اس نے بھی جوگ لے لیا شاید
میں بھی زندہ ہی مر گیا شاید
تجھ سے مل کر بھی کچھ قلق سا ہے
میں بھٹکتا بہت رہا شاید
یہ نہیں ہے کہ وقت کٹ نہ سکا
اس طرح سے نہ کٹ سکا شاید
شہر کا شہر بندہ پرور ہے
میں اکیلا غریب تھا شاید
اب پڑا ہے فراق میں جینا
اب جیا بھی نہ جائے گا شاید
نہیں چارہ، نہیں دوا لیکن
کوئی چارہ، کوئی دوا شاید
جان پہچان ہو گئی تجھ سے
ورنہ کچھ بھی نہ جانتا شاید
ذہن راحیلؔ کا قیامت تھا
دل نے دیوانہ کر دیا شاید