یہ نہیں ہے کہ آرزو نہ رہی
تیرے بعد اور جستجو نہ رہی
کھوئے کھوئے گزر گئے ہم لوگ
راستوں کی وہ آبرو نہ رہی
جانے کیا تھا کہ وحشتوں میں بھی
دل کو تسکین ایک گونہ رہی
چاک دامن کچھ اور بھی دیکھے
مدتوں خواہشِ رفو نہ رہی
آخرِ کار میں وہ میں نہ رہا
آخرِ کار تو وہ تو نہ رہی
دن گزرتے گئے، گزرتے گئے
زیست راحیلؔ تھی عدو، نہ رہی!