میں، کہ تھا محوِ تماشا کب سے
رہ گیا شہر میں تنہا کب سے؟
اس نے جانے کا بہانہ ڈھونڈا
ورنہ ساون تو وہی تھا کب سے
ایک جھونکے نے پلٹ کر پوچھا
باغ کا باغ ہے صحرا کب سے؟
انھیں غزلیں بھی غنیمت ہیں، جنھیں
نہ ہوا بات کا یارا کب سے
دشت سے کیا نہیں لوٹا راحیلؔ؟
اس گلی میں نہیں دیکھا کب سے