اہلِ دل تھا، بڑی مشکل میں تھا
وہ جو دنیا میں نہ تھا، دل میں تھا
جستجو دشت میں سرگرداں تھی
جانِ عالم کسی محفل میں تھا
آج پہنچا ہے گریبان پہ ہاتھ
کل ابھی دامنِ سائل میں تھا
اوس پڑ جائے نہ ارمانوں پر
کچھ نیا تارے کی جھلمل میں تھا
لے اڑی دل کو خلش پھر کوئی
میں ابھی لذتِ حاصل میں تھا
تو نے اے دوست! زمانہ دیکھا
کچھ نیا بھی کسی بسمل میں تھا؟
ایک دعویٰ تو ہمیں تھا راحیلؔ
ایک سودا سرِ قاتل میں تھا