سبقِ اولیں نہیں بھولا
کچھ نہ سمجھا، کہیں نہیں بھولا
راستے منزلوں کو بھول گئے
میں رخِ ہم نشیں نہیں بھولا
میں نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں
داستاں گو وہیں نہیں بھولا
چند آہیں خلا میں لرزاں ہیں
انھیں عرشِ بریں نہیں بھولا
خاص باتوں کا دکھ زیادہ ہے
ورنہ جو عام تھیں، نہیں بھولا
مجھے سب کچھ ہی یاد ہے راحیلؔ
نہیں بھولا، نہیں، نہیں بھولا