مجھ ناتواں پہ کاش نہ بارِ غزل پڑے
کوئی چراغ ہو کہ سرِ شام جل پڑے
صحرا کے تیوروں کی خبر خوب تھی مگر
بے اختیار ہو گئے، گھر سے نکل پڑے
کلیوں کا خون خاکِ گلستان پی گئی
بادل ہوا کے زور پہ چپ چاپ چل پڑے
پھر ناگہانیوں سے وہ بھونچال آ گیا
راوی کے پانیوں میں سے گوہر اچھل پڑے
بیٹھا گیا نہ راہ میں ذلت کے خوف سے
بھوکے، قدم بڑھائے تو رستوں میں بل پڑے
راحیلؔ آب دیدہ غزل کہ گیا ہے، دیکھ
کس کوہِ سنگلاخ سے چشمے ابل پڑے