جہاں نیک نامی کی حد ہو گئی
سمجھ، تشنہ کامی کی حد ہو گئی
روا نا روا میں پھنسے رہ گئے
غلامو! غلامی کی حد ہو گئی
اُدھر ذرہ ذرہ ہوا آفتاب
اِدھر نا تمامی کی حد ہو گئی
وہی ایک خامی جنوں کی رہی
اور اس ایک خامی کی حد ہو گئی
خفا کس سے راحیلؔ صاحب نہیں؟
مزاجِ گرامی کی حد ہو گئی
پس نوشت: اس غزل کو نظرِ ثانی کے بعد اردو گاہ پر دوبارہ پیش کیا جا چکا ہے۔