مدت میں ایک بار پلٹ کر جو گھر گیا
میں خانماں خراب کئی بار مر گیا
روتا رہا تو پوچھنے والا کوئی نہ تھا
جب ہنس دیا تو حلق میں نشتر اتر گیا
ندیاں کسی دیار کی یاد آ کے رہ گئیں
صحرا میں قطرہ قطرہ لبوں پر ٹھہر گیا
تسنیم و سلسبیل پہ تھا منتظر کوئی
میں کوچۂ مغاں سے بھی پیاسا گزر گیا
سقراطیوں کو دانشِ دوراں پہ ہنسنے دو
زہراب کا پیالہ بھی، سنتے ہیں بھر گیا
ناموسِ شعر کی کوئی میت کو پوچھنا
تہذیبِ غم تو اپنی سی راحیلؔ کر گیا