تم سے کچھ اور تعلق نہ سہی، مان تو ہے
راہ منزل کی نہیں ہے مگر آسان تو ہے
یہ بہت ہے کہ میسر ہے غزل کا سامان
یہی کافی ہے کہ دل میں کوئی ارمان تو ہے
بات کی تاب رہے یا نہ رہے، کیا معلوم؟
عشق ہے، عشق میں آزار کا امکان تو ہے
منزلِ عشق بلا سے کبھی ہوتی ہی نہ ہو
منزلِ عشق پہ ایمان ہے، ایمان تو ہے
لوگ ہیں اور ہے افسانہ ہمارا راحیلؔ
بات کچھ بھی نہ سہی، شہر میں طوفان تو ہے