شام ہے، میں ہوں، رات کا ڈر ہے
یہ مقدر بھی کیا مقدر ہے
شاعرانہ سی بات ہے لیکن
حسن آبِ بقا سے بڑھ کر ہے
منزلیں تیرہ، تیرہ تر راہیں
کون جانے کوئی کہاں پر ہے
دیکھ، حسنِ طلب کی بات نہ کر
شہر میں ایک ہی گداگر ہے
ایک جھونکے کے فیض سے رستہ
برزخِ عشق تک معطر ہے
مجھ میں دو شخص جیتے ہیں راحیلؔ
ایک ناظر ہے، ایک منظر ہے