑ معلوم ہونے لگی۔ دربار میں آیا تو مجمع سے گھبرانے لگا۔ اکیلا ہوا تو سر پٹک کے پچھاڑیں کھانے لگا۔ صبح سے تا شام آہ و زاری کی۔ شام سے صبح تک تارے گنے۔ بے قراری کے دن کو گلزار میں اگر گذر ہوا، گل و بلبل کی صحبت کا خار ہوا۔ رات کا جلسہ مد نظر ٹھہرا تو شمع پروانے کی گرم جوشی دیکھ کے بخار ہوا۔ الغرض جب خلاف مقدموں کو طول ہوا تو سلطنت کی بربادی سے ہر ایک جان نثار نمک خوار ملول ہوا۔ زمانۂ سابق میں اس قدر لوگ بدنام نہ تھے، نرے خود کام نہ تھے۔ باہم سب نے جمع ہو کے بصد پریشانی عقل و دور اندیش سے کام لیا۔ ذہن جو لگایا تو بالاتفاق طبیعت کا میلان کسی جانب ٹھہرایا
مُنہ پر اس کے جو رنگ خون نہیں
عشق ہے صاف یہ جنون نہیں
ایک روز سر پاؤں پر دھر بجرأت تمامتر وزیر اعظم عرض پیرا ہوا کہ ہم لوگ خانہ زاد ہیں، جان نثار ہیں، جس جا حضرت کا پسینہ گرے اپنا لہو بہانے کو تیار ہیں۔ لیکن کچھ ایما اشارہ اگر پائیں، جان جوکھوں کر کے خدمت بجا لائیں، ورنہ ہم سب اپنا سر زیر قدم فدا کریں گے، اور تو کیا کریں گے۔ اس وقت چار و ناچار بجز اظہار حال آذر شاہ کو چارہ نہ ہوا، ذکر چھڑ جو گیا ضبط کا یارہ نہ ہوا۔ ابتدا سے انتہا تک پہاڑ پر جانا ملاقات کا ہونا جو حقیقت گذری تھی وہ سب کہہ سنائی۔ پھر فرمایا کہ بے وصل سمن رخ اپنا وصال ہے، فرقت میں جینا محال ہے۔ جب سرگذشت بادشاہ کی سُن لی، متفق اللفظ سب نے عرض کی کہ پیر و مرشد جو بادشاہ ہے، درِ دولت کا گدا ہے اور جس جا جو حاکم ہے وہ حضرت کا محکوم ہے۔ چار دانگ میں اس سلطنت کا شہرہ ہے۔ صولت و سطوت کی دھوم ہے۔ کس کی مجال ہے جو نافرمانی کرے، تلخ چار دن کی زندگانی کرے۔ وزیر اعظم کی صلاح ہوئی کہ غلام پہلے ایلچی کے ہاتھ نامہ روانہ کرتا ہے، دیکھیے تو وہ راضی ہوتا ہے یا کوئی بہانہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جو مصلحت وقت ہوگی وہ بات کریں گے۔ جو صلح میں مطلب بر آیا تو خیر نہیں شر ہوگا، لڑیں گے۔ پیر و مرشد خاطر مبارک بہر کیف جمع فرمائیں جس کام میں دل لگے، جی بہلائیں۔ ان شاء اللہ المستعان بفضل یزدان قریب تر حسب دلخواہ یہ امر ظہور میں آتا ہے۔ خدا نے چاہا تو پیک خوش قدم شادی کا پیام ادھر سے لاتا ہے۔ یہ رائے بادشاہ نے بہت پسند کر کے ذہن کی رسائی پر تحسین و آفرین فرمائی اور وہ جو تڑپ دل میں، بے قراری آب و گل میں تھی اس سے نجات پائی۔ پھر منشی بے نظیر جادو تحریر کو یاد فرمایا۔ اس نے نیزۂ واسطی ہاتھ میں اٹھا کے سمندِ طبع کو صفحۂ قرطاس پر مہمیز اور تازیانۂ فکر کے چھپکے سے توسنِ ذہنِ رسا کی دور دمی دکھا کے زبانِ خامہ کو حمد و نعت میں گہر ریز کیا۔
صلاح سے دبیر خجستہ تدبیر کی ایلچی روانہ کرنا آذر شاہ کا خاقان چین کو اور نامہ مسلل لکھنا منشی ترقی خواہ کا، طلب کرنا اُس مہ جبین کو
پس از حمد و سپاس خالق دو جہان، صانع انس و جان جس نے یہ خیمۂ زنگاری بے چوب و ریسمان ایستاد کیا اور ستاروں کی گلکاری بے مدد دست و قلم دکھا کے خاک کا فرش بروئے آبِ رواں ایجاد کیا اور اپنی صنعت نادر نگار سے فیضِ ترشح ابر بہار سے زمین کو پہنچا کے قوت نامیہ عطا کی۔ کیا کیا سرو شمشاد، نسرین و نسترن نے اس بے بنیاد گلشن میں سر اٹھایا اور کون کون سا گل بوٹا اس خاکدان پُر محن میں کھلایا اور اس کی بو باس اور جوبن سے کس کس پُر الم کا آسمان ٹوٹا، کوئی غریب دیار ہوا، کوئی دام میں گرفتار ہوا، کسی سے گلشن چھوٹا، پردہ بہار اور خزاں کا حائل کیا۔ کسی کا حلقۂ اطاعت قمری کی گردن میں ڈالا، کسی پر بلبل کا دل مائل کیا۔ ایک محبت کی شمشیر آبدار، اس کے زخمی ہزار در ہزار۔ اس رمز میں بڑے بڑے دور بینوں کو سرگردانی رہی، آخر کار آئینہ دار حیرانی رہی۔ جتنا چھانا، کرکرا پایا۔ جب آنکھیں بہم پہنچائیں کچھ نظر نہ آیا۔ مجبور ہو کے مبہوت ہوئے، جس قدر تخیلہ تھے منجربہ سکوت ہوئے۔ سر جھکانے اور خاموشی کے سوا چارہ نہ ہوا، دم مارنے کا یارا نہ ہوا۔ اور تحفۂ درود و سلام اس برگزیدۂ خاص و عام کے واسطے ہے جس نے شمع ہدایت روشن کر کے تیٖرۂ باطن جو گم کردہ راہ تھے، صراط مستقیم سے نہ آگاہ تھے، ان کو اسلام سے مشرف کیا۔ کفر و ضلالت سے بچایا، جہالت سے چھڑایا۔ زندگی کا لطف اٹھانے کو سلسلۂ اتحاد میں الجھایا، راحت اور آرام پانے کو سررشتۂ محبت و وِداد میں پھنسایا کہ خیر و شر سے ماہر ہو کے باہم بود و باش کریں۔ ؏
دو دل یک شود بشکند کوہ را
شراکت میں تلاش معاش کریں؛ چنانچہ کافۂ انام میں بلکہ خاص و عام میں بحکم شرع شریف قرابت قریبہ کا ظہور ہوا۔ وہ جو تہلکہ بیگانگی کا معاملہ خانہ بدوشی کا تھا، باہم کی روپوشی کا تھا درمیان سے دور ہوا۔ ہر چند ہر ملت و مذہب میں محبت کا طریقہ، مروت کا سلیقہ، قرابت کا ہونا، بیگانگی کا کھونا سب کو پسند ہے۔ دانا ہو یا نادان، اس کا بہت خواہشمند ہے۔ اس واسطے کہ ؏
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
بدہیں یا نیک ہیں، حقیقت میں دونوں ایک ہیں، نہ کہ دو سریر آرائے اریکۂ جہاں بانی اور دو تاجدار رونق افزائے دیہیم سلطانی۔ یہ رسم مرسلان ذو الجلال اور طریقہ آبا و اجداد ستودہ افعال باہم بجا لائیں تو بندہ ہائے نیکو کردار کہ بدائع و دائع پروردگار ہیں، کس قدر منفعت اور مسرت پائیں۔ محتاجوں کی حاجت روا ہو، اہل حرفہ کو نفع پہنچے بھلا ہو۔ گو صرف فی الحال زیادہ ہو مگر دو مملکت ایک ہوں تو دولت اور مال زیادہ ہو۔ جب دوستوں میں شادی ہوتی ہے تو بیشک دشمن کو غم ہوتا ہے، خانہ بربادی ہوتی ہے۔ درینولا دل صفا منزل کہ مِرأت جہاں نما ہے، بقول مشہور خانۂ خدا ہے، اس میں یہ امر عکس افگن ہوا ہے کہ فیما بین سوائے روابط دیرینہ کوئی سررشتہ جدید کا قرینہ پیدا ہو کہ اکثر جو مخفی امور ہیں ان کا نتیجہ اس کائنات بے ثبات میں ہویدا ہو، جو کام ہو حسب احکام خدا و رسول ہو کہ خاص و عام کو گفتگو کی جگہ نہ ہو، قبول ہو۔ یہ جو حکم مثنے و ثلث و رباع آیا ہے، یہ اشارہ گروہِ سلاطین کی طرف شارع متین نے فرمایا ہے۔ لہذا خالق کا فرمان بجا لانا مخلوق پر ضرور ہے، انکار میں فتور ہے اور یقین ہے کہ وقائع نگاروں سے گوش حق نیوش تک یہ خبر پہنچی ہو کہ مملکتِ دکن میں چند اشرار سرگشتۂ بادیۂ ادبار متفق ہو کے راہزنی کرتے تھے۔ کچھ مال حرام اور بدمعاش قلاش بد انجام بصد پریشانی جمع کر کے سیاحان رہ نورد کو تاجران جہاں گرد کو ایذا دیتے تھے، مال اسباب چھین لیتے تھے۔ جس وقت یہ خبر بیجا متکفلان اخبار ہر شہر و دیار سے گوش زد ہوئی، بیخ کنی اس گروہ دنی کی منظور ہوئی، قلع و قمع کی کد ہوئی۔ مقربان بارگاہ قلیل سپاہ ہمراہ لے کے روانہ ہوئے۔ جلوریز اُن خود سروں کو یلانِ خنجر گزار نے تہِ تیغ آبدار کیا۔ مسافر گل چھرے اڑاتے چلے جاتے ہیں، تمام راہوں کو بے خار کیا۔ دوسرے فتح ملک زنگبار اور تنبیہ اس فرقۂ تیرہ روزگار کی خاطر والا پر روشن ہوئی ہوگی۔ یہ امانت پروردگار جو ہماری ظل عنایت تحت حکومت ہے، دن رات ان کی پاسبانی اور راحت رسانی میں بسر ہوتی ہے تامظلوم کو ظالم سے، محکوم کو حاکم سے گزند و ضرر نہ پہنچے، تافلک ان کا شور و شر نہ پہنچے۔ انھیں مشغلوں کے باعث چندے رسل و رسائل میں توقف ہوا ورنہ بیشتر دل خیریت طلب، جویائے خبر صحت و سلامتِ ذات خجستہ صفات ہر اوقات میں رہتا ہے۔ والسلام
نامہ تمام ہوا۔ کچھ اور تحفہ ہائے شہر و دیار، نوادرِ روزگار مع نامہ جان نثار خان کابلی کو دے کے رخصت کیا اور یہ فرمایا جس قدر سریع السیری جانے آنے میں ہوگی، ناموری زمانے میں ہوگی، باعث تقرب بارگاہِ آسمان جاہ ہوگا، خورسند مزاجِ ظل اللہ ہوگا۔ ایلچی برق و باد سے چست و تیز، رہ نورد گرم خیز ہو کے عرصۂ قلیل میں برسر منزل مقصد پہنچا۔ وہاں اس کی آمد کی خبر ورود سے پیشتر ہو چکی تھی، سرِ راہ ناظموں کو فرمان اہالیان سلطان نے بھیج دیے تھے۔ ہر منزل و مقام میں صبح و شام اسے آسائش ملی، جو شے درکار ہوئی بے فرمائش ملی۔ جس دم بیت السلطنت میں داخل ہوا، وزیر کے روبرو ہاتھوں ہاتھ لوگ لے گئے۔ پہلے سے بود و باش کو مکان، اکل و شرب کا سامان تیار تھا۔ اس میں اس کو اتارا۔ ملازمت کا وعدہ دو دن کے وقفے پر ہوا۔ القصہ بروز معہود و ساعت مسعود وزیر اعظم نامہ بر کو ہمراہ لے کے حضور میں حاضر ہوا۔ طریقہ ملازمت شہر یار و شاہ سے یہ دستور دان آگاہ تھا۔ بعنوان شائستہ نامہ پیشکش کیا، تحائف گذرانے اور تقریر زبانی اپنی خوش بیانی سے بادشاہ کو بہت راضی کیا۔ تا دیر ذکر حال و ماضی کیا۔ منشی بدیع نگار دانائے روزگار طلب ہوا۔ نامہ سربستہ کھول کے زر و جواہر میں تول کے پڑھنے لگا۔ شہریار کا مگارنے حمد و نعت کو بہ کشادہ پیشانی سنا۔ وہ نکتہ جو مطلب خیز تھا، وہاں تجاہل عارفانہ کر کے بگوش نادانی سُنا۔ سطوت و صولت پر فرمایا: بادشاہوں کا یہی کام ہے۔ فتح و شکست کی جا زبان پر آیا: گردش ایام ہے۔ القصہ حرف حرف وہ ماجرائے شگرف سن کے ایلچی کو بقدر لیاقت خلعت و انعام دیا۔ چندے حکم قیام دیا۔ یہ تو رخصت ہو کر اپنے مکان پر آیا۔ وہاں مقربانِ بارگاہ، دانایانِ ترقی خواہ کو خلوت میں یاد فرمایا۔ بعد ردّ و قدح یہ بات نکلی کہ اگر اس کام کا انکار ہو تو ملک الموت کی گرم بازاری کیجیے، مرنے کی تیاری کیجیے۔وہ اولو العزم ہے آمادۂ نبرد، مستعد پیکار ہوگا۔ بندہ ہائے خدا کا ناحق کشت و خون ہو جائے گا۔ ملک ویران، رعیت نالاں، سب کا حال زار و زبون ہو جائے گا۔ مناسب یہی ہے کہ بخوشی و خرّمی اس امر کا اقبال ہو، موقوف جنگ و جدال ہوا۔ اس رائے کو بادشاہ نے بھی پسند کیا۔ نامہ کا جواب القاب آداب محرر نے قلمبند کیا۔
انشا پردازی دبیر خاقان چین کی، ظاہر انکار باطن میں اقرار، کس خوبصورتی سے نہیں نہیں کی
مستوجب حمد، قابل ثنا وہ صناع عجائب نگار ہے جو مور سے سلیمان کا جن و انسان کا پرودگار ہے، جس نے یہ ہفت گنبد بے ستون و در، ہموار اور مدور بنائے اور مشعل مہر و ماہ سے شام و پگاہ میں فرق کیا۔ ستاروں کے چراغاں سے کیا کیا جھمکڑے نظر آئے۔ جو دن ہے تو کس قدر روشن ہے کہ بال کی کھال نظر آتی ہے۔ اگر رات ہے تو ظلمات ہے، وہ تاریکی ہے کہ اپنا ہاتھ سرِ دست ہیہات سوجھتا نہیں ۔ طبیعت گھبراتی ہے، ہمارے عجز سے اور کا اختیار ثابت ہوتا ہے۔ وہ قدرتِ کردگار ہے، دعوی وہم غلط بیکار ہے۔ جس دم وہ اپنی طاقت دکھاتا ہے مورِ ضعیف سے فیلِ مست کو پست کرتا ہے۔ اینٹ کی خاطر مسجد ڈھاتا ہے۔ پشے نے نمرود سے سرکش کے دماغ پُر باد میں جاپائی، فرعون کی قضا موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں سونپی، پانی میں ڈُبا کے جہنم کی آگ دکھائی۔ بجز عجز و قصور فتور اُس درگاہ میں پسند نہیں، کام اس کا کسی چیز پر بند نہیں۔ جس نے گردن کشی سے سرتابی کی، طرفۃ العین میں خانہ خرابی کی۔ قدرتیں اس کی قابل اظہار لائق بیان نہیں، کالشمس نصف النہار عالم پر روشن ہیں نہاں نہیں۔ اور سزاوار درود و سلام نبی ہمارا علیہ السلام ہے جس نے ایک انگلی کے اشارے سے قمر کو دو کیا۔ فرماں برداروں نے اس کے جو چاہا سو کیا۔ وہ شرع کی شاہراہ نکالی کہ عاصیوں نے مغفرت کی سبیل پائی۔ ہر کلمہ گو کو، اس کے پیرو کو اطاعت و فرمانبرداری اس خجستہ صفات کی سند ہے وسیلہ نجات کی۔ لہذا اس وادیِ ناپیدا کنار سے عنان شبدیز خامہ معطوف کر کے گرم خیز دشت مدعا کیا۔ محبت نامہ عطوفت شمامہ مع تحائف مرسلہ بہ ساعت سعید ذریعہ برید سے ملاحظہ میں آیا۔ ہر فقرے نے اتحاد کا لطف دکھایا۔ مضمون مکتوب سے خیر و شر کے بھی پہلو ظاہر ہوئے، حقیقت حال کیفیت مآل سے ماہر ہوئے۔ مجبور ہیں کہ تم نے کلام خدا کی سپر میں پناہ لی ہے، گواہی مخبر صادق علیہ السلام کی حدیث سے دی ہے۔ مجبور چارا نہ ہوا، انکار گوارا نہ ہوا کہ آدم علیہ السلام کے زمانے سے تا ایں دم بے بیش و کم یہی سلسلہ چلا آیا ہے اور نسلاً بعد نسل، بطناً بعد بطن اس گُتھی کو کسی نے نہیں سلجھایا ہے اور اظہار قدرت پروردگار، آبادیِ شہر و دیار منحصر اس کار پر ہے۔ جو امور شرعیہ، خدا و رسول کے احکام سے اجتناب کرے مثل شیطان واجب اللعن ہو، آبرو کو خراب کرے۔ ورنہ اے مہربان یہی گویہی میدان ہوتا، خدا نہ دکھائے جو سامان ہوتا۔ دوسری یہ بات ہے کہ بدوِ شعور سے آج تک تا مقدور طبیعت جویائے صلح رہی، جنگ سے انکار رہا، مروت اور محبت پر دارمدار رہا۔ آج نہیں کل اس وادی میں قدم دھرنا تھا، بارِ دوش اتارنے کو یہی کام کرنا تھا۔ اب بے جستجو یہ معاملہ رو برو آگیا، آیہ و حدیث پر عمل کیا۔ گردن جھکائی، تمھاری تمنا بر آئی۔ جس وقت جی چاہے، بے تردد رہ نورد منزل مقصد ہو۔ حسب امکان جو کچھ ہو سکے گا ظہور میں آئے گا۔ سفر وسیلہ ظفر ہے، لطف دکھائے گا۔ وہ جو جنگ و جدال کا حال لکھا تھا، شاہان نامدار کا شب و روز یہی کار ہے۔ راحت خلق اپنا آزار ہے، پاسبان بدائع ودائع کردگار ہیں۔ یہی مشغلے ہمارے لیل و نہار ہیں۔ مجبور ہیں کہ اسی کام پر مامور ہیں۔
نامہ تمام ہو کے بند ہوا۔ درِ امید کھلا۔ سربمہر ایلچی کو حوالے کیا۔ دم رخصت اور خلعت گراں بہا نوادرات جا بجا دوستانہ دے کے روانہ کیا۔ نامہ دار فائز المرام شاد کام نسیم صبا سے تیز تر دشت و کوہسار طے کر کے درِ دولت پر حاضر ہوا۔ بشرہ شناسوں نے مژدۂ بشاشت مشتاق لیل و نہار سلطان ذی وقار کو دیا۔ روبرو طلب کیا۔ نامے کا جواب سن کے آذر شاہ فرطِ مسرت سے بت ہوگیا۔ وزیر سے فرمایا کہ یہ ماجرا سچ ہے یا بات کی پچ ہے۔ وہ قسم شدید بے تامل کھانے لگا، اس وقت شہریار کو یقین آنے لگا۔ اسی دم بے اندیشہ و غم تیاریِ سفر گھر گھر ہونے لگی۔ منجمانِ دقیقہ رس، اختر شناسانِ پاکیزہ نفس کو یاد فرمایا۔ متفق اللفظ سب نے دیکھ بھال کے ایام بدی یُمن ٹال کے ایک روز مقرر کیا۔ وزیر صائب تدبیر نے بلا توقف و تاخیر علم و کمال کے مطابق فرد فرد کو مالا مال، دنیا کی احتیاج سے فارغ البال کیا۔ بروز معین ساعت مقرر بڑے کر و فر سے مع فوج و لشکر شاہ خجستہ نہاد روانہ ہوا۔ نِت نیا مدّ نظر آب و دانہ ہوا۔
روانہ ہونا آذر شاہ کا شوکت و شان سے، جلو میں فوج و سپاہ، گِرد ترقی خواہ بڑے تزک اور سامان سے
قصہ کوتاہ سب مرحلے طے کر کے جس دم چین کی سرحد میں لشکر کا گذر ہوا، آمادۂ کار براری سرگرم خدمت گزاری ہر جگہ کا اہلکار ہوا۔ القصہ کوہ و دشت بلند و پست طے کر کے بیت السلطنت کے متصل خیام ذوی الاحترم نصب ہوئے۔ آمد کا غلغلہ ساکنانِ شہر کے گوش زد ہوا، چھوٹا بڑا مسرور از حد ہوا۔ وزیر اعظم بصد جاہ و حشم مقربان بارگاہِ آسمان جاہ کو ہمراہ لے کے حاضر ہوا۔ دست بستہ سب نے نذر دی، ملازمت کی سعادت حاصل کی اور بادشاہ کا تشریف نہ لانا بموجب رسم زمانہ عرض کیا۔ رات اسی جگہ گذری۔ بڑے تکلف سے تمام لشکر کی دعوت کی۔ دمِ سحر وزیر شاہ کو شہر میں لایا۔ مکاناتِ مرتفع عالی سجے سجائے ان کے واسطے خالی ہوئے تھے، رہنے کو وہ مقام ملا، رنج و سفر سے آرام ملا۔ کچھ دنوں میں تعب راہ سے، حرجِ شام و پگاہ سے فرصت پائی۔ ساچق منہدی برات کی رات آئی۔ اگر اس کا بیان قلیل ہو، داستان طول طویل ہو۔ موافق آئین شاہان نامدار بڑے عز وقار سے شادی ہو گئی، مشتاق کی خانہ آبادی ہو گئی۔ کچھ دن بہر کیف راحت اور آرام میں بسر ہوئے، جلسے ہمدگر ہوئے۔ بعذر انتظامی شہر مملکت کی نفع و ضرر میں مصلحت سفر میں دیکھی۔ رخصت کا پیام ہوا، سامان سب مہیا ہوا، چلنے کا اہتمام ہوا۔ دم رخصت فرماں روائے چین نے اس قدر مال و اسباب، نقد و جنس، سیم و زر، الماس و گہر اُس رقم خاص کے سوا اور ایسا کچھ دیا کہ چشم ہمت آذر شاہ نے اس سے پہلے نہ دیکھا تھا۔ صدہا غلام زریں کمر، ہزاروں لونڈیاں گل اندام یاسمین پیکر سمن رخ کی خدمت کو دے کر بادیدہ تر وداع کیا۔ اس سانحہ کی خبر شہروں میں جو دور تر تھے، گھر گھر پہنچی۔ غرض کہ روز و شب قطع راہ بسان خورشید و ماہ آذر شاہ نے کی۔ بعد چندے بوئے وطن دماغ میں آئی، فلک نے اپنے شہر کی صورت دکھائی۔ مطلب دلی حاصل ہوا، مع الخیر شہر میں داخل ہوا، در باری سے بازاری تک مسرور دیکھا۔ دل سب کا شاد ہوا، از سر نو اتنا پرانا شہر آباد ہوا۔ جان نثار اور ترقی خواہوں نے اپنے حوصلے سے افزوں جلسےکیے۔
سمن رخ کا حاملہ ہونا، زلالہ کے باعث جنون کا معاملہ ہونا، کمائے حاذق کا بلانا، وحشی کو صحت نہ پانا، شاہ صاحب کا بڑی جستجو سے ہاتھ آنا، ان کی دعا سے اچھا ہو جانا
محرر سحر بیان راقم داستان لکھتا ہے کہ اب آذر شاہ شام و پگاہ امورات سلطنت سے فرصت پا کے نئی محل سرا میں جا کے شام کو بعیش و نشاط سحر کرنے لگا، بڑے لطف سے زیست بسر کرنے لگا۔ ہنوز وہ فصل تمام نہ ہونے پائی کہ شاخِ آرزو پھولی اور ثمر لائی۔ سبک دست قابلہ نے خلوت میں آذر شاہ سے عرض کیا کہ مبارک ہو خوشی کا معاملہ ہے، سمن رخ شاہزادی حاملہ ہے۔ بادشاہ کو انتہا کی مسرت ہوئی، حد سے زیادہ سرور ہوا۔ وہ جو ملک کے انتقال کا بغیر اولاد خیال تھا، دل سے دور ہوا، درِ خزانہ وا ہوا، محتاجوں کا بھلا ہوا۔ فقرا مساکین گوشہ نشین کامیاب ہوئے، ہزارہا کار ثواب ہوئے۔
رفتہ رفتہ یہ خبر وحشت اثر زلالہ جو پہلی بی بی تھی اس کے گوش زد ہوئی۔آتش رشک میں بھن کے منہ کو پیٹ سر کو دھن کے خور و خواب وہ خانہ خراب بھولی، سمن رخ کے مار ڈالنے کی کد ہوئی۔ سوت کو ڈاہ خوانخواہ ہوتی ہے۔ دوسری کو چین سے سونے نہیں دیتی، نہ خود سوتی ہے۔ زندگی اس کو وبال ہوئی، کھانا پانی حرام ہوا۔ سمجھی کہ سلطنت میں اسی کو دخل تام ہوا۔ پہلے تو دائیاں مقرر ہوئیں کہ اسقاط حمل ہو؛ جب ان سے کچھ نہ ہو سکا، ساحروں کی رسائیاں ہوئیں کہ زیست میں خلل ہو۔ فرمائش اول یہ تھی سمن رخ کا خون ہو، بعدہ یہ ٹھہری کہ مر نہ جائے تو جنون ہو۔ آخر کار ایک غدار اس پر آمادہ ہوا۔ عرض کی: خداوند نعمت! غلام یہ کام کرے گا، اس کے خون میں ہاتھ بھرے گا۔
القصہ وہ پیرو شیطان علیہ اللعن اپنے کام میں مصروف ہوا۔ یہاں وہ دن آیا کہ گود بھرنے کی تیاری ہوئی، از سرِ نو دلہن بنایا۔ دفعۃً سمن رخ کلام وحشت ناک کرنے لگی، کپڑے لتے کر ڈالے، گریبان چاک کرنے لگی۔ کسی کو گالیاں دیں، کسی کو مار بیٹھی، مسند جلا دی، فرش خاک پر دیوانہ وار بیٹھی۔ دن کو پوچھا تو رات کہی، کسی کی سمجھ میں نہ آئی جو بات کہی۔ حال بہت زار و زبون ہوا، گھنگور جنون ہوا۔ سامان عیش و نشاط سب درہم برہم ہوگیا۔ عین شادی میں غم ہوا، محل میں برپا ماتم ہوگیا۔ آذر شاہ کو شدت سے رنج و ملال ہوا، بھلا چاہنے والوں کا بُرا حال ہوا۔ حکیم طبیب ملازم غیر ملازم درِ دولت پر حاضر ہوئے۔ رمّال منجم بے بلائے چلے آئے۔ خلقت کا ہجوم ہوا، تمام شہر کو یہ حال معلوم ہوا۔ بادشاہ نے طبیبوں سے فرمایا کہ تم لوگ اسی دن کی خاطر ہزارہا روپیہ کی تنخواہ پاتے ہو، گھر بیٹھے چَین سے کھاتے ہو۔ آج امتحان کا دن ہے۔ بتاؤ تو مرض ہے یا جن ہے۔ بہرکیف اگر اس ہفتے میں ماہ دو ہفتہ کا مزاج اعتدال پر آیا تو سب کو نقد و جنس خلعت و انعام فراخورِ حال دوں گا۔ حوصلہ سے باہر زر و مال دوں گا۔ وگر خدانخواستہ اس کا یہی طور رہے گا تو تم پر ستم و جور رہے گا، ایک ایک کا پیٹ چاک کروں گا، بُری طرح سے ہلاک کروں گا۔ وہ وہ طبیب حاذق تھا کہ انسان تو کیا سر بے مغز آسمان کا سودا کھوتا تھا، مگر کچھ کسی سے نہ ہوتا تھا۔ غرض کہ دوا موقوف ہوئی۔ جھاڑ پھونک کی دعا ہونے لگی۔ صدقہ رد بلا ہے، اس سے اور شدت سوا ہونے لگی۔
ایک شخص سیاح شہر و دیار نیرنگ دیدۂ روزگار ملازمان سرکار میں حاضر تھا۔ بادشاہ کا رنج و ملال دیکھ نہ سکا۔ مقربان بارگاہ سے کہا کہ وہ جو سرزمین اجمیر ہے، وہاں ایک خدا کا شیر ہے۔ اسد علی شاہ، اُس مقبول بارگاہ کا نام ہے۔ ان کا اچھا کرنا اُن کا کام ہے۔ جس عارضے کا مریض وہاں جاتا ہے، اس مسیحا نفس کے ہاتھ سے شفا پاتا ہے۔ پہلے دوا ہے، اس کے بعد تیرِ دعا ہے۔ زہے نصیب جو ایک چلہ اس خدا کے حبیب سے جدا نہ ہو۔ مجھے توپ کے منہ میں توپنا، اگر سمن رخ کو شفا نہ ہو۔ جو کہا وہ ہوگیا۔ دست بستہ حکم و قضا و قدر ہے۔ فرشتہ خصال وہ بشر ہے۔ صدہا کا جنون دور کیا۔ جنون کو پھونکا مارا ہے، ہزارہا پری کوشیشے میں اتارا ہے۔ بھوت پلیت بے پلیتے صورت دیکھ کے بھاگ جاتا ہے۔ شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلاتا ہے۔ جس دم یہ ماجرا آذر شاہ کو معلوم ہوا، فوراً وزیر کو بلایا، فرمایا: اسی دم بسبیل ڈاک اجمیر کو جاؤ۔ جس طرح سے بنے شاہ صاحب کو تلاش کر کے لاؤ۔ یاد رکھنا اگر تم کو دیر لگی، سمن رخ کی جان گئی، ہمارا زندہ رہنا بہت محال ہے،بے اس کے زیست وبال ہے۔
وزیر مطیع فرمان جلوریز منزل مقصد کی طرف گرم خیز ہوا۔ اور ابر و باد سے جلد وہ نیک نہاد اجمیر میں داخل ہوا، مگر شاہ صاحب کا نشان، بود باش کا مکان جنگل سنسان صحرائے بے پایاں میں سُنا، اسی سمت چلا۔ معاذ اللہ! پناہ بخدا! بیابان خوفناک جہاں انسان کا کوسوں پتا نہیں، نام نہیں۔ دشت کا آغاز تو دیکھا، انجام نہیں۔ ہر سمت سے سائیں سائیں کی آواز کان میں آتی تھی۔ کلیجہ ہلتا تھا، ہیبت سے جان نکلی جاتی تھی۔ سخت پریشان، ہر سو نگران۔ گھبراتا تھا، پاس نمک یہاں تک تھا، اس پر تلاش میں چلا جاتا تھا۔ بعد خرابی بسیار معائنہ گل و خار بر سر چشمۂ آب اس مضطر و بے تاب کا گذر ہوا۔ چند درخت گنجان، پھول پھل جدا جدا، شاخیں باہم چسپاں اسی میں نے کا جھوپڑا، نئے ڈھنگ کا مکان، دیوار نہ در، وحشت کا گھر، چھت اد چھت غائب، فقط دالان کا نقشہ، کوٹھریاں ڈہی مگر بڑی شوکت و شان کا نقشہ، ایک دو تین گز کا چوترہ، چار پانچ پُرانے بانس کا چھپر جھکا پڑا
پانچ بتی کا کہنہ سا چھپر
ساتھ سایہ کے دھوپ آٹھ پہر
پھٹا پرانا سا بوریا بچھا، اس پر ایک بزرگ سر بزانو اکڑو بیٹھا۔ وزیر دیکھ کر تھرانےلگا، خوف سے دل ہل گیا، کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ چہرہ مثل بدر تاباں تھا، مگر ریاضت شاقہ سے جسم کا ہیدہ بمرتبہ کمال، چہرا استخوان بست و نہم کا ہلال، گوشت کا نام نہیں فقط کھال۔ سفید ڈاڑھی ناف تک نظر آئی، کپڑےکی قسم سے لنگی پائی۔ یہ رعب و جلال چند مشت استخوان پر، عنایت ذو الجلال اس نحیف و ناتوان پر۔ دل سے کہا یہ ہیبتِ حق ہے جو میرے پاؤں نہیں جمتے۔ اس کوچے میں لڑکھڑاتے ہیں۔ سب آثار عظمت اور بزرگی کے نظر آتے ہیں۔ بہت جھکا ادب سے، سلام کیا۔ چندے سکوت رہا، پھر کلام کیا کہ یہ محتاج دور سے حاجت لایا ہے۔ بادشاہ ہمارا مضطر ہے، دین و دنیا سے بے خبر ہے۔ اس نے بصد عجز و منت آپ کو بلایا ہے۔ فقیر نے مسکرا کر جواب دیا کہ بادشاہ خود حاجت روا ہے۔ اس کو فقیر کی کیا پروا ہے۔ اور بابا سنو! جس دن سے دنیائے دون کی بے ثباتی نظر آئی، اس ہرجائی قحبہ کو بے وفا سمجھ کے چھوڑا۔ اہل دنیا اس کے مبتلا ہیں، نام پر فدا ہیں۔ ان سے نہ بنی۔ بگڑ کر منہ موڑا۔ اس دن سے شاہ و گدا اپنی نظر میں ایک ہیں، مساوی بد و نیک ہیں۔ خواہش مٹا دی۔ غرض الغرض اٹھا دی، بستی چھوڑی، ویرانہ پسند آیا۔ اینٹ کا گھر مٹی کرکے کا کاشانہ پسند آیا۔نہ کچھ پاس ہونے کی شادی، نہ نہ ہونے کا غم ہے، دونوں حال میں ایک سا عالم ہے
ہے یہ تقریر عارفان الست
غمِ نیست ہو نہ شادیِ ہست
وزیر نے عرض کی: پیر و مرشد! بے چراغ خانۂ سلطان ہوتا ہے۔ بنا کھیل بگڑتا ہے، بسا ہواگھر ویران ہوتا ہے۔ خلق خدا کو اس کی ذات سے راحت ملتی ہے، سب کا بھلا ہوتا ہے۔ مقام غور ہے ایسے شخص کا مٹ جانا بُرا ہوتا ہے۔ یہ کہہ کے سب داستان آذر شاہ کی کیفیت بیاہ کی، سمن رخ کا حاملہ ہو کے مجنون ہونا، اس لیلی شمائل کے اندوہ میں بادشاہ کا ناحق خون ہونا مشرح بیان کیا۔ سچی بات اثر رکھتی ہے۔ شاہ صاحب کو یہ ماجرا سن کے تاسف ہوا، فرمایا: اے وزیر! یہ تیرے بادشاہ کی خوبی تقدیر ہے، جو مجھ کو رنج ہوا۔ اب بھی جو کسی کی ایسی حاجت گوش زد ہوتی ہے تو خوف خدا سے اس کی کار برآری کی کد ہوتی ہے۔ مرشد کا شعر یاد آ جاتا ہے، پڑھ کر فقیر گھبراتا ہے
کبھی حوالۂ حرماں کسی کی آس نہ ہو | عدو کا بھی جو عدو ہوا سیر یاس نہ ہو |
ورنہ بادشاہ کی ملاقات کی خواہش ہے، نہ محتاج کی صحبت سے بیزاری ہے۔ الّا اس کے اضطرار سے خوف عتاب جناب باری ہے۔ بسم اللہ تم برسرِ ڈاک روانہ ہو۔ فقیر منزل و مقام دیکھتا آتا ہے۔ منزل رساں کی قدرت دیکھنا کون جلد پہنچ جاتا ہے۔ وہاں تو ساز و سامان شاہانہ تھا، وزیر بادشاہوں کا جانا آنا تھا اور یہاں فقیر کا کارخانہ تھا۔ خیمہ نہ ڈیرا نہ کہیں ٹھہر جانا، نہ بسیرا تھا۔ ایسے کے ساتھ کب ہوا پہنچے جو ادھر قصد کرے اُدھر جا پہنچے۔
غرض کہ وزیر منزل اول میں تھکے۔ شاہ صاحب ایک جست میں برجستہ شہر میں داخل ہوئے۔ آذر شاہ سے ملاقات ہو گئی، یہ بات پہلے کرامات ہو گئی۔ سمن رخ کو دیکھا، حال سنا، بادشاہ کو تسلی دی۔ کہا: اللہ کو یاد کرو، دلِ غم رسیدہ شاد کرو ۔ وہ شافیِ مطلق ہے، دفعِ بلا کرے گا۔ فقیر بہ دل دعا کرے گا۔ ایک ہفتہ تامل کیجیے۔ عروج ماہ میں پانچویں تاریخ پنجشنبہ ہوگا۔ اس دن سے فقیر بدرگاہ رب قدیر دست دعا بلند کرے گا۔ اگر مالک میری گریہ و زاری، تمھاری بے قراری پسند کرے تو مطلب مل جائے، سمن رخ اس بلا سے نجات پائے
دم عیسےٰ کے برابر ہے دمِ درویشاں
باعثِ رد بلا ہے قدمِ درویشاں
اور آج کے دن سے مقرر یہ بات کیجیے کہ تا شفا اس مریض کے روز خیرات کیجیے۔
فوراً صدہا من کی پخت مقرر ہوئی۔ غریب غربا محتاج مع زر نقد پانے لگے، پیٹ بھر کے کھانے لگے۔ تیرِ دعا سپر چرخ تک پہنچانے لگے۔ اور بروز معہودہ عبد برگزیدۂ معبود ایک مکان پاک صاف آراستہ کر کے چلے میں بیٹھا، وہیں گوشہ میں شاہزادی کو جا دی۔ مرید ان کا اعجاز شاہ ہمراہ تھا۔ اس سے فرمایا: میاں! تا ظہور اثر دعا کچھ باتیں دلچسپ کر کے تم تو شاہ زادی کا دل بہلاؤ، فقیر ہمہ تن صرف دعا ہوتا ہے۔ دیکھو یہ رات حرف و حکایات میں کیسی کٹتی ہے۔ دم سحر یہ سحر کا کارخانہ کیا ہوتا ہے۔ یہ کلمہ زبان پر لا وہ بندۂ خدا حجرے میں جا عجز و انکسار سے مصروف مناجات بدرگاہ بر آرندۂ حاجات خشوع و خصوع رجوع قلب سے بصد گریہ و زاری ہوا۔ مرید زبردست مرشد پرست سحر بیانی تقریر زبانی سے متوجہ دلداری آمادۂ غمخواری ہوا۔ کہا: شاہزادی! فقیر کو عالم سیاحی دشت نوردی جہاں گردی میں عجیب و غریب حادثے پیش آئے۔ فلک شعبدہ باز عربدہ ساز کہن نے نئے نئے سانحے دکھائے۔ اگرچہ طول طویل داستان ہے، لیکن قابل تقریر وہ بیان ہے۔ بگوش دل متوجہ ہو کے اگر سنیے، غالب ہے ملال خاطر دور ہو، طبیعت مسرور ہو۔ وہاں شاہ صاحب اسم باری کئی باری پڑھ چکے تھے۔ اثر کی کیفیت جو حاضر تھے ان کے قیاس میں آ گئی کہ شاہزادی از خود رفتہ وحشت زدہ تھی یا فوراً حواس میں آ گئی۔ جواب دیا: بہت خوب، کچھ فرمائیے۔ حکایت دلچسپ اگر یاد ہو، امداد ہو، سُنائیے۔
تقریر دلپذیر اعجاز شاہ کی حکایت بیان کرنی جہاں آرا شاہزادہ اور مہر جمال پری زاد کی، سمن رخ کا سنبھل جانا، خود رفتگی سے ہوش میں آنا
اعجاز شاہ نے کہا: اے ملکہ! سرزمین ایران یعنی خراسان میں ایک شاہزادہ تھا، مہر پیکر ماہ آسا، شاہزادۂ جہاں آرا اس کا نام تھا۔ سرو قامت، لالہ رخسار، عنبریں مو، سنبلیں گیسو؛ اس کے حسن کا شہرہ روم سے تا شام تھا۔ جس دم تخت سلطنت پر جلوس فرماتا تھا، نزدیک و دور سے ہزار ہا بندۂ خدا اس صنم کے دیکھنے کو آتا تھا۔ جوان رعنا، چاند کا ٹکڑا، خلق مروت ہمت شجاعت میں لاثانی، اس زمانے میں وہ آفت کا بانی اپنا عدیل و نظیر نہ رکھتا تھا۔ دوسری تصویر مرقع دہر میں فلک پیٖر نہ رکھتا تھا۔ رعایا کا دل عدل و داد سے شاد تھا۔ ملک زر ریز بہت آباد تھا۔ لیکن طبیعت کو میل سیر و شکار، دیکھنا عجائبات روزگار کا ہر دم مدِ نظر رہتا تھا۔ آٹھوں پہر تیار سامان سفر رہتا تھا۔ ایک روز بعزم شکار و صید نخچیر وہ بہرام گورگیر ہمراہیوں سے جدا یکہ و تنہا جنگل میں نکل گیا۔ جس دم خسرو خاور تمنائے جمال میں اس ہزبر خصال کی نصف منزل فلک طے کر چکا، حرارت کی تیزی سے دوپہر کی جلو ریزی سے شہزادے کو بھوک پیاس کا غلبہ ہوا۔ ساتھ والوں کے چُھٹ جانے کا مطلق خیال نہ رہا، شکار کے نہ پانے کا ملال نہ رہا۔ جس طرف سے پانی کا گمان ہوتا، ادھر باگ اٹھاتا۔ جہاں درخت سایہ دار گنجان کا شبہ پڑتا، سیدھا چلا جاتا۔ اسی دوڑ دھوپ میں صحرائے پربہار دشتِ لالہ زار میں اس کا گذار ہوا۔ ہر سو متحیر نگران، بے دانہ و آب خستہ خراب پریشان تو تھا۔ باغ کا قطعہ دور سے جو نظر آیا۔ اسپ صبا خصال رشک غزال کو اس طرف بڑھایا۔ قریب تر جب آیا تو قدرت صانع حقیقی کا جلوہ تقدیر نے دکھایا یعنی دیوار میں ایک اینٹ نقرئی دوسری طلائی ہے۔ جوڑ نہیں معلوم ہوتا اس حُسن سے ملائی ہے۔ آفتاب کے عکس سے برعکس غبار ہوتا ہے، اس قدر صفائی ہے۔ چاروں کونوں پر یاقوت کے بنگلے خورشید سے زیادہ چمکتے ہیں، الماس کے کلس نظر کو خیرہ کرتے ہیں، اس طرح دمکتے ہیں۔ اتنے بڑے آسمان پر ایک آفتاب اس باغ میں چار ہیں۔ عقل باریک بیں گم ہوتی ہے جیسے نقش و نگار ہیں۔ دروازہ رشک باب فردوس، عرض طولِ کئی کوس، یاقوت کی چوکھٹ، بازو زمرد کے پٹ، بلند اس قدر کہ ہاتھی مع عماری نکل جائے۔ شاہ شہریار کی سواری نکل جائے۔ مثل آغوش پر تمنا وا دروازے کا پٹ کُھلا ہوا۔ یہ تو مسافت دراز طے کر کے آیا تھا، حرارت سے گل رخسار مرجھایا تھا۔ وہاں حاجب نہ دربان پایا، سناٹے کا عالم سنسان پایا۔ بے دغدغہ اندر در آیا۔ بمجرد نگاہ حیرت نے نقشۂ تصویر بنایا۔ دیوار کے تلے نہر جاری تھی۔ اس کے متصل انگور کی تاک تھی، ہر شجر کی اسی پر تاک تھی۔ جواہر نگار ستون کھپانچ کے بدلے سنہری روپہلی تیلیاں، خاتم بندی کا کام، خوشوں پر زربفت کی تھیلیاں؛ مستانہ وار ہر ایک جھومتا تھا، ولولے میں آ کر خوشی کو خوشہ چومتا تھا۔ چمن کی روش پٹری خوش قطع، ڈالی ہر درخت کی ہموار کم و بیش چھانٹ ڈالی تھی، نئی روش نکالی تھی۔ نہروں کے گرد پٹریاں بلور کی قریب ہری ہری گھانس زمرد کو شرماتی تھی۔ نہروں میں فوارے چڑھے، بلبل کی روح بلبلا کے درود پڑھے۔ پانی کی شفافی پر جان لہراتی تھی۔ جو گل تھا متصل اس کے بلبلوں کا غنچہ دیکھا۔ نغمہ سنجی زمزمہ سرائی کی صدا تھی۔ خوشبو سے دشت مہکتا تھا۔ مسافر وہم و خیال کا ہر قدم پاؤں بہکتا تھا۔ عنبر فشاں نسیم و صبا تھی۔ مہتمم فضا تھی۔ ہر تختۂ چمن غیرت دہِ صد گلشن، جو پھول پھل تھا اس پر ہزار طرح کا جوبن، سب فصلوں کا میوہ تیار تھا۔ بہار نثار خزان کو سخت خار تھا
صد ہزاراں گُلی شگفتہ درد
سبزہ بیدار آب خفتہ درد
ہر گُلی گونہ گونہ از رنگی
بوی ہر گل رسیدہ فرسنگی
رنگتروں کا تختہ جائے غور تھا، کچھ عالم ہی اور تھا۔ سبز سبز پتے سرخ سرخ پھل، پائے ہوس لنگ دستِ تمنا شل، جان بیکل ہوتی تھی۔ بہی بے ضرر، سیب معطر، ناشپاتی کا جوبن جدا، ذائقہ زبان چاٹتا۔ انار دانہ دار کہیں بے دانہ نادر روزگار یادگار زمانہ۔ امرود حلوائے بے دود، شریفے سے شریف تر میوہ نظر نہ آیا۔ میٹھا بہت شیریں چکوترا بصد تزئین، شربتی فالسے نے عجب چاشنی کا مزا پایا تھا۔ چکیّا آڑو کی قطار جدا، ایک سمت شفتالو کا پرا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو کبھی خواب میں نہ دیکھا تھا، وہ فلک نے بیداری میں دکھایا۔ اگر قوت نامیہ اُس زمین کی تحریر کروں، عجب نہیں جو چوب خشک خامہ یعنی نے قلم بے قلم برگ نکالے، ثمر آبدار لائے، صفحہ قرطاس تختہ گلشن ہو۔ خط شکستہ میں نستعلیقوں کے روبرو گلزار کا جوبن ہو۔ بین السطور سے دور سے نہر کی لہر آئے، صریرِ خامہ صفیر بلبل ہو۔ مسطر کا تار دام کا کام کرے۔ عندلیب کی عقل کا چراغ گل ہو۔ نکتہ چین بدبیں کمبخت کو خار ہو۔ تبِ رشک سے تبخالے ہوں، زبان پھل کر بیکار ہو۔ روشنائی سے حاسد اپنا منہ سیب ذقن تک کالا کرے۔ دانت کھٹے ہو جائیں، بار دگر کسی کا عیب نہ نکالا کرے۔ غرض کہ چمن کے تختوں میں نہال پر ثمر، بار دار شاخ سے شاخ مشتاقوں کی طرح پیچاں دست و گریباں، چینی کی ناندیں یا بلور کی نور کی طلائی کار روشوں پر برابر برابر ان میں درخت گلدار بیلا، موتیا، نسرین و نسترن، جوہی، شب بو، چنبیلی، نرگس، یاسمن۔ کسی جا لالے کے پیالے یاقوت رنگ افیون سے لبریز، کسی طرف نیبو نارنگی کھٹے کی میٹھی میٹھی بو باس تیز، کہیں سنبل بازلف پریشان ایک جاسوس سو زبان باغبان قدرت کا مدح خواں، ہر تختے میں باد بہاری مستانہ وار لڑکھڑاتی، پھولوں کے پھولنے پر پتوں کو کھڑ کھڑاتی
نہریں تھیں لطیف مثل کوثر
لہریں تھیں تمام سلک گوہر
پانی تھا اثر میں آب حیواں
نظارہ تھا جس کا مایۂ جاں
فواروں میں ساون بھادوں کی جھڑی کا مزا، بط و قاز قراقری کے خرام میں کبک دری کا مزا۔ کویل کوکتی پپیہے سے پی پی کی صدا، طاؤسان رقاص کا جا بجا جھمکڑا، برسات کی آمد، گرمی کی فصل کا اختتام، جابجا چشمہائے سرد و شیریں لہراتے، زمین پر فرش زمرد فام
ہر نخل کی شان جیسے طوبا
سبزے سے تھا دشت چرخ خضرا
سروِ شمشاد پر قمری اور فاختہ کی فریاد تھی، بلبل کی زبان پر گل کی شکایت حد سے زیاد تھی
سنبل میں تھا طرز ذو ذوانب
شبنم میں تھا جلوۂ کواکب
مانند شفق وہ پھول رنگین
تھا رشک نجوم لطف نسرین
کنویں پختہ جن کی چاہ میں باؤلی دیوانی ہو جائے۔ پٹریاں ایسی تحفہ کہ انگور کی تاک جو ان کو جھانک لے تو شرمائے۔ رنڈیاں جوان جوان، باغبانیوں کی سامان، زربفت کے لہنگے، دھوتی کے انداز پر کُھسے، شبنم کے دوپٹے ان پری پیکروں کے جن میں لچکا ٹکا کرن لگی، اس کی گاتی سورج کے کرن سے زیادہ جگمگاتی، بُنت گوکھرو کی، انگیا کھچی، طرح دار کچوں کا اُبھار، جواہر نگار ہاتھوں میں کڑے سونے کی چھڑے، پاؤں میں پڑے چاندی کے بیلچے، کندھوں پر کُھرپیاں، طلائی ہاتھوں میں دلفریبی کی گھاتوں میں نسیم صحن چمن سے تو بے تکلف عطر سُہاگ کی لپٹ آتی تھی۔ لیکن اُس گلزار کی خاک بھی عود و عنبر کی بو باس کو شرماتی تھی۔
شاہزادہ دل میں سوچا کہ یہ کسی سلطان عالیشان کا باغ ہے۔ نشست کا مکان ہے۔ لیکن رنڈیوں کے بند و بست سے ثابت ہوتا ہے کہ زنانہ سامان ہے۔ پہلے تو سُچکا پھر تو جرات ذاتی نے کہا چلو دیکھو تو فلک کیا دکھاتا ہے، ایسا باغ بشر کے دیکھنے میں روز کب آتا ہے۔ یہ سوچ کر بے باکانہ باغ میں باخاطر فراغ سیر کرنے لگا۔ دفعۃً لب نہر ایک بنگلہ دیکھا کہ آنکھیں جھپک گئیں۔ جل جلالہ صانع نادرنگار کی صنعت کا جلوہ ہر بار پیش نظر جَگر جَگر کرتا تھا۔ رعب ایسا تھا، ہر قدم پاؤں اُس کا لڑکھڑاتا تھا بڑھنے کا قصد اگر کرتا تھا۔ آخر کار یہ بھی تو شاہزادہ عالی تبار تھا، گو دشت صعوبت میں غریب دیار تھا؛ قریب پہنچا۔ اس وقت فلک شعبدہ پرداز نے طلسم حیرت افزا کا نقشہ دکھایا۔ جابجا پری زادوں کا غنچہ نظر آیا۔ کچھ تو سکوت کے عالم میں نقش دیوار پائیں، تھوڑی سرگرم کاروبار پائیں۔ ان کو کام خدمت میں مصروف پا کے دل سے کہا: مقام غور ہے یہ سب کے سب خدمت گزار فرمانبردار ہیں، مالک ان کا کوکئی اور ہے۔ اور یقین کامل ہوا کہ یہ عقل کے خلاف ساز و سامان ہے۔ انسان کا حوصلہ یہ کہاں، خطۂ پرستان قوم بنی جان ہے۔ ان کو یہ خیال تھا، وہاں پری زادوں کا عجب حال تھا۔ جو جو وہاں موجود تھیں، کام کاج یک لخت بھول گئیں، شاہزادہ کا جمال بے مثال جو نظر پڑا سکتہ سا ہوگیا۔ ہوش حواس پاس نہ رہا، کھو گیا۔ اچھی صورت کا ہونا عجب چیز ہوتا ہے۔ آقا تو آقا ہے، بندہ کے نزدیک غلام بھی عزیز ہوتا ہے بلکہ غیر جنس کو تمنا ہو جاتی ہے۔ صاحب نصیبوں کے سوا کس کو یہ دولت ہاتھ آتی ہے۔ ان کو تو جلوۂ حسن نے تصویر کا پتلا بنایا۔ کسی نے کچھ نہ پوچھا کہ تم کون ہو کہاں سے آئے ہو۔ شاہزادہ نے ہاتھ بڑھا کر در سے پردہ اٹھایا۔ دفعۃً غفلت کے پردے آنکھوں پر پڑ گئے۔ قدم اٹھانا محال ہوا۔ عجیب حال ہوا۔ زمین میں پاؤں گڑ گئے۔ ایک آفت آسمانی، بلائے ناگہانی کو بصد انداز مسند ناز پر جلوہ گر پایا، وہ جو چند سیم بر اس کے ادھر ادھر جلوہ گر تھیں سب نے کون ہو کہاں چلے آئے، اس کا غل مچایا۔ شہزادہ تو حیرت کا مبتلا وحشی سا تازہ پھنسا ہر طرف دیکھ رہا تھا کہ شاہزادی نے اس کی صورت پر نگاہ کی۔ ایک نے کلیجہ پکڑ لیا، دوسرے نے بے ساختہ آہ کی۔ محبت کے معاملے تقریر اور تحریر سے باہر ہیں۔ دلفگار دو چار اس کیفیت سے ماہر ہیں۔ نہ مشاطہ کی حاجت ہوتی ہے، نہ قاصد کی لجاجت ہوتی ہے۔ نہ دخل نامہ و پیام ہوتا ہے، خالی ایک نظر دونوں کو لگ جاتی ہے۔ گردش چشم میں کام تمام ہوتا ہے۔ کبھی خواب میں دیکھ کے خیال ہوتا ہے۔ بے وصل وصال کا ڈول پڑتا ہے۔ دو دن کا جینا محال ہوتا ہے۔ کبھی تصویر دیکھ کے بت ہو جاتا ہے۔ عجب رنگ ہوتا ہے، نصیحت سے دل تنگ ہوتا ہے۔ سودے کے زور میں نشتر کوئی کھائے، لہو اور کے ہاتھ سے نکل آئے۔ عیاذاً باللہ ایک کو محمود ہوا تو لاکھ کا ضرر بے سود ہوا۔ جب تک داغ دل و جگر آلے رہتے ہیں، جینے کے لالے رہتے ہیں۔ یہاں تک خام ہے یعنی کچاہے بالکل جھوٹا ہے گو سچاہے۔ جس دم زخم ہو کہ ناسور ہوا، وہ بہادر سور ہوا۔ کچھ اور ہی لذت اس کی زبان پر آئی اور یہ کیفیت دکھائی کہ عین جنون میں صاحب حواس و ہوش ہوا۔ سوسن کی صورت ہزار زبان بہم پہنچی الاخموش ہوا، اور جو ولولے میں بیٹھے بیٹھے کچھ بول اٹھا، بند منہ کو کھول اٹھا تو محکمے میں گنہگار ہوا۔ محتاج ہوا یا سردار مگر برسرِدار ہوا۔ بال کی کھال اس میں کھنچتی ہے، جان کسی عنوان نہیں بچتی ہے۔ بڑے بڑے حوصلے والوں کی صریح بائی پچتی ہے۔
القصہ شاہزادہ نے لڑکھڑا کر قدم سنبھالا، غشی اور بے ہوشی کو بڑی ہشیاری سے ٹالا۔ ادھر وہ بھی سیدھی نہ رہ سکی، گردن خم ہو گئی۔ اجنبی کا بہانہ کر کے برہم ہو گئی۔ پری زاد نے دل و جگر کو تھام زبان سے کام لیا، کہا: بسم اللہ تشریف لائیے۔ خانہ خانۂ شماست، عنایت فرمائیے۔ شاہزادہ بے تکلف مسند پر جا کے تکیہ لگا کے اس گلرو کا ہم پہلو ہوا۔ بیٹھتے ہی ایک ساعت تک دونوں کو سکتے کا عالم رہا۔ نہ پری زاد صحیح نہ شاہزادہ سالم رہا۔ صاحب خانہ نے دیکھا، مہمان بولتا نہیں، لب کھولتا نہیں، مجبور ہو کے سلسلۂ کلام اسی سیم اندام نے شروع کیاکہ اپنے شہر کا نام، بود و باش کا مقام بتائیے، کچھ حسب و نسب سے آگاہ فرمائیے۔ شہزادہ نے جواب دیا: سرزمین ایران بیت السلطنت خراسان، سیر و شکار کی خواہش میں ہمراہیوں سے جدا ہو کے غریب دیار ہوا۔ ایسا شیر افگن غزال رعنا کا شکار ہوا۔ یہ سن کے اس نے جلیسوں سے فرمایا کہ یہ آوارۂ دیار کلبۂ تیرہ میں جلوہ گر ہے، مسافر نوازی مدنظر ہے۔ چند پری پیکر اٹھ کر آداب بجا لائیں، طرفۃ العین میں کشتیاں شراب ناب کی، قابیں کباب کی روبرو آئیں۔ اس کی وزیر زادی تھی سحر ساز نام، بصد ناز و انداز وہ گلفام اٹھی، ساقی بنی، کنٹر ہاتھ میں لیا، گیلاس کو بہت آب و تاب سے شراب ناب سے لبریز کر کے پری زاد سے کہنے لگی کہ یہ سیاح بے نام نشان خانہ بے تکلف میں مہمان ہے۔ فرمانروائی کو تہ کیجیے، یہ ساغر لیجیے، اپنے ہاتھ سے پلائیے۔ اور یہ شعر پڑھا
لبریز ہو چکا ہے یہ ساغر شراب کا
دورہ ہو جلد ڈر ہے مجھے انقلاب کا
پری زاد بولی ہم سمجھ گئے۔ یہ مسافر مد نظر ہوا۔ تمھارا میلان خاطر ادھر ہوا۔ بے فائدہ شرماتی ہو، تمھیں کیوں نہیں پلاتی ہو۔ وزیر زادی نے عرض کی: حضور اس وقت بدحواس ہیں۔ آپ میں کہاں ہیں اور ہم تو لڑکپن سے مزاج دان ہیں۔ تقریر میں طول ہوگا، اس سے کیا حصول ہوگا۔ فلک جفا سرشت تفرقہ پرداز ہے، مشہور شعبدہ باز ہے ؏
کسی کا اسے وصل بھاتا نہیں
دم غنیمت صحبتِ احباب ہے
آج جو ہے کل خیال و خواب ہے
پری زاد نے کہا: خیر تیری خاطر ہے، میاں مسافر! یہ جام حاضر ہے۔ بے کھٹکے نوش فرمائیے، وسوسے کا خیال نہ لائیے۔ باغ کو کفش خانہ سمجھیے، یہ صحبت اتفاق زمانہ سمجھیے۔ شہزادہ نے بصد تمنا اس کے ہاتھ سے جام لیا، پی کے پھر اپنے ہاتھ سے بھرا اور پری زاد کو دیا۔ علی التواتر پے در پے جام مے چلنے لگے۔ ہوش حواس کے پر جلنے لگے۔ جس وقت آنکھوں میں سرور ہوا، چشمکیں شروع ہوئیں، نشہ کافور ہوا۔ ہاتھا پائی کی نوبت آئی۔طرفین سے ولولوں کا جوش ہوا۔ چھڑ چھاڑ کر کے دفعۃً ہم آغوش ہوا
چو خانہ خالی و معشوق مست ناز بود
توان گریست بر آں کس کہ پاکباز بود
ہم صحبتیں شرمائیں، یہ کلمہ زبان پر لائیں کہ تم نے دیکھا یہ مردوا کتنا جلد باز ہے۔ کسی نے کہا شباب کا آغاز ہے، یہ سِن بُرا ہوتا ہے۔ مرد و رنڈی میں اور کیا ہوتا ہے، جوانی دیوانی ہوتی ہے، جہلو تو کیوں کھسیانی ہوتی ہے۔ کوئی بولی یہ تو مزے اڑائے گا، اگر حال کُھلا تو چونڈا کس کا مونڈا جائے گا۔ یہ تو اُوہی اُوہی کہہ کے اٹھ بھاگیں، اپنے اپنے موقع پر جا لاگیں۔ جب کوئی پاس نہ رہا، دغدغہ مٹ گیا، ہراس نہ رہا۔ بوس و کنار درکنار مساس ہونے لگا۔ مزے میں آئے، نشہ نے پینگ بڑھائے۔ گنج مقفل بے پاسبان نظر آیا۔ مار خفتہ نے سر اٹھایا۔ چاہا تھا کہ ازار بند کھولے، دُرج توڑے۔ پری زاد نے سنبھل کر ہاتھ جوڑے، کہا: سراسر ہوا و ہوس کا پابند انسان ہے، جلد بازی کار شیطان ہے۔ اس میں تیرا ضرر ہے، جان کا خوف و خطر ہے۔ تو خلقتِ بشر فردِ انسان، میں پری قوم بنی جان، سن تمیز سے میں نے مرد کا انکار کیا تھا۔ جنگل میں باغ بنا کے رہنا اختیار کیا تھا۔ اس پر فلک ستمگار نے یہ گل کھلایا۔ تجھ کو شکار کے حیلہ میں یہاں پہنچایا۔ مجھ کو ہم صحبتوں کی آنکھ میں ذلیل و خوار کیا، تیرے دام محبت میں گرفتار کیا۔ ننگ و ناموس کا مطلق پاس نہ رہا۔ قوم کیسی، ماں باپ کا خوف و ہراس نہ رہا۔ دو گھڑی میں یہ نوبت بہم پہنچی کہ بے تکلف ہو گئے۔ خواہش بیجا کو کام نہ فرما، اسی پر اکتفا کر جا، ورنہ یہ صحبت خواب و خیال ہو جائے گی۔ درِ باغ تک آنے کی بار نہ آئے گی۔ اگر بات بڑھ گئی تو خانۂ سلطنت لاوارث بے چراغ ہو جائے گا۔ تیرے ماں باپ کے دل پر تازہ داغ ہو جائے گا۔ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس قامت رعنا کا کسی اور ہیئت میں انقلاب ہوگا، دربدر شکل جانور خراب ہوگا۔ میں پنبہ دہان سحر زبان ہوں، موافق کی دوست منافق کی دشمن جاں ہوں۔ اتنی گرم جوشی کو بہت مغتنم جان لے، اپنی جوانی پر رحم کر میری بات مان لے۔ کچھ دن یہاں قیام کر، موقوف خیال خام کر۔ پری زاد کی طرف سے جب یہ روکھا جواب ہوا، شہزادہ سُچک کر بر سر حساب ہو۔ ایک دم چُپ ہو رہا۔ مگر جسم سے جسم ملا تھا۔ پھر وہی ہنگامہ شروع ہوا۔ سچ ہے شباب میں بشر کو کچھ سوجھتا نہیں۔ ہر چند سمجھاؤ، پہیلی بوجھتا نہیں۔ پری زاد نے جو غور کیا کہ اس سمجھانے پر پھر اس نے وہی طور کیا، جھلا کے کچھ بُڑبڑائی، کہا: او خیرہ سر بن جا کبوتر۔ اس بات کا منہ سے باہر آنا، فوراً وہ جوان زمین پر تڑپ کے بے قرار ہوا۔ فلک نے یہ گل کھلایا، کبوتر تو بن گیا مگر نگار ہوا۔ برسر عداوت چرخ شعبدہ باز ہوا۔ مجبور خوف زدہ وہاں سے سر گرم پرواز ہوا۔
آوارہ ہونا باغ سے با دِل پُر داغ شاہزادہ کا کبوتر بن کے اور باز کے پنجے سے چاہ کی بدولت کنویں میں گرنا، ساحروں کا آدمی بنانا، کنویں سے نکل کے پھر باغ میں جانا، پری زاد کا ہرن بنانا
مورخانِ تاریخ دان حال اس نوجوان کا یہ لکھتے ہیں کہ شاہزادہ کبوتر جب بنا تو اُس باغ سے اڑا، راہ میں کبھی شکایت بختِ نارسا،گاہ آسمان کا گِلا دل میں آتا تھا۔ الّا خاموش اُس صحرائے قیامت میں اڑا جاتا تھا۔ دو روز خراب خستہ وہ بے بال پر شکستہ بتلاش آب و دانہ، گم کردہ آشیانہ تباہ رہا۔ تیسرے دن جس دم مرغ زریں بال بصد شوکت و جلال قفس مشرق سے نکل کر سبزہ زار فلک پر جلوہ گر ہوا، صحرائے بے خار سراپا بہار میں کبوتر کا گذر ہوا۔ اس نے خیال کیا کہ تیسرا دن ہے حرام تک حلال ہے، بھوک کی شدت سے غیر حال ہے۔ اگر کہیں دانہ پانی میسر ہو تو جان بچ جائے، موت سے مفر ہو۔ دفعۃً پانی کا چشمہ نظر آیا، یہ اس جگہ ٹھہرا، دم لیا۔ پانی ڈگڈکا کے پیا۔ ابھی اس احمق نے دانہ زمین سے نہ اٹھایا تھا، پانی کے سوا کچھ نہ کھایا تھا، فلک کو اس جفا پر قرار نہ آیا، موت کا سامان دکھایا، کسی شہر کا تاجدار بہ ہوائے سیر تمنائے شکار گھوڑا اڑائے فوج لشکر سے جدا یکہ و تنہا باز تیز پرواز ہاتھ پر بٹھائے سامنے سے چلا آتاتھا۔ اس کی روح دیکھتے ہی قالب سے نکل گئی۔ سکتہ سا ہوگیا۔ حس و حرکت کی طاقت نہ رہی۔ جس دم قریب تر اس کے سر پر پہنچا، یہ بے پر مجبور بخوف جان با خاطرِ پریشان اڑا۔ بادشاہ نے شکار جو مد نظر کیا۔ باز کو سر کیا، ہر چند اس نے ڈر کے مارے بہت تیز کندوں کو جوڑا، باز اس کی گرفتاری سے باز نہ رہا، پیچھا نہ چھوڑا۔ یہ لیاوہ لیاایسا تعاقب کیا۔ آخرکار کنویں کی جگت پر کبوتر کو دبوچا۔ باہم کشمکش ہونے لگی، خوب نوچا۔ یہ تو انسان گو بظاہر کبوتر کا عالم تھا، وہ جانور زور اور طاقت میں بہت کم تھا۔ جب تک بادشاہ اس کے قریب آئے، یہ اس کے پنچے سے چُھٹ کر کنویں میں گر پڑا۔ باز نے تو باؤلی پائی تھی، سونے کی چڑیا ہاتھ آئی تھی، جگت پر بیٹھ رہا۔ بادشاہ نے طعمہ دکھا باز کو ہاتھ پر بلایا۔ صید کو جو ڈھونڈھا، کہیں نہ پایا۔ وہ تو پھر جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ کبوتر کا اسی چاہ میں آشیانہ ہوا۔ جان کے خوف سے تا شام وہ ناکام باہر نہ آیا۔ وہ دن میں بھی فاقہ میں گنوایا۔ دمِ سحر جب یوسف چرخ چارم چاہ مشرق سے نکلا، دو ساحر بوضع مسافر اسی کنویں کے اوپر آئے۔ پانی کی چاہ کی، کنویں کے اندر نگاہ کی۔ دونوں نے دیکھا کہ ایک کبوتر لہو میں تر پانی کے قریب پتھر پر بیٹھا ہے۔ ایک بولا: یہ عجب طرح کا کبوتر ہے، کتنا پریشان ہے۔ دوسرا رسی اور ڈول اٹھا جلدی سے بول اٹھا کہ یہ جانور نہیں مبتلائے سحر انسان ہے۔ پھر رسی میں لکڑی باندھ کے کنویں میں لٹکائی، کہا اگر تو بشر ہے اس پر بیٹھ کر باہر آ۔ ہم تیرے درد کا درماں کریں گے۔ پھر تجھ کو انسان کریں گے۔ یہ کلمہ سن کے فی الفور ڈانواں ڈول لکڑی پر بیٹھ گیا۔ انھوں نے کھینچ لیا۔ کبوتر نے باہر نکل کے عجز سے سر کو جھکایا۔ ساحروں کو خوف خدا آیا۔ بڑی مشقت اور جانکاہی سے اس ہیئت واہی سے اصلی صورت پر لائے۔ سرگذشت جو اس کی پوچھی، اس نے کیفیت باغ کے جانے کی، پری زاد پر طبیعت آنے کی ابتدا سے انتہا تک بیان کی۔ ساحر کہنے لگے اب ایسی حرکت بیجا زینہار نہ کرنا، دہن اژدر میں پاؤں نہ دھرنا، ورنہ تازیست خدا جانے کس صورت میں خراب رہے گا، سخت عذاب رہے گا۔ شہزادہ نے بعد شکر رہائی کہا: ہرگز ہرگز ادھر کا دھیان کسی عنوان نہ لاؤں گا، اپنے وطن کو بہر کیف پھر جاؤں گا۔ وہ دونوں تو جدھر کے عازم تھے اس طرف راہی ہوئے، یہ خانہ خرابی کا جویا پھر باغ کی سمت چل نکلا۔ فرقت سے حال اس کا تباہ تھا، بے سامانی کا سامان ہمراہ تھا۔ حسرت و یاس کا ہجوم، بے تابیوں کی دھوم، فوج کے بدلے سپاہ رنج و الم، قشوں کے قشوں اندوہ و غم، دل کے قلق و اضطراب نے ہوا کے گھوڑے پر سوار کیا۔ شوق دیدار نے شتر بے مہار کیا۔ چشم پرنم مہتمم آبپاشی، وحشت دل آمادۂ دور باشی، فغاں کے نقیبوں کی صدا بلند، سینہ مجمر، دل و جگر عود و سپند، جنون دھونس دے کے ڈنکا بجاتا، کوس حرمان کا کوسوں آوازہ جاتا، مجنوں کی روح دشت و بر میں ہمراہ، پہاڑوں میں کوہ کن کی پناہ، علم آہ کا جس طرف رُخ مُڑتا دل کے داغ کا ادھر پھریرا اڑتا۔ ناشتہ کا وقت جب آتا، فاقہ دسترخوان بچھاتا، محکمہ ناکامی سر رشتہ ناداری کے کار پرداز طلب غذا کی صدا جو سنتے، عجیب و غریب نعمتیں ہوا پر چنتے۔ باورچی یاس کے نیم برشتہ لختِ جگر سیخِ آہ ہر چڑھاتے، کوفت کے کوفتے گرما گرم دکھاتے۔ میسر تو دال نہ دلیا ہوتا، عقلیہ یہ ہے کہ دل اور کلیجے کا قلیا ہوتا۔ حضرت عشق سا کاریگر کہاں ملتا ہے کہ جب بے ہانڈی چولہے کی شیخی بگھار ڈیرھ چانول دم دیتا ہے، لاکھ لاکھ طرح کا مزہ فقط درد و غم دیتا ہے۔ سات دن یہ غذا اگر روئیں تن کھائے، موم کی طرح بہ جاوے۔
دن کے کوچ کا یہ حال پوچ تھا اور ات کے مقام کا جو انتظام ہوتا تھا تو منزلوں راحت سے دور، کوسوں آرام سے جدا قیام ہوتا تھا۔ خیمہ بے چوبہ، زنگاری رنگ، سائر کی قنات، صحرائے ہولناک جس سے عافیت تنگ، خانہ بے دیوار و در وحشت کا گھر، فرش سراسر زمردی، خود رو گلکاری، بالش پر کے بدلے خشت زیر سر۔ ا س پر دم شماری سونے کے وقت چونک چونک اٹھنا، تمام شب کی بیداری، حسرت و یاس در بر، پہلو میں کنکر پتھر، کروٹ بدل کے ادھر ادھر جس دم نگاہ کی، سناٹا نظر آیا۔ دم سرد بھر کے آہ کی۔
ان خرابیوں سے ہزار بے تابیوں سے کئی مہینے کے بعد بصد آزار باغ کی دیوار نظر آئی۔ وحشت حرارہ لائی۔ بے اختیار ہو کے دوڑا ۔ دروازے کے قریب وہ بلا نصیب جب آیا، انسان نہ حیوان، سنسان پایا۔ اندر قدم بڑھایا۔ چمن کے تختے میں اس گلبدن کو محوِ تماشا دیکھ کر گرد پریوں کا پرا دیکھا۔ ناگاہ ایک خواص کی نگاہ اس پر پڑ گئی، آنکھ لڑ گئی۔ اس نے گھبرا کے شہزادی سے عرض کی کہ وہ ہی مرگ کا آمادہ یعنی شہزادہ پھر آیا۔ پری زاد متحیر اسے دیکھنےلگی۔ یہاں تاب کہاں، نزدیک جا کے بے تابانہ مانند پروانہ اس شمع کاشانہ افروز کے گرد پھرنے لگا۔ صعوبت راہ سے گردش شام و پگاہ سے حال باقی نہ تھا۔ دوران ہوا لڑکھڑا کر گرنے لگا۔ پری زاد نے ہاتھ پکڑ لیا، سنبھالا۔ شہزادہ نے کہا: اس کی شرم آپ کے ہاتھ ہے۔ وہ ہنس کے بولی یہ کیا بات ہے۔ جب گذشتہ خطا کا عذر کیا تو اس نے کہا: تیری ایذا اٹھانے سے تکلیف پانے سے مجھ کو خوف خدا ہوا۔ یہ جو مصیبت تجھ پر گذری، تیرے قصور سے میں در گذری۔ آنے سے طبیعت مسرور ہوئی، خفگی گئی، کدورت دور ہوئی۔ آئندہ احتیاط شرط ہے۔ حوصلے سے زیادہ قدم نہ بڑھانا، پھر منہ کی نہ کھانا۔ اس کے بعد ہمراہ لے کے دم دے کے بارہ دری میں آئی۔ بے حجابی کی دوا منگائی۔ وہ جو خدمت گزاریں شکر لب شیریں بیان تھیں، اکل و شرب کا سامان لے کے موجود ہوئیں۔ شراب ناب کا جام چل نکلا۔ ناچ گانے کا غلغلہ فلک پر پہنچا۔ بھوکے پیاسے نے زندگی سے نراسے نے کچھ پیا، کچھ کھایا۔ دماغ کی کیفیت بدل گئی۔ بادۂ گلگوں کا نشہ رنگ لایا۔ مصیبت کی باتوں کا ہجر کی خوفناک راتوں کا ذکر ہونے لگا۔ اپنی خانہ خرابی پر شاہزادہ رونے لگا۔ پری زاد ہاتھ پکڑ کر پلنگ پر لے گئی۔ دونوں لیٹے، اختلاط شروع ہوا۔ جلیس مزاج دان جتنی بیٹھی تھیں، وہ اپنے اپنے مقاموں پر اٹھ گئیں۔ یہاں عالم تنہائی، نشہ کی کیفیت، ولولۂ طبیعت نے ایذائے گذشتہ شاہزادہ کو بُھلائی، تازہ مصیبت استقبال کو آئی۔ اگلی حرکتیں کرنے لگا۔ بربادی کے وادی میں قدم دھرنے لگا۔ پری زاد نے کہا: تم پھر مزے میں آ گئے، اتنا جلد گھبرا گئے۔ سنبھل جاؤ، بیہودہ ہاتھ نہ بڑھاؤ۔ اب کی بار کہیں ٹھکانا نہ ملے گا۔ یاد رکھو آب و دانہ نہ ملے گا۔ یہاں آنکھوں پر پردے پڑے تھے، شیطان صاحب سر پر کھڑے تھے۔ پری نے ہر چند ٹالا، یہاں کیا پروا تھی۔ ازار بند پر ہاتھ ڈالا۔ نہایت بدمزہ ہو کے وہ کچھ بڑبڑائی، پکار کر یہ کلمہ زبان پرلائی کہ اے حامل رنج و محن بن جا ہرن۔ شہزادہ پلنگ سے گر کر غزال خوش جمال ہوگیا۔ شہوت کا نشہ ہرن ہوا، سکتے کا حال ہوگیا۔ پری زاد نے خواص سے کہا: اس وحشی کو باغ سے باہر نکال دے، بلا کو ٹال دے۔ اس نے بموجب فرمان اُسی آن گلزار ہمیشہ بہار کے دروازے سے دور لے جا کے چھوڑا، رشتۂ امید اس کا توڑا۔ اس نے ہزار آہ آہ کی، اس نے مطلق اس کے حال پر نہ نگاہ کی۔
دوسری بار پھر بلا میں مبتلا ہونا اس شیر بیشۂ محبت کا یعنی اس چکارہ نے ہرن بنایا اور باغ سے مثل بہار باہر نکال کے لاکھ طرح کی ایذا میں پھنسایا
فسانہ پردازانِ آہوگیر اس اجل گرفتہ نخچیر کا حال اس طور پر تحریر کرتے ہیں کہ وہ ہزبر کنام وفا چوکڑی بھول کے آفت رسیدہ از خود رمیدہ اس دشت پُر خطر میں سیدھا چل نکلا، تکلے کی طرح بل نکلا۔ حیران و پریشان، درندوں کی گزند سے چھپتا پھرتا تھا۔ بدحواسی کے باعث ہر قدم الجھ کے گرتا تھا۔ دل میں نصیب برگشتہ کی شکایت تھی، بے مہریِ پری زاد کی حکایت تھی کہ ناگاہ ایک گرک کہن سال ہزبر خصال اس کو دور سے نظر آیا۔ خوف کے باعث، ہاتھ پاؤں کانپنے لگے، بدن تھرایا۔ اس نے جو دام میں شکار موٹا تازہ تیار دیکھا، نعمت غیر مترقب سمجھ کے دوڑا۔ شاہزادہ کا خوف سے یہ حال تھا کہ پاؤں زمین نے پکڑ لیے تھے، قدم اٹھانا محال تھا۔ سمجھا پیمانۂ عمر لبریز ہے، یہ دشت صحرائے رستخیز ہے۔ بحسرت آسمان کی طرف سر اٹھا کے رونے لگا، دہشت میں جان کھونے لگا۔ اللہ کی قدرت دیکھیے، بے قضا کوئی مرتا نہیں، توپ کا گولہ اثر کرتا نہیں
اگر تیغ عالم بجنبد زجای
نبرّد رگی تا نخواہد خدای
جس دم بھیڑیا اس کے نزدیک پہنچا، دفعۃً کوئی شاہزادۂ عالی تبار بشوق شکار گھوڑا ہوا کی طرح اڑائے باگ اٹھائے چلا آتا تھا۔ یہ ماجرا اسے جو نظر آیا، بندوق دو نالی غضب کی بھری، بھیڑیے پر خالی کی۔ ماتھے پر گولی پڑی، دُم توڑ کے نکل گئی۔ بھیڑیا تو فی النار ہوا، ہرن سے دو چار ہوا۔ اس نے جو اس بلا سے رہائی پائی، گھوڑے کے گرد پھر کے رکاب پر سر دھرنے لگا۔ منت کے اشارے کرنے لگا۔ شاہزادہ ششدر و حیران اس کی حرکتیں دیکھ رہا تھا کہ ملازمان ہمراہی ڈھونڈھتے ہوئے آ پہنچے۔ انھوں نے چاہا کہ ہرن کو پابند حلقۂ رسن کریں، شاہزادہ نے منع کیا۔ وہ گرفتار دام احسان گھوڑے کے پاس کھڑا ہوگیا۔ سب کو اچنبھا ہوا کہ ایسا وحشی جانور کیونکر رام ہوا، عجب کا مقام ہوا۔ جس دم شاہزادہ نے گھوڑا وہاں سے بڑھایا، پیچھے پیچھے ہرن بھی چلا آیا۔ دن زیادہ آ چکا تھا، شکار کا لطف اٹھا چکا تھا۔ درِ دولت کی طرف باگ موڑی، اس جانور نے رفاقت نہ چھوڑی۔ القصہ محل سرا میں داخل ہوا۔ ہرن بے دغدغہ ساتھ رہا۔ شاہزادی یہ نیا سانحہ دیکھ کے بہت خوش ہوئی۔ گود میں بٹھا کے دیر تک پیار کیا۔ اسی دم جواہر نگار پٹہ اس کے گلے میں ڈالا اور سامان تیار کیا۔ جس نے یہ داستان ندرت بیان سُنی، حیرت ہوئی۔ تمام شہر میں شہرت ہوئی۔ اس مصیبت زدہ کی راحت کا بہت کچھ سامان ہوا۔ شوہر سے زیادہ بی بی کو میلان ہوا۔ جب تک ہرن ہمراہ نہ ہوتا، کہیں قدم نہ دھرتی تھی۔ ایک ساعت جدا نہ کرتی تھی۔ کبھی وہ جو فرصت پاتا، خانۂ باغ میں جاتا۔ کسی درخت کے سایہ تلے گاہ سوتا، جو تنہا ہوتا تو روتا۔ ایک روز شاہزادی نے ہرن کی بے قراری گریہ و زاری دیکھ لی۔ پھر تو اس کو کچھ اور ہی خیال آئے۔ وسوسے خفقان کے معین ہوئے، رنگ لائے۔ وزیر زادی کو بلایا، ہرن دکھا کے حال سنایا، فرمایا: غور کر یہ کیا اسرار ہے۔ ذہن لڑتا نہیں، عقل رسا بیکار ہے۔ جانور کو یوں جان کھوتے نہیں دیکھا، کیسا ہی اس پر ستم ہو روتے نہیں دیکھا۔ وزیر زادی آفتِ روزگار بلائے بے درمان ہمہ دان تھی، بہ نگاہ اول تاڑ گئی کہ یہ انسان ہے مگر اس سحر میں پھنسا ہے کہ عقل حیران ہے۔ یہ بھی سامری کی پوتی تھی، شہیال کی نواسی تھی لیکن اس مقدمے میں یہ دقت ہوتی تھی کہ صورت پر بدحواسی تھی۔ القصہ دیر میں جی کو ٹھہرا کے بولی کہ یہ بشر ہے لیکن سحرمیں گرفتار ہے، بڑے زبردست جادوگر کا گناہگار ہے۔ شہزادی نے فرمایا کہ ہم تجھے اس دم کامل جانیں، تیرا علم مانیں کہ اس کو بہیئت اصل بنا دے، اپنے سحر کی طاقت دکھا دے۔ اس نے عرض کی: حضور بھی اس وادی میں قدم مارتی ہیں، بارہا استادی کا دم مارتی ہیں۔ اس میں امتحان ہوتا ہے، دیکھیں تو کس کے ذریعہ سے انسان ہوتا ہے۔ یہ کہہ کے دونوں سحر کرنے لگیں، سامری جمشید کے دم بھرنے لگیں۔ جس جس چیز کا تجربہ تھا، جس پر بڑا اعتماد تھا، جو کچھ دونوں کو یاد تھا، سب کیا، سرِ مو فرق نہ ہوا۔ شاہزادی تو تھک کے بیٹھ رہی، وزیر زادی نے لوٹ کے پرِ پرواز نکالے۔ ایک سمت کو راہی ہوئی۔ وہ جو گنبد ہفتا دور سامری نے عمر بھر میں بنا کے سجدہ گاہِ ساحرانِ جہاں دارالامان اس کا نام رکھا تھا، سحر پر آغاز و انجام رکھا تھا۔ ادھر کی راہ لی۔ عجیب غریب سخت مہیب جا تھی۔ منزلوں تک زمین سحر میں مبتلا تھی۔ چار دریا گرد بہتے تھے۔ جہاں کے ساحر اسی ٹیکری پر رہتے تھے۔ پہلے دریا کا رنگ طلائی تھا، جسر قدرت اس پر آگ کا تھا، سحر کی لاگ کا تھا۔ چالیس دن کی راہ بہت جانکاہ تھی۔ چار چار منزل تک شعلۂ جوالہ آگ کا پرکالہ اڑ کے جاتا تھا، عفریت دیکھ کے خوف کھاتا تھا۔ کنارے پر برج مطلا تخت جواہر نگار بچھا سامری کی تصویر بصد توقیر اس پر جلوہ گر تھی۔ چالیس ہزار ساحر بے ایمان شب و روز اس کا نگہبان تھا، جس نے تصویر کو سجدہ کیا وہ تو پار اتر گیا اور جو تامل ہوا تو وہ خانماں خراب کباب ہوگیا۔ آگے صحرائے ہولناک تھا۔ درندوں کے سوا کوئی جانور وہاں جا نہ سکتا تھا، پرندہ اُڑ کے آ نہ سکتا تھا۔
دوسرا دریائے مروارید تھا، بیضۂ بط سے بڑا، بے حصر و حساب دُرِّ نایاب بہہ رہا تھا اور یاقوت نگار پُل بالکل تھا اس کے کنارے۔ پیارے پیارے الماس کے شہ نشین بفر و تمکین بنے تھے۔ ویسی ہی تصویریں نظر آتی تھیں، برق سے فزوں چمک جاتی تھیں۔ اس کا گذر بیس دن سے بیشتر نہ تھا۔ صحرا بھی گلزار دشت پُر بہار، میوہ دار اشجار، برگ و بارِ گل سے گل پھولے پھلے، نہ خزاں کا خوف نہ باغبان کا دست رس تھا، نہ گذرِ کس و ناکس تھا۔ گلہائے خود رو بصد رنگ و بو ہر سو مہک رہے تھے۔ جانور مست ہو ہو بہک رہے تھے۔
تیسرا دریائے قہر و آفت لہر تیرہ و تار برنگ دل کفار، جس دم تلاطم ہوتا کوسوں سیاہی پھیل جاتی تھی۔ کسی کی شکل نظر نہ آتی تھی۔ اس پر جسرِ غضب پر تعب تھا۔ کروڑوں اژدرِ خونخوار مہیب طویل قامت مار باہم پیچاں، مُنہ سب کے اوپر وا شعلۂ سوزاں نکلتا۔ اسی صورت کا کنارے پر منارہ، اس میں سامری کی ہیئت دھری گرد آگ بھری۔ بارہ منزل کا طول، مہتمم ساحر نامعقول۔ روبرو دشت دل آزار جہاں کے گل بدتر از خار۔ جو اس میں سب سے چھوٹا کانٹا تھا وہ خنجر سے تیز تر چھانٹا تھا۔
چوتھا دریائے آب تھا۔ اس کا نقشہ اوروں سے زیادہ خراب تھا۔ جس دم اس کے کنارے پر قدم رکھا، شور غل پیدا ہوا، پانی آسمان سے مل گیا۔ یہاں جسر تھا نہ پل تھا، گذاری میں شور و غل تھا۔ جوجو سامری جے پال کے وارث تھے، وہ اس کے حارث تھے۔ اس کے جنگل کا عجیب حال تھا، قدم اٹھانا محال تھا۔ جب پاؤں بڑھا کے آگے رکھا، وہ دو قدم پیچھے ہٹ کے پڑا۔ مہینوں راہ چلے جہاں کھڑا ہو وہیں گڑا ہو۔ ان سب کے بعد وہ گنبد ہفتا دور سامری کا گھر تھا، رفیع الشان ہمسر آسمان۔ بروئے ہوا معلق بنا، ستر در، ہر در کے اوپر برج مکلل بدر و جواہر مختلف رنگ یاقوت اور زمرد کی سلین بجائے خشت و سنگ، برجوں میں ساحر غدار ہیئتیں نرالی شکلیں کالی کالی، کسی کا شیر کا منہ، جسم انسان کا، کسی کے دس بارہ سر دھڑ حیوان کا، کوئی فیل دندان، کسی کا پتلا کر گدنکا، کوئی دیو پیکر، کوئی فولاد بدن کا، کوئی اژدر دہاں شرر افشاں۔ لاکھ ساحر ایک ایک کے تحت فرمان، زمین پر سر بسجود اپنا معبود جانتا، ستر لاکھ کا جمگٹھا۔ برج کے بیچ میں صندوق بے سہارے، اس میں سامری کی نعش، سب کا نام لے کے پکارے۔ دن کو بارہ سورج گنبد کے گرد پھرتے، سرِ شام صندوق کے روبرو سجدے کو گرتے اور رات کو چودہ چاند چار سمت گھومتے۔ دم سحر گرد پھر کر صندوق کو چومتے، ہزارہا ستارہ صندوق سے رات بھر چھوٹتا۔ صبح تک تار نہ ٹوٹتا اور جو کچھ سوال کرو، عرض حال کرو، صندوق سے جواب ملے۔ کھانےکو کباب، پینے کو شراب ملے۔ ہزارہا جادوگرنیوں کے غول، ساحروں سے جدا۔ کیسی کیسی کھپّاٹ پرانی لکّا تا بشر کا گذر ایسے مکان پر خاک ہو جہاں کی زمین ہولناک ہمسر افلاک ہو۔
القصہ وزیرزادی بے ایمان پران وہاں پہنچی، صندوق کے سامنے سجدہ کیا۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ زن و مرد سے سامری کی جے کا غلغلہ مچا، گوشِ فلک کرّ ہوا، چار جانب سے جب ہرہر ہوا، پھر اس نے اپنا مطلب بعجز و نیاز بلند آواز سے کہا۔ دفعۃً ہزارہا گھنٹے جو لٹک رہے تھے، ہوا پر اٹک رہے تھے، بے مدد چوب و دست بجنے لگے۔ کوس و کور گرجنے لگے۔ دو گھڑی کے بعد وہ چپ ہوئے۔ صندوق سے صدا نکلی کہ وہ جو آہوئے حرم درِ بیت الصنم پر مقیم ہے، اس کے پاس جا۔ مطلب سے تیری وہ ماہر ہے۔ سب حقیقت ہماری عنایت سے اس پر ظاہر ہے۔ اگر زبان اس کی ہل جائے گی، تیری تمنا پوری ہوگی، مراد مل جائے گی۔ یہ بتخانے کے در پر حاضر ہوئی۔ دیکھا جواہر نگار کرسی پر ایک ساحر بیٹھا ہے، ہزارہا خادم سر بسجود روبرو موجود ہیں، جسم انسانی چہرہ ہرن کا ہے، سینگ ہر ایک سیکڑوں من کا ہے اور کئی ہزار بے دین اسی شکل و آئین کا چپ و راست کھڑا ہے۔ سینگ سب کے سر پر بڑا بڑا ہے۔ اس نے جھک کے سلام کیا۔ رعب کے باعث اور نہ کلام کیا۔ وہ بولا: نہال قدرت کے تلے اکیس دن گن گن پوجا کر، مطلب حصول ہوگا، عنایت کوئی شاخ یا پھول ہوگا۔ وزیرزادی نے زیر درخت جا، چوکا دے کے سیندور کا ٹیکا لگایا۔ پوجے کو سر جھکایا۔ یا جس دم مدت تمام ہوئی، تڑاکے کی آواز سرِ شام ہوئی۔ باجوں کی صدا آنے لگی۔ پتے پتے درخت کے “یا سامری” کا شور و غل مچانے لگے۔ پھر ایک ٹہنی ڈالی سے ٹوٹ کے درخت سے چھوٹ کے اس کی گود میں گری۔ سات بار اس کے گرد پھری، پھر اس کو لے کے صندوق کے روبرو آئی۔ سجدہ جو کیا، وہی ہنگامہ بپا ہوا اور آواز نکلی: ہمارا لطف تیرا مددگار ہوا، تجھ کو کس قدر افتخار ہوا۔ شجر قدرت کی شاخ عنایت ہوئی، بڑی حمایت ہوئی۔ گو یہ بے برگ و ثمر ہے، مگر ہزار طرح کا اس میں اثر ہے۔ جو بات تیری زبان پر آئے گی، یہ بجا لائے گی۔ یہ رخصت لے کے چلی۔ اس سوکھی ٹہنی کے ملنے سے پھولی نہ سماتی تھی۔ برق و باد سے تیز خیز کر کے گھر کی طرف اڑتی آتی تھی۔ وہ سالہائے دراز کی راہ چند شام و پگاہ میں طے کر کے گھر پہنچی۔ اسی دم شاہزادی کو داخلہ کی خبر پہنچی۔ فوراً سامنے بُلایا، مشتاقانہ گلے لگایا۔ وہاں کا حال جانے کا مآل پوچھا۔ اس نے عرض کی جو شے آج تک بڑے بڑے مقربوں نے نہیں پائی ہے، سامری کی سرکار سے تابعدار لائی ہے۔ دوسرے دن اسی گلستان میں اس کا امتحان ہوا۔ لکڑی کا لگانا بہانہ ہوا، فوراً شاہزادہ انسان ہوا۔ لیکن پناہ بخدا برقِ جمال شاہزادہ خوش خصال یکایک جو چمک گئی، دونوں کی آنکھ جھپک گئی۔ ہوش حواس باختہ یک گز دو فاختہ کا طور ہوا۔ نقشہ ہی کچھ اور ہوا۔ شہزادی دل میں سوچنے لگی اس کو کہاں چھپائیے۔ وزیر زادی نے چاہا اپنے گھر لے جائیے۔ ایک بے قرار دوسری لوٹ پوٹ تھی۔ دونوں کے دل پر چوٹ تھی۔ مصلحت وقت یہ ہوئی کہ وزیر زادی ہی اس کو چندے پوشیدہ رکھے۔ اگر شاہزادہ برسرِ تلاش ہوگا تو یہ راز فاش ہوگا۔
غرض کہ یہ گرفتار مصیبت وزیر زادی کے گھر میں صبح و شام آرام سے رہنے لگا۔ شاہزادی نے اپنے شوہر سے اسی دن کہا، آج سانحہ عجائب ہوگیا۔ وہ ہرن سامنے بیٹھا تھا، دفعۃً غائب ہوگیا۔ رنڈی کے مکر سے خدا کی پناہ، اس کا کلام گواہ ہے ان کیدکُن عظیم۔ وہ شاہزادہ مرد سادہ تھا، کہنے لگا: ہرن کی صورت میں فریب ہوتا ہے، بیشتر اس میں آسیب ہوتا ہے۔ اس کو دم میں ٹال دیا، تجسس کا خدشہ نکال دیا۔ مگر پوشیدہ ملاقاتیں محبت کی باتیں ہونے لگیں۔ لیکن شہزادہ کو باوجود رہائی فرقت کا سخت ملال تھا۔ ہر دم پری زاد کا خیال تھا، رخصت کا سوال تھا۔ وزیر زادی بھی فریفتہ تھی، مرتی تھی، وہ اپنا ہی احسان ہر آن ثابت کرتی تھی۔ یہ بیچارہ گرفتار دام وہاں دو ملّا میں مرغی حرام، ایک کو فکر تھی شراب پلائیے مزے میں لائیے، دوسری چاہتی تھی کچا نگل جائیے۔ شہزادی وزیر زادی کے لگاؤ سے ہر وقت نکھرے رہنے سے ہر دم کے بناؤ سے بگڑ گئی۔ باہم جلی کٹی ہونے لگی۔ صحبت کا ڈھنگ بگڑا، نزاع واقع ہوئی۔ طبیعتوں کا رنگ بگڑا، ایک روز باہم لڑائی سحرآزمانی ہوئی۔ وزیر زادی کی فتح شہزادی کی صفائی ہوئی۔ جب وہ مر چکی، یہ میدان صاف کر چکی۔ روز عالم تنہائی بادہ پیمائی ہونے لگی۔ شہزادہ نے یہ جنگ و جدال قتل و قمع کا حال بغور دیکھا تھا، وزیر زادی کا ظلم و جور دیکھا تھا، خوف جان سے اس بے ایمان سے دب گیا، جو جو اس نے چاہا وہ کام اس نے کیا۔ ایک دن برسبیل مذکور اپنی رہائی کی حکایت پوچھی، وزیر زادی نے چاہا کہ اپنا احسان صاف بیان کیجیے، گھٹا بڑھا وہ قصہ آمد و رفت کا مشروحاً کہہ دیا۔ شہزادے نے کہا: وہ شاخ جس کے یہ شاخسانے ہیں گو فائدہ کیا ہے لیکن دیکھنے کی تمنا ہے۔ جس دم طبیعت کا لگاؤ ہوتا ہے اور جی آ جاتا ہے تو معشوق سے کوئی چیز نہیں چھپاتا ہے
اے دوست اگر جان طلبی جان بتو بخشم
از جان چہ عزیز ست بگو آن بتو بخشم
یہ روبرو لا کے وہ ٹہنی دکھائی۔ شہزادے نے کہا: کچھ نہ ایسی صورت ہے نہ جمال ہے، یقین نہیں ہوتا کہ اس میں ایسا کمال ہے۔ جب دل کسی پر آتا ہے تو عقل کا شعور اڑ جاتا ہے۔ وزیر زادی انجام کار نہ سوچی، برسرِ امتحان اسی آن ہو گئی، کسی پھل کو جانور کسی درخت کو پتھر بنا دیا۔ شہزادے نے دل میں کہا کہ یہ قحبہ تو بدتمیز ہے لیکن یہ شاخ نایاب چیز ہے۔ ٹہنی ہاتھ میں لے کے بنظر غور دیکھنے لگا اور سوچا کہ جب تک یہ بے ایمان ظاہر کی دوست دشمن جان زندہ ہے رہائی معلوم، اپنے دلبر تک رسائی معلوم۔ یہ ظالم شہزادی کو قتل کر چکی، بے گناہ کے خون سے ہاتھ بھر چکی۔ تمھاری محبت سے منہ نہ موڑے گی، جیتے جی ساتھ نہ چھوڑے گی۔ دو امروں سے ایک کام کرو یا اس کو ذبح کرو یا اپنی جان دو، قتل الموذی قبل الایذا کیا نہیں سُنا۔ اگر ناکامی میں مر گئے لطف کیا۔ غریب الوطن ہوئے، بے گور و کفن ہوئے۔ موقع خوب ہے، دیر نہ کرو۔ بسم اللہ یہ سوچ کے وہ شاخ وزیر زادی کے بدن سے لگا بآواز بلند کہا: فوراً باغ سے باہر نکل جا اور جل جا۔ جل جلالہ کہتے ہی ایک شعلہ تھا کہ چمن سے نکل گیا، راکھ کا تودہ رہ گیا۔ روح کی بکھیڑا بدن سے نکل گیا۔
یہ ماجرا دیکھ کے بہت مسرور ہوا، قید بند کا خدشہ دور ہوا۔ عمدہ جواہر جسم پر سجا، پھر ٹہنی پر عندلیب وار بیٹھ کر کہا: مجھ کو پری زاد کے باغ تک پہنچا۔ بچشم زدن سن سن کے صدا سنی اور باخاطر شگفتہ درِ باغ نظر آیا۔ مثل فصل بہار بے تکلف اندر آیا۔ شاخ کو پوشیدہ کر کے دلبر کو ڈھونڈھا۔ حوض پر مصروف تماشا پایا۔ دور سے آواز دی۔ اس نے پھر کے جو دیکھا، خود بخود محجوب ہو کے گھبرائی، پھر یہ سوچی وہ کون سا کامل اس کے رنج میں شامل ہوا جو اس کو پھر انسان بنایا، ہمارا کھیل بگاڑا، ایسا سامان بنایا۔ پہلے تو جھچک کے لجالو کی طرح سمٹ گئی، پھر کچھ بن نہ آیا، مجبور لپٹ گئی۔ ہاتھ پکڑ کر بنگلے میں لے گئی۔ مسند پر بٹھایا، جو محرم راز تھیں دمساز تھیں، ان کو طلب کیا۔ جلسے کا سامان منگایا، حسب حکم اسی دم گائنیں خوش گلو مع شراب پرتگالی اور جام و سبو موجود ہوئیں۔ طبلے پر تھاپ دی، ساقی نے پیالی لبریز کی، قتل کو چُھری تیز کی۔ دو چار گیلاس میں نشہ جم گیا۔ جوش بادۂ گلرنگ جوانی کی ترنگ نے پینگ بڑھائی، لڑکھڑاتے ہوئے دونوں پلنگ پر آئے۔ وصل کا زمانہ نصیب ہوا۔ بے حجابی کا وقت قریب ہوا، ہاتھا پائی ہونے لگی۔ پری زاد اگلی باتیں یاد دلا کے رونے لگی۔ کہا تم انھیں ہت کھنڈوں پر آئے جن کا انجام بُرا ہے، مزاج کیسا ہے۔ شہزادہ کو کبوتر اور ہرن بنانا، وہ رنج و ستم تنہائی میں اٹھانا یاد جو آیا، دل سے کہا: ان باتوں کا عوض ضرور ہو۔ وہی شاخ اس کے بدن پر لگا کے کہا: او کُتیا دور ہو۔ اس کلمے کا زبان پر آنا تھا، وہ پلنگ پر گر کے کتیا ہو گئی۔ ہر طرف بھونکتی پھرتی تھی۔ اور بار بار بعجز و انکسار شاہزادہ کے پاؤں پر گرتی تھی۔ یہ عمداً ٹال بال کرتا تھا، مطلق نہ خیال کرتا تھا۔ جتنی اس کی مصاحب جلیس تھیں، اس حال سے مطلع ہوئیں۔ شہزادہ کی منت کرنے لگیں، پاؤں پر رو رو کر سر دھرنے لگیں۔ کہا جس کو معشوق بنایا، خود بگڑے، رنج اٹھایا، اس کا ایسا حال کرتے ہیں، یہ فرقہ ناقص عقل مشہور ہے۔ مرد اس کی بُرائی کا بھلا خیال کر تے ہیں۔ شہزادہ نے جواب دیا کہ دو بار اس نے مجھ سے دغا کی۔ میں نے اس کی کیا خطا کی۔ دنیا کا یہی رنگ ڈھنگ ہے۔ کلوخ انداز کی پاداش سنگ ہے۔
الغرض ایک ہفتہ اس ماہ دو ہفتہ پر یوں میں گذرا۔ ہر چند سب نے اس کے سامنے سب طرح کا کھانا چُنا، مگر اس نے رخ نہ کیا، سر دُھنا۔ جب ضعف و نقاہت سے حال درہم و برہم اور سب کی خوشامد سے شہزادے کا غصہ کم ہوا، دل ہر ساعت بے قرار تھا، اس ہیئت کذائی سے اُس کا سامنے آنا ناگوار تھا۔ جی گھبرایا، خوف خدا نے ڈرایا، یہ کج ادائی بیوفائی رنڈی پر ختم ہے، جب بگڑتی ہے، جان کی دشمن بنتی ہے۔ ایسی دل میں ٹھنتی ہے، شرم و حیا، مہر و وفا سے منہ موڑتی ہے۔ بن جان لیے پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ ایک وزیر زادی اس کی بہت حسین آفت روزگار مہ جبین طرار عیار تھی۔ اس نے یہ کام کیا کہ سلیمان علیہ السلام کو ضامن دے کے یہ عہد و پیمان کیا کہ تمام عمر یہ آپ سے فریب و دغا نہ کرے گی، جو کہو گے بجا لائے گی۔ اطاعت سے سر نہ پھرائے گی، کسی کام میں انکار بخدا نہ کرے گی۔ شاہزادہ دل سے راضی تھا۔ سہو محو قصۂ ماضی تھا۔ فرمایا: گو وہ بدتمیز ہے، مگر مجھ کو تیری خاطر عزیز ہے، لے آ۔ وہ گود میں اٹھا کے روبرو لائی۔ شاہزادہ نے وہ ٹہنی اُس کے بدن پر لگائی، کہا: بقدرت خدا جیسی تھی ویسی ہی ہو جا۔ اسی دم وہ حامل غم اصلی صورت پر آ گئی لیکن آنکھ شرما گئی۔ تمام باغ میں ہر ایک گلرو غنچہ دہاں مبارک سلامت کا غل مچانے لگی۔ کوئی گانے کوئی بجانے لگی۔ ناچنے گانے کا سامان اسی آن موجود ہوا۔ شراب ناب کا جام گردش میں آیا۔ ہر ایک نے پیا کھایا۔ گذری باتوں کا، ہجر کی راتوں کا شہزادہ بیان کرنے لگا۔ اپنی مصیبتوں کا دھیان کرنے لگا۔ ابھی طرفین کے قصے پورے نہ ہونے پائے تھے، نہ کچھ صحبت کا لطف اٹھایا، نہ پلنگ پر آئے تھے، یکایک بروئے ہوا ایک تخت دیکھا، جلسہ برہم ہوا۔ ہر شخص گھبرا کے اسے دیکھنے لگا۔
سرو ناز کا آنا، پیغامِ طلب شاہزادے کو سنانا، بصد تکرار شاہزادہ کو لے کے پرستان میں جانا، صحبت برات کی کیفیت دن رات کی اور ملاقات سلطان پردۂ قاف کی
سیاحانِ اقلیم معانی کے طے کرنے والے، مرحلۂ خوش بیانی کے افسانہ خواں، فسوں پرداز، حاکیانِ ممتاز بیان کرتے ہیں: تخت ہوا پر جو آیا، سب نے خوف کھایا، عین کُریال میں غلہ لگا۔ جس دم زمین پر اتر آیا، سب کو سرو ناز کا منہ نظر آیا۔ دوسرے وزیر زادی بہت مغرور، سراپا ناز و انداز ہے، نام سرو ناز ہے۔ ہنوز گل رخسار صدمۂ منقارِ بلبل سے بری، ہزار طرح کی شوخی چالاکی طبیعت میں بھری۔ پہلے آداب بجا لائی، نامہ ہاتھ پر رکھ کے قریب آئی۔ پری زاد نے اٹھ کے گلے سے لگایا، مسند کے قریب تر بٹھایا۔ پوچھا بے اطلاع آنا خیر ہے۔ عرض کی شادی کی کیفیت بڑی سیر ہے۔ شاہزادہ ماہ رخ جو حضور کا بھائی ہے، اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم کھائی ہے۔ اگر جلسے کی شریک آپ نہ ہوئیں تو یہ شادی نہ رچے گی۔ سامان برہم ہوگا، شادی میں غم ہوگا، قیامت مچے گی۔ آپ کو سب نے بلایا ہے، میں نے لے آنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ میری سرخروئی حضور کے ہاتھ ہے، لونڈی قدموں کے ساتھ ہے۔ یہ بھی ہمجولیوں سے کہہ آئی ہوں اگر نہ آئیں گی، میں بھی نہ آؤں گی۔ پرستان میں کسی کو صورت نہ دکھاؤں گی۔ مصلحت یہی ہے کہ اپنے بلانے کو لونڈی کے آنے کو بہت غنیمت سمجھو۔ شادی کی صحبت میں اپنے بیگانے جمع ہیں۔ شراکت کرو، کس نیند میں سوتی ہو۔ یہ خبر بھی سرکار کو معلوم ہے کہ آج کل آپ کی بدوضعی کی پرستان میں دھوم ہے۔ شکر کا موقع اب ہے کہ اس پر بخواہش آپ کی طلب ہے۔ پری زاد نے کہا: میں تو جان پر کھیل چکی ہوں، بہت پاپڑ بیل چکی ہوں۔ خدا کی چوری نہیں تو بندوں سے کیا ڈرنا ہے، آخرش ایک دن مرنا ہے۔ ایک جان ہے، بندہ لے یا خدا لے گا۔ حلوا خاتون نہیں ہوں جو کوئی کھا لے گا۔ میں تیرے ہمراہ ہوں، الّا شرط یہ ہے کہ شاہزادہ میرے ساتھ چلے گا۔ اگر اس کو دیکھ کے کوئی جلے گا تو میں نہ خیال بد نہ نیک کروں گی، اپنی اور اس کی جان ایک کروں گی۔ اماں جان کے نالے آسمان پر پہنچیں گے، ہاتھ مل کے رہ جائیں گے۔ خون کی ندیاں پرستان کی سر زمین میں بہہ جائیں گی۔ اس نے عرض کی: بہت خوب! شب کو جو مصلحت ٹھہرے گی، وہ عمل میں آئے گی۔ آپ کی خوشی بہرکیف ہو جائے گی۔ دیر تک ناچ گانا رہا۔ دستر خوان بچھا، جب کھانے سے فرصت پائی، دونوں وزیر زادیاں شہزادی کو جدا لے گئیں۔ یہ بات سمجھائی کہ سر و ناز یہاں سے جا کے جدا محل سرا آپ کے واسطے سجوا کے شہزادہ کا آپ کے ہمراہ آنا جناب بیگم صاحبہ سے کسی قالب میں بیان کر کے ان کی اجازت لے، ورنہ خلاف مرضی ان کی یہ کام کرنا آپ کے دشمنوں کو سب میں بدنام کرنا ہے۔ سوچیے تو شاہزادے کی شادی ہے۔ سارا پرستان مہمان، صحبت بے تکلفانہ ہے۔ جلسے میں شریک اپنا بیگانہ ہے، دبی ہوئی آگ بھڑکانا ہے۔ غرض کہ یہ بھی سمجھ گئی۔
دم سحر سر و ناز رو بپرواز ہوئی، یہاں سفر کی تیاری ہونے لگی۔ جس دم سر و ناز تن تنہا داخل ہوئی، سب کو خلجان ہوا۔ الجھن حاصل ہوئی۔ علی الخصوص اس کی ماں کو سخت ہراس ہوا۔ نہ آنے سے لاکھ طرح کا وسواس ہوا۔ دل سے کہا اب یہ پردہ کُھل جائے گا، دیکھیے فلک کیا رنگ دکھائے گا۔ سر و ناز کو تنہا خلوت کے مکان میں بلایا، اس نے ہو بہو سب قصہ سنایا کہ واقعی ایک شہزادۂ والا نژاد غیرت صد پری زاد وہاں موجود ہے۔ اس کی جاہ و جلال، حسن و جمال کی صفت جب تک نظر سے نہ گذرے بے سود ہے۔ اس صورت کا پری پیکر جوان انسان تو کیا قوم بنی جان میں نظر سے نہیں گذرا۔ شاید وہ یہاں آ گیا تو دیکھیے گا، ناظرین کا جو حال ہوگا، بہتوں کو جینا وبال ہوگا۔ اولاد کی محبت مخصوص بیٹی کی الفت ماں کو بہت ہوتی ہے اور یہی شے عقل کھوتی ہے۔ کہنے لگی: خیر جو ہو سو ہو، باغ میں جو بارہ دری ہے، اس میں لا کے اتارو۔ ہم بھی تو دیکھ لیں، انسان کیا چیز ہوتے ہیں، یہ لوگ بیہودہ ہیں یا باتمیز ہوتے ہیں۔ فوراً بموجب ایمائے ملکہ حسب حکم سر و ناز کار پرداز حاضر ہوئے۔ وہی باغ اور بارہ دری جس میں شہزادی نے پرورش پائی تھی، سنما سے سبک دست کاری گروں نے سالہائے دراز میں بنائی تھی اور گلزار جہاں سے درخت چن کے تحفہ و نادر لگائے تھے، ایک عالم کو اُس کی تیاری پر رشک آئے تھے، فوراً سج سجا کے دُلہن کی صورت بنا کےآمد کی منتظر ہوئی۔
دوسرے روز سر و ناز باسامان و ساز روانہ ہوئی۔ پری زاد کو اور اس بوستان سلطنت کے شمشاد کو اسی باغ سراپا بہار میں اتارا ، گویا معرکہ مارا۔ پری زاد نے شہزادہ کو خلعت شاہانہ اور جواہرات جو نادر زمانہ تھے، ان سے آراستہ کیا۔ قتالِ عالم بنایا، تخت مرصع کار پر بعز و وقار بٹھایا۔ مقربان خاص حاضر ہو کے نذریں دینےلگے، خلعت و انعام لینے لگے۔ بعد مدت وہ ماہ طلعت تشریف لائی تھی۔ ہوا خواہ اوڑ لاگے مصاحبوں کی بن آئی تھی، مگر جو رو برو نذر لایا، اس نے شہزادہ کو بتایا۔ جس نے پھر کر نذر دی، اسی طرف ٹکٹکی لگ گئی۔ جل جلالہ حسن خوب عجب جنس مرغوب ہے۔ دوست کیا دشمن دیوانہ ہوتا ہے۔ دل سے نثار پروانہ وار اپنا بیگانہ ہوتا ہے۔ غرض کہ قوم بنی جان میں شدہ شدہ کل پرستان میں دھوم مچی لیس کمثله۔ یہاں تک کہ پری زاد کے باپ اور بھائی کو اُس کی رعنائی کی خبر پہنچی۔ بسکہ اس کے بھائی کی زیبائی کی اور جرأت و صولت کی شہرت تھی، اسی کی برات تھی اور طاقت میں بھی ثانی رستم تھا۔ دوسرا پرستان میں کم تھا۔ اس کو تو اپنی یکتائی کا خیال تھا۔ باپ سے اجازت خواہ ہوا کہ اگر ارشاد ہو غلام اس کو جا کے دیکھے، امتحان کرے۔ ہمارا رعب و جلال اسے کچھ نہ ہوا، بے تکلف یہاں چلا آیا۔ بادشاہ نے فرمایا: کیا ضرور وہ مجبور ہے، اسے تو وہ بدبخت لائی ہے۔ یہ قضا آئی ہے۔ ایسا نہ ہو کچھ شور و شر ہو، مسافر کشی کی پرستان میں خبر ہو جانے میں نفع کیسا، آبرو کا ضرر ہے۔ یہ فتح شکست سے بدتر ہے۔ اس نے باپ کا کہنا نہ مانا۔ مسلح ہو کے باغ کو روانہ ہوا۔ یہاں یہ خبر پہنچی کہ ماہ رخ تمھارا بھائی باسباب ظاہر ملاقات کرنے آتا ہے مگر گھات کرنے آتا ہے۔ شدت سے بدگمان ہے، مدنظر امتحان ہے۔ شہزادہ نے جواب دیا: اپنی آنکھ دیو سے نہیں جھپکی، وہ تو بنی جان ہے۔ خدا ہمارا ہر دم حافظ و نگہبان ہے۔ ابھی یہ کلمہ ناتمام تھا کہ وہ آ پہنچا۔ شاہزاہ جہاں بیٹھا تھا وہاں سے نہ اٹھا۔ کچھ نہ خیال کیا، نہ استقبال کیا۔ قدرتِ حق دیکھیے، روبرو جو آیا شہزادے کا الٹا رعب چھایا۔ گھبرا کے پہلے تو سلام کیا، پھر ہنس کے یہ کلام کیا: بندہ حضور کا شدت سے مشتاق تھا، زمانہ مہجوری سخت شاق تھا۔ یہ کہہ کے ہاتھ پھیلائے کہ آئیے گلے سے لگ جائیے۔ اب تامل عجب و نخوت سمجھ کے شاہزادہ اٹھا، بغلگیر ہوا، دو باتیں جو کیں دام محبت میں اسیر ہوا۔ بہت تعظیم سے پاس بٹھایا، یہ شعر سنایا سعدی علیہ الرحمہ :
تواضع زگردن فرازاں نکوست
گداگر تواضع کند خوی اوست
ماضی مستقبل کا حال شروع ہوا۔ دلچسپ باتیں کرنے لگا کہ خالق لیل و نہار کی سرکار سے اول خلقت جان ہے، ثانی ظہور انسان ہے، مگر دونوں کو فقط اپنی عبادت کے واسطے بنایا ہے۔ کلام مجید میں آیا ہے کہ ما خلقتُ الجن والانس الا لیعبدون، اگر انصاف ہاتھ سے نہ دو تو تمیز خیر و شر اختیار میں ہے۔ فرق بین نور نار میں ہے۔ ہر چند تم لوگوں نے بڑا مرتبہ پایا ہے، مگر اشرف المخلوقات سوچو تو کس کو فرمایا ہے۔ ہمارے تقرب کی نسبت اور دور ہیں، ہمارے روبرو سب مجبور ہیں۔ چار دانگ عالم میں بزور شمشیر لطافت تقریر سے ہمار ڈنکا بجا ہے، فرشتوں نے سجدہ کس کو کیا ہے۔ گو تمھیں بڑی قدرت دی، مہیا سب طرح کا سامان ہوا، مسکن پرستان ہوا لیکن یہ تو کہو تم میں سے کون سلیمان ہوا۔ نبی ہمارا صغیرہ کبیرہ سے پاک ہے، اس کی شان میں لولاک ہے۔ اس کے سوا کیسے کیسے اولو العزم صاحب تخت و تاج ہوئے، سرکشوں کے کیا کیا علاج ہوئے۔ طہمورث دیوبند کی داستان مشہور ہے۔ اسفند یار کی روئیں تنی کا عالم میں مذکور ہے۔ سام و نریمان، رستم و سُہراب سے پہلوان گذر گئے، فلک پیر کی مسل میں یہ بے مثل جوان گذر گئے۔ بادشاہ تو خیر فقیر کیسے کیسے صاحب کمال ہوئے۔ اُن کے ہاتھ سے تمھارے کیا حال ہوئے۔
ماہ رخ کو سخت انفعال ہوا، پسینہ آ گیا۔شرم سے عجب حال ہوا، سِوا درست اور خوب وہ محجوب کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ آئینۂ رخسار شاہزادہ وقار دیکھ کے سکتہ تھا، جس دم یہ جملے تمام کیے پھر اختلاط کے کلام کیے۔ اس چرب زبانی اور شیریں بیانی سے تقریر دلپذیر کی کہ ماہ رخ کا نُطق بند ہوگیا، بیٹھے بٹھائے کھو گیا۔ دو چار گھڑی یہ صحبت رہی، رخصت ہو کے گھر کی راہ لی۔ باپ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس نے ملاقات کا حال پوچھا، شاہزادہ کا فضل و کمال پوچھا۔ پھر تو وہ بحر مواج کی صورت جوش زن ہوا، سرگرم سخن ہوا۔ کیفیت عزم و شان کی، خوبصورتیِ بیان کی، ذہن کی جودت، چہرے کی صورت کہہ کے عرض کی کہ پہلے تو وہ باتیں کیں جن کو سن کے حجاب ہوا، دل کو پیچ و تاب ہوا لیکن سخن حق میں کلام نہیں۔ بجز خموشی جواب کا مقام نہیں۔ بہ نگاہ اول اس کا رعب چھایا۔ باتیں ایسی سنائیں کہ فرمانبردار بنایا۔ خلاصہ یہ کہ عالی منزلت والا دودمان ہے، سلطان ابن سلطان سحر کا انسان ہے۔ اس کے بیان سے بادشاہ کو دیکھنے کا ذوق پیدا ہوا، دیدہ شیدا ہوا۔ فرمایا: اس کی دعوت کا سامان کرو، مہمان کرو۔ اس حیلہ میں ملاقات ہو، حرف و حکایات ہو اور سچ ہے جناب باری نے بشر کو بڑا مرتبہ دیا ہے، دیو پری کو اس نے مسخر کیا ہے۔ اس کے قرب کا مرتبہ بہت اعلیٰ ہے، گواہ قاب قوسین او ادنیٰ ہے۔
القصہ ماہ رخ نے ملکہ مہر جمال یعنی اپنی بہن کو شریک کر کے بمنت دعوت کا اقرار لیا۔ شاہزادہ خوشامد سے مجبور ہوگیا۔ غرض کہ شاہزادہ کے جانے کی دعوت کھانے کی تمام پرستان میں دھوم ہوئی۔ تاریخ اور روز کی خبر معلوم ہوئی۔ بروز معین دو رویہ راہ میں انبوہ تھا، ہر سمت پری زادوں کا ریلہ تھا۔ دھوم دھڑکے کا میلہ تھا۔ پیک نظر کا گذر محال تھا، کثرت کا یہ حال تھا۔ لوگوں کے کپڑے لتے ہوتے تھے۔ شانے سے شانے اپنے بیگانے کے چھلتے تھے۔ جو ساتھ سے چُھٹ جاتے تھے، ان کا پتا نہ پاتے تھے، ڈھوندھے سے نہ ملتے تھے۔ سر راہ سب کی آنکھ لگی تھی۔ تل بھر کی جگہ نہ تھی۔ پُتلی راستہ تکتی تھی، نظر نہ پھر سکتی تھی۔ یکایک سواری نظر آئی، بڑی تیاری نظر آئی۔ آنکھوں میں چلا آتا تھا، مفصل کسی سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ جس دم شہزادہ جلوہ گر ہوا، آنکھوں میں گذر ہوا۔ جب آگے بڑھا، نظروں سے نہاں ہوا، تاریک جہاں ہوا۔ گل رُخوں کے مُنہ پر زردی چھائی، نظروں میں سرسوں پھولی، خلقت اپنے اپنے گھر کا رستہ بھولی۔ دیوان عام تک ماہ رخ پیادہ پا آیا۔ وزیر امیروں نے بڑھ کے استقبال کیا۔ نثار بصد انکسار زر و مال کیا۔ ہاتھوں ہاتھ سریر آرائے قاف کے روبرو لائے۔ شہزادہ لحاظِ سن سے دابِ سلطنت بجا لایا،ضابطہ کے موافق سر جھکایا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کے چھاتی سے لگا کے دیر تک پیار کیا۔ بہت سا زر و جواہر اُس لعل بے بہا پر نثار کیا۔ برابر بٹھا کے مسکن و ماوا، نام جد و آبا پوچھا۔ شاہزادۂ والا گہر نے دُرجِ دہن کو وا، زبانِ سحر بیان کو گویا کیا، اس لب و لہجہ سے لب کھولے، حسب و نسب شان شوکت کا بیان کیا کہ اہل محفل نے دامن دامن موتی رولے۔ جودت طبع کا امتحان کیا۔ چار طرف سے تحسین و آفرین کی صدا بلند ہوئی، خاص و عام کو تقریر بے نظیر پسند ہوئی۔ جتنے شاہ و شہریار، امرائے نامدار، زبردستانِ روزگار پردۂ قاف کی شادی کی تقریب میں آئے تھے اس کا حسن و جمال، تقریر مسلسل کا حال دیکھ کے سب کے سب بزانوئے شرم سر خم تھے۔ محفل مرقع تھی، سب کو سکتے کے عالم تھے اور کہتے تھے: حق ہے کہ انسان کو جمیع مخلوق پر عز و شرف ہے۔ ان کمالوں پر یہ انکسار انھیں لوگوں کا ظرف ہے۔ اگر ہماری جنس میں یہ بات ہوتی خدا کی عنایات ہوتی، زمین پر پاؤں نہ رکھتے، بستیاں بسنے نہ پاتیں، بلکہ آباد قریہ گاؤں نہ رکھتے۔ اور ماہ رخ کا باپ سلطان پرستان تو آپ میں نہ تھا۔ شمع جمال شاہزادہ کا شیدا تھا، دیوانہ تھا، محفل میں پروانہ تھا۔ بہت تکلف کی دعوت ہوئی۔ ناچ گانے کی، اپنے بیگانے کی دیر تک صحبت رہی۔ اس کی محبت کا قصہ تو وہاں مشہور ہو چکا تھا، مطلع اناث و ذکور ہو چکا تھا۔ اب زن و مرد فرد فرد نے بچشم دیکھا۔ آمد و رفت دربار میں ہونے لگی، گرم صحبتی حُضّار میں ہونے لگی۔
الغرض جب ماہ رخ کی برات ہو چکی، جو جو شاہ و شہریار، رئیسان نامدار اپنے اپنے شہر دیار سے آئے تھے، رخصت ہو گئے۔ تمام پرستان میں قوم بنی جان میں شہزادہ کی شکل و شمائل کا چرچا جا بجا مچا رہتا تھا۔ جس نے نہ دیکھا تھا، وہ مشتاق سدا رہتا تھا۔ شدہ شدہ یہ خبر زمرد کوہ پر پہنچی۔ وہاں کا شہزادہ ملکۂ مہر جمال سے منسوب تھا، ماہ رخ کی شادی کے بعد اس کا اسلوب تھا۔ جس دم یہ ماجرا جانگداز اس نے سنا، طیش کھایا، سر دُھنا۔ اسی دم باپ سے نامہ لکھوا کے قاصد صبا رفتار کو دے کے تاکید کی کہ برق و باد سے تند و تیز گرم خیز ہو۔ منتظر سمجھ کے جلد جواب لایا تو انعام ہے، دیر قضا کا پیغام ہے۔ برید سریع السیر مع الخیر مثل صبا اڑ کے پہنچا۔ وزیر اعظم کی وساطت سے ملازمت حاصل کی۔ نامۂ سر بستہ مکتوب الیہ کے حضور حسب دستور گذرانا۔ دبیر عطارد تحریر طلب ہوا۔ خط کھولا، مطالعہ کر کے چُپ ہوگیا۔ خوف سے کچھ نہ بولا۔ بادشاہ نے فرمایا: برخاست! ہر شخص آداب بجا لا کے روانہ ہوا۔ دربار میں کوئی نہ رہا، بجز وزیر تنہائی کا زمانہ ہوا، وہ ایلچی بھی رخصت ہوا۔ اب منشی نے پڑھنا شروع کیا۔
نامۂ سلطان فیروز کوہ پُرشکوہ کا طعن آمیز شکایت بیز شورش انگیز سمت والیِ قاف بعزم مصاف
بعد حمد خالق انس و جان و نعت حضرت سلیمانؑ لکھا تھا کہ درینولا ہم نے سنا ہے کہ تم نے کاشانۂ دولت خانۂ مذلت نئی صورت سے آباد کیا ہے یعنی غیر جنس قسم بشر کو داماد کیا ہے۔ بایں شوکت و شان کہ سلطان ابن سلطان ہو، سلطنت کی وقعت شاہی کی شوکت خاک میں ملائی۔ عجب پوچ لچر حرکت تم سے ظہور میں آئی۔ یہ حماقت کثرتِ سِن کی ہے، زندگی چار دن کی ہے۔ اس پر کلنک کا ٹیکا پیشانی پر لگایا، ننگ و ناموس کا پاس ہم سے خوف و ہراس نہ آیا۔ نہ یہ سوچے کہ سلطنت جاتی رہے گی، خلقت ہم کو کیا کہے گی۔ باہم کا رنج و ملال مُنجِز بجنگ و جدال ہوگا۔ ہزاروں کی مفت میں جان جائے گی۔ بے گناہوں کے خون کا گردن پر وبال ہوگا۔ روزِ رستخیز جس دم حرارت آفتاب تند و تیز ہوگی، جوابدہی میں بریز بریز ہوگی۔ سریر آرا مُسن ہو کے ذی اعتبار ہوتا ہے نہ کہ تمھاری طرح سے زیست بیکار کھو کے رعایا کی نظر میں ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ بادشاہ کو لازم ہے وہ بات کرے رعیت جس کو سند جانے، یا مضحکہ ہونے لگے اس فعل کو بد از حد جانے۔ معلوم ہوا کوئی تازہ مشیر پواج ہوا ہے جو اس قبیح امر کا رواج ہوا ہے۔ کچھ دنوں میں پریاں بنی آدم کو شہروں سے اٹھا لائیں گی، مزے اڑائیں گی، پرستان میں غیر جنس کے جوڑے پیدا ہوں گے۔ مخنث بچے تھوڑے پیدا ہوں گے۔ کس منہ سے منع کرو گے، ان کو بُرا کہو گے۔ گریبان میں منہ ڈال کے کیا کہو گے۔ خدا نہ کرے بادشاہ سے خلاف وضع حرکت سرزد ہو بچشم کم خلق اس کو دیکھنے لگے، زبان زد نیک و بد ہو، والی ملک کا فعل دستور العمل ہوتا ہے: الناسُ علیٰ دین مُلوکھم۔ تم نے شیطان کی تحریک سے وہ کام کیا جس سے آبرو میں خلل ہوتا ہے۔ سُنا نہیں بشر کی خلقت یشر عالم میں اسی کے ذات سے تمام شور و شر ہے۔ جو ذی حیات ہے اس کی ذات سے اس کو ضرر ہے۔ کُشت و خون کہ یہ کام سب سے زبون ہے، اس کا رواج انسان سے ہے۔ عداوت قلبی قوم بنی جان سے ہے۔ یہ بکھیڑا تمھارے وقوف پر موقوف رہا۔ لازم ہے کہ بمجرد ورود نامہ خائن متاع عصمت آوردہ علامہ طوق و زنجیر ہوگی، قید شدید میں اسیر ہوگی۔ بے آب و دانہ حضور میں روانہ ہو، ورنہ سرانِ سپاہ یلان ترقی خواہ کہ نشۂ جرأت میں دیوانہ وار سر شار ہیں، خلاف کلمے جو سنے ہیں، آمادۂ حرب مستعد پیکار ہیں، مثل قضائے مبرم اُسی جا سمجھو۔ تمہاری مملکت کا ہر قریہ و دہ دھاوے سے ویران ہوگا، بڑا گھمسان ہوگا۔ پھر عذر بیجا قبول نہ ہوگا، خفت کے سوا دشمنوں کو حصول نہ ہوگا
مجنبان مرا تا نہ جنبد زمین
ہمیں گویمت باز گویم ہمیں
والسلام ۔
نامہ تمام ہوا۔ جس وقت یہ تحریر سراسر خلاف اور عزم مصاف تاجدار قاف کے گوش زد ہوئی، دل صفا منزل مکدر ہوگیا، طبیعت منغص از حد ہوئی۔ فرط غضب سے ابرو میں بل آیا۔ پیشانی پر شکن پڑی، مزاج بگڑا۔ بجز جواب درشت مصلحت نہ بن پڑی۔ وزیر صاحب تدبیر سے فرمایا: یہ بات تازی نہیں، جواب ترکی ترکی ہوتا ہے، ناحق وہ سلطنت کھوتا ہے۔ اسی دم کاتب آئے، اس کا نوشتہ تقدیر لکھا جائے۔ منشی حاضر ہوا۔ نیستان قلمدان سے نیزۂ واسطی اٹھا کے صفحۂ قرطاس کو فقرات دلیرانہ کلمات رستمانہ سے دشت نبرد بنایا، جوہر تیغ زبان چستیِ مضمون بران تیزی دست دکھا کے سہام خامہ کو دم اختتام لب معشوق پہنچایا۔
جواب کلبہ شکن حاکم قاف کا سلطان فیروز کوہ کو، پریشان سمجھنا اس کے انبوہ کو، کلمات نصیحت مشفقانہ اس نادان کو سمجھانا، اپنی شوکت و صولت سے دھمکانا
مستوجب حمد، سزاوار ثنا حاکم جز و کل ہے جس کے روبرو جن و انس کے روشن دلوں کا چراغِ عقل گل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام پر کیسی آتش سوزاں جس کا شعلہ زمین سے تا آسمان جاتا تھا، اشارے میں گلزار کی۔ آتش افروز کی سلطنت فی النار کی۔ جب اپنے عبد کو طاقت کی قدرت معبود دکھاتا ہے تو اتنا ضعیف جثہ یعنی پشہ مغز نمرود کھاتا ہے۔ موسیؑ نے فرعون سے سرکش کو کیسا خوار و ذلیل کیا، وہ لشکر جرار بے گور و کفن غرق رود نیل کیا۔ ابابیل نے مع فیل اصحاب فیل کو مارا، کنکری نے ہاتھی سے ڈیل کو مارا۔ انس و جان کے نزدیک اشرف المخلوق فرقۂ انسان ہے، اس پر خیانت کا وہم بدگمانی حماقت کا نشان ہے۔ اگر اس گروہ حق پژوہ پر عصمت کا یقین امانت کا صادق گمان نہ ہوتا تو فرمانروائے جن و انس، وحش و طیر سلیمان نہ ہوتا۔ بشر میں کیسا کیسا نبی رسالت پناہ ہوا۔ اسی قوم سے کیا کیا اولو العزم بادشاہ ہوا۔ صاحب تاج و دیہیم ہوئے، فرمانروائے ہفت اقلیم ہوئے۔ جنوں کی سلطنت کو کس نے بگاڑا ہے، دیوؤں کو سر میدان کس نے پچھاڑا ہے۔ جس نے ان لوگوں سے سرتابی کی، اپنی خانہ خرابی کی۔ تو اپنی جمعیت پریشان پر مغرور ہوا ہے، سر پُر باد میں فتور ہوا ہے۔ یہ جاہ و جلال، ملک اور مال تیرے قبضے سے آج نہیں کل نکل جائے گا۔ سرِ میدان بضرب گرز گراں تکلے کی طرح بل نکل جائے گا۔ نمک خوارانِ جرار سپہ سالار خنجر گزار بزم طرب میں بیٹھے بیٹھے اب گھبرا اٹھے تھے، ہر دم جو یائے جنگ یہ بحر شجاعت کے نہنگ تھے؛ خیر تیری قضا کشاں کشاں لاتی ہے، ان شاء اللہ دلخواہ ان کی مراد بر آتی ہے۔ اور جس کی جانب تمھارا فاسد گمان ہے، معرکۂ نبرد میں دیکھنا وہ مردِ میدان ہے۔ دیکھیے عرصۂ جنگاہ میں عروس فتح و فیروزی کس کے کنار میں آتی ہے اور جنگل کے کنارے کس کی لاش پاش پاش بے گور و کفن ٹھوکریں کھاتی ہے۔ عرصۂ دراز سے وہ پیل تن صف شکن آمادۂ مصاف ہے، جن کا شہرہ قاف سے تا قاف ہے۔ جس دم سرِ میدان بر سرِ مقابلہ ان کی بار آتی ہے، قضا گھبراتی ہے۔ گو یہ نامدار مشتاق کارزار بہت ناز و نعم سے پلے ہیں، مگر رزم کو بزم سمجھتے ہیں۔ ایسے من چلے ہیں جس وقت بعزم گیر و دار اور دشمن کے شکار کو یہ جرات شعار راہوار اٹھاتے ہیں، حواس خمسہ عدو کے درست نہیں رہتے۔ ٹاپوں کی ضرب سے میدان حرب میں زمین کے طبقے چھ، آسمان آٹھ نظر آتے ہیں۔ ان کے روبرو مریخ کے ہاتھ سے خنجر گرتا ہے، بلکہ سوار عرصۂ فلک تھراتا ہے۔ حریف کو بجز راہ گریز اور کچھ نہیں نظر آتا ہے۔ تلوار وہ باندھتے ہیں جس کا نام برق غضب ہے، غازیان نصرت شعار ان کا لقب ہے۔ نیزہ اژدہا پیکر ان کا نیشتر، خنجر دو زبان الامان بے لاف ہے کہ گرزِ گراں کوہ شگاف ہے۔ کمند پیچدار ہے، جانستان ہر تار ہے۔ اب بھی جو عذر گستاخی کرو تو شاہزادۂ رحیم قصور معاف کرے گا؛ نہیں تو بات بگڑ جائے گی، فرار کے سوا اقرار کی تاب نہ آئے گی۔ جب وہ صف انداز عزم مصاف کرے گا، ہم جنس سمجھ کے سمجھاتے ہیں کہ قوم کی ذلت نہ ہو، آخرش تم بھی پری زاد ہو، حمیت مقتضی نہیں کہ تم برباد ہو، ورنہ سلطنت ہاتھ سے کھوؤ گے، سر پر ہاتھ دھر کے روؤ گے۔ بھلا کسی نے سنا ہے کہ بُری بات کا نیک انجام ہوا۔ والسلام
نامہ تمام ہوا۔ جب منشی نے نامہ بند کیا، ایک جرّار آزمودہ کار کو طلب کیا۔ فرمایا کہ نامہ بری کی رسم بجا لانا، زمرد کوہ میں پہنچانا۔ جب وہ رخصت ہوا، دبیر چست تحریر کو یاد فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ حسب لیاقت شایان قدر و منزلت فرمان شقہ پروانے حکم نامے بقید تاریخ لکھے جائیں تا دیکھ کے در دولت پر سب مسلح مکمل آئیں۔ فراش خانے کے داروغہ سے فرمایا: شہر سے پانچ کوس جو وہ مرغزار سراپا بہار ہے، چشمہ پشت پر چھوڑ کے خیام ذی احتشام نصب ہوں۔ میدان جو مد نظر ہو، اس میں رزمگاہ درست کرو۔ اس کام پر مرد جنگ دیدہ تجربہ رسیدہ مامور ہو، چست چالاک ضرور ہو۔ رن گدھ بنے مورچے کھدیں، دمدمے تیار ہوں، سطحۂ صحرا شفاف رہے، نہ خس کا نام ہو نہ خار ہوں۔
اسی دم یک قلم خیمے لد گئے، سامان روانہ ہوا تا شام دشت نبرد میں تھانہ ہوا۔ بیلداروں کو حکم ملا، پھاوڑا کدال سب نے سنبھال بلندی کو پست کر کے نشیب فراز کو ہموار کیا، کنکر پتھر چُن کر خس و خار کا جدا انبار کیا۔ کہیں نقب کا ڈھنگ بنایا، کسی مورچے کا کوچہ کشاد کسی موقع پر تنگ بنایا، جو زمین سُرنگ کوتاکی تھی، متصل اس کے توپ کی جھانکی تھی۔ کہیں بارود بچھا کے دمدمے کا نشان کیا، جنگی سب سامان کیا۔ تمام جنگل میں بلندی پستی نہ رہی، یکساں ہوگیا۔ نہ جُھندی دیکھی نہ جھاڑی نظر آئی۔ جدھر نگاہ گئی، میدان جنگی نظر پڑا۔ زمین صاف جھاڑی نظر آئی۔ اس کے بعد باون گنج ننانوے منڈی کے جھنڈے گڑے، صدر کا چبوترہ بنا ، چوپڑ کا بازار سجا، دکانوں کے نشان پڑے، خیامِ شاہی کے روبرو اردوئے معلی کا طور ہوا، نقشہ ہی کچھ اور ہوا۔ دل بادل خیمہ استاد ہوا، کندلی سرائچے بیچوبے قرینے سے سجے۔ سائر کی قنات تنی، بارگاہ بنی، مسل در مسل پالیں چھولداریاں نمگیرے کھڑے ہوئے۔ سرداروں کے واسطے تنبو بڑے بڑے سواروں کی لین میں اک چوبے چوتر کے کھینچ گئے، لشکر کی آمد شروع ہوئی۔ بازاری بیوپاری کنجڑے قصائی نان بائی حلوائی کو ڈنڈئی لے گئے۔ ہر بازار کے کوتوال اہلکار نے ان کی جگہ معین جو تھی وہاں اتارا۔ سوار پیدل کی مسل نقیبوں نے آراستہ کی۔
پہر نہ بجا تھا کہ فیلی شتری نقاروں کی صدا پیدا ہوئی۔ ظل اللہ مع شاہزادۂ عالیجاہ خیمے میں رونق افزا ہوئے۔ وزیر امیر اراکین سلطنت جابجا اترے۔ سلامی کی توپ اردلی کے توپخانہ سے چلنے لگی۔ آسمان کانپا، زمین دہلنے لگی۔ تین پہر بجتے بجتے بہیر بنگاہ فوج کو تھکے ماندے خیمہ و خر گاہ سب کچھ لشکر میں داخل ہوا، لشکر میں شہر کی کیفیت کا لطف حاصل ہوا۔ دکانیں کُھل گئیں، خرید و فروخت ہونے لگی۔ بازار میں کٹورا کھنکا، خلقت ہاتھ مُنہ دھونے لگی، سرِ شام دو رویہ چوک میں گیلاس روشن ہوئے، دکانوں میں چراغ جلنے لگے، تماش بین پھرنے چلنے لگے۔ ایک طرف چکلہ بہت چوڑا چکلہ ارباب نشاط کا داروغہ جدا دو برجی رتھیں، بے سائبان کی مجھولیاں مختصر عجیب آن بان کی ہر نائکہ نے اپنے چھپرے تانے، رنڈیاں ناچنے گانے لگیں۔ بے فکروں کے ہجوم ہوئے۔ زپٹ لگّاتا خرچیاں چکانے لگیں، کسی نے لگے بندھے کو بلایا، کسی نے تازہ پھنسایا۔ تمام لشکر میں چہچہے مچے تھے، مسل در مسل لوگ خوشی کر رہے تھے۔ چار سپہ سالار جرار ہزار ہزار سوار ہمراہ لشکر کے گرد از شام تا پگاہ طلایہ کو مقرر ہوئے۔ کوتوال گشت کو اٹھا، نرسنگا پھنکا۔ نظر باز پھرنے لگے، بدمعاش گھرنے لگے۔ پاسبان چوکیدار “بیدار باش خبردار باش” پکارتے تھے۔ پلٹن کے جوان حکمِ حیدر للکارتے تھے۔
القصہ تمام شب لشکر میں توپخانہ کے جوان اور مہتمم سپاہ انجم بروئے آسمان مہتاب روشن رکھتے تھے۔ جب تک شاہ خاور اور شہزادہ پری پیکر برآمد نہ ہوتا تھا، دونوں میں سے ایک بھی نہ سوتا تھا اور در دولت پر اکاسی دیا بھولے بچھڑے کا پتا تھا۔ جو کوئی اپنی مسل یا لین گنج منڈی بازار بھول جاتا، اس کی روشنی میں آ کے پتا لگاتا تھا۔
اب دو کلمے نامہ بر کے سنو۔ وہ نوشتۂ تقدیر بے تاخیر شاہ زمرد کو دیا، منشی کو طلب کیا۔ مضمون دلخراش سن کے کلیجہ پاش پاش ہوا۔ جھنجھلا کے کہا: اس کا جواب کلکِ دبیر سے نہیں، سرِ میدان شمشیر کی زبان سے دوں گا۔ یا لب سوفار یا پیکان آبدار گوش گزار کرے گا۔ بے جواب نامہ دار رخصت ہوا۔ افسران سپاہ یلان رزم خواہ کو فوراً کوچ کا حکم دیا۔ دیوانہ وار غصہ میں مع لشکر یلغار چلا۔ یہاں تو رات عیش و نشاط میں بسر ہوئی۔ مؤذن صبح چونکا، صدائے اللہ اکبر آئی، سحر ہوئی۔ سلطان نامدار شاہزادۂ والا تبار بعد ادائے فریضۂ سحر بعزم دربار تخت رواں پر سوار ہوا۔ اہالیان سرکار، ملازمان جان نثار، وزیر امیر صغیر کبیر درِ دولت پر ہمہ تن چشم درجہ بدرجہ اپنے اپنے قرینے سے کھڑے تھے، دیدے دروازے سے لڑے تھے۔ یکایک لال پردہ چرخی پر کھچا، بسم اللہ الرحمن الرحیم کا غل مچا۔ مراتب بمراتب سب کا مجرا ہوا۔ شاہان باج گزار، وزیر امیر نامدار، سپہ سالار قطار قطار پہلوان تہمتن یلان صف شکن حلقہ باندھے آہستہ آہستہ قدم قدم دار الامارۃ میں آئے۔ سلطان والا شان تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ جن جن کا مرتبہ بیٹھنے کا تھا وہ بیٹھے، باقی دست ادب بستہ جابجا کھڑے ہوئے۔ دست راست تخت کے برابر دوسرا تخت مختصر جواہر نگار بچھا تھا، اس پر شہزادہ بلند اختر بسانِ مہر منور جلوہ گر ہوا۔ زرد گاؤ سر طلائی نقرئی برمین خود مطلا خورشید سے زیادہ چمکتا، سر تا سر الماس زمرد جڑا، پرِ ہما کی کلغی سر پر سایہ فگن شباب کا جوبن، خنجر جانستاں شمشیر اجل سے برّاں۔ کمر میں مہر و ماہ کے پھول، سپر میں فولادی داستانے ہاتھوں میں چڑھے نادر دست کے گڑھے، تیغ ہندی حمائل تیوروں پر بل، تیکھی چتون نمونۂ قدرت عز و جل۔ چشم غزال سرمہ گیں لال لال، شیر کا رعب و جلال۔ خندہ پیشانی شجاعت کے آثار سخاوت کی نشانی۔ جدھر آنکھ ملاتا تھا، شجاعوں کا زہرہ آب ہوا جاتا تھا۔ اکیس بادشاہ باون امرا کرسی نشین ستودہ آئین، پانچ سَے تہمتن، بارہ سَے گرد صف شکن مرصع کار دنگلوں پر برابر برابر کل اراکان سلطنت حاضر تھے کہ پہلے لشکر کے کوتوال کا پرچہ گذرا، وزیر اعظم پڑھنےلگا، ہنوز ناتمام تھا۔ دوپیک صبا دم صرصر سے تیز قدم غبار آلودہ، ماتھے سے پسینہ ٹپکتا نمود ہوئے، چوبدار پکارے “سلطان خوش خو نگاہ روبرو”۔ شہر یار خجستہ اطوار نے ادھر آنکھ اٹھائی، ہرکاروں نے پایۂ تخت کا بوسہ لے کر تسلیم کو گردن جھکائی۔ پھر سر اٹھا دستِ دعا بلند کر کے کہا
الٰہی تا جہان باشد تو باشی
جہان را تا نشاں باشد تو باشی
رہیں اس در پہ ہر دم مثل دربان
شہِ روم و عجم اور چین کا خاقان
عمر و دولت شاہنشاہ خضر سے اور خزانہ خسرو سے افزوں ہو، دشمن تیرہ روزگار زار و زبوں ہو۔ قریب میدان کارزار لشکر شکست اثر حریف آ پہنچا، میدان نبرد کی ہیبت سے ہر شخص کا چہرہ زرد ہے، رعب چھایا ہے، پہلوانوں کا دم گھبرایا ہے۔ لب پر آہ سرد ہے۔ آمادۂ فرار با رخ پُر گرد ہیں، بدحواس زن و مرد ہیں، نو لاکھ از روئے شمار ہیں۔ چار لاکھ پیادے پانچ لاکھ سوار ہیں۔ شوکت افواج قاہرہ کثرتِ یلان خنجر گزار سے سب کو اضطرار ہے۔ جان کے خوف سے چھوٹا بڑا مغموم ہے۔ بہیر بنگاہ ملا کے بارہ لاکھ کا ہجوم ہے۔ لشکر ظفر پیکر کی مفصل خبر جو پائی ہے، چہروں پر مردنی چھائی ہے۔ سواروں کی خود فراموشی کا ادنیٰ یہ نکتہ ہے اگاڑی کو پچھاڑی سمجھ کے اُلٹا گھوڑا باندھتے ہیں، پچھاڑی میں کلخور ٹٹولتے ہیں۔ گھوڑے کے بدلے چار جامہ باندھتے ہیں۔ جو کوئی ہنسا تو شرمندہ ہو کے کھولتے ہیں۔ اور پیادوں کے ایسے ہاتھ پاؤں پھولے ہیں مسل کیسی کمیدان کا نام، پلٹن کا نشان بھولے ہیں۔ جس جا خیمۂ سلطانی نصب ہوتا ہے، وہاں تماشا عجب ہوتا ہے۔ ایک فراش اپنے انداز پر آ کر میخ گاڑتا ہے تو دوسرا عمداً اس کا نقشہ بگاڑتا ہے اور بے چوبا جس نے استاد کیا ہے سب نے اس کو اُستاد کیا ہے، اس بل پر وہ کسی کی کب مانتا ہے، داروغہ ہاں ہاں کرتا ہے، وہ شامیانے کے عوض سائر کی قنات تانتا ہے۔ جو مہتمم فراش خانہ ہے، وہ نرا دیوانہ ہے۔ بسنتی خیمہ کی خاطر فراش زرد چوب کا جب نام لیتا ہے، وہ پنساری بن کے بیٹھا ہے۔ ہلدی کی گرہ اپنی گانٹھ سےکھول کے دیتا ہے۔ ملازم سرکاری ہے یا بازاری ہے، شیطان نے سب کی عقل ماری ہے۔ خوف سے حواس غائب، ہوش گم ہے، تمام لشکر میں تلاطم ہے۔ برگشتہ سب سے اقبال ہے، مجنونوں کا حال ہے۔
القصہ خبرداروں کو حسب ضابطہ انعام ہوا اور وہ دن تمام ہوا۔ سرِ شام بفرحت تمام حکم پہنچا کہ طبل جنگ بے درنگ بجے۔ سب آگاہ ہوں دم سحر ملک الموت کی گرم بازاری ہے، دم نقد جان کی خریداری ہے۔ سر تن سے جدا ہوگا، زخم کے ہار ملیں گے۔ خنجر و سنان کے پھل کھا کے دشمن کا لہو پینا ہے۔ سرخرو ہو کر مرنے کا نام جینا ہے۔ یہ خبر سن کے نقارچیوں نے طبل اسکندری کو سینک کر چوب دی۔ نقارۂ جنگی کوس حربی کی کوسوں صدا پہنچی۔ حریف کا لشکر قریب تر تھا، صدا کا منتظر تھا۔ وہاں بھی حکم آیا، نقارہ بجایا، دشت نبرد کانپنے لگا، خورشید باخ زرد ہانپنے لگا۔ تمام رات سونے کی نوبت جری اور نامرد کو نہ آئی، نیند فرد فرد کو نہ آئی۔ بہادر تو رزم و پیکار کی تدبیر سوچتے تھے، بزدلے گھبرا گھبرا کر منہ نوچتے تھے۔ من چلے مشتاقانہ مورچوں کو غور کرتے تھے، ہنس ہنس کے رزمگاہ دیکھتے تھے۔ ڈھل گنڈے لمبے ہونے کا طور دیکھتے تھے، رو رو کے بھاگنے کی راہ دیکھتے تھے۔ جرّار خَود بکتر زرہ جامہ کھولتے تھے، بدحواس گڑگوڈر ٹٹولتے تھے۔ یہاں چہروں پر سرخی چھائی تھی، وہاں منہ پر ہوائی تھی۔ صبح تک جانبین میں تیاری بیداری رہی۔ آنکھوں میں رات کٹی، ہوشیاری رہی۔ دم سحر بصد کر فر اَریکہ آرائے زنگاری مشرق سے نمودار ہوا، ظلمتِ شب روبفرار ہوئی، صبح کا سفیدہ آشکار ہوا۔ دونوں بادشاہ جنگجو رزمخواہ سوار ہو کے میدان حرب میں آئے اور سوار پیدل نے اپنی اپنی صف اور پرے جمائے۔ طرفین سے نقیب نکلے، ہٹے کو بڑھایا۔ جو انداز سے نکل چلا تھا، گو بانکا ترچھا تھا۔ سیدھا کر کے صف میں ملایا۔ پھر کڑکیت کڑکے، خوش الحانیوں سے تڑکے تڑکے آوازے سنائے۔ شجاعوں کی مونچھوں کے بال بودوں کے رونگٹے فی الحال کھڑے ہو آئے۔ پکارے کہ اے بہادرو! نریمان ہے نہ سام ہے، نہ صفحۂ ہستی پر نشان زال خون آشام ہے۔ برزورہا نہ بیزن ہے، نہ اس بلندی پستی پر اسفند یار روئیں تن ہے، کیسے کیسے بہادر صف شکن تہمتن نوجوان رستم و ستان پیر فلک نے بچشم زدن ہلاک کیے، تہِ خاک کیے۔ پردۂ زمین پر ان کا پتا ہے نہ نشان ہے۔ مگر جرأت سے نام باقی جانفشانی کی داستان باقی ماندوں کی برزبان ہے۔ جانیں لڑا کے ساکھے کر گئے ہیں، وہی زندہ جاوید ہیں، گو مر گئے ہیں۔ ازل سے تیغ اور گردن میں لاگ ہے۔ تلوار کی آنچ مشہور ہے، گیلی سوکھی دونوں جلتی ہے، یہ وہ آگ ہے قدردان سرِ میدان نظارہ کناں ہیں۔ اپنے جوہر دکھاؤ، دونوں کو گلے ملاؤ، جرات کے کام کرو ؏
دورِ مجنوں گذشت نوبت ما ست
دور وزہ زیست میں نام کرو، جس کا قدم معرکہ میں ڈگ جائے گا، وہ کہیں آبرو نہ پائے گا۔
پگ آ گے پت رہے پگ پاچھے پت جائے
تلسی جگ مان جس رہے محنت کرے سو کھائے
یہ صدا دلیروں کو نیستان شجاعت کے شیروں کو شراب پرتگال ہوئی۔ بہادری کا نشہ آ گیا۔ آنکھ ہر ایک کی لال ہوئی۔ دفعۃً پری زاد فرخ نژاد نام ثانی سام ست راست کا سالار بشوق کارزار پرے سے نکلا، گھوڑا چمکا کے نیزۂ دوزبان سنبھالا، پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور اجازت میدان اس نوجوان نے چاہی۔ شہزادہ فیروز بخت برابر تخت کے تھا، گوشہ چشم سے ساغر تمنا اس کا لبریز کیا، آداب بجا لایا، صرصر صبا دم کو تیز قدم جنگاہ کی طرف مہمیز کیا۔ گھوڑے کو پوئی کاوے اٹیرن لگا، سرپٹ اڑا نیزے کے طعنے دکھا، مبارز طلب کیا۔ پکارا کہ جس کا جام حیات بادۂ ممات سے لبریز ہو، وہ معرکہ میں گرم خیز ہو۔ فوج مخالف سے ایک پیل تن بسانِ اہرمن کرگدن بڑھا کے مقابلہ میں آیا۔ پہلے تو حسب و نسب بیان کیا، پھر لاف گزاف کے کلمے زبان پر لایا۔ فرخ نژاد والا نہاد نے دست بازو سے عجیب دلیرانہ کار لیا، دو چار طعنوں کی رد و بدل ہوئی، پھر نیزے کی نوک پر اٹھا کے مار لیا۔ دونوں لشکر سے بے ساختہ واہ واہ کی صدا پیدا ہوئی، روح اس کی جسم سے بحال تباہ نکلی۔ اب لڑائی چھڑ گئی۔ مر جانے کی راہ نکلی، تاشام اس خون آشام نے صبح کر دی۔ دس بارہ نامی مخالف کا پہلوان مارا، حقیقت میں میدان مارا۔ اس عرصہ میں شاہِ انجم سپاہ بتماشائے رزمگاہ برآمد ہوا۔ چادر سیاہ سمت حریف پھیلائی، پرسُے کو تیرہ بختوں کے شب دیجور آئی۔ طبل بازگشت بجا، ادھر کے پہلوان بفتح و نصرت اُدھر برگشتہ عنان بصد خفت و ذلت اپنے اپنے ڈیرے خیمہ میں داخل ہوئے۔ حارس و نگہبان پاسبانی کرنے لگے، لشکروں کی نگہبانی کرنے لگے۔ تمام شب کوئی تو اپنے عزیز و اقربا کو روتا رہا، جو فتح نصیب تھا وہ پاؤں پھیلائے سوتا رہا۔ دمِ سحر جس دم سریر آرائے گنبد نیلی فام بشوکت تمام مشرق کے جلو خانہ سے تاباں ہوا، دونوں طرف پھر جنگ کا سامان ہوا۔ عرصۂ جنگاہ میں شاہانِ رزمخواہ رونق افزا ہوئے، فوجوں کے پرے صف آرا ہوئے۔ میمنہ میسرہ قلب و جناح ساقہ کمینگاہ نقیبوں نے ہموار کیا، صفوں کو تیار کیا۔ قلب سپاہ میں بادشاہوں کی سواری آئی۔ من چلوں نے گھوڑے بڑھائے، جان نثاری کی باری آئی۔ غرہ سے تا سلخ وہ لشکر فزوں از مورد بلخ لڑتا رہا۔ روز لاشوں کا انبار گرتا رہا۔ دو ہزار نامور اُدھر کا تین چار سَے پری پیکر اِدھر کا تہ خاک ہوا، ہلاک ہوا مگر قصہ نہ پاک ہوا۔ دوسرے مہینے شہزادۂ نیک نہاد نے بانیِ فساد کو پیام بھیجا کہ اسی طرح ہر روز بے گناہوں کی جان جائے گی، گنجلک نہ مٹے گی، لڑائی فیصلہ نہ پائے گی۔ ہم تم باعث فتنہ بانیِ شور و شر ہیں مدعی ہمدگرہیں، لازم ہے کہ سرِ میدان دل کے ارمان نکالیں۔ یلان رزمخواہ سران سپاہ تماشائی خاموش رہیں، بولیں نہ چالیں، یہ کارزار دار ناپائدار میں یادگار رہے۔ غیر کا خون کیوں بہے، جس کا یاور اقبال ہوگا، دوسرا اس کے ہاتھ سے پامال ہوگا۔ دیکھیے رن کا نوشاہ کون ہوتا ہے۔ عروس فتح کس سے ہمکنار ہوتی ہے۔ والی وارث کس کا روتا ہے۔ سرِ میدان کس کی لاش ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ جس دم یہ جملہ شاہزادۂ زمرد کوہ کے گوش زد ہوا، آنسو پچھے فرحناک از حد ہوا۔ بسکہ اس کو اپنی تنومندی کا بھروسا، زور و طاقت کا سہارا تھا، بارہا سرِ میدان ہزراہا زبردست پہلوانوں کو مارا تھا، جواب دیا کہ الحمد للہ شاہد مراد نے چار آئینہ فولاد میں صورت دکھائی، یہی تمنا تھی سو بر آئی۔ تاریخ نہم مع الخیر ہمارا تمھارا مقابلہ ہے، بڑی سیر کا معاملہ ہے۔ جس وقت خبردار پھر آئے اور یہ خبر لائے، لشکروں کو بازگشت ہوئی لیکن چرچا مچا کہ یہ لڑائی نئے ایجاد سے ہے۔ انسان کا مقابلہ پری زاد سے ہے۔ ہر چند بادشاہ نے شہزادۂ عازم نبرد کو با دل پر درد سمجھایا کہ بابا ان نوجوانوں کو گردن کش پہلوانوں کو اسی دن کی خاطر زر و جواہر دے کر پالا ہے، بارہا دیکھا بھالا ہے؛ کچھ کام نہ آیا۔ ادھر غول کے غول جراروں کے غٹ کے غٹ جنگ آزمودہ سپہ سالاروں کے دست بستہ روبرو آ ئے، غرض کہ ہم چشموں میں عزت و توقیر ہماری نہ رہے گی، دونوں طرف کی فوج کیا کہے گی۔ حضور مشغول جنگ ہوئے، ہم دنیا میں بے نام و ننگ ہوئے۔ ایک تو آپ مسافر اور مہمان، وہ قوم بنی جان زبردست فیل مست، خدانخواستہ اگر لڑائی بگڑ جائے گی، گلے کاٹنے کی نوبت ہماری آئے گی۔ شہزادۂ جری نے فرمایا: محبت سے یہ کلمہ تم نے کہا، حافظ حقیقی بہرحال ہمارا یاور و نگہبان ہے، دیکھ لینا جو ہوگا یہی گو یہی میدان ہے۔
القصہ آٹھویں تاریخ نویں شب آئی۔ ترقی خواہوں کی مع بادشاہ جان بلب آئی۔ شہزادہ نے بعد فرائص صبح دستِ دعا بدرگارہ خدا بلند کر کےکہا: اے مدد گار جن و انسان! خلاق زمین و آسمان! نام کو باقی رات ہے، دمِ سحر مقابلۂ کوہ پیکر ہے۔ اس ضعیف الجثہ کی آبرو تیرے ہاتھ ہے۔ دشمن کو اپنے زور بازو کا سہارا ہے، مجھ کو لا تقنطوا کا سہارا ہے۔ یہ کہہ کے تاج کیانی سے سر، لباس سلطانی سے جسم انور آراستہ کر ہتھیار لگائے۔ نیا رواج کیا، خود زیر تاج کیا۔ زرہ گا ؤ سر پر چار آئینہ لگایا،فتح و فیروزی کا نقشہ نظر آیا۔ آفتابی سپر اس ماہ پیکر نے زیب پشت کر کے بوندی کی کٹاری لکہ ابر رحمت نے کمر میں رکھی۔ تسمے کی لاگ سپر میں رکھی۔ فولادی دستانے زر نشان زیب دست تھے۔ نئے انداز سے ہتھیاروں کے بند و بست تھے۔ تیغ ہندی پٹھ چرا خمیرا دبلا رنگ الماسی آب نایاب باڑھ اجل کی گھاٹ تک لہو کی پیاسی حمائل کی، قبر میں پیٹھ نہ لگے جس کے گھائل کی۔ تپنچے ولایتی جن کے توڑ سے بندوق کا جی چھوٹ جائے، قبور میں لگائے۔ اسپ صبادم فرفر کرنے لگا، آمد دیکھ کے طرارے بھرنے لگا۔ شہزادہ نے یا علی گردن پر انگشت شہادت سے لکھا۔ حلقۂ رکاب ہمہ تن چشم منتظر قدم تھا۔ ایال پر ہاتھ ڈال رکاب میں پاؤں لگا گھوڑے کی پیٹھ پر پہنچا۔ جلوہ دار نے دامن قبا درست کیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا شور عظیم ہوا۔ قربوس زین میں ملتانی کمان کھنچ آئی۔ لب سوفار کی دعا قبول ہوئی کہ اب سرخروئی حصول ہوئی۔ ترکش نے کمر کے متصل رونق پائی۔ ہر نے پر کمند کے لچھے ڈالے، ساز یراق گنڈے اچھے سے اچھے ڈالے۔ دست راست میں نیزۂ دو سر اژدہا پیکر، بائیں میں عنان رشک صرصر سر فلک فرسا فروتنی سے خم کیا۔ ناد علی کو دم کیا۔ میدان کو دیکھ کے تیور پر بل آئے، نشۂ جرأت سے دیدے اُبل آئے۔ چہرے کا رنگ جوانی کی ترنگ میں گلنار ہوا۔ گھوڑے کو پٹری سے مسک کے گرم رفتار ہوا، سمند برق دم ہر قدم تڑپ کے جولانی کرتا تھا، زیر ران گرم عنائی کرتا تھا۔ شہسوار بے بدل نے خانۂ زین میں سنبھل کے ٹھکرایا۔ پہلے طرارے میں تخت کے برابر اتارا، مردہا نگاہ روبرو پکارا۔ بادشاہ متوجہ ہوا، یہ آداب بجا لایا۔ رخصت خواہ ہوا۔ والیِ قاف نے آنسو آنکھ میں بھر کے تاج شاہی ہاتھوں پر دھر کے برآرندۂ حاجات مجیب الدعوات سے عرض کی کہ تو قادر توانا علیم و داتا ہے، مہمان کا معرکہ میں جانا ہے۔ اے رحیم یہ فتح پائے، میری آبرو رہ جائے۔ پھر کہا: بحافظ عالم سپر دم اللہ معکم اینما کنتم۔ تمام فوج نے بلبلا کے کہا: پروردگار تو اس کی مدد کرنا، جو بلا آئے اپنے کرم سے رد کرنا۔ شہزادہ گھوڑے کو چمکاتا راکب و مرکب کا جوبن دکھاتا چلا۔ پرے کے برابر آتے ہیں گھوڑا دبا کے سن سے نکل گیا۔ بوئے گل کی طرح چمن سے نکل گیا۔ یا تو سب فوج کی نگاہ میں تھا، دو لنبیاں گھوڑے نے کیں، رزمگاہ میں تھا۔ میدان میں چار طرف نگاہ کی، گھوڑے کی باگ لی، رجز پڑھ کے آگے بڑھ کے اپنا حسب و نسب بآواز بلند سنا، مبارز طلبی کی پھر اس انداز سے نعرہ مارا کہ جانور پرواز سے رہ گئے، دونوں لشکر دہل گئے۔ فلک پیر الامان پکارا، مجبور با دل رنجور حریف کوہ پیکر دیو منظر ہمہ تن غرق دریائے آہن کرگدن پر سوار بچشم خونخوار کف در دہان، بزدلی پن پر شیر کی صورت غرّاں روبرو آیا۔ تنور سے مشابہ تر، خود سر، پرغرور، پر دام، زرہ میں نہنگ سا پھنسا، چار آئینہ میں موت کا منہ دیکھتا، تلوار جو کبھی میان سے باہر نہیں نکلی ران کے نیچے دبی، سپرپس پشت کلنک کا ٹیکا، دستے میں تیر سراسری؛ شہزادہ کے رعب سے لب سوفار خشک، کمان کا رخ اترا، برچھا کرگدن کے کان پر سر نگوں، خنجر کی بے آبی کیا کہوں دستے تک اودا سا کرگدن میں مٹھا پن گویا بھینس زیر ران، خنجر بے جوہر آب نایاب داسی اُ داسی یہ کُھلا کہ باندھنے والے کے خون کی پیاسی، سوار حیران آتے ہی ہم تگادر ہوا۔ عجب دھماکا پیدا ہوا کہ فوج دہل گئی، پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میدان زیر و زبر ہوا۔ دس بارہ قدم گینڈا بیدم ہو کے ہٹا، تھرانے لگا۔ تین چار قدم اسپ برق دم ہٹ کے اپنی چمک بدستور دکھانے لگا۔ کئی روز پیشتر اس لڑئی کی خبر مشتہر ہو چکی تھی کہ پری پیکر گل عذار کا دیو خونخوار سے اب سامنا ہے، غضب سا منا ہے۔ تمام ساکنان پرستان ایک سمت کو نظارہ کناں تھے اور ہزارہا پری اور پری زاد بروئے ہوا میدان میں گھر آئے تھے۔ زمین پر فوجوں کے دل آسمان پر اُن کے بادل چھائے تھے۔ آفتاب نظر نہ آتا تھا، اندھیر ہوا جاتا تھا۔ دفعۃً اُس تنگدل نے گزر گراں سنگ عرابی سے اٹھایا، شہزادہ کا جلو دار بھی گرز روبرو لایا۔ چار گھڑی کامل وہ دھما دھم ہوئی کہ زیر زمین مچھلی بیدم ہوئی۔ صفحۂ میدان کرۂ آہنگراں سراسر ہوا۔ گوش گردوں گردان کر ہوا۔ اُسی گرمجوشی میں شہزادۂ بلند اختر نے بقوت تمام تر رکاب سے رکاب ملا کے گرز لگایا، حریف نے گرز پر روکا۔ ایسی ضرب کڑی پڑی کہ عمود کا کلہ نابود ہو کے دستے میں اتر آیا، گینڈے کی کمر میں بل پڑا۔ سواری میں خلل پڑا۔ پیادہ ہو کے گھوڑا مانگا، اس پر ناچار سوار ہو کے شرم سے کسی طرف دیکھا نہ بھالا۔ نیزہ سنبھالا اور شہزادہ کا سینہ حُسن کا گنجینہ تاک گھوڑا ڈبٹایا، دونوں جانب کے پیدل سوار نیزہ دار سمجھے کہ پورا وار ہوا، برچھا دو سار ہوا۔ یہاں فضل الٰہی شامل حال تھا، وہ کیا مال تھا۔ اس چستی اور پھرتی سے شاہزادہ نے بدن کو چُرایا، ہوا کا بھی صدمہ بدن تک نہ آیا۔ اسپ صبا خصال کا عجب حال تھا۔ اس سناٹے سے پھرتا تھا کہ پتلی تو پتلی پھر کے دیکھ لیتی تھی۔ مگر گردش میں سُم اور نعل، وہم اور خیال کے حلقۂ تصور میں نہ گھرتا تھا۔ صُمٌ و بکمٌ کا طور تھا، نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ مردم دیدہ بغور تمامتر تکتے تھے، نقش پا کو دائرہ نظر میں نہ لا سکتے تھے۔ زمین کو رشک آسمان چال سے بناتا تھا، اس چمک سے آتا جاتا تھا۔ جس جگہ نشان نعل بن جاتا تھا، وہ پھر آنے میں بدر ہوتا تھا۔ جانے میں جو ہلال بن جاتا تھا، جہاں جہاں اس نے پاؤں اتارا تھا، میخ کا نشان تارا تھا۔ چمک جانے میں برق جہندہ کا شرارہ تھا۔ گھوڑا کیا تھا سیماب کا پارہ تھا۔ برچھا لگانے میں حریف نے جو منہ کی کھائی تھی، مع گھوڑے زمین پر گرنے کی نوبت آئی تھی۔ مگر شہزادۂ رزم آزما نے اس بدحواس کا پاس کیا۔ بسرعت تمام تر وار خالی دے کر گھوڑے کو پلٹا ٹوک لیا۔ نیزہ دو زبان کی ڈانڈ سے گرنے نہ دیا، روک لیا۔ مرحبا صلی علیٰ کی صدا ارض و سما سے آنے لگی۔ نیزہ بازوں کی جان جانے لگی۔ وہ ننگ دودمانِ شاہی مزاج کا واہی بل کھا کے جھلا کے پھر ڈانڈا ینڈی پر مستعد ہوا۔ دو اژدر سیاہ بسان دو آہ باہم پیچاں تھے، دیکھنے والے واہ واہ تو کہتے تھے، مگر انگشت حیرت بہ دہان تھے۔ برق غضب کی طرح سنانیں لڑ کے چمک جاتی تھیں۔ شرارے پیدا ہوتے تھے، تماشائیوں کی آنکھیں جھپک جاتی تھیں۔ اس نے بند باندھا تو اس نے بہ کشادہ پیشانی کھول لیا۔ کبھی وہ بڑھ آیا، گاہ اس نے رول لیا۔ ڈانڈ سے ڈانڈ مع سنان و بنان باہم لڑ کے لپٹ جاتے تھے۔ کئی نیزے چرخ سے بلند ہو کے آپس کی کھٹا پٹ جاتی تھی۔ آخر کار شہزادۂ نامدار نے ایک پیچ میں باندھ کے گھوڑا اُڑایا، سب نے دیکھ کہ اڑاڑا کے وہ خشمگین بروئے زمین آیا، لیکن وہ تو گرتے گرتے گھوڑے پر سنبھل گیا، مگر ہوائی کی طرح نیزہ ہوا ہوا ہاتھ سے نکل گیا۔ دونوں جانب سے تحسین و آفرین کے نعرے آنے لگے۔ ہوا خواہوں کی یہ نوبت ہوئی فرط خوشی سے شادیانے بجانے لگے۔ صبح سے دوپہر ڈھل گئی تھی۔ سب بے دانہ و آب بھوک پیاس سے بے تاب تھے۔ فرمانروائے قاف نے فوراً طبل بازگشت بجوا دیا، پنجۂ قضا سے بچوا دیا۔ شہزادۂ یاسمین پیکر بافتح و ظفر وہ شکست نصیب خائف و خاسر میدان سے پھرا۔ سلطان قاف شاہزادہ کو گلے سے لگا برابر تخت پر بٹھا خیمہ میں داخل ہوا۔ وہ بداسلوب محجوب برگشتہ قسمت اپنے فرودگاہ کی طرف پھر ا۔ یہاں بزم طرب میں سب چہچہے کرنے لگے، مصروف جشن وہ شیر بیشہ ہوا۔ وہاں مجمع اندوہ و ملال رہا، چھوٹا بڑا کوفت میں خراب حال رہا۔ سحر مصاف کا سب کو اندیشہ ہوا کہ آج تو سرِ میدان یہ ذلت کا سامان ہوا۔ خدا جانے کل کیا ہوگا۔ شگون زبوں ہوا، انجام کار بُرا ہوگا۔ بات کی بات میں رات تمام ہوئی۔ صبح کا سفیدہ چمکا۔ لشکر میں ملک الموت آ دھمکا۔ نقیبوں نے شکست نصیبوں کو بیدار، سوار پیدل کو آمادۂ کارزار کیا۔ اُدھر شہر یار قاف اور شاہزادہ وارد میدان مصاف ہوا۔ ادھر کے سوار پیادے مرگ کے آمادے پرے جما کے کھڑے ہوئے۔ دہ دمِ صبح نور کا تڑکا سرد سرد ہوا کے جھونکے صرصر و صبا کے جھونکے، خوش آواز کڑکیتوں کا کڑکا، صحرا گلزار پہاڑ کی ڈانک پر آبشار، پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو مہک چار سو، جانورانِ خوش الحان درختوں پر حمد خوان جابجا، جھیلیں تالاب بھرے گرد وہاں کے کھیت ہرے، دونوں سمت پری زادوں کے پرے، بیچ میں رن ہزاروں بے گور و کفن، کوئی گل عذار کوئی غنچہ دہن، لب خشک، زخم ہرے، لڑائی کا کھیت، غیرت گلشن، عبرت کی جا، حیرت کا مقام، لاشوں کے گرد دد و دام، کسی کے چہرے پر چمک دمک، کسی کے منہ پر اداسی، کہیں دلجمعی، کہیں بدحواسی، موت کی گرم بازاری، جان کا لین دین سر کی خریداری، دنیا کی بے ثباتی دولت کی ناپائداری، حکومت کا ساز و سامان خواب پریشان، جیتے جی قصہ بکھیڑا، ملکی مالی مر گئے تو ہاتھ خالی مشہور ہے کہ دو گز کفن ساتھ جاتا ہے جب خاتمہ بالخیر ہوتا ہے، یہ نہیں سمجھتے کہ اپنے اختیار میں نہیں عطیۂ غیر ہوتا ہے۔ کچھ تو ایسی ایسی سوچ میں تھے، بہت محو سیر و تماشا تھے، بچشم غور دیکھنے کے سامان مہیا تھے۔ دو دریائے فوج موج در موج کیا کیا نہنگ بحر دغا ماہی مراتب کے پاس کھڑا، پرزر پھریرے مُغرّق عَلَم اور نشان کھلے، ہر طرح کے باجے بجتے، لڑائی پر تُلے، زیست سے سیر حکم کی دیر، سب کو یہ خیال تھا کہ آج دیکھیے کون سا دلیر کس پر ہت پھیر کرتا ہے۔ کون زبردست کس کو زیر کرتا ہے۔ دفعۃً جو علمدار روبروئے سلطان نامدار کھڑا تھا، اس نے علم کو جلوہ دیا۔ شہزادۂ صف شکن مثل تہمتن پرے سے نکلا، رزم کو بزم سمجھ کے مرکب پری نژاد کو جھجکارا، حد پر پہنچ کے نیزہ گاڑ دیا۔ حریف کو ڈانٹ للکارا، وہی دام مرگ کا اسیر با دِل دلگیر دہن نہنگ میں دلتنگ چلا، مقابل ہوتے ہی وہ تلوار جس پر اعتبار تھا کھینچی، شاہزادہ نے بھی قبضۂ شمشیر صاعقہ خصال پر یا ذو الجلال کہہ کے ہاتھ ڈالا، باہم تلوار چلنے لگی۔ قضا رک کے اس کے حال پر کف افسوس ملنے لگی۔ دیر تک دھاوا شپاشپ چھپا چھپ رہی۔ اسی چالاکی میں تپنچے کی چوٹ پر شہزادہ کی شمشیر اس شریر کے کلے پر جو چمک گئی، آنکھ خیرہ سر کی جھپک گئی۔ دفعۃً شہزادہ عیار نے کمند کے حلقے میں گردن اس سرکش کی بند کر کے چاہا تھا کہ جھٹکا مارے، گھوڑے سے زمین پر اتارے، برق غضب اس کا عیار جلودار تھا۔ ناگاہ نگاہ اس کی پڑ گئی کہ کمند پیچان گردن میں گڑ گئی۔ اس چمک سے خنجر پکڑ کے حلقے کاٹے کہ گردن تو رہا ہوئی، مگر پیچ میں کمند نہ معلوم ہوئی کہ کیا ہوئی، عیار سنبھلنے نہ پایا تھا کہ شہزادۂ قوی بازو نے ڈانٹ کر تلوار ڈالی، مع خنجر کلائی کاٹ دالی۔ حوصلہ اس کا پست ہوگیا۔ پری زاد کا بازو ٹوٹا، وہ بیدست ہوگیا۔ پھر بدستور وہ صور شمشیر زنی کوہ کنی میں مشغول ہوا ۔اس چستی سے وار ہوتے تھے کہ ڈھالوں کے پرزے ہر بار ہوتے تھے۔ القصہ باد خزاں حسام سے ڈھالوں کے پھول جھڑ گئے اور تلوار زخم رسانی سے عاری ہو گئی، دندانے پڑ گئے۔ سپر پاؤں پر گری اور صمصام دانت نکال کر کِری، اس وقت سوچے کہ اس کا یہ حال ہوا، نیزہ بازی گرز زنی کا کچھ نہ مآل ہوا۔ یہ تینوں کام بے سود ہوئے، یہ سمجھ کے دونوں دلاور گھوڑوں سے برابر کود کے کُشتی کو موجود ہوئے۔ کمروں میں ہاتھ پڑ گئے، زمین میں قدم گڑ گئے۔ مگر وہ دیو مازندران یہ گل اندام جوان، اُس کا باپ تو بیٹے کا قد و قامت، زور و طاقت دیکھ کے شاد ہوا۔ سلطان قاف بدرگاہ خدا دعا کرنے لگا، سرگرم نالہ و فریاد ہوا۔ ان دونوں کا یہ حال تھا کہ کسی کا تصور نہ خیال تھا۔ مگر شاہزادہ جب پیچ میں باندھتا تھا تو اس کا بند بند بایں تنو مند ٹوٹتا تھا، کھولنا محال ہوتا تھا، ہر بار جی چھوٹتا تھا۔ تاوقت زوال ایک سا حال رہا۔ اب پری زاد کا دم پھولنے لگا۔ داؤ پیچ بھولنے لگا، جب زور گھٹنے لگا، دب کے پسپا ہوا، پیچھے ہٹنے لگا۔ شاہزادہ نے دم سنبھلنے نہ دیا، خوب ریلا؛ اُس نے اور کھیل کھیلا، جھلا کے لنگر مارا، پاؤں کو زمین میں اتارا کہ دم درست کر لے، جسم کو چست کر لے۔ شہزادہ بھی استاد تھا، ہزارہا پیچ یاد تھا، دفعۃً کمربند میں دونوں ہاتھ ڈال کے باتوں میں ٹال کے الا اللہ کہہ کے ہِکہ جو لگایا، وہ کوہ پیکر پرِکاہ سے بدتر اکھڑ آیا۔ مہلت نہ دی، پھرتی کی، بے گزند سر سے بلند کر کے بقوت تمامتر اس طرح سے پٹکا کہ صاف دم نکل گیا، کہیں نہ اٹکا۔ چاہا تھا کہ پہلو میں قرولی اتار دے یا تلوار کا ہاتھ مار دے۔ مگر خیال جو کیا تو گرتے ہی فنا ہوگیا، راہی ملک بقا ہوگیا۔ ہاتھ روک کے پشتِ مرکب پر آیا، جلو دار نے فتح مبارک کا شور مچایا۔ اس کے باپ نے جو دیکھا جوان بیٹا مارا گیا، پیری کا سہارا گیا، تاج کو پٹک نعرہ کیا، جگر چرخ پارہ کیا۔ تخت کو بڑھایا، فوج کو پکارا کہ تم دیکھتے ہو وارث سلطنت جہاں سے سدھارا۔ یہ سن کے افسروں نے باگ اٹھائی، فوج چار سمت سے گھر آئی۔ ادھر سے سلطان قاف بگٹٹ جا پہنچا۔ ہمراہ رکاب چھوٹا بڑا آ پہنچا۔ دونوں دَل سوار، پیدل غٹ پٹ ہو گئے۔ باران تیر صاعقہ شمشیر پڑنے گرنے لگا۔ ہر طرف لوہا برستا تھا، بجز آبِ شمشیر و خنجر زخمی پانی کو ترستا تھا۔ اولے کی طرح سر سراسر گرنے لگے۔ دریائے خون رن کے کھیت میں موجزن تھا، کشتہ ہر ایک بے گور و کفن تھا۔ دھاوا کا غل، شپاشپ کا شور، جو وار خالی گیا تو سَن سَن کا لطف تھا، زخموں کے ہار تیروں کے گھاؤ، سوراخ دار خون کے سہرے، جوانوں کے چہرے، مرد و نامرد پر دولہا دلہن کا لطف تھا۔ ہر شخص شناور بحر خون تھا، گلنار جیحون تھا۔ بہتی ڈھالوں پر کچھووں کی ڈھالتے تھے، کاسۂ سر حباب بن کر موجۂ خون سے سر نکالتے تھے۔ دھڑا دھڑ میں غوطے کھا کے ٹکراتے تھے۔ زرہیں دام مرگ ہو گئی تھیں۔ جنجال میں مردے زندوں کو پھنساتے تھے۔ جابجا کُشتوں کے انبار رہ گئے۔ تیروں کی کثرت سے روحیں اڑ گئیں، لاشے پر دار رہ گئے۔ ثابت ہوتا تھا کہ ان کا وارث ہے نہ والی ہے۔ مرغ روح مجروح پرواز کر گیا۔ قفس جسم خالی ہے۔ کشتوں کا رنگ نرالا تھا۔ شہزادے کی تلوار کا جو زخم تھا، وہ آلا تھا۔ پیکان تیر مثل زبانِ دہن زخم سے یہ تقریر کرتا تھا کہ کس کا منہ ہے جو اِن بہادروں کے سوا لوہے کے چنے چبائے، مرنے کی بدنامی سے چھٹ کے زندہ جاوید ہو جائے۔ عجیب عجیب معاملے معرکہ میں نظر آتے تھے۔ سوار تو پیدل ایٹرن پڑے تھے، خالی گھوڑے تنگ ہو کے کاوے لگاتے تھے، آقا کے لیے ٹاپتے تھے۔ لاش کی تلاش تھی، مگر وہ پہچانی نہ جاتی تھی، ایسی پاش پاش تھی۔
القصہ نوجوان بیٹے کے سرِ میدان قتل ہونے سے بوڑھا باپ جنگ کی تاب نہ لایا اور فوج نے بھی جی چھوڑ دیا۔ پیٹھ دکھائی، منہ موڑ دیا۔ پاؤں نہ جما، بھاگ نکلی۔ سلطان قاف کے لشکر میں شادیانوں کی نوبت آئی۔ فراریوں نے داد بیداد کی صدا فلک گراں گوش کو سنائی۔ بادشاہ بے تابانہ شاہزادے کے گرد پھرنے لگا، زر و جواہر نثار ہو کر زمین پر گرنے لگا۔ جتنے جرار نامدار تھے، دست و بازو کی طاقت پر حیران تھے، فن سپہ گری میں طفل دبستان تھے۔ سبحان اللہ یا صلی علی کا غل تھا۔ کشتوں کے لہو سے پوشاک پر افشاں تھی، نوشاہ کی شان اُس نوجوان کے چہرے سے عیاں تھی۔ جس جا لوہا برسا تھا، وہاں زر سرخ اور سفید برساتے بڑی شوکت اور شان سے خیمہ میں داخل ہوئے، دل کے مطلب حاصل ہوئے۔ اس لڑائی کا قصہ شہزادہ کی شجاعت کا مذکور پرستان کیا، دور دور پہنچا۔ سب حیران تھے کہ ایسے پری پیکر انسان نے دیو خصال کو سرِ میدان مار لیا۔ کوہ پیکر کو پرکاہ کی صورت خانۂ زین سے اتار لیا۔ فتح کی نذریں گذریں۔ جشن کی تیاری ہوئی۔ رزم سے فرصت پائی، بزم کی باری ہوئی۔ ایک ہفتہ اور وہاں مقام رہا۔ دن کو مقتولوں کو دفن کرنا، رات کو گانے اور ناچ کا اہتمام رہا۔ نویں روز بادشاہ مع شاہزادہ عالی جاہ شہر میں رونق افزا ہوا، جس قدر پرستان میں حسین اور نامی جوان تھے، شہزادہ کے دیکھنے کو سب کا مجمع ہوا۔ اس فقرے پر بیان کا اختتام ہے، داستان تمام ہے کہ اس بادشاہ کا بیٹے کے مرنے سے جی چھوٹا، ملک و مال سے ناامید ہوا۔ غم کا آسمان ٹوٹا، کہیں پاؤں نہ ٹکا۔ زمرد کوہ کی سیدھی راہ لی۔ شاہزادہ بافتح و ظفر پہرا شہر میں داخل ہو کے مقتول کی منگیتر دھوم دھام سے بیاہ لی۔ پھر اس کو ہمراہ لے کے وطن کی سمت روانہ ہوا، پرستان میں تمام قوم بنی جان میں یہ قصہ فسانہ ہوا، لیکن مشہور ہے کہ
در پس ہر گریہ آخر خندہ ایست
معرکۂ رزم کے بعد بزم کی صحبت ضرور ہے۔ مؤلف کا لقب سرور ہے۔ اگر فلک کے ہاتھ سے فرصت پاتا ہوں تو قریب ان شاء اللہ تعالی سناتا ہوں۔ کہانی تمام ہوئی۔ جھوٹ کو سچ کر کے دکھا دے، یہی اس کا مزا ہوتا ہے۔ ورنہ قصے میں بکھیڑا ہے اور کیا ہوتا ہے۔
القصہ اعجاز شاہ کرامت کی راہ سے یہ کہانی سُنا چکے اور سمن رخ کے ہوش حواس بر جا آ چکے۔ صحت ہوئی، مزاج درست ہوا۔ سب باتوں کا بند و بست ہوا۔ ہوا خواہوں نے مبارک سلامت کا غوغا مچایا، مطلب دل کا بر آیا۔ آذر شاہ گوش برآواز تھا، اس کو اعتقاد کامل حاصل ہوا کہ سب شاہ صاحب کا اعجاز تھا۔ جواہر گراں بہا تحائف جا بجا کشتیوں میں چنا۔ شاہ صاحب کے روبرو دست بستہ لایا۔ تارک دنیا نے دستِ رد سینۂ قبول پر رکھ کے فرمایا: بابا مدتوں خواہش زر میں دربدر خاک چھانی، مرشد کی نصیحت نہ مانی۔ دن رات خرابیاں سامنے آئیں، دوڑ دوڑ کر ٹھوکریں کھائیں۔ کون سا رنج تھا جو اس کی تلاش میں نہ اٹھایا۔ مگر یہ ظالم کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ جس دن سے اس کو ذلیل و خوار جانا، سراسر پبکار جانا، یہ ڈھونڈھ کے پاس آتا ہے، فقیر منہ پھراتا ہے۔ اب معبود کے نام چھٹ سب چیز کا لینا حرام ہے۔ یہ بوجھ اٹھانا اہل دنیا کا کام ہے۔ جب یہ پاس آتا ہے، دونوں جہاں کو بُھلاتا ہے۔ اسی کے نشہ میں آدمی گونگے بہرے ہوتے ہیں، اسی کی نگہبانی کو درکار چور پہرے ہوتے ہیں۔ اس کا دوست خدا کا دشمن ہے، دین ایمان کا یہی رہزن ہے۔ جب شاہ صاحب نے اس درجہ انکار فرمایا، بادشاہ کا دونا اعتقاد بڑھا، بمِنّت یہ کلمہ لب پر لایا کہ وضع حمل تک آپ بہرکیف رونق افزا رہیں۔ دست شفقت اس کے سر پر پھیرنا ضرور ہے کہ حضور کی توجہ سے اس کا ظہور ہے۔ گود میں لے کے عمر طبعی کی خالق سے دعا کیجیے، بندِ تفکر سے ہم کو رہا کیجیے۔ بجبر شاہ جی نے یہ امر منظور کیا، بادشاہ کو مسرور کیا۔
کچھ دن نہ گذرے تھے کہ قابلہ نے عرض کی: قبلۂ عالم مبارک! قریب ثمر زندگانی زیب کنار ہوتا ہے، شاہزادی کو درد بے اختیار ہوتا ہے۔ شاہ صاحب نے فوراً کوری چینی منگا کے لکھی، گڑ پڑھ کر دیا کہ اس کو کھلا کے اُس کو سر پر رکھنا، داتا مشکل آسان کرے گا، سرور کا سامان کرے گا۔ بادشاہ نے وزیر اعظم سے ارشاد کیا: شہر کو آراستہ کرو، منادی فوراً ندا کرے کہ خوشی خلقِ خدا کرے، در دولت پر جشن عام ہوگا۔ چھوٹا بڑا اس شہر کا حسب لیاقت مورد انعام ہوگا۔ درِ خزانہ کھلا، فقیر غریب محتاج لینے لگے، دعائیں دینےلگے۔ پنڈت رمّال منجم جفردان جو جو شہر میں کامل تھے، حاضر ہو کے وقت ساعتِ نحس و سعد دیکھنے لگے۔ غرض کہ شرف آفتاب مشتری کی ساعت میں وہ قمر طلعت برج حمل سے نکلا، مبارک سلامت کی صدا زمین آسمان سے پیدا ہوئی۔ محل کی رنڈیوں کا مجمع ہوا۔ جس نے دیکھا،ہزار جان سے شیدا ہوئی۔ حضور شاہ میں نذریں گذرنے لگیں۔ طبل اسکندری پر چوب پڑی، شلک کی توپ پر بتی دی۔ شہر کی خلقت مطلع ہوئی۔ شور غل بڑے ہلّڑ کا ہوا کہ بادشاہ کے گھر میں لڑکا ہوا۔ ہیجڑے زنانے بھانڈ چونے والیاں درِ دولت پر حاضر ہوئیں۔ گانا ناچ ہونے لگا۔ سب انعام شاہی سے مالا مال ہوئے۔ شاخ امید ہر ایک کی گل و ثمر لائی، نہال ہوئی۔ ہزارہا گناہگار قید سے رہا ہوا، غنی محتاج و گدا ہوا۔ مسجد خانقاہ مہمان سرا کی تعمیریں ہوئیں۔ مشائخوں کے روزینے مقرر ہوئے۔ ملّانوں کی جاگیریں ہوئیں، برہمنوں کے سالیانے ٹھہرے۔ پنڈتوں کی توقیریں ہوئیں۔ حکم اقدس ہوا: لولے لنگڑے ، اندھے، ضعیف جو ہوں زر نقد ان کو ماہ بماہ دو۔ غریب غربا کی لڑکیاں بیاہ دو، شکستہ مسجدیں، ٹوٹے مقبرے جتنے تھے، از سر نو سب کی تیاری ہوئی۔ مسافر خانے اور مہمان سرا میں خیرات جاری ہوئی۔ کئی سال صیاد جانوروں کو تہِ دام نہ لا سکے، چڑیا کو نہ پھنسا سکے۔ دو دو کوس کے فاصلے سے پختہ کنویں سرِ راہ بنے۔ مکانات شاہی جو گر گئے تھے، وہ بھی خاطر خواہ بنے۔ کئی کوس کے عرض اور طول کا باغ بنا۔ اُس میں مکانات مرتفع عالی، شہزادے کی بود باش کو درست ہوئے۔ کاریگر مقرر، چالاک اور چست ہوئے۔ دو رویہ شہر میں ٹھاٹھر گَڑ گئی۔ تیل کی ریل پیل سے بندھن سڑ گئے۔ روشنی کو لاکھوں مزدور آیا۔ شبِ دیجور کو شہر سے بھگایا۔ ہر محلے میں تنور گڑے، کڑہاؤ چڑھے، کھانا اور مٹھائی ہندو مسلمان کے واسطے کہ کوئی اپنے اپنے گھر میں ہنڈیا نہ چڑھائے، پکا پکایا سرکار کی طرف سے پائے۔ چالیس دن یہ کیفیت رہی۔ چھٹی چلے کی رسم ہو گئی۔
وہ گوہر گرانمایہ آغوش دایہ میں پرورش پاتا تھا۔ ہر روز نمو کی بہار دکھاتا تھا۔ موافق معمول دودھ بڑھا، کھیر چٹائی، کھانے پینے کی نوبت آئی۔ جو دن گذرا، وہ مہینا تھا۔ ہر ماہ سال ہوا، نو دس برس میں بدر کامل وہ ہلال ہوا۔ بسم اللہ ہوئی، معلم ادیب خوشنویس پڑھانے لکھانے لگے۔ سِن تمیز میں گھوڑے پر چڑھا، تیر اندازی کی۔ لکڑی پھینکی، برچھا ہلانا سکھانے لگے۔ القصہ علم و فضل، کسب و ہنر میں کمال ہوا۔ خُلق و مروت، جود و سخا میں بے مثال ہوا۔ جرأت میں رستم کا یادگار، طاقت میں اسفند یار۔ جس دم سیر تماشے کو سوار ہوتا تھا، تمام شہر چال ڈھال پر نثار ہوتا تھا۔
شاہزادہ تو ماں باپ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پا کے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے، محرر خاموش ہو کے دُکان بڑھاتا ہے۔ اگر زیست باقی رہی اور کسی شائق نے خواہش کی تو اس کی جوانی کا زور شور، طبیعت کا لگاؤ، محبت کا بگاڑ بناؤ صفحۂ قرطاس پر قلمبند ہوگا۔ نوجوانوں کو سخن فہم قدر دانوں کو پسند ہوگا۔ ورنہ اللہ بس ہے، باقی ہوس ہے۔ اس واسطے کہ جینے پر مدار ہے، غور کیجیے تو وہ مستعار ہے۔ اس کا کیا اعتبار ہے۔ دیکھو تو ایسی زیست پر کس کس طرح سے لوگ مرتے ہیں، ٹیڑھے تار کی ٹوپی اگر بھولے سے سیدھی ہوئی تو کج کر کے سر پر دھرتے ہیں۔ باہم ہر دم کج مریز ہے، دوسرے کے قتل پر خنجر تیز ہے۔ یہ نہیں سمجھتے مالک اور ہے۔ جس دم وہ اپنی طاقت دکھاتا ہے، بگاڑ کر بناتا ہے۔ آگاہ بادشاہ اور فقیر ہے کہ یہ قول جناب امیر ہے: عرفتُ ربی بفسخِ العزائم، اس پر خباثت نفس سے نہیں چوکتے ہیں۔ ایک ساعت کی سیر کو دوسرے کا گھر پھونکتے ہیں۔ ایسی بے بنیادی پر نبائیں مستحکم بنانا مال کے حرص میں مآل بھول جانا۔ اگر قدرے مقدور ہوا، فوراً دماغ میں فتور ہوا۔ غفلت کا پردہ آنکھوں کے آگے پڑ گیا۔ کسی کو پہچانتے نہیں اور تو اور ہے، مقام غور ہے اپنی حقیقت آپ جانتے نہیں۔ اس زمانے میں اگر کوئی کسی کو خاک سے پاک کرے، عوض یہ ملے کہ جب اس کا قابو چلے اس کو تہِ خاک کرے۔ زندگی سی شے دنیا میں کھو کے کوچہ گرد مشہور ہو کے کیا کیا نہ ملا، کہاں کہاں کی خاک چھانی، کسی کی بات نہ مانی۔ اس پر آشنا نہ ملا۔ ظاہر میں تو قبلہ آئیے، کفش خانے میں قدم رنجہ فرمائیے، مقدمہ سب زبانی پایا، باطن میں دشمن جانی پایا۔ پہلے تو کیا کیا گرمجوشی دیکھی، سرِ دست سرفروشی دیکھی۔ خدانخواستہ نشیب و فراز زمانے سے حیلے میں کسی بہانے سے کچھ کڑی پڑ گئی، کل پرسوں کی نہیں برسوں کی بنی بنائی بات بگڑ گئی۔ بقسم کہتا ہوں جَو فروش گندم نُما بہت ہیں۔ بندہ کے زعم میں دوست کم دشمن خدا بہت ہیں۔ اس عصر میں نمک حرامی نے ایسا رواج پایا ہے یاروں کی زبان پر اس کا ذائقہ آیا ہے کہ گو سلطنت بگڑ جائے، بسا بسایا شہر اجڑ جائے زرد رو نہیں مُنہ کالا ہو، ایک کا نہیں جہاں کا سسرا سالا ہو۔ اس پر بھی جس ادھیڑ بن میں ہو، وہی کام کرے، نطفہ حرامی سے نہ چوکے، کنبے کو بدنام کرے، عالم اللہ کا مبتلا روز سیاہ کا ظلم و جور دیکھ کے نئے نئے طور دیکھ کے بریز بریز کرے، وہ عدوئے خدا قاتل آل مصطفےٰ ﷺ سِلّی نہ پائے تو گھر کی سل اٹھا لائے۔ نسلاً بعد نسل جو خنجر چلا آیا ہے، اس کو تیز کرے۔ اس مثل کو سارا جہان جانتا ہے، بوڑھا لڑکا نوجوان جانتا ہے کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا پاتا ہے۔ پانی میں جس نے ہگا، اس کے مُنہ پر آتا ہے لیکن شیطان نے فلاں کے ساتھ عقل بھی ماری ہے، گلی گلی ہر کوچے میں ذلت و خواری ہے
سکتہ نہیں ہوتا اسے حیرت نہیں آتی
چکنا جو گھڑا ہے کبھی غیرت نہیں آتی
جو زشتیِ اعمال سے دنیا میں بدنام ہوا، مردود و موردِ لعن خاص و عام ہوا۔ احیاناً کسی اور نے کچھ بگاڑا، مگر اسی کا نام پکارا جائے۔ کوئی پادے بھٹیارے کا لونڈا مارا جائے۔ انسان کو لازم ہے کہ کون و فساد میں زیست برباد نہ کرے، دوست کو اپنے حال پر نہ رلائے، دشمن کو شاد نہ کرے۔ کاش بین بین میں بسر ہو تو بھی چین میں بسر ہو۔ سوچے تو دارا اور سکندر کیا ہوئے، کاؤس و کیقباد نہیں نام ان کا کسی کو یاد نہیں۔ خسرو کے گنج کدھر گئے۔ جام کیسا جم نہیں، یہ سب راہی ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد ہم نہیں، دنیا سرائے فنا ہے۔ ایک شب رات کا بسیرا ہے، بیکار خیمہ سراسر بار ڈیرا ہے۔ جس نے اس محیط بے کنار میں غوطہ لگایا، تِرا نہیں اور جس نے اس وادیِ پُر خار میں قدم رکھا، پھر انھیں حُب دنیا میں ہزار طرح کا خوف و خطر ہے۔ اس مرحلے میں جان کیسی، دین و ایمان کا ضرر ہے۔
ان دنوں کہ بار سَے بہتر سنہ ہجری (1272ھ) اور مہینہ شعبان کا ہے، مجمع پریشانیوں کے سامان کا ہے۔ یعنی سریر آرائے اریکۂ سلطنت حامل رنج و سفر غربت بعزم لندن ہے۔ شہر میں چھوٹا بڑا مبتلائے مصیبت تختہ مشق جور و محن ہے۔ اس گلزار ہمیشہ بہار میں بہمن و دے کا سامان ہے، ایسا آباد ملک سنسان سراسر ویران ہے۔ دیکھنے والوں کا دل و جگر خون ہوتا ہے، وحشت برستی ہے، جنون ہوتا ہے۔ جناب مولوی محمد یعقوب صاحب کی توجہ سے یہ قصہ یوسف جمال بحسن و خوبیِ کمال چاہِ غفلت سے بے اعانت دلو و رسن بصد جوبن نکل کے یا تو چِھپا تھا اب چَھپا۔ جب یہ زیر و زبر ہوا تب مدنظر ہوا، سب کو عزیز ہوا، عجب چیز ہوا۔ لہذا برادران ہم فن، گرگ باراں دیدہ رونق انجمن جو جو ہیں، ان سے یہ سوال ہے کہ مصنف کی مشقت اور مولوی صاحب کی محنت غور کر کے بنظر اصلاح ملاحظہ ہو تو عین عنایت احسان کمال ہے۔ جس جگہ سہو یا غلطی مقتضائے بشری سے پائیں، بے تکلف اس کو بگاڑ کے بنائیں اور جہاں سے کچھ مزا ملے، کچھ لطف اٹھے، فقرے چُست خاطر خواہ ہوں تو دعائے خیر سے یاد دونوں پُر گناہ ہوں۔ اس قصے کا کہنے والا لکھنؤ کا رہنے والا ناظم نہیں، نثّار نہیں، گو ٹکسال باہر نہیں مگر اس فن سے ماہر نہیں کامل العیار نہیں؛ لیکن جناب مولوی محمد یعقوب صاحب وحید عصر جوانِ صالح گوشہ نشین مرد قانع عزلت گزیں اکل حلال پر ان کی ہمت مصروف بخدا یہ بندہ بہمہ صفت موصوف ہے۔ اسم ایسا فعل ایسے شگرف کرتے ہیں، اسی نحو سے اوقات صرف کرتے ہیں۔ بسکہ فقیر کے حال پر نظر عنایت بمرتبۂ کمال ہے، رطب و یابس جو کچھ کہا ہے اس کے چھاپنے کا خیال ہے۔ یہ اوراق پریشان جو پسند آئے، باہتمام تمام چھپوائے۔
فقط۔
تــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــمــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت