لوگ تنہا ہوئے، مجھ سا کوئی تنہا نہ ہوا
بھری دنیا میں جیا اور گزارا نہ ہوا
دل کی دل ہی میں لیے وہ بھی گیا میری طرح
مجھ سے کچھ بھی نہ ہوا، اس سے بھی اتنا نہ ہوا؟
کس نے بیچی ہے انا چند نگاہوں کے عوض
کس سے پوچھوں مجھے کیوں صبر کا یارا نہ ہوا؟
ارے یہ تشنگیِ عشق تو ہے ہی بدنام!
کون مانے گا کہ وہ حسن بھی دریا نہ ہوا؟
خود میں وہ شخص زمانے کو لیے پھرتا تھا
گاہ دیوانہ بنا، گاہ شناسا نہ ہوا
بخدا حسرتِ دیدارِ مسیحا کے سوا
تیری محفل میں کسی دکھ کا مداوا نہ ہوا
دل خریدار کے ہاتھوں کی لکیروں میں تھا
ورنہ ایسا کبھی سستا کوئی سودا نہ ہوا
ہوسِ حسن کو راحیلؔ دعا دیتا ہوں
دل کہیں کا نہ رہا، پھر بھی کسی کا نہ ہوا