نہ مجھے بھول سکے اور نہ اسے یاد رہے
تجربے عہدِ محبت کے خداداد رہے
رونقِ شہر سے آگے کوئی ویرانہ تھا
اس میں کچھ لوگ رہے، خوش رہے، آباد رہے
ایک دنیا تھی جسے عشق سے عرفان ملا
ایک ہم ایسے کہ برباد تھے، برباد رہے
شہرِ یاراں میں عجب چھب تھی دلِ وحشی کی
جیسے کعبے میں کوئی بندۂ آزاد رہے
کسے یارا ہے محبت کے ستم سہنے کا؟
دل تو چاہے گا ہمیشہ یہی افتاد رہے
یا تو مل جائے مجھے شانۂ ہمدم راحیلؔ
ورنہ پھر دوشِ ہوا پر یہی فریاد رہے