زندگی زندگی کے درپے ہے
اپنے زندوں کو دیکھنا، ہے ہے!
چیز خاصے کی عشق بھی ہے مگر
حسن کیسی کمال کی شے ہے!
ہجر میں آئے، وصل میں آئے
موت آئے گی، اس قدر طے ہے
اپنی تقدیر ہی نہیں ورنہ
دل ہے، ساقی ہے، جام ہے، مے ہے
جام ہائے شکستہ ہیں ہم لوگ
زندگی دیوتاؤں کی قے ہے
تھے تو گریاں ازل سے ہم راحیلؔ
ان دنوں کچھ بلند تر لے ہے